کیچڑ سے بھری آدھی ادھوری گلیاں کئی کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ان سب کے علاوہ، ثورہ کے اسپتال تک پہنچنے کا سفر، نہ ختم ہونے والی لڑائی جیسا ہے۔ مبینہ اور ارشد حسین اخون کو اپنے بیٹے محسن کی صحت سے متعلق صلاح و مشورہ کے لیے مہینہ میں کم از کم ایک بار اسپتال جانا پڑتا ہے۔ ارشد تقریباً نو سال کے اپنے بیٹے کو بازوؤں میں اٹھا کر، بے گھر افراد کے لیے بنائی گئی ہاؤسنگ کالونی ’رکھِ آرتھ‘ کی گلیوں کو پار کرتے ہیں، جو پگھلتی برف اور پرنالے کے گندے پانی سے اکثر بھر جاتی ہیں۔

عام طور پر، وہ ۲-۳ کلومیٹر چلنے کے بعد آٹورکشہ پکڑتے ہیں۔ یہ انہیں ۵۰۰ روپے میں تقریباً ۱۰ کلومیٹر دور، شمالی سرینگر کے ثورہ علاقے میں شیر کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز تک پہنچا دیتا ہے۔ کئی بار فیملی کو اسپتال تک کی پوری دوری پیدل ہی طے کرنی پڑتی ہے۔ ان حالات کا سامنا انہیں خاص طور پر پچھلے سال کے لاک ڈاؤن کے دوران کئی بار کرنا پڑا تھا۔ مبینہ کہتی ہیں، ’’اس میں پورا دن لگ جاتا ہے۔‘‘

اس بات کو تقریباً نو سال ہو چکے ہیں، جب مبینہ اور ارشد کی دنیا اچانک بدل گئی تھی۔ سال ۲۰۲۱ میں، جب محسن بس کچھ ہی دنوں کا تھا، تب اسے بخاراور یرقان (پیلیا) ہو گیا تھا، جس میں بلیروبن کی سطح بہت زیادہ بڑھ گئی تھی۔ اس کے بعد، ڈاکٹروں کو دکھانے کا سلسلہ چلتا رہا۔ محسن کو سرینگر میں واقع بچوں کے سرکاری اسپتال، جی بی پنت میں دو مہینے رکھا گیا۔ آخر میں انہیں یہی بتایا گیا کہ ان کا بچہ ’ایبنارمل‘ ہے۔

۳۰ سالہ مبینہ یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں، ’’جب اس کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی، تو ہم اسے ایک پرائیویٹ ڈاکٹر کے پاس لے گئے، جنہوں نے ہمیں بتایا کہ اس کا برین (دماغ) پوری طرح سے ڈیمیج ہو گیا ہے اور وہ کبھی بھی بیٹھ یا چل نہیں پائے گا۔‘‘

آخرکار، جانچ میں یہ پتہ چلا کہ محسن پر دماغی فالج (سیریبرل پالسی) کا اثر ہے۔ اس بات کا پتہ چلنے کے بعد سے ہی، مبینہ اپنا زیادہ تر وقت بیٹے کی دیکھ بھال میں گزارتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’مجھے پیشاب صاف کرنا پڑتا ہے، اس کا بستر دھونا پڑتا ہے، اس کے کپڑے دھونے ہوتے ہیں اور اسے بیٹھانا ہوتا ہے۔ محسن دن بھر میری گود میں ہی رہتا ہے۔‘‘

'When his condition didn’t improve, we took him to a private doctor who told us that his brain is completely damaged and he will never be able to sit or walk'
PHOTO • Kanika Gupta
'When his condition didn’t improve, we took him to a private doctor who told us that his brain is completely damaged and he will never be able to sit or walk'
PHOTO • Kanika Gupta

’جب اس کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی، تو ہم اسے ایک پرائیویٹ ڈاکٹر کے پاس لے گئے، جنہوں نے ہمیں بتایا کہ اس کا برین (دماغ) پوری طرح سے ڈیمیج ہو گیا ہے اور وہ کبھی بھی بیٹھ یا چل نہیں پائے گا‘

سال ۲۰۱۹ تک تمام مشکلوں کے باوجود وہ اس کا سامنا کر رہے تھے۔ لیکن، ٹوٹی دیواروں اور ادھوری چھتوں کے ساتھ صرف کنکریٹ کے ڈھانچوں والی ’رکھِ آرتھ‘ ہاؤسنگ کالونی میں جانے کے بعد ان کی جدوجہد میں مزید اضافہ ہو گیا۔

وہ پہلے ڈل جھیل کے میر بہری علاقے میں رہتے تھے۔ مبینہ کے پاس اپنا کام اور آمدنی تھی۔ وہ کہتی ہیں، ’’مہینہ میں ۱۰ سے ۱۵ دن میں ڈل جھیل میں گھاس کاٹتی تھی۔‘‘ مبینہ چٹائیاں بھی بناتی تھیں، جو مقامی بازار میں ۵۰ روپے فی چٹائی کے حساب سے فروخت ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ، وہ مہینہ میں تقریباً ۱۵ سے ۲۰ دن جھیل سے سوسن (للی) پھول نکالنے کا کام بھی کرتی تھیں، اور انہیں چار گھنٹوں کے کام کے ۳۰۰ روپے ملتے تھے۔ سیزن والے مہینوں میں ارشد بطور زرعی مزدور، مہینہ کے ۲۰-۲۵ دن کام کرتے تھے اور انہیں ایک دن کی مزدوری کے ۱۰۰۰ روپے تک مل جاتے تھے۔ ارشد منڈی میں سبزی بھی بیچتے تھے، جس کے لیے انہیں کم از کم ۵۰۰ روپے مل جاتے تھے۔

فیملی کی ماہانہ آمدنی اچھی خاصی ہو جاتی تھی، جس سے گھر اچھی طرح چل رہا تھا۔ محسن کو جن اسپتالوں اور ڈاکٹروں کو دکھانا ہوتا تھا، وہ سبھی میر بہری سے قریب ہی تھے۔

مبینہ کہتی ہیں، ’’لیکن محسن کے پیدا ہونے کے بعد، میں نے کام کرنا بند کر دیا تھا۔ تب میری ساس کہتی تھیں کہ میں ہمیشہ اپنے بیٹے کے ساتھ مصروف رہتی ہوں اور گھر کے کاموں میں ان کی مدد کرنے کے لیے میرے پاس وقت نہیں ہے۔ ہمیں وہاں [میر بہری میں] رکھنے کا کیا مطلب تھا؟‘‘

مبینہ اور ارشد کو گھر چھوڑ کر جانے کے لیے کہا گیا۔ انہوں نے پاس میں ہی ایک چھوٹا ٹن شیڈ والا گھر بنایا۔ ستمبر ۲۰۱۴ کے سیلاب میں یہ کمزور گھر ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد، وہ رشتہ داروں کے ساتھ رہنے چلے گئے، اور پھر رہنے کی جگہ دوبارہ بدلی، اور ہر بار انہیں عارضی شیڈ میں ہی رہنا پڑا۔

لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ جن اسپتالوں اور ڈاکٹروں کے پاس محسن کو دکھایا جاتا تھا وہ پہنچ سے باہر رہے ہوں۔

The family sitting in the sun outside Arshid’s parents’ home in Rakh-e-Arth, Srinagar
PHOTO • Kanika Gupta
The family sitting in the sun outside Arshid’s parents’ home in Rakh-e-Arth, Srinagar
PHOTO • Kanika Gupta

سرینگر کے ’رکھِ آرتھ‘ میں ارشد کے والدین کے گھر کے باہر دھوپ میں بیٹھی فیملی

حالانکہ، سال ۲۰۱۷ میں جموں و کشمیر جھیل اور آبی گزرگاہ ترقیاتی اتھارٹی (ایل اے ڈبلیو ڈی اے) نے ڈھل جھیل کے علاقے میں ایک ’باز آبادکاری‘ مہم شروع کی تھی۔ افسروں نے ارشد کے والد، غلام رسول اخون سے رابطہ کیا، جو ۷۰ سال کے ہیں اور جھیل کے جزیروں پر کھیتی کرنے والے کسان رہے ہیں۔ انہوں نے ڈل جھیل سے تقریباً ۱۲ کلومیٹر دور بمنہ علاقے میں، بے گھر لوگوں کے لیے بنائی گئی ’رکھِ آرتھ‘ کالونی میں تقریباً ۲۰۰۰ مربع فٹ زمین پر گھر بنانے کے لیے تقریباً ایک لاکھ روپے کی تجویز منظور کر لی۔

ارشد بتاتے ہیں، ’’میرے والد نے کہا کہ وہ جا رہے ہیں اور میں ان کے ساتھ چل سکتا ہوں یا جہاں میں تھا وہیں رہوں۔ اس وقت تک، ہمارا ایک اور بیٹا علی پیدا ہو گیا تھا، جس کی پیدائش ۲۰۱۴ میں ہوئی تھی۔ میں ان کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ انہوں نے ہمیں اپنے گھر کے پیچھے [رکھ آرتھ میں] ایک چھوٹی سی جگہ دے دی، جہاں ہم نے ہم چاروں کے لیے ایک چھوٹی سی جھونپڑی ڈال لی۔‘‘

وہ سال ۲۰۱۹ کا وقت تھا، جب اخون فیملی کے ساتھ ساتھ تقریباً ۱۰۰۰ کنبے اتنی دور اس کالونی میں رہنے چلے آئے تھے، جہاں نہ تو سڑکیں ہیں اور نہ ہی نقل و حمل کا کوئی معقول ذریعہ، کوئی اسکول یا اسپتال بھی نہیں ہے، اور نہ ہی روزگار کا متبادل موجود ہے؛ صرف پانی اور بجلی دستیاب ہے۔ جھیل اور آبی گزرگاہ ترقیاتی اتھارٹی کے نائب چیئرمین طفیل مٹو کہتے ہیں، ’’ہم نے پہلا کلسٹر [تین میں سے] اور ۴۶۰۰ پلاٹ تیار کر لیے ہیں۔ اب تک ۲۲۸۰ کنبوں کو زمین کے پلاٹ جاری کیے جا چکے ہیں۔‘‘

ارشد روزگار تلاش کرنے کے لیے، رکھ آرتھ سے تقریباً تین کلومیٹر دور واقع ’لیبر ناکہ‘ جاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’بہت سے لوگ صبح ۷ بجے وہاں آتے ہیں اور کام کی تلاش میں دوپہر تک وہیں انتظار کرتے ہیں۔ مجھے عام طور پر کنسٹرکشن سائٹ پر پتھر ڈھونے کا کام ملتا ہے۔‘‘ لیکن، یہ کام ۵۰۰ روپے یومیہ کے حساب سے مہینہ میں بڑی مشکل سے ۱۲-۱۵ دنوں کے لیے ہی مل پاتا ہے، اور ڈل جھیل پر ان کی جتنی کمائی ہوتی تھی، یہ اس سے بہت کم ہے۔

ارشد کہتے ہیں، ’’جب کام نہیں ہوتا ہے، تو بچت کے پیسوں سے اپنا گزارہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن جب ہمارے پاس پیسے ہی نہیں ہیں، تو ہم محسن کو علاج کے لیے نہیں لے جا سکتے۔‘‘

Rakh-e-Arth has just one sub-health centre that can only handle basic healthcare functions; for emergencies people have to travel to the urban primary health centre at Pantha Chowk, 15 kilometres away. Or, like the Akhoon family, they have to go to the hospital in Soura
PHOTO • Kanika Gupta
Rakh-e-Arth has just one sub-health centre that can only handle basic healthcare functions; for emergencies people have to travel to the urban primary health centre at Pantha Chowk, 15 kilometres away. Or, like the Akhoon family, they have to go to the hospital in Soura
PHOTO • Kanika Gupta

رکھ آرتھ میں صرف ایک ذیلی طبی مرکز ہے، جہاں صرف بنیادی طبی سہولیات ہی دستیاب ہو پاتی ہیں؛ ناگہانی حالات میں، لوگوں کو ۱۵ کلومیٹر دور پنتھا چوراہے پر واقع شہری ابتدائی طبی مرکز تک جانا پڑتا ہے۔ یا انہیں اخون فیملی کی طرح ہی ثورہ میں واقع اسپتال جانا پڑتا ہے

باز آبادکاری والی یہ کالونی سرینگر کے بٹہ مالو علاقے میں آتی ہے۔ بٹہ مالو کی ژونل میڈیکل آفیسر ثمینہ جان کہتی ہیں، ’’رکھ آرتھ میں صرف ایک ذیلی طبی مرکز ہے، جہاں صرف ذیابیطس اور بی پی جیسے غیر متعدی امراض کی جانچ ہو سکتی ہے، حاملہ خواتین کی زچگی سے پہلے کی جانچ، اور بچوں کی ٹیکہ کاری ہی ہو سکتی ہے۔‘‘

رکھ آرتھ میں ایک طبی مرکز اور ایک اسپتال بنایا جا رہا ہے۔ ایل اے ڈبلیو ڈی کے طفیل مٹو کہتے ہیں، ’’عمارت پوری طرح تیار ہو گئی ہے اور جلد ہی وہاں کام شروع ہو جائے گا۔ ابھی تک، ذیلی طبی مرکز میں صرف ایک چھوٹا دواخانہ شروع کیا گیا ہے۔ دن میں کچھ گھنٹوں کے لیے ایک ڈاکٹر بھی آتا ہے۔‘‘ اس لیے، یہاں کے لوگوں کو ناگہانی حالات میں ۱۵ کلومیٹر دور پنتھا چوراہے پر واقع شہری ابتدائی طبی مرکز تک جانا پڑتا ہے۔ یا پھر، اخون فیملی کی طرح انہیں بھی ثورہ کے اسپتال جانا پڑتا ہے۔

جب سے وہ اس کالونی میں آئے ہیں، مبینہ کی خود کی طبیعت خراب رہنے لگی ہے، اور وہ امراض قلب (پیلپی ٹیشن) میں مبتلا ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میرا بچہ بیمار رہتا ہے، جس سے مجھے کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے ہاتھ کام نہیں کرتے، اس کے پیر کام نہیں کرتے، اس کا دماغ کام نہیں کرتا۔ میں اسے صبح سے شام تک گود میں رکھتی ہوں۔ اور شام تک، میرے جسم میں بہت درد ہونے لگتا ہے۔ میں اس کے بارے میں سوچ سوچ کر بیمار ہو گئی ہوں اور اس کی دیکھ بھال میں لگی رہتی ہوں۔ اگر میں ڈاکٹر کے پاس جاتی ہوں، تو وہ مجھ سے علاج اور ٹیسٹ کرانے کے لیے کہتے ہیں۔ میری کمائی ۱۰ روپے کی بھی نہیں ہے، جس سے میں اپنے علاج کے پیسے بھر سکوں۔‘‘

ان کے بیٹے کے لیے ایک بار میں ۷۰۰ روپے کی باقاعدہ دوائیں لگتی ہیں، جو تقریباً ۱۰ دنوں تک چلتی ہیں۔ بار بار آنے والے بخار، السر اور جلد پر سرخ دھبے کی وجہ سے اسے تقریباً ہر مہینے اسپتال لے کر جانا پڑتا ہے۔ جموں و کشمیر کے بلڈنگ اور دیگر تعمیراتی مقامات پر کام کرنے والے مزدوروں کی فلاح و بہبود کے بورڈ کے ذریعے ارشد کو جاری کیے گئے لیبر کارڈ کی بنیاد پر ان کی فیملی کو مفت علاج ملنا چاہیے، جو زیر کفالت لوگوں کے لیے ہر سال ایک لاکھ روپے تک کی طبی سہولیات کا حق دیتا ہے۔ لیکن، کارڈ کو کارگر بنائے رکھنے کے لیے ایک معمولی سی سالانہ فیس بھرنی پڑتی ہے، اور اسے دوبارہ بنوانے کے وقت ۹۰ دنوں کے روزگار سرٹیفکیٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔ ارشد ان تقاضوں کو باقاعدگی سے پورا نہیں کر پاتے ہیں۔

Left: Younger son Ali says, 'My father doesn’t have money, how can I go to school?' Right: The family's tin home behind Arshid's father’s house
PHOTO • Kanika Gupta
Left: Younger son Ali says, 'My father doesn’t have money, how can I go to school?' Right: The family's tin home behind Arshid's father’s house
PHOTO • Kanika Gupta

بائیں: چھوٹا بیٹا علی کہتا ہے، ’میرے والد کے پاس پیسے نہیں ہیں، میں اسکول کیسے جا سکتا ہوں؟‘ دائیں: والد کے گھر کے پیچھے ارشد کا ٹن کے شیڈ والا گھر

جی بی پنت اسپتال کے ڈاکٹر مدثر راتھر کہتے ہیں، ’’دوسرے بچوں کی طرح محسن نہ تو چل پائے گا، نہ ہی اسکول جا پائے گا، نہ کھیل پائے گا، اور نہ ہی دوسری سرگرمیاں انجام دے پائے گا۔‘‘ ڈاکٹر صرف انفیکشن، دورے، اور دوسرے طبی مسائل کے علاج میں مدد کر سکتے ہیں، اور اسپیسٹی سٹی (اعضاء میں سختی) کے لیے فزیو تھیراپی دیتے ہیں۔ سرینگر کے سرکاری میڈیکل کالج میں بچوں کے امراض کی ماہر ڈاکٹر آسیہ انجم بتاتی ہیں، ’’دماغی فالج ایسی اعصابی خرابی ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ اگر نوزائیدہ بچوں کی پیدائش کے وقت ہی یرقان کا ٹھیک سے علاج نہیں کیا جاتا ہے، تو یہ اس اعصابی خرابی کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ برین ڈیمیج، موومنٹ ڈس آرڈر (چلنے پھرنے، ہلنے ڈلنے سے جڑے مسائل)، اسپیسٹی سٹی (اعضاء میں سختی)، ذہنی معذوری کی وجہ بن سکتا ہے۔‘‘

کام ڈھونڈنے کی جدوجہد اور ایک ڈاکٹر سے دوسرے ڈاکٹر کے درمیان بھاگ دوڑ کرنے کے علاوہ، مبینہ اور ارشد اپنا سارا وقت اور پیسہ محسن کے علاج اور چھوٹے بیٹے کی دیکھ بھال میں خرچ کرتے ہیں۔ عمر میں تقریباً سات سال کا ہو چکا علی شکایت کرتا ہے، ’’وہ ہر وقت بایا [بھائی] کو اپنی گود میں رکھتی ہیں۔ وہ مجھے اس طرح کبھی گلے نہیں لگاتیں۔‘‘ علی کو اپنے بھائی سے میل جول بڑھانے میں مشکل ہوتی ہے کیوں کہ، ’’وہ مجھ سے بات نہیں کرتا ہے یا میرے ساتھ کھیلتا نہیں ہے، اور میں اس کی مدد کرنے کے لیے بہت چھوٹا ہوں۔‘‘

علی اسکول نہیں جاتا۔ وہ پوچھتا ہے، ’’میرے والد کے پاس پیسے نہیں ہیں، میں اسکول کیسے جا سکتا ہوں؟‘‘ یہ الگ بات ہے کہ رکھ آرتھ میں کوئی اسکول بھی نہیں ہے۔ ایل اے ڈبلیو ڈی اے کے ذریعے کیا گیا وعدہ ادھورا ہے۔ نزدیکی سرکاری اسکول تقریباً دو کلومیٹر دور بمنہ میں ہے، اور وہ بڑے بچوں کا اسکول ہے۔

مبینہ کہتی ہیں، ’’رکھ آرتھ آنے کے چھ مہینے کے اندر ہی ہمیں پتہ چل گیا تھا کہ ہم یہاں لمبے وقت تک نہیں رہ پائیں گے۔ یہاں کی حالت واقعی بہت خراب ہے۔ محسن کو اسپتال لے جانے کے لیے ہمارے پاس ٹرانسپورٹ کے وسائل بھی نہیں ہیں۔ اور جب ہمارے پاس [اس کے لیے] پیسہ بھی نہیں ہوتا، تو بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘

ارشد بتاتے ہیں، ’’یہاں کوئی کام نہیں ہے، ہم کیا کریں؟ میں کام تلاش کروں گا یا قرض لوں گا۔ ہمارے پاس کوئی دوسرا متبادل نہیں بچا ہے۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Kanika Gupta

Kanika Gupta is a freelance journalist and photographer from New Delhi.

Other stories by Kanika Gupta
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez