فاطمہ بی بی کے نومولود بچہ کی موت کے بعد ہی انھیں اپنے پانچویں کی پیدائش کے لیے کمیونٹی ڈلیوری سنٹر آنا پڑا۔ ان کے سبھی بچے، تین لڑکیاں اور ایک لڑکا، گھر پر ہی پیدا ہوئے۔ ’’آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ایک لڑکا مر گیا،‘‘ ان کی ماں جمیلہ بتاتی ہیں۔ ’’اس لیے اب کی بار ہمیں اسپتال آنا پڑا۔‘‘

شمالی ۲۴ پرگنہ ضلع کے رامپور گاؤں میں رہنے والی اس فیملی کو وہاں سے صرف ۳۰ منٹ کی دوری پر واقع بائرماری گاؤں تک جانے کے لیے ۷۰۰ روپے میں ایک گاڑی کرایے پر لینی پڑی۔ ’’ہمارے گاؤں کی غریب عورتوں کو اسپتال تک پہنچنے کے لیے کشتی کا سہارا لینا پڑتا ہے،‘‘ فاطمہ بتاتی ہیں۔ ’’پانی کا بہاؤ تیز ہونے پر یہ سفر کافی خطرناک ہوتا ہے۔ پچھلے سال، اس کی وجہ سے ایک بھری ہوئی کشتی کتھ کلی کے پاس پانی میں ڈوب گئی۔ کچھ لوگوں کی موت بھی ہوئی۔‘‘

فاطمہ کی یہ کہانی بتاتی ہے کہ سندر بن کی حاملہ عورتوں کو اکثر کتنی مشقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور بیماری کے علاج سے متعلق سبھی معاملوں میں یہ بات صادق آتی ہے، کیوں کہ ان جزیروں پر رہنے والے لوگوں کو طبی سہولیات حاصل کرنے کے لیے لمبی دوری طے کرنی پڑتی ہے۔

سندر بن میں چھوٹے موٹے طبی مراکز بہت کم دستیاب ہیں، جو یہاں کے عوام کو سرکار کی طرف سے بنیادی ہیلتھ کیئر سسٹم سے روبرو کراتے ہیں۔ اس قسم کا ہر چھوٹا مرکز ۵ ہزار لوگوں کے علاج کے لیے بنایا گیا ہے۔ جنوبی ۲۴ پرگنہ ضلع میں واقع دو گاؤوں، پچھم سری پتی نگر اور پوربا سری پتی نگر کی کل آبادی (۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق) تقریباً ۹۵۰۰ ہے۔ تب سے لے کر اب تک یہاں کی آبادی میں مزید اضافہ ہوا ہے، لہٰذا ۱۰ ہزار سے زیادہ کی آبادی والے ان گاؤوں کے لوگ علاج کے لیے پوری طرح سے اسی قسم کے مراکز پر منحصر ہیں، جہاں پر بنیادی ساز و سامان کی کمی ہے، اور ساتھ ہی چند مقامی سطح کے خود کو ’ڈاکٹر‘ کہنے والے حکیم موجود ہیں۔

اس کے سبب پچھم سری پتی نگر جیسے سندر بن کے دور راز علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو موبائل میڈیکل یونٹ جیسی سہولیات کا سہارا لینے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ ان میں سے چند یونٹ کشتیوں پر چلائے جا رہے ہیں، جو پانی کے راستے یہاں پر پہنچتی ہیں۔ ہم جس دن وہاں پہنچے، چند بیمار اور زیر علاج لوگوں کا چھوٹا سا مجمع ایک خالی کمرہ کے باہر کھڑا تھا، یہ کمرہ اُس دن کے لیے کلینک روم بنا ہوا تھا۔ شیبوا ندی سے دو گھنٹے کی مسافت طے کرکے طبی افراد کی ایک ٹیم یہاں پہنچی ہے۔ آج منگل ہے، اس یونٹ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ آج کے دن اس گاؤں کا دورہ کرے۔


02-IMG_3194-US-In emergencies we are really stranded.jpg

موبائل میڈیکل یونٹ، جسے نیشنل ہیلتھ مشن کے تحت چلایا جا رہا ہے، ندی پار کرکے سندر بن پہنچی ہے


یہ موبائل کلینک نیشنل ہیلتھ مشن کا ایک حصہ ہے۔ سدرن ہیلتھ امپرومینٹ سمیتی (ایس ایچ آئی ایس) اور دیگر غیر سرکاری تنظیمیں اِن یونٹس (اکائیوں) کو چلاتی ہیں، تاکہ پچھم سری پتی نگر اور پوربا سری پتی نگر میں موجود دو سرکاری ذیلی مراکز کے دائرہ سے باہر سندر بن کے جو حصے بچ جاتے ہیں، ان جگہوں پر طبی سہولیات پہنچائی جا سکیں۔

سندر بن میں اس جیسی ۱۰ سے بھی کم موبائل اکائیاں کام کر رہی ہیں، جب کہ ان جزیروں کی کل آبادی ۴۴ لاکھ ہے۔ لیکن، گاؤوں کے زیادہ تر لوگ ان جزوقتی کلینک میں آنا اس لیے پسند کرتے ہیں، کیوں کہ سرکار کے ذریعہ چلائے جا رہے ذیلی طبی مراکز تک پہنچنے کا مطلب ہے دشوار راستوں کو طے کرنا، اور وہاں پہنچنے کے بعد بھی اکثر ایسا ہوتا ہے کہ پڑھے لکھے ڈاکٹر موجود نہیں ہوتے۔

پچھم سری پتی نگر کی آشا داس اس ایک کمرہ کے ہفتہ وار کلینک تک پیدل چل کر آئی ہیں۔ بیماری کی حالت میں ادھ کچی سڑکوں سے تیز دھوپ میں چل کر یہاں تک پہنچنا آسان نہیں ہوتا۔ علاج کرانے میں کتنی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کے بارے میں وہ بتاتی ہیں: ’’ایس ایچ آئی ایس جیسی تنظیمیں ہفتہ میں ایک یا دو دن کلینک چلاتی ہیں۔ بقیہ دنوں میں ہم ذیلی طبی مرکز یا نیم حکیم کے بھروسے رہتے ہیں۔ پاتھر پرتیما کا (سرکاری) اسپتال تقریباً تین گھنٹے کی دوری پر واقع ہے اور وہاں تک پہنچنے میں کم از کم ۱۰۰ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ ہمیں کم از دو کشتیاں اور گاڑیاں بدلنی پڑتی ہیں۔ ایمرجنسی میں ہم واقعی پھنس جاتے ہیں۔‘‘


03-US-In emergencies we are really stranded.jpg

نرس بُلو سامنت اور دواساز پریش چندر جان موبائل ایس ایچ آئی ایس کلینک میں کام کرتے ہوئے


ایس ایچ آئی ایس کے دیب جیت میتی بتاتے ہیں کہ یہاں کے زیادہ تر لوگوں کی عام شکایات آرتھرائٹس (جوڑوں کا درد)، گاؤٹ (نقرس)، اسپونڈی لائٹس (ریڑھ کی ہڈی کا درد)، لیو کوریا، اسکے بیز، ایکزیما اور بوائلس (پھوڑے) کی ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر پرشانت رائے چودھری، جو ایس ایچ آئی ایس کلینک میں مریضوں کو دیکھتے ہیں، بتاتے ہیں کہ پانی میں نمک کی زیادہ مقدار ہی پورے سندر بن میں کئی بیماریوں کی وجہ ہیں۔


04-IMG_3227-US-In emergencies we are really stranded.jpg

سندر بن میں پانی کے اندر نمک کی حد سے زیادہ مقدار کئی بیماریوں کا سبب ہو سکتی ہے


وہ سندر بن کے پورے علاقے میں طبی سہولیات تک لوگوں کی پہنچ سے متعلق پریشانیوں کے بارے میں بھی بتاتے ہیں: ’’ڈاکٹر یہاں آنا نہیں چاہتے، کیوں کہ انھیں بہت کم پیسہ ملتا ہے اور زندگی بھی یہاں کی اچھی نہیں ہے۔ سرکار انھیں بعض علاقوں میں رہ کر کام کرنے کے لیے جگہ بھی مہیا نہیں کراتی ہے۔ تو وہ یہاں کیوں آئیں؟ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہاں کے مقامی نیم حکیم لوگوں کا غیر اطمینان بخش علاج کرتے ہیں اور کبھی کبھار ان سے موٹی رقم بھی وصول کر لیتے ہیں۔‘‘

حاملہ عورتوں کو تو اپنے علاج سے متعلق اور بھی کئی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پچھم سری پتی نگر کا سرکاری ذیلی اسپتال ایس ایچ آئی ایس کلینک سے کچھ ہی دوری پر موجود ہے۔ اس کے اندر، اے این ایم (آگزی لیئری نرس مِڈ وائف)، موہیما مونڈل اور لوکھی بور مونڈل، ڈیسک پر بیٹھی ہوئی ہیں۔ اس سنٹر میں مریضوں کی جانچ کے لیے دو میز پڑے ہوئے ہیں، کوئی بستر یا بجلی نہیں ہے۔ جس دن یہ موبائل ایس ایچ آئی ایس کلینک وہاں لگا، اُس دن دوپہر کو ایک بھی مریض یہاں نہیں پہنچا۔ اے این ایم بتاتی ہیں، ’’ہم خود لوگوں سے یہ کہتے ہیں کہ وہ پڑھے لکھے ڈاکٹروں کے پاس جائیں، جیسے ایس ایچ آئی ایس میں ہوتے ہیں، اور جب وہ اس جزیرہ پر آتے ہیں۔‘‘

ذیلی سنٹر میں، بنیادی امراض کا علاج ہوتا ہے، اور حاملہ عورتوں کی دیکھ بھال بچے کی پیدائش سے پہلے اور پیدائش کے بعد، اے این ایم، چند اے ایس ایچ اے (ایکریڈِٹیڈ سوشل ہیلتھ ایکٹیوسٹ) کامگاروں اور ایک مرد نرس کے ذریعہ کی جاتی ہے۔ لیکن، یہاں ڈلیوری (بچے کی پیدائش) نہیں کرائی جاتی۔ لوکھی بور مونڈل بتاتی ہیں، ’’ہم عورتوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بچوں کو اسپتال میں جنم دیں (کیوں کہ لمبی دوری اور پیسہ خرچ کرنا ان کے لیے بڑا مسئلہ ہے)۔ خود پنچایت بھی یہی کہتی ہے کہ انھیں برتھ سرٹیفکیٹ اور راشن کارڈ تبھی ملیں گے، جب وہ بچوں کو اسپتال میں جنم دیں گی۔‘‘

حمیدن بی بی، جو ’دائی ماں‘ کے طور پر بلیارا گاؤں کے ذیلی سنٹر میں کام کرتی ہیں، ۵۰ سال سے زیادہ عمر کی ہو چکی ہیں۔ ۱۴ سال پہلے جب انھوں نے یہاں کام کرنا شروع کیا تھا، اُس وقت ان کی ماہانہ تنخواہ ۲۵ روپے تھی۔ اب یہ ۵۵۰ روپے ہے۔ ان کے کام میں شامل ہے حاملہ عورتوں کی بچے کی پیدائش کے وقت مدد کرنا۔ وہ کہتی ہیں، ’’مجھے بھی اے این ایم اور آشا یا اے ایس ایچ اے ورکرس کی طرح رنگین ساڑیاں پہننے کو کیوں نہیں ملتیں؟ میں اتنا کام کرتی ہیں، لیکن اس کی کوئی پہچان نہیں ہے۔ مجھے تو دوپہر کے کھانے کا پیسہ تک نہیں ملتا۔‘‘


05-IMG_3496-US-In emergencies we are really stranded.jpg

موسونی جزیرہ کی ’دائی ماں‘ حمیدن بی بی، اور ان کی پوتی حُسن آرا خاتون


کمیونٹی ڈلیوری سنٹر (سی ڈی سی)، جو تقریباً تین ماہ قبل پاس کے لکشمی پور گاؤں میں بنایا گیا تھا، میں حالت کچھ حد تک بہتر ہوئی ہے۔ سی ڈی سیز، جو زیادہ تر این جی او کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں، ادارہ جاتی ڈلیوریز کو فروغ دیتے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں کے ساتھ ساتھ، انھوں نے بھی زیادہ سے زیادہ عورتوں کے لیے اپنے یہاں بچوں کی پیدائش کو ممکن بنایا ہے۔ لیکن، سندر بن میں ۵۵ فیصد بچے اب بھی گھروں میں ہی پیدا ہوتے ہیں۔ اس کا پتہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ مینجمنٹ ریسرچ، کولکاتا نے ۲۰۱۴ کی تحقیق کے دوران لگایا۔

بعض دفعہ کوئی این جی او کیمپ لگاکر حفظانِ صحت کی کمی کو دور کرتا ہے۔ نم خانہ بلاک میں واقع موسونی جزیرہ کی فریدہ بیگ، اسکول کے ایک کمرے میں سماج اُنّیَن کیندر کے ذریعہ منعقدہ کیمپ لگانے میں مدد کر رہی ہیں۔ یہ این جی او روزانہ میڈیکل کیمپ لگایا کرتا تھا (جو کہ نیشنل ہیلتھ مشن کا حصہ نہیں تھا)، لیکن ۲۰۱۵ میں اس کے پاس پیسوں کی کمی ہو گئی، جس کی وجہ سے یہ کیمپ لگنا بند ہو گیا۔ اب یہ کبھی کبھار ہیلتھ کیمپ لگاتا ہے، اور اس سال مئی میں اس نے آنکھوں کا کیمپ اس جزیرہ پر لگایا۔


06-vlcsnap-2016-06-14-16h59m37s101-US-In emergencies we are really stranded.jpg

موسونی جزیرہ پر لگا ہوا آنکھوں کی جانچ کا کیمپ


’’گاؤں والوں کو اس کیمپ کا پتہ اس لیے چل گیا، کیوں کہ پنچایت نے مائک پر اس کا اعلان کیا تھا،‘‘ فریدہ بتاتی ہیں۔ ’’ہم جب بیمار پڑتے ہیں، تو ہمیں ڈیرک نگر کے سرکاری اسپتال ریفر کر دیاجاتا ہے، جو کہ تقریباً ۱۵ کلومیٹر دور ہے۔ لیکن کشتیاں ہمیشہ دستیاب نہیں ہوتیں۔ بعض دفعہ، اسپتال میں کوئی بھی ڈاکٹر نہیں ہوتا، نہ ہی آکسیجن ہوتا ہے، اس لیے آپریشن سے بچہ کی پیدائش بھی نہیں ہو پاتی۔ اس کے بعد یہ لوگ ہمیں کاک دویپ اسپتال بھیج دیتے ہیں، جو کہ اس سے آگے مزید ۳۵ کلومیٹر دور ہے۔ حاملہ عورتیں جب کاک دویپ کا سفر کرتی ہیں، تو انھیں پگڈنڈیوں اور پانی کی تیز دھار جیسے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘

اور جب ان میں سے کوئی بھی اسپتال ان کی مدد نہیں کر پاتا، تو اس جزیرے کے لوگ ڈائمنڈ ہاربر اور کولکاتا کے بڑے اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں، جس میں انھیں ۶۔۵ گھنٹے لگ جاتے ہیں اور اچھا خاصا پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔

ایس ایچ آئی ایس ہیلتھ پروگرام کے کوآرڈی نیٹر، انوار عالم مانتے ہیں کہ سرکار کے لیے دور افتارہ علاقوں تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ گھاٹک پوکور میں اپنے آفس میں مجھ سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’وہ کتنی دور تک جا سکتے ہیں؟ انھیں بھی فنڈ کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چاہے وہ موبائل میڈیکل لانچ ہو یا سی ڈی سیز، ان میں سے زیادہ تر پبلک۔پرائیویٹ پارٹنرشپ ماڈل پر کام کرتے ہیں۔ سرکار زیادہ تر ان این جی اوز کی مدد پر بھروسہ کرتی ہے، جو طبی خدمات مہیا کر سکتے ہوں۔‘‘

دیب جیت میتی، اس میں مزید اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’پی پی پی ماڈل کے باوجود، جنوبی ۲۴ پرگنہ کے سندر بن علاقے کی بڑی آبادی کے پاس ابھی تک طبی سہولیات نہیں پہنچی ہیں، جیسے نم خانہ، کُلٹالی، پاتھر پرتیما، رائے ڈیگھی، گوسابا اور بسنتی کے زیادہ تر علاقے، اور شمالی ۲۴ پرگنہ ضلع کے آس پاس کے علاقے بھی۔‘‘

لیکن بائرماری سی ڈی سی کے ڈاکٹر نیل مادھب بنرجی کا کچھ اور ہی خیال ہے: ’’آپ ٹوٹی ہوئی سڑکوں اور خطرناک ندیوں کو کب تک قصوروار ٹھہراتے رہیں گے؟‘‘ وہ سوال کرتے ہیں۔ ’’یہ حالت صرف سندر بن کی نہیں ہے۔ یہ تو صرف بہانے ہیں۔ ہیلتھ سسٹم میں ہر قدم پر پریشانیاں ہیں، جنھیں دور کرنے کی ضرورت ہے، جن میں دیہی علاقے کے ڈاکٹروں کو درپیش مسائل بھی شامل ہیں۔‘‘


07-IMG_3492-US-In emergencies we are really stranded.jpg

موسونی جزیرہ میں ڈاکٹر کو دکھانے کا انتظار کرتے ہوئے مریض


دریں اثنا، سندر بن کے لوگ اپنی زندگی اور صحت کا جوکھم اٹھانے میں لگے ہوئے ہیں۔

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Urvashi Sarkar
urvashisarkar@gmail.com

Urvashi Sarkar is an independent journalist and a 2016 PARI Fellow.

Other stories by Urvashi Sarkar
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez