بیدیہی اور ان کے شوہر ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے تلنگانہ کے سَنگا ریڈی ضلع کے گُمّڈیڈالا بلاک کے ڈومدوگو گاؤں میں اینٹ بھٹہ پر کام کرتے ہیں۔ وہ یہاں ہر سال نواپاڑہ ضلع کی کرومپوری پنچایت سے آتے ہیں۔ بیدیہی بتاتی ہیں، ’’ہم یہاں سیٹھ سے ۲۰ ہزار روپے ایڈوانس لیتے ہیں۔‘‘ اس ایڈوانس (پیشگی رقم) کے علاوہ بھٹہ مالک انہیں روزانہ کھانے کے بھتہ کے طور پر ۶۰ روپے دیتے ہیں۔ ’’آپ مہربانی کرکے سیٹھ سے ہمیں کم از کم ۸۰ روپے دینے کے لیے کہئے، تاکہ ہمیں آدھا بھوکا نہ سونا پڑے۔‘‘

میں بیدیہی اور ان کی فیملی سے تلنگانہ میں رنگا ریڈی، سنگا ریڈی، اور یدادری بھوون گیری ضلع کے اینٹ بھٹوں کے اپنے دوسرے سفر کے دوران ۲۰۱۷ میں ملا تھا۔

اس ملاقات سے سالوں پہلے، ۱۹۹۰ کی دہائی میں جب میں کالا ہانڈی سے ہوئی مہاجرت پر ریسرچ اور رپورٹنگ کر رہا تھا، تب میں نے چار قسم کے مہاجر مزدوروں کی نشاندہی کی تھی۔ اب کالا ہانڈی کو نواپاڑہ اور اس سے ملحق بولانگیر یا بلانگیر ضلعوں کے درمیان تقسیم کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد بلانگیر ضلع کو بھی بانٹ کر ایک نیا ضلع، سونپور بنا دیا گیا جو اب سوبرن پور کہلاتا ہے۔ میری نظر میں مہاجر مزدوروں کی وہ چار قسمیں اس طرح تھیں:

ایسے لوگ جو دہاڑی مزدور، رکشہ چلانے والے، ہوٹلوں میں صفائی کرنے والے، اور دیگر تمام طرح کے کام کرنے والے کے طور پر رائے پور (اب چھتیس گڑھ کی راجدھانی) چلے گئے؛ برگڑھ اور سمبل پور جیسے بہتر سینچائی والے ضلعوں میں کام کی تلاش میں گئے لوگ؛ ممبئی اور دہلی جیسے بڑے شہروں میں عموماً تعمیراتی مقامات پر کام کرنے والے مزدور کے طور پر گئے نوجوان؛ اور ایسے کنبے جنہوں نے روزگار کے لیے آندھرا پردیش اور بعد میں اوڈیشہ کے اینٹ بھٹوں کا رخ کر لیا۔

PHOTO • Purusottam Thakur

بیدیہی (سب سے آگے)، ان کے شوہر اور رشتہ دار تلنگانہ کے ایک اینٹ بھٹہ میں دس سال سے بھی زیادہ عرصے سے کام کرتے ہیں۔ اس بار وہ اپنے ایک بچے کو ساتھ لے کر آئے ہیں اور دو بچوں کو گھر پر ہی چھوڑ دیا ہے، کیوں کہ وہ اسکول جاتے ہیں

مزدوروں کی یہ مہاجرت ۱۹۶۰ کی دہائی کے وسط سے شروع ہوئی تھی، کیوں کہ کالا ہانڈی اور بلانگیر میں قحط جیسی صورتحال پیدا ہو گئی تھی۔ ۱۹۸۰ کی دہائی کے آخر اور ۹۰ کی دہائی کی شروعات میں خشک سالی، فصل کے نقصان اور قرض نے لوگوں کو مہاجرت کے لیے مجبور کیا۔ اینٹ بھٹہ مالکان نے اڑیہ مزدوروں کی مالی حالت دیکھ کر ان کا استحصال کرنے سے کوئی گریز نہیں کیا اور وہ انہیں مقامی مزدوروں کے مقابلے کم مزدوری دیتے تھے۔ استحصال کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ شوہر، بیوی اور ایک اور بالغ مزدور کو ایک اکائی مانا جاتا ہے، اور ہر ایک اکائی کو ۲۰ ہزار روپے سے ۸۰ ہزار روپے تک پیشگی رقم دی جاتی ہے۔

اوڈیشہ میں اکتوبر-نومبر میں فصل کی کٹائی کے موقع پر مقامی تہوار کے بعد یہ لوگ روزی روٹی کمانے کے لیے مہاجرت کرنے کی شروعات کر دیتے ہیں۔ دسمبر اور جنوری میں ان کے ٹھیکہ دار انہیں بھٹوں پر لے کر جاتے ہیں۔ بھٹوں پر مزدور جون کے مہینے تک کام کرتے ہیں، اور مانسون آنے تک اپنے گاؤں لوٹ جاتے ہیں۔ گاؤں میں وہ یا تو اپنی زمین کے چھوٹے ٹکڑوں پر کھیتی کرتے ہیں یا پھر زرعی مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں۔

مزدوروں کے ذریعے لی گئی پیشگی رقم کا استعمال وہ اپنے پرانے قرضوں کو چکانے، شادی بیاہ کرنے، بیل خریدنے، دوا دارو کا بل چکانے اور دوسرے کاموں کے لیے کرتے ہیں۔ بھٹے پر کھانے کے خرچ کے طور پر ہر فیملی (اکائی) کو ملنے والے ۶۰ روپے میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا ہے، بھلے ہی کام کے لیے آئی ہر ایک فیملی میں کتنے بھی ممبر کیوں نہ ہوں۔ سیزن کے آخر میں کھانے کے بھتہ کے طور پر دیے گئے پیسے اور پیشگی رقم کو، تیار کی گئی اینٹوں کی کل تعداد سے تقسیم کر دیا جاتا ہے۔

ہر تین رکنی اکائی یا فیملی کو فی ۱۰۰۰ اینٹوں کے بدلے ۲۲۰ روپے سے لے کر ۳۵۰ روپے تک کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ یہ رقم بھٹہ مالک یا ٹھیکہ دار کے ساتھ ہوئی سودے بازی پر منحصر ہے۔ مزدوروں کا ایک گروپ پانچ مہینے میں ایک لاکھ سے ۴ لاکھ اینٹیں بنا سکتا ہے۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ اسے کتنے لوگوں کی اضافی مدد مل پاتی ہے۔ یہ اضافی مدد ایک اکائی کے تین لوگوں کے علاوہ فیملی کے ان ممبران کے ذریعے ملتی ہے، جو جسمانی طور پر اس کے قابل ہوتے ہیں۔ اس لیے ایک سیزن میں ایک اکائی کی کمائی کم از کم ۲۰ ہزار روپے سے لے کر زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ ۴۰ ہزار روپے کے درمیان کچھ بھی ہو سکتی ہے۔ حالانکہ، اتنی زیادہ کمائی کرنے والی اکائی نہ کے برابر ہی ملتی ہے۔ ۶۰ روپے یومیہ بھتہ اور پہلے ہی ادا کی جا چکی پیشگی رقم کو گھٹانے کے بعد کچھ مزدوروں کے حصے میں قرض اور محرومی کے سوا اور کچھ نہیں آتا ہے۔

PHOTO • Purusottam Thakur

بنیتا چندا اور ان کے شوہر نیتر، تین سالوں سے رنگا ریڈی ضلع کے گاؤں کونگرا کلن کے ایک اینٹ بھٹہ میں کام کر رہے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر نواپاڑہ ضلع کے بوڈین بلاک کے کیریجھولا گاؤں کے ایک چھوٹے سے محلہ، سرگیمنڈا سے آئے ہیں، اور چکوٹیا بھونجیا آدیواسی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں ان دونوں کے ساتھ ان کی بیٹیاں پنکی (۷ سال)، لکشمی (۵ سال)، اور سات مہینے کی کلیانی ہیں۔ نیتر کہتے ہیں، ’ہمارا سردار (ٹھیکہ دار) اور بھٹہ مالک دونوں مل کر ہماری مزدوری طے کرتے ہیں۔ ہم تین بالغ ممبران – میرے، میری بیوی اور میرے چچیرے بھائی کے لیے ہم نے پیشگی رقم کے طور پر ۸۰ ہزار روپے لیے تھے۔ ہم نے ۱۰ ہزار روپے کا سونا خریدا، ۱۷ ہزار روپے بینک میں جمع کیے، اور باقی پیسے اپنے خرچ کے لیے رکھے ہیں‘

PHOTO • Purusottam Thakur

ہماری ملاقات سنگا ریڈی ضلع کے جنّا رام بلاک میں انّا رام گاؤں کے نیترانند سبر (بیٹھے ہوئے) اور ریباری بھوئی (گود میں بچے کو لیے سامنے بیٹھی خاتون) سے ہوئی۔ وہ نواپاڑہ ضلع کے مہلکوٹ گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ بھوئی نے بتایا، ’ہم گزشتہ ۱۸ سالوں سے بھٹہ پر کام کرنے آ رہے ہیں‘

PHOTO • Purusottam Thakur

ریمتی دھروا اور ان کے شوہر کیلاش، بلانگیر ضلع کے بیلپاڑہ بلاک کے پندریجور گاؤں میں کھیتی کا کام کرتے ہیں۔ میں ان سے سنگا ریڈی ضلع کے انّا رام گاؤں میں ملا تھا۔ زبردست خشک سالی کے سبب ان کی فصل تباہ ہو چکی تھی اور وہ اپنی بیٹی، داماد، نواسی (درمیان میں) اور دسویں تک پڑھائی کر چکے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے ہمانشو کے ساتھ بھٹہ پر مزدوری کرنے آ گئے تھے۔ ہمانشو کے لیے مزدوری کرنا اس لیے بھی ضروری تھا، تاکہ وہ اپنے کالج کی تعلیم کا خرچ اٹھا سکیں

PHOTO • Purusottam Thakur

سنگا ریڈی ضلع کے ڈوم دوگو گاؤں کا ایک بھٹہ: چھ مہینے تک یہاں مہاجر مزدور اپنے جھونپڑی نما گھروں میں رہتے ہیں جنہیں انہوں نے خود بنایا ہوتا ہے۔ یہ گھر عام طور پر بھٹے کی کچی یا پکی ہوئی اینٹوں کے بنے ہوتے ہیں، اور مزدوروں کے اپنے اپنے گاؤوں میں لوٹنے سے پہلے انہیں توڑ دیا جاتا ہے۔ ایک دوسرے سے سٹے اور تنگ ان کمروں میں غسل کے لیے کوئی الگ جگہ نہیں ہوتی ہے اور نہ پانی جمع کرنے کا کوئی طریقہ ہوتا ہے۔ مزدوروں کے پاس اتنی فرصت بھی نہیں ہوتی ہے کہ وہ ان کا صحیح صحیح رکھ رکھاؤ اور صاف صفائی کر سکیں

PHOTO • Purusottam Thakur
PHOTO • Purusottam Thakur

بائیں: سنگا ریڈی ضلع کے انّا رام گاؤں کا ایک منظر: ایک مزدور اور اس کی بیٹی اپنی عارضی جھونپڑی کے اندر۔ یہ فیملی یہاں نواپاڑہ ضلع کے سیناپالی بلاک سے آئی ہے۔ دائیں: سنگا ریڈی ضلع کا ڈوم دوگو گاؤں: سیناپالی بلاک کا ایک مہاجر مزدور اپنے چھوٹے سے عارضی گھر میں پانی لے جاتا ہوا۔ گھر کی چھت اتنی نیچی ہے کہ اس کے اندر ٹھیک سے کھڑا ہونا بھی مشکل ہے

PHOTO • Purusottam Thakur
PHOTO • Purusottam Thakur

بائیں: اینٹ بھٹوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے کچھ بچے تلنگانہ کے مقامی سرکاری اسکولوں یا آنگن واڑی میں جاتے ہیں، لیکن اڑیہ بولنے والے ٹیچر نہ ہونے کی وجہ سے ان کا کچھ بھی سیکھ پانا مشکل ہے۔ عام طور پر مزدوروں کے بچے بھی بھٹے پر کام کرنے اور اپنی جھونپڑیوں کا رکھ رکھاؤ کرنے میں اپنے والدین کی مدد کرتے ہیں۔ نواپاڑہ ضلع کے سرگیمنڈا محلے کا چھ سالہ نوین جو بھٹہ کے قریب واقع ایک سرکاری اسکول میں جاتا ہے، کہتا ہے، ’میں یہاں اسکول جاتا ہوں، لیکن مجھے اپنے گاؤں کے اسکول جانا اچھا لگتا ہے‘

دائیں: سنگا ریڈی ضلع کا ڈوم دوگو گاؤں: بھٹوں میں مزدوری کرنا یہاں عام بات ہے۔ مہاجر جوڑے یہاں اپنے بچوں کے ساتھ مزدوری کرنے جاتے ہیں۔ گھر میں بچوں کی دیکھ بھال کرنے کے لیے کوئی ممبر نہیں ہوتا ہے، اور بچے بھٹوں پر مزدوری کرنے میں اپنے ماں باپ کی مدد کرتے ہیں۔ فیملی علی الصبح ہی کام کرنا شروع کر دیتی ہے اور ۱۰ یا ۱۱ بجے تھوڑی دیر کے لیے چھٹی لیتی ہے۔ پھر تین یا چار بجے وہ دوبارہ کام کرنا شروع کرتے ہیں اور رات کو ۱۰ یا ۱۱ بجے تک کام کرنا جاری رکھتے ہیں

PHOTO • Purusottam Thakur

رنگا ریڈی ضلع کے ابراہیم پٹنم بلاک میں کونگرا کلن گاؤں کا ایک بھٹہ: عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے لیے مہاجرت کرنا ایک مشکل کام ہے۔ کم غذائیت کی شکار ہونے کے باوجود بھی کئی عورتیں بھٹے پر دن بھر مزدوری کرنے کے لیے مجبور ہیں

PHOTO • Purusottam Thakur

رنگا ریڈی ضلع کے کونگرا کلن گاؤں کا ایک بھٹہ: عام طور پر مرد اینٹیں بناتے ہیں اور عورتیں مٹی گوندھتی ہیں اور اینٹیں خشک کرتی ہیں

PHOTO • Purusottam Thakur

میں جب ۲۰۰۱ میں آندھرا پردیش کے اینٹ بھٹوں کا جائزہ لینے گیا ہوا تھا، تب بھٹوں پر کام کرنے والے زیادہ تر مزدور درج فہرست ذات کے تھے۔ سال ۲۰۱۷ میں تلنگانہ کے بھٹوں کا دورہ کرتے وقت میں نے دیکھا کہ وہاں درج فہرست قبائل کے مزدور بھی تھے۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ جنگلاتی وسائل آہستہ آہستہ کم ہو رہے ہیں اور آدیواسیوں پر قرض کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے

PHOTO • Purusottam Thakur

تین رکنی فیملی پر مبنی ایک اکائی فی ۱۰۰۰ اینٹوں پر ۲۲۰ روپے سے لے کر ۳۵۰ روپے تک کما لیتی ہے۔ یہ مزدوری بھٹہ مالکوں اور ٹھیکہ داروں کے ساتھ ان کی سودے بازی پر منحصر ہے۔ مزدوروں کا ایک گروپ پانچ مہینوں کے ایک سیزن میں ایک لاکھ سے لے کر ۴ لاکھ تک اینٹیں بنا لیتا ہے۔ یہ تعداد ان کی مدد کرنے والے اضافی ممبران پر منحصر ہوتی ہے

PHOTO • Purusottam Thakur

سنگا ریڈی ضلع کے انّا رام گاؤں کے بھٹہ پر نواپاڑہ ضلع کی کرومپوری پنچایت کے مہاجر مزدور: انہیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ میں ان کے ہی ضلع سے آیا ہوں۔ ایک بزرگ نے مجھ سے کہا بھی، ’عرصے کے بعد میں کسی اڑیہ بولنے والے آدمی سے ملا ہوں۔ آپ سے مل کر مجھے بہت اچھا لگا!‘

PHOTO • Purusottam Thakur

دسمبر-جنوری تک ٹھیکہ دار، مزدوروں کو ساتھ لے کر بھٹے پر پہنچ جاتے ہیں۔ یہ مزدور جون کے آس پاس تک بھٹوں پر کام کرتے ہیں اور مانسون شروع ہوتے ہی اپنے اپنے گاؤں لوٹ جاتے ہیں۔ گاؤوں میں وہ اپنی زمین کے چھوٹے ٹکڑے پر کھیتی کرتے ہیں یا زرعی مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں

مترجم: محمد قمر تبریز

Purusottam Thakur
purusottam25@gmail.com

Purusottam Thakur is a 2015 PARI Fellow. He is a journalist and documentary filmmaker. At present, he is working with the Azim Premji Foundation and writing stories for social change.

Other stories by Purusottam Thakur
Editor : Sharmila Joshi

Sharmila Joshi is former Executive Editor, People's Archive of Rural India, and a writer and occasional teacher.

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez