پوڈکاسٹ یہاں سنیں

पर्यावरणाचा रं सत्यानाश केला,
वाघदेवा, जंगल वाचवाया तू धाव रं
आपल्या घराचा रं सत्यानाश केला,

वाघदेवा, जंगल वाचवाया तू धाव रं

انہوں نے تباہ کر دیا ہے ماحولیات کو،
اے باگھ دیوتا، آؤ اور بچاؤ ہمارے جنگلات کو
انہوں نے برباد کر دیا ہے ہمارے گھروں کو،

اے باگھ دیوتا، آؤ اور بچاؤ ہمارے جنگلات کو

ٹرانس کرپٹ

یہ ہیں پرکاش بھوئیر جو واگھ دیوا سے اپنی برادری اور جنگل کے دیگر جانداروں کو ان کی زمین کی تباہی سے بچانے کے لیے پرارتھنا کر رہے ہیں۔

پرکاش کا تعلق ملہار کولی آدیواسی برادری سے ہے۔ وہ شمالی ممبئی کے گورے گاؤں کی سبز آرے کالونی کے کیلتی پاڑہ میں رہتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کی پیدائش یہیں ہوئی تھیں اور ان کی فیملی گزشتہ کئی نسلوں سے یہیں رہ رہی ہے۔ ۴۷ سالہ پرکاش، بیسٹ (بی ای ایس ٹی) اسٹاف بسوں کی نگرانی اور مرمت کا کام کرتے ہیں۔

پرکاش بھوئیر: جنگل کو بچانے کی بجائے، وہ قدرت کو برباد کر رہے ہیں۔ اس لیے آپ کو دفاع میں آنا ہوگا اور ہماری مدد کرنی ہوگی۔

تقریباً ۳۲۰۰ ایکڑ میں پھیلے آرے کے علاقے (کئی لوگ اسے جنگل کہتے ہیں) میں ۲۷ پاڑہ (بستیاں) تھے۔ یہ تقریباً ۱۰ ہزار آدیواسیوں کا گھر تھا۔

لیکن آرے کے آس پاس کا علاقہ آہستہ آہستہ سکڑ رہا ہے۔ یہاں کئی پروجیکٹوں کو نافذ کیا جا رہا ہے۔ اس کی شروعات دودھ کالونی یا ڈیئری پروسیسنگ یونٹ سے ہوئی، اور بعد میں تحویل اراضی کے تحت ایک فلم سٹی (یا فلموں کی شوٹنگ کے لیے ایک احاطہ)، ایک فلم اسکول، اور ریاستی ریزرو پولیس کے لیے زمین کو بھی شامل کر لیا گیا۔

دہائیوں سے لوگ پرانی ممبئی کے ویٹنری کالج سے نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ لینے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے، تاکہ پاس کے نوساچا پاڑہ میں میونسپل کارپوریشن سے بجلی اور پانی کے کنکشن مل سکیں۔ پانی کا کنکشن اب تک نہیں ملا ہے۔ نوساچا پاڑہ کے ایک باشندہ، راکیش سنگھوَن ان تمام جدوجہد کے بارے میں بتا رہے ہیں۔

راکیش سنگھون: ہمارے گھر کے ٹھیک بغل سے لائن [بجلی] گزرتی ہے۔ وہاں ایک پرانا لال الیکٹرک [جنکشن] باکس بھی ہے، جیسے ہی آپ اوپر چڑھیں گے، وہیں پر ہے۔ کوارٹر میں رہنے والے مالکوں کے لیے بجلی، ہمارے دروازے سے ہوکر گزرتی ہے۔ روشنی [بجلی] ان کے لیے ہے، ہمارے لیے نہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ ہم یہاں رہیں، نہ ہی وہ ہمارے لیے بجلی کی سپلائی دینا چاہتے ہیں...

Prakash Bhoir (left) of Keltipada questions the 'development' on his community's land.
PHOTO • Aakanksha
Rakesh Singhvan (right) of Navsachapada points to how the 'development has bypassed the Adivasi communities
PHOTO • Aakanksha

کیلتی پاڑہ کے پرکاش بھوئیر (بائیں) اپنی برادری کی زمین پر ’ترقی‘ پر سوال اٹھاتے ہیں۔ نوساچا پاڑہ کے راکیش سنگھون (دائیں) بتاتے ہیں کہ ’ترقی‘ نے آدیواسی برادریوں کو کیسے درکنار کیا ہے

ان پروجیکٹوں میں سے سب سے حالیہ اور شاید سب سے متنازع ہے ممبئی میٹرو کے لیے مجوزہ لائن ۳ کے لیے ایک کار شیڈ۔ ممبئی میٹرو ریل کارپوریشن لمیٹڈ (ایم ایم آر سی ایل) اس لائن کی تعمیر کر رہی ہے۔

اس کار شیڈ کے لیے ۳۰ ہیکیٹئر یا تقریباً ۷۵ ایکڑ زمین کو تحویل میں لینے کی تجویز ہے۔ اس کی تعمیر کے لیے، شہر میں کھلے مقامات اور درختوں کے سایہ کے لیے تقریباً ۲۶۰۰ درختوں کی کٹائی شامل ہے۔ نتیجتاً، شہریوں نے مخالفت اور مفاد عامہ کی عرضیاں داخل کرنی شروع کر دی ہیں۔

اس ماہ، ۴ اکتوبر، ۲۰۱۹ کو ممبئی ہائی کورٹ نے درختوں کو کاٹنے کے لیے میونسپل کارپوریشن کے درخت محکمہ کے فیصلہ کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کو خارج کر دیا۔

درختوں کی کٹائی کی مخالفت کرنے والوں میں پاڑہ (بستی) کے آدیواسی شامل ہیں۔ ہم نے کیلتی پاڑہ کے پرکاش اور پرمیلا بھوئیر، پرجاپور پاڑہ کی آشا بھوئے، اور نوساچا پاڑہ کے راکیش سنگھون سے بات کی، جنہیں آرے میں ’ترقی‘ کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔ پرکاش کا کہنا ہے کہ ان کی برادری کو معلوم نہیں تھا کہ ان کے علاقے میں میٹرو پروجیکٹ کی شروعات کی جا رہی ہے۔

پرکاش: شروع میں ہمیں اس بات کا اندازہ بھی نہیں تھا کہ یہاں میٹرو پروجیکٹ آنے والا ہے۔ اور ہاں، یہ سیدھے ہماری بستیوں سے شروع نہیں ہوا۔ انہوں نے یہ کام ایک کونے سے شروع کیا، جیسے کہ نمبر ۱۹ پرجاپور پاڑہ سے۔ آشا بھوئے اور دیگر آدیواسی ہمار پرجاپور پاڑہ میں رہتے ہیں۔ شروعات میں انہیں کئی ساری مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک اور بات یہ ہے کہ ہم میں سے کچھ ہی لوگوں نے اپنے کھیت کھوئے ہیں۔ لیکن کھیتوں کے بغیر بھی ہم اپنے جنگل لگاتار کھوتے جا رہے ہیں۔ اس لیے بھلے ہی ہمارے پاس کھیتی نہ ہو، لیکن جنگل ہمارا ہے۔ یہاں ۲۷ بستیاں ہیں اور لوگوں کو جنگل سے ہر قسم کی چیزیں ملتی ہیں، جو انہیں زندہ رہنے میں مدد کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب میٹرو کا کام شروع ہوا، تو ہم سب نے اس کی سب سے پہلے مخالفت کی تھی۔ ہم نے ان سے کہا کہ انہیں یہاں یہ کام نہیں شروع کرنا چاہیے کیوں کہ بہت سارے درختوں کو کاٹنا پڑے گا، کئی لوگ اپنے کھیتوں کو کھو دیں گے، آدیواسی اپنے گھروں کو کھو دیں گے۔ اس لیے اسے [میٹرو] یہاں نہیں آنا چاہیے۔

یہ سب ۲۰۱۷ میں پرجاپور پاڑہ سے شروع ہوا۔ مقامی لوگوں کا اندازہ ہے کہ ۷۰ آدیواسی کنبوں نے میٹرو پروجیکٹ میں اپنے گھر کھو دیے۔ پاڑہ کی تعداد اب ۲۷ سے گھٹ کر ۱۵ ہو گئی ہے۔ آشا بھوئے ایک آنگن واڑی کارکن اور آدیواسی لیڈر ہیں۔ پہلے وہ اپنے گھر کے باہر بیٹھ کر اپنے پڑوسیوں اور اپنے کھیتوں کو دیکھ سکتی تھیں۔ لیکن اب وہ سامنے بن رہے میٹرو تعمیراتی مقام کی دیوار سے روبرو ہوتی ہیں۔ ڈریلنگ مشین کی تیز آوازوں کے درمیان وہ بتاتی ہیں کہ کیسے ان کے لوگوں سے زمینیں لے لی گئیں۔

The Mumbai Metro car shed proposes to take over 75 acres of Aarey. This has triggered citizens’ protests and litigation
PHOTO • Aakanksha

ممبئی میٹرو کار شیڈ نے آرے کی ۷۵ ایکڑ زمین کو تحویل میں لینے کی تجویز رکھی ہے۔ اس کی وجہ سے شہریوں کے ذریعہ مخالفت اور مقدمے دائر کرنے کی شروعات ہو گئی ہے

آشا بھوئے: سب سے پہلے، جب انہوں نے سروے کیا، تو انہیں ہماری بستی کو پرجاپور پاڑہ کے طور پر درج کرنا چاہیے تھا، لیکن انہوں نے ایک غلطی کی اور ساریپوُت نگر لکھا، جو پرجاپور پاڑہ کے بغل میں ہے۔

پرجاپور پاڑہ کے پاس ہی ساریپُوت نگر ایک جھگی بستی ہے۔

آشا: آدیواسی جہاں رہتے ہیں، وہ مقام پاڑہ [بستی] ہے۔ یہ قصبہ یا شہر نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے اس علاقے کا سروے کیا اور کہا کہ وہ میٹرو پروجیکٹ کے لیے یہ زمین لینے جا رہے ہیں اور ہم لوگوں کو معاوضہ کے طور پر دوسرا گھر دیں گے۔ آدیواسیوں نے ان سے گھر کے بدلے گھر کے بارے میں سوال کیا اور کہا کہ ہمارے پاس کھیت بھی ہیں اور یہ بھی پوچھا کہ یہاں کے اتنے سارے درختوں کا کیا ہوگا؟ انہوں نے کہا کہ ان سب پر ایک میٹنگ میں بات چیت کی جائے گی اور جو بھی آپ کے پاس ہے، اس کی ادائیگی کی جائے گی۔

مئی ۲۰۱۷ میں، انہوں نے کچھ گھروں کو توڑ دیا۔ لوگ اپنے گھروں کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے، لیکن بلڈوزروں کی وجہ سے ان کے پاس کوئی متبادل نہیں بچا تھا۔

آشا: اور پھر، ہم نے اپنی زمین کھو دی۔ وہ ہم سے پوچھنے کے لیے بھی نہیں آئے۔ انہوں نے آکر اس احاطہ [دیواروں] کو کھڑا کر دیا۔ پھر ہم نے یہ کہتے ہوئے مقدمہ دائر کیا کہ یہ ہماری زمین ہے اور ان لوگوں نے اسے طاقت کے زور پر لیا ہے۔ لیکن انہوں نے اس بات سے صاف انکار کر دیا۔ پھر انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایک بھی آدیواسی اُس زمین پر نہیں رہتا ہے جسے انہوں نے تحویل میں لیا ہے اور وہاں کوئی درخت نہیں ہے، اور یہ پوری طرح سے ایک جھگی بستی تھی۔ انہوں نے عدالت میں یہ بات کہی۔ اور یہ سب صرف بات چیت میں ہے [جو انہوں نے ہمیں بتایا]۔ انہوں نے تحریری طور پر کچھ نہیں دیا ہے۔ اور ہم بھی اس بات سے انجان تھے کہ ہمیں انہیں اسے تحریری طور پر دینے کے لیے کہنا چاہیے تھا۔ ہم نے ان سے تحریری طور پر نہیں لیا۔

آشا کا کہنا ہے کہ اُن بے گھر کیے گئے لوگوں کو نوکری دینے کا بھی وعدہ کیا گیا تھا، جو انہیں کبھی نہیں ملی۔ اس کی بجائے، بے گھر ہوئے آدیواسیوں سے کئی بار آئی ڈی پروف مانگا گیا۔ انہیں کلکٹر کے دفتر سے ’پروجیکٹ سے متاثر شخص‘ کا سرٹیفکیٹ نہیں ملا ہے، جس سے انہیں حکومت سے روزگار اور دیگر فوائد حاصل ہوتے۔

آشا: سات بارہ (۷/۱۲) ریکارڈ زمین کا ریکارڈ ہوتا ہے، جس میں جائیداد کے مالک کا نام، اس کے سائز کا ذکر ہوتا ہے، یہ سب [دستاویز پر] لکھا ہوتا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ سرکاری زمین ہے۔ اب، آپ دیکھ سکتے ہیں، یہاں کے آدیواسی زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔ اس لیے وہ ان تمام کارروائیوں کو نہیں جانتے ہیں۔ اور اب حکومت ہم سے کہہ رہی ہے کہ اگریہ تمہاری زمین ہے، تو اپنا سات بارہ ریکارڈ دکھاؤ۔ وہ ہمیں یہ ثابت کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں کہ ہم آدیواسی ہیں۔ ہم آدیواسی ہیں، ہم انہیں اپنی ذات کا سرٹیفکیٹ دکھا سکتے ہیں۔ پھر وہ کہنے لگے، ’اپنے کپڑے دیکھو۔ تم آدیواسی ہو ہی نہیں سکتے‘...

Left: Asha Bhoye: 'But who is counting the trees that were cut earlier?'
PHOTO • Aakanksha
Right: Pramila Bhoir: 'I believe that trees should not be felled…'
PHOTO • Aakanksha

بائیں: آشا بھوئے: ’لیکن جو درخت پہلے کاٹے گئے تھے، ان کی گنتی کون کر رہا ہے؟‘ دائیں: پرمیلا بھوئیر: ’میرا ماننا ہے کہ درختوں کو گرانا نہیں چاہیے...‘

پرکاش بھی اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہیں

پرکاش: سرٹیفکیٹ دینا سرکاروں کا کام ہے۔ ہم سرٹیفکیٹ [دستاویز اور ریکارڈ] نہیں بنا سکتے۔

وہ میٹرو کار شیڈ کے لیے متبادل مقامات کی طرف اشارہ کرتے ہیں

پرکاش: ہم نے زمین کے دوسرے مقامات کا بھی مشورہ دیا جہاں وہ کار شیڈ کی تعمیر کر سکتے ہیں۔ لیکن ہماری کوئی نہیں سنتا۔ ہم آدیواسیوں نے ایک مورچہ بھی نکالا جس میں لوگوں نے اپنے مطالبات کو رکھا۔ میٹرو کی مانگ کے لیے ایک بھی مورچہ نہیں نکالا گیا ہے۔ ایک بھی نہیں

کئی لوگ آدیواسیوں اور آرے کی حمایت کے لیے سامنے آئے ہیں۔ ۲۹ اگست، ۲۰۱۹ کو برہن ممبئی میونسپل کارپوریشن کی درخت اتھارٹی کے ذریعہ میٹرو شیڈ کے لیے آرے کالونی میں ۲۶۰۰ سے زیادہ درختوں کو کاٹنے یا منتقل کرنے کی تجویز کو منظوری دینے کے بعد، شہری اس تجویز کی مخالفت کر رہے ہیں۔ لیکن، ۴۴ سالہ آشا پوچھتی ہیں کہ ان درختوں کے بارے میں کیا جو پہلے ہی کاٹے جا چکے ہیں؟

آشا: لیکن پہلے ہی کاٹے جا چکے درختوں کی گنتی کون کر رہا ہے؟

آشا کا چھوٹا پلاٹ، جو ایک ایکڑ سے بھی کم ہے، میٹرو پروجیکٹ کے لیے لے لیا گیا ہے۔ وہ موسمی سبزیاں اور پھل، آلو، کیلا، لیموں، لوکی وغیرہ فروخت کرکے روزانہ ۲۰۰ سے ۳۰۰ روپے کما لیتی تھیں، جسے وہ خود اُگاتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی فیملی کو ان کی زمین کا کوئی معاوضہ نہیں ملا ہے۔

آشا: میرے شوہر اور میری بیٹی گھر پر ہی تھے۔ وہ اسی طرح کا شور سن سکتے تھے جیسے ہم ابھی سن رہے ہیں۔ یہ درختوں کو کاٹنے کی مشینیں ہیں۔ جمعہ کو شام کے ۴ بج رہے تھے۔ ان مشینوں کے ساتھ ۱۰-۱۵ لوگ آئے تھے۔ میرے شوہر اور میری بیٹی بھاگ کر ان کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ وہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے پاس درختوں کو کاٹنے کی اجازت ہے۔ میں آرے میں تھی، لیکن مجھے گھر پہنچنے میں تقریباً ۱۰ منٹ لگے۔ تب تک درخت کاٹے جا چکے تھے۔ انہوں نے درختوں کو کاٹ دیا تھا، جس کی وجہ سے کافی ہنگامہ برپا تھا۔

ان کے شوہر کسن بھوئے نے بھی دو سال پہلے اپنا چھوٹا سا جنرل اسٹور کھو دیا تھا۔ وہ ایک دن میں ۱۰۰۰ سے ۳۰۰۰ روپے تک کماتے تھے۔ ان کا معاملہ بامبے ہائی کورٹ میں ابھی زیر التوا ہ۔

آشا: دو سال پہلے مین روڈ پر ہماری ایک دکان تھی۔ انہوں نے اسے گرا دیا اور تب سے یہ آدمی [میرے شوہر] گھر پر ہے۔ ہم جو کچھ بھی دکان سے کماتے تھے اور جو سبزیاں اُگاتے تھے، اسی بچے ہوئے پیسے سے اب زندگی گزارنی پڑے گی۔ انہوں نے اس [دکان] کے ساتھ ساتھ اس [زمین] کو بھی لے لیا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ ہمیں دوسری دکان دیں گے، کانجور میں [شمالی ممبئی کے کانجور مارگ علاقے میں]۔ انہوں نے دکان دی، لیکن جب ہم وہاں گئے، تو دیکھا کہ وہ کافی گندی تھی۔ شٹر ٹوٹا ہوا تھا اور یہ دراصل باہری علاقے میں واقع تھی۔ ہم وہاں کاروبار کیسے کر سکتے تھے؟ اب گھر سنبھالنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ ہم نے کچھ سبزیاں فروخت کرکے گزارہ کیا۔ اب آپ ہی بتائیے، ہم اپنا گھر کیسے چلائیں؟

Left: The Adivasis of Aarey have for long cultivated their shrinking famlands right next to a growing city.
PHOTO • Aakanksha
Right: Trees marked for chopping
PHOTO • Aakanksha

بائیں: آرے کے آدیواسی ایک بڑھتے شہر کے ٹھیک بغل میں طویل عرصے سے اپنی سکڑتی ہوئی زمین پر کھیتی کرتے آئے ہیں۔ دائیں: کاٹنے کے لیے نشان زد کیے گئے پیڑ

آج، پرجاپور پاڑہ میں آنگن واڑی کارکن کے طور پر آشا ہر مہینے ۳۰۰۰ روپے کماتی ہیں۔

آشا کافی کچھ جھیل چکی ہیں اور اب قانونی لڑائی لڑ رہی ہیں۔ وہ تہیہ کر چکی ہیں کہ اب وہ نہیں رکیں گی۔

آشا: اگر آپ ’ترقی‘ کرنا چاہتے ہیں، تو کریں۔ لیکن اگر آپ اسے آدیواسیوں کی زندگی کے بدلے کر رہے ہیں، تو یہ صحیح نہیں ہے، ہے نہ؟ آپ آدیواسیوں کے کھیت چھین رہے ہیں، انہیں ڈرا رہے ہیں، انہیں ان کے گھروں سے بے دخل کر رہے ہیں – اور پھر ان کی زمین پر، کیا آپ ترقی کریں گے؟ آپ انہیں ایک گھر دیں گے اور ان سے کہیں گے کہ وہ اسے لے لیں، لیکن اگر آپ ان کا کھیت چھین لیں گے، تو ہم کیسے جائیں گے؟ کیا آپ اسے ہماری ترقی کہہ سکتے ہیں؟ کیا یہ ہمارے لیے ہے؟ آپ ہماری جان لے رہے ہیں اور پھر دعویٰ کر رہے ہیں کہ آپ ہمارے لیے ترقی لا رہے ہیں؟ ہمارے پاس نہ تو کوئی گاؤں ہے اور نہ ہی دوسرا گھر۔ یہی ہماری دنیا ہے۔ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے، یہیں ہے۔ ہم یہاں سے کہاں جائیں گے؟

پرکاش ہمیں کچھ سوچنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں:

پرکاش: انسان خود کو عقل مند سمجھتا ہے۔ میں اس پر سنجیدگی سے سوال کرتا ہوں۔ اسے لگتا ہے کہ اس نے مختلف ایجادات کی ہیں، اس نے پل، مال، بڑے شہروں کی تعمیر کی ہے، اور یہاں تک کہ اسے لگتا ہے کہ وہ مریخ پر پہنچ رہا ہے۔ اس لیے ہمیں لگتا ہے کہ ہم بہت چالاک ہیں۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ ہم تباہی کی طرف دوڑ رہے ہیں۔ اور مجھے لگتا ہے کہ اگر یہ جمہوریت ہے، تو لوگوں کو سننا چاہیے۔ لوگ اتنے بڑے پیمانے پر بول رہے ہیں کہ اس سے نقصان اور تباہی ہوگی۔ پھر وہ کیوں نہیں سنتے؟ مجھے یہ بہت عجیب لگتا ہے۔

ہندوستان کی عدالت عظمیٰ نے ۷ اکتوبر بروز پیر کو آرے میں ایم ایم آر سی ایل کے ذریعہ درختوں کی کٹائی پر اکتوبر ۲۰۲۱ تک کے لیے روک لگا دی۔ حالانکہ، تب تک ۲۶۰۰ درختوں میں سے کئی پہلے ہی کاٹے جا چکے تھے۔

پرمیلا بھوئیر، ایک کاشتکار اور خاتونِ خانہ، اور پرکاش کی بیوی کو ۷ اکتوبر کو بائیکلا پولیس اسٹیشن میں دو دنوں کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔ وہ دیگر شہریوں کے ساتھ درختوں کے کاٹے جانے کی مخالفت کر رہی تھیں۔

پرمیلا: وہ درختوں کو کاٹ رہے تھے، اس لیے ہم درختوں کی حفاظت کے لیے وہاں گئے تھے۔ ہم وہاں پولیس پر حملہ کرنے نہیں گئے تھے، ہم لڑنے نہیں گئے تھے۔ آپ پڑھے لکھے ہیں، میں گنوار ہوں۔ پھر بھی، میرا ماننا ہے کہ درختوں کو گرانا نہیں چاہیے...

پوسٹ اسکرپٹ: ۲۱ اکتوبر بروز پیر کو سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ اس نے آرے کالونی میں میٹرو کار شیڈ کی تعمیر پر اِسٹے آرڈر (روکنے کا حکم) نہیں دیا تھا، اور درخت گرانے کے خلاف عبوری حکم کو ۱۵ نومبر، ۲۰۱۹ تک بڑھا دیا تھا۔

کریڈٹ اور خصوصی شکریہ:

اضافی وائس اوور: زہرہ لطیف، اورنا راؤت

ترجمہ: میدھا کالے، جیوتی شنولی، اورجا

ساؤنڈ لیولنگ / آڈیو اِن پُٹ: ہوپُن سیکیا، ہمانشو سیکیا

مترجم: محمد قمر تبریز

Aakanksha
aakanksha@ruralindiaonline.org

Aakanksha (she uses only her first name) is a Reporter and Content Editor at the People’s Archive of Rural India.

Other stories by Aakanksha
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez