راجو چودھری ایک بہروپیا ہیں – مختلف شکلوں والا ایک شخص۔ چودھری کی عمر اب ۴۰ سال ہو چکی ہے، وہ ۱۴ سال کی عمر سے ہی اس فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ’’میں کافی طویل عرصے سے یہ کر رہا ہوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ہمارے اجداد بہروپیے تھے، اب میرے بچے بھی ہیں...‘‘

راجو کا تعلق بیدیا برادری سے ہے، یہ ایک درج فہرست قبیلہ (ایس ٹی) ہے جو مغربی بنگال کی ایس ٹی آبادی کا تقریباً ۵ء۸ فیصد ہے (مردم شماری ۲۰۱۱)۔ بیربھوم ضلع کے لب پور بلاک میں واقع ان کے گاؤں، بیشائے پور میں تقریباً ۴۰ بیدیا خاندان ہیں، اور یہ تمام روایتی طور پر بہروپیے ہیں۔

یہاں پیش کیے گئے ویڈیو میں، راجو نے ایک خیالی کردار، تارا سُندوری کا لباس پہن رکھا ہے۔ مقامی عقیدہ کے مطابق، یہ دیوی کالی کی ایک شکل ہے۔ اس کردار کے ذریعہ وہ بردوان کے راجہ کی کہانی بیان کرتے ہیں – یہ ایک برجستہ کہانی ہے، جسے بناوٹی الفاظ اور قافیوں میں بیان کیا جاتا ہے، ان میں سے کچھ بنگالی میں۔ مئی (۲۰۱۷، جب یہ فلم ان کے گاؤں میں بنائی گئی تھی) میں ۴۰ ڈگری سیلسیس سے زیادہ درجہ حرارت میں، وہ گھنگرو پہن کر پوری توانائی اور ترنم کے ساتھ ناچ اور گا رہے ہیں، جب کہ آہنگ کو برقرار رکھنے کے لیے لکڑی کی ایک چھڑی ان کے ہاتھ میں ہے۔

ویڈیو دیکھیں: بے چین گلوکار، دیوی دیوتاؤں کی شکل اختیار کرنے والا، داستان گو، رقص کرنے والا

روزانہ صبح کو، راجو اپنا میک اَپ خود کرتے ہیں – اس میں انھیں تقریباً ۳۰ منٹ لگتے ہیں – اور لباس پہنتے ہیں (جو اُن کے ذریعہ ادا کیے جانے والے مختلف کردار کے حساب سے بدلتا رہتا ہے)، پھر دورہ کرتے ہیں – جمعرات کو چھوڑ کر ہر دن – مختلف گاؤوں اور شہروں کا جہاں وہ گاؤں کی بھیڑ، میلوں، مذہبی پروگراموں، اور درگا پوجا، ہولی اور بنگالی نئے سال جیسے بڑے تہواروں کے موقع پر اسکٹ اور گانے پیش کرتے ہیں۔ وہ اور ان کی فیملی روزانہ ۲۰۰ سے ۴۰۰ روپے کماتے ہیں۔ بڑے میلوں کے دوران، یہ فیملی روزانہ ۱۰۰۰ روپے تک کما سکتی ہے۔

عام طور سے، وہ مغربی بنگال کے اندر ہی اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں، لیکن بعض دفعہ، راجو آسام، دہلی اور بہار بھی جا چکے ہیں۔ کبھی وہ بس سے سفر کرتے ہیں، تو کبھی ٹرین سے – اور اس میں بھی انھیں اپنا فن پیش کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اکثر، وہ روزانہ ۱۰ سے ۱۲ کلومیٹر چلتے ہیں۔ بعض دفعہ، اگر وہ کسی میلے میں جا رہے ہیں، تو اپنے ساتھ اپنی نو سالہ بیٹی پنچمی کو بھی لے جاتے ہیں۔ ہر پیشکش ایک گھنٹہ تک کی، اور بعض دفعہ دو گھنٹے تک کی بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد یہ سامعین سے پیسے مانگتے ہیں، پھر دن بھر کی برجستگی اور شخصیت کی نقالی کرنے کے بعد، دوپہر یا شام کو اپنے گھر واپس لوٹ جاتے ہیں۔

Raju posing with his family
PHOTO • Sinchita Maaji
Raju With make-up
PHOTO • Sinchita Maaji

بیشائے پور گاؤں میں راجو چودھری اپنی بیٹی پنچمی اور بیوی آشا کے ساتھ

پہلے زمانے میں، بہروپیے مختلف گاؤوں کے چکر لگایا کرتے اور رامائن اور مہابھارت کی کہانیاں سنایا کرتے تھے؛ بدلے میں کسانوں سے انھیں اناج ملتے تھے۔ اب زرعی آمدنی کم ہونے، کسان خاندانوں کی تیزی سے شہروں کی طرف منتقلی، اور ٹیلی ویژن پر تفریحی ذرائع آسانی سے دستیاب ہونے کی وجہ سے دیہی علاقوں میں بہروپیوں کی مانگ کم ہونے لگی ہے۔ اس لیے بہروپیوں کو پیسہ کمانے کے لیے مزید آگے کا سفر کرنا پڑتا ہے، کولکاتا، شانتی نکیتن، درگاپور اور دیگر شہروں تک۔

پہلے زمانے میں، وہ رامائن، مہابھارت اور دیگر افسانوں کے کردار ادا کرتے تھے، یا سماجی طور سے ترقی پذیر پیغام پر مبنی کہانیاں سناتے تھے، جیسے بچپن کی شادی کا خاتمہ؛ اب بہروپیے اکثر اپنی پیشکش میں بنگالی فلم کے گانے اور جوک شامل کر دیتے ہیں، تاکہ سامعین کو متوجہ کیا جا سکے۔ تقریباً دو دہائی قبل، راجو چودھری نے بھی ایسے اسکٹ تیار کرنے شروع کیے، جس میں افسانوی کہانیاں، بادشاہتوں کی تاریخ اور مشہور بنگالی فلموں کے گانے شامل ہوتے۔ روایتی ترکیب اور ان کے فن کی گہرائی ختم ہو چکی ہے۔

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Sinchita Maji

Sinchita Maji is a Senior Video Editor at the People’s Archive of Rural India, and a freelance photographer and documentary filmmaker.

Other stories by Sinchita Maji
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez