ہم سانس نہیں لے سکتے،‘‘ مزدور کہتے ہیں۔

تلنگانہ کے نلگونڈہ ضلع کے اس خرید مرکز پر وہ جو ماسک پہنتے ہیں، وہ پیسنے سے بھیگ جاتا ہے۔ دھان کے انبار سے اڑنے والے غبار سے ان کی جلد میں کھجلی ہوتی ہے، اور چھینک آتی ہے اور کھانسی ہوتی ہے۔ وہ کتنے ماسک بدلیں؟ کتنی بار اپنے ہاتھ منہ دھوئیں اور پونچھیں؟ کتنی بار اپنے منہ کو ڈھانپیں – جب کہ انہیں ۱۰ گھنٹے میں ۳۲۰۰ بورے – جن میں سے ہر ایک کا ورزن ۴۰ کلوگرام ہوتا ہے – کو بھرنا، گھسیٹ کر لے جانا، وزن کرنا، سلائی کرنا اور ٹرکوں پر لادنا ہوتا ہے؟

یہاں پر کل ۴۸ مزدور ہیں، جو ۱۲۸ ٹن دھان – یا ایک منٹ میں ۲۱۳ کلوگرام – کو سنبھالتے ہیں، وہ بھی ۴۳-۴۴ ڈگری سیلیس کے آس پاس کے درجہ حرارت میں۔ ان کا کام صبح ۳ بجے شروع ہوتا ہے اور دوپہر ۱ بجے تک چلتا ہے – یعنی بہت ہی گرم اور خشک موسم میں کم از کم چار گھنٹے، صبح ۹ بجے سے۔

ایسے میں ماسک پہننا اور جسمانی دوری بنائے رکھنا کتنی سمجھداری کی بات ہے، یہ ایک طرح سے ناممکن ہے جب آپ دھان خرید مرکز میں کام کر رہے ہوں، جیسے کہ کانگل منڈل کے کانگل گاؤں سے لی گئی یہ تصویریں۔ اور ریاست کے وزیر زراعت نرنجن ریڈی نے اپریل میں مقامی میڈیا کو بتایا کہ تلنگانہ میں ایسے ۷۰۰۰ مرکز ہیں۔

اور اس کے لیے وہ کیا کماتے ہیں؟ ۱۲ مزدوروں کے چار گروپ تھے اور ہر ایک مزدور کو اس دن تقریباً ۹۰۰ روپے ملے۔ لیکن، یہ کام آپ کو ایک دن چھوڑ کر دوسرے دن ملتا ہے۔ کل ۴۵ دنوں کی خرید مدت میں یہاں ہر ایک مزدور کو ۲۳ دن تک کام ملتا ہے – یعنی وہ ۲۰۷۵۰ روپے کماتے ہیں۔

اس سال، ربیع کے موسم میں دھان کی خرید اپریل کے پہلے ہفتہ میں شروع ہوئی، جو ۲۳ مارچ سے ۳۱ مئی تک، پوری طرح سے کووڈ- ۱۹ لاک ڈاؤن کی مدت کے دوران ہی چلی۔

PHOTO • Harinath Rao Nagulavancha

اس طرح کی محنت میں ٹیم کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے، جس میں ۱۰-۱۲ مزدوروں کا ایک گروپ ساتھ مل کر ایک انبار پر کام کرتا ہے۔ کانگل خرید مرکز پر، ایسے چار گروپ ہیں، جو ۱۰ گھنٹے میں ۱۲۸ ٹن دھان سنبھالتے ہیں۔

PHOTO • Harinath Rao Nagulavancha

دو لوگ تیزی سے ۴۰ کلوگرام کا ایک بورا بھرتے ہیں۔ اس سے چاول کے انبار سے سفید رنگ کا غبار نکلتا ہے۔ اس غبار کی وجہ سے کافی کھجلی ہوتی ہے، جو صرف غسل کرنے کے بعد ہی ختم ہوتی ہے۔

PHOTO • Harinath Rao Nagulavancha

انہیں پہلی کوشش میں ایک بورے میں ۴۰ کلو کے قریب بھرنا ہوتا ہے۔ بار بار اضافی اناج کو نکالنا، یا کمی کو پورا کرنے کا مطلب ہے دیر ہونا، جس سے ان کا کام دوپہر کے ۱ بجے سے آگے بڑھ جائے گا۔

PHOTO • Harinath Rao Nagulavancha

بورے کو گھسیٹنے کے لیے مزدور دھات کے ایک ہُک کا استعمال کرتے ہیں اور اکثر آپس میں آلہ کا لین دین کرتے ہیں۔ آپ ہر بار ہر ایک چیز کو سینیٹائز نہیں کر سکتے۔

PHOTO • Harinath Rao Nagulavancha

تلاری روی (دائیں طرف) اس گروپ کی قیادت کرتے ہیں۔ وہ بورے کو صحیح طریقے سے بھرنے اور یہ یقینی بنانے کے لیے ذمہ دار ہیں کہ وہ دوپہر ۱ بجے سے پہلے کام ختم کر لیں۔

PHOTO • Harinath Rao Nagulavancha

مزدور – ہر بار الگ گروپ – وزن کرنے والی مشین کو ایک انبار سے دوسرے انبار تک لے جاتے ہیں۔ اگر کسی بھی قسم کا سینیٹائزر یا صفائی کی چیز دستیاب بھی ہو (اور یہ ان مراکز پر نہیں ہے)، تو ہر بار مشین کو صاف کرنا ممکن نہیں ہے کیوں کہ اس سے کام میں دیری ہوتی ہے۔

PHOTO • Harinath Rao Nagulavancha

مزدوروں کے لیے تیزی سے کام کرنا سب سے اہم ہے۔ ایک منٹ سے بھی کم وقت میں، وہ ۴-۵ بورے کا وزن کرتے ہیں۔

PHOTO • Harinath Rao Nagulavancha

بورے کی سلائی کرنے کی تیاری۔ یہ اکیلے نہیں کیا جا سکتا ہے – ایک آدمی بنڈل پکڑتا ہے اور دوسرا اسے صحیح سائز میں کاٹتا ہے۔

PHOTO • Harinath Rao Nagulavancha

وہ بورے کو کھینچتے ہیں، ان کا وزن کرتے ہیں اور پھر انہیں قطاروں میں رکھتے ہیں۔ اس سے بورے کی گنتی کرنا آسان ہو جاتا ہے۔

PHOTO • Harinath Rao Nagulavancha

تمام گروپ – تقریباً ۴۰-۵۰ لوگ – دوپہر تک ۳۲۰۰ بورے پانچ ٹرکوں پر لادتے ہیں۔

PHOTO • Harinath Rao Nagulavancha

ان کاموں کی فیس کے طور پر ایک کسان ۳۵ روپے فی کوئنٹل ادائیگی کرتا ہے۔ کل ملا کر، انہیں ۳۲۰۰ بورے کے ۴۴۸۰۰ روپے ملتے ہیں – جو اس دن کام کرنے والوں میں برابر برابر تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ آج جس آدمی نے کام کیا ہے اس کو ایک دن کے وقفہ کے بعد ہی اگلا موقع ملتا ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Harinath Rao Nagulavancha

Harinath Rao Nagulavancha is a citrus farmer and an independent journalist based in Nalgonda, Telangana.

Other stories by Harinath Rao Nagulavancha
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez