اُپّل پروین کمار کو پایڈیپاکا گاؤں سے نقل مکانی پر مجبور کیے جانے کے بعد دو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن اب بھی وہ اس مکان کی راہ دیکھ رہے ہیں، جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔ اس دوران انہیں بار بار اپنا ٹھکانہ بدلنا پڑا: پہلے اسکول میں پناہ لی، پھر کرایے کے مکان میں رہے اور اس کے بعد والدین کے گھر میں ڈیرہ جمایا اور آخر میں خیمہ نصب کرنا پڑا۔

وہ کہتے ہیں، ’’ہم نے مئی اور جون کے پہلے دو مہینے حکم پیٹا کے ضلع پریشد ہائی اسکول میں گزارے۔ اسکول دوبارہ کھل گیا اور کلاسوں میں پڑھائی کے لیے اس جگہ کو خالی کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔‘‘

وہ مالا برادری کے ان ۳۰ دلت کنبوں میں سے ایک ہیں، جن کو پایڈیپاکا سے تقریباً ۲۰  کلومیٹر دور گوپال پورم منڈل کے حکم پیٹا میں مکان دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ تیس میں سے ۲۴ کو چھوٹے اور ادنیٰ درجے کے مکان الاٹ کیے گئے ہیں، جبکہ چھ ابھی تک اپنے مکان کا انتظار کر رہے ہیں۔ پروین کا کنبہ ان ۴۲۰ کنبوں میں شامل ہے جنہیں ۲۰۱۶ کے موسم گرما میں مغربی گوداوری ضلع کے پولاورم منڈل کے پایڈیپاکا سے بے دخل کیا گیا تھا۔

جو چھ کنبے ابھی تک اپنے مکانات کا انتظار کر رہے ہیں ان میں اپنے والدین کے ساتھ پایڈیپاکا میں رہنے والے نئے شادی شدہ افراد بھی شامل ہیں۔ تحویل اراضی، باز آباد کاری اور باز رہائش (ایل اے آر آر) قانون، ۲۰۱۳ کے مطابق، (پروجیکٹ سے متاثرہ گاؤں میں رہنے والے) ہر شادی شدہ بالغ کو ایک علیحدہ کنبہ تسلیم کرتے ہوئے اسے باز آبادکاری اور باز رہائش (آر اینڈ آر) پیکیج کے طور  پر ایک گھر اور یک مشت رقمی معاوضہ دیا جانا چاہیے۔ ۲۳ سالہ پروین کی شادی ۲۲ سالہ انیتا سے ہوئی ہے اور ان کے دو بیٹے ہیں، جن کی عمر تین سال اور ایک سال ہے۔

Praveen Kumar works as an agricultural labourer. He goes to the nearby forests and pick up bamboo sticks and make baskets. He takes three days to make one such basket – one day for getting the bamboo from the forests and two for making the basket. He needs three bamboo sticks, of the size he is holding, to make one basket
PHOTO • Rahul Maganti

پروین کمار کا کنبہ دو سال سے حکم پیٹا میں مکان الاٹ کیے جانے کا انتظار کر رہا ہے۔ پروین کبھی کبھی ٹوکریاں بناتے ہیں اور پولاورم شہر میں فروخت کرتے ہیں

کچھ عرصے کے لیے پروین نے حکم پیٹا سے ۸-۱۰ کلومیٹر دور پولاورم شہر میں دو کمروں کا مکان ۳۰۰۰ روپے ماہانہ کرایے پر لیا تھا۔ انہیں امید تھی کہ یہاں کوئی کام مل جائے گا۔ وہ کہتے ہیں، ’’لیکن مزید کرایہ ادا کرنے کی مجھ میں استطاعت نہیں تھی، کیونکہ نقل مکانی کے بعد میں نے اپنا ذریعہ معاش بھی کھو دیا تھا۔‘‘ پایڈیپاکا میں، پروین ایک زرعی مزدور کے طور پر کام کرتے تھے اور شہد، لکڑی اور دیگر جنگلاتی پیداوار جمع کرکے فروخت کرتے تھے۔

کچھ دنوں کے لیے انہوں نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ آر اینڈ آر کالونی میں اپنے والدین کو الاٹ کیے گئے مکان میں رہائش اختیار کرنے کی کوشش کی۔ لیکن پورے کنبے کے لیے یہ مکان کافی چھوٹا تھا۔ اب وہ حکم پیٹا میں ترپال کے خیمے میں رہتے ہیں۔

پروین کہتے ہیں، ’’یہاں کرنے کے لیے کوئی کام نہیں ہے۔‘‘ اس لیے وہ ۱۵-۲۰ کلومیٹر دور قریبی بستیوں میں کھیتوں میں مزدوری کی تلاش میں جاتے ہیں۔ انہیں یومیہ اجرت کے طور پر ہفتے میں۲-۳ دفعہ ۲۰۰ روپے ملتے ہیں۔ ان میں سے ۷۰-۸۰ روپے کھیتوں تک سفر کے مد میں مشترکہ آٹو یا ٹریکٹر کے کرایے پر خرچ ہو جاتے ہیں۔ جب یہ کام دستیاب نہیں ہوتا ہے تو وہ ٹوکریاں بُنتے ہیں۔ پروین وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’[قریبی جنگلوں سے] بانس لانے میں ایک دن کا وقت لگتا ہے اور ٹوکریاں تیار کرنے میں دو دن لگتے ہیں۔ اور میں تین دن کے کام سے [پولاورم شہر میں ٹوکریاں بیچ کر] صرف ۲۰۰ روپے کماتا ہوں۔‘‘

نقل مکانی سے پہلے تمام کنبوں کو ایک آراستہ گھر، آر اینڈ آر کالونی کے قریب زمین، کام کے مواقع، اور ۸ء۶ لاکھ روپے معاوضہ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا (یہ رقم باز آبادکاری پیکیج کے ایک حصے کے طور پر دی جانی تھی، جس کا انحصار اس بات پر تھا کہ گاؤں کے لوگ حکومت کے ساتھ کیسے سودا طے کرتے ہیں)۔ تاہم، دو سال گزرنے کے بعد بھی بے گھر ہوئے ۴۲۰ کنبوں کے لیے ان میں سے بہت سے وعدے پورے نہیں ہو سکے ہیں۔ گاؤں والوں کا اندازہ ہے کہ کم از کم ۵۰ کنبوں کو ابھی تک مکان نہیں ملے ہیں۔ وہ یا تو کرایے کے مکانوں میں رہ رہے ہیں یا پھر پروین کی طرح ترپال کے خیموں میں۔

The small and unfurnished houses in the Pydipaka R&R colony
PHOTO • Rahul Maganti
The small and unfurnished houses in the Pydipaka R&R colony
PHOTO • Rahul Maganti

جن کنبوں کو حکم پیٹا میں مکانات ملے ہیں ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ مکانات توقع سے بہت چھوٹے اور ادنیٰ درجے کے ہیں، اور بارش میں چھت ٹپکنے لگتی ہے

تقریباً ۵۵۰۰ کی آبادی والا پایڈیپاکا ان سات گاؤوں میں سے ایک ہے جو پولاورم پروجیکٹ – سرکاری نام اندرا ساگر کثیرالمقاصد پروجیکٹ – سے متصل ہیں۔ یہاں کے باشندوں کو ۲۰۱۶ میں نقل مکانی پر مجبور کیا گیا تھا۔ جب پولاورم پروجیکٹ کی تعمیر مکمل ہو جائے گی تو آندھرا پردیش کے نو منڈلوں میں گوداوری کے کنارے آباد کم از کم ۴۶۲ گاؤوں غائب اور ۸۰ ہزار سے زیادہ کنبے بے گھر ہو جائیں گے۔ لیکن حکومت نے اب تک تمام آر اینڈ آر کالونیوں میں صرف ۱۰۰۰ مکانات تعمیر کرائے ہیں، یہ دعویٰ ہے وینکٹ راؤ کا، جو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے پولاورم منڈل کے سکریٹری ہیں۔

اب تقریباً ویران ہو چکے پایڈیپاکا گاؤں (دیکھیں پایڈیپاکا کنبے: اور وہاں صرف دس بچ گئے ) کو چار آر اینڈ آر کالونیوں میں منقسم کیا گیا تھا- پولاورم اور حکم پیٹا گاؤوں میں ایک ایک اور جنگا ریڈی گوڈیم منڈل میں دو۔ سبھی دلتوں کو حکم پیٹا میں مکانات دیے گئے، جبکہ جنگا ریڈی گوڈیم کی ایک کالونی میں پسماندہ ذاتوں کو اور دوسری میں اعلیٰ ذاتوں کو مکانات الاٹ کیے گئے ہیں۔ پولاورم میں آر اینڈ آر کالونی کا نام آندھرا پردیش کے وزیر اعلی چندرا بابو نائیڈو کے نام سے موسوم کیا گیا تھا اور اس کے مکانات حکمراں تیلگو دیشم پارٹی سے وابستہ کارکنوں اور گاؤں والوں کو دیے گئے تھے۔ رپاکا وینکٹیش کہتے ہیں، ’’یہ واضح طور پر ذات پات کی بنیاد پر الگ تھلگ کرنے کی کوشش ہے۔‘‘ ۲۴ سالہ رپاکا وینکٹیش ایک زرعی مزدور ہیں، جو خود حکم پیٹا میں منتقل ہو گئے تھے۔

پایڈیپاکا میں پروین کے والد ویراسوامی کے پاس دو ایکڑ مالیہ اراضی (ریونیو لینڈ) تھی اور وہ پوڈو (جنگل) کی ایک ایکڑ زمین پر کاشتکاری کرتے تھے۔ ایل اے آر آر کی رو سے دلتوں اور آدیواسیوں سے تحویل میں لی گئی زمین کے برابر زمین دی جانی چاہیے، جب کہ دوسری ذاتوں کو بطور معاوضہ زمین کی قیمت دی جا سکتی ہے۔ سال ۲۰۰۶ کا حقوق جنگلات قانون ’’جنگل میں رہائش پذیر درج فہرست قبائل (…جو بنیادی طور پر جنگل میں رہائش پذیر ہوں اور جو اپنی حقیقی روزی روٹی کی ضروریات کے لیے جنگلات یا جنگل کی زمینوں پر انحصار کرتے ہوں…)‘‘ اور ’’جنگل کے دوسرے روایتی باشندوں‘‘ کے لیے جو ۲۰۰۵ سے پہلے کم از کم تین نسلوں (۷۵ سال) سے ’’بنیادی طور پر جنگل یا جنگل کی زمین پر رہائش پذیر ہوں اور جنگل پر انحصار کرتے ہوں، کے لیے جنگل کی زمین کو پٹوں کی ملکیت یا لیز میں تبدیل کرنے کا حق دیتا ہے۔‘‘

لیکن، ویراسوامی کہتے ہیں، ’’میرے معاوضہ سے پہلو تہی کرنے کے لیے انہوں نے مجھے جنگل کی زمین کا پٹّہ [مالکانہ حق] نہیں دیا۔ دو ایکڑ مالیہ زمین [کے بدلے انہیں زمین کا جو دوسرا قطعہ ملا وہ] ریتیلی اور پتھریلی ہے۔ آبپاشی کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے یہ زمین زراعت کے لیے بمشکل موزوں ہے۔ جب ہم نے یہ مسئلہ منڈل ریونیو آفیسر کے سامنے اٹھایا تو انہوں نے ہمیں ریت بیچ کر روزی روٹی کمانے کا مشورہ دیا۔‘‘

The small and unfurnished houses in the Pydipaka R&R colony
PHOTO • Rahul Maganti
Rapaka Devaschamma, mother of Rapaka Venkatesh, in front of the house she constructed with bamboo in the Resettlement Colony of Pydipaka. The government is supposed to give her a concrete house but hasn't given one till date.
PHOTO • Rahul Maganti

بائیں: حکم پیٹا میں ایک کھلے ’نئے‘ گھر میں پلی رامولمّا۔ دائیں: فیملی کے ذریعہ بنائی گئی جھونپڑی کے سامنے رپاکا وینکٹیش کی ماں دیواسچمّا

آر اینڈ آر کالونی میں جو تعمیر شدہ مکانات ہیں وہ بھی ناکافی ہیں۔ ویراسوامی کہتے ہیں، ’’وہ ماچس کے سائز کے اور ناقص معیار کے مکانات ہیں۔ [پایڈیپاکا میں] صرف ہمارا برآمدہ حکومت کی جانب سے الاٹ کیے گئے مکانات سے دوگنا تھا۔ یہی نہیں، برسات کے موسم میں، ہمیں ٹپکتے ہوئے قطروں کو روکنے کے لیے کٹورا لے کر اندر بیٹھنا پڑتا ہے۔‘‘

رپاکا وینکٹیش مزید کہتے ہیں، ’’ہم دلت ہیں اس لیے ہمیں دوسرے درجے کا شہری سمجھا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے گھر [ابھی سے] ٹوٹنا شروع ہو گئے ہیں اور ہماری زمین کے [نئے قطعے] ریتیلے ہیں۔‘‘

وعدہ فراموشی اور کم ہوتے روزگار کے مواقع کی کہانیاں تمام آر اینڈ آر کالونیوں میں گونج رہی ہیں۔ لیکن پایڈیپاکا سے ندی کے منبع کی جانب واقع سات دیہاتوں میں سے ایک دیورا گونڈی کو بھی کئی دوسرے مسائل کا سامنا ہے۔ دیورا گونڈی تقریباً ۱۳۰ کویا برادری کے کنبوں پر مشتمل ایک آدیواسی بستی ہے، جو آندھرا پردیش کے پانچویں شیڈول علاقوں کا ایک حصہ تھا۔ یہ بنیادی طور پر قبائلی علاقے ہیں جہاں ہندوستان کا آئین تاریخی اور اقتصادی عدم توازن کو دور کرنے کے لیے خصوصی توجہ دیتے ہوئے کچھ حقوق فراہم کرتا ہے۔ تاہم، دیورا گونڈی کے باشندوں کی باز آبادکاری ایک غیر پانچویں شیڈول علاقے میں کی گئی، جس کی وجہ سے وہ انٹیگریٹڈ ٹرائبل ڈیولپمنٹ ایجنسی کے قرضوں اور فنڈز کے حصول اور پانچویں شیڈول کے علاقوں کو ملنے والے دیگر مراعات سے محروم ہو جائیں گے۔

Karam Chellayamma and Varasa Bucchamma in the verandah of their house which they themselves built in the Devaragondi R&R Colony after the Government just showed them land
PHOTO • Rahul Maganti

کارم چیل یمّا (بائیں)، ان کی پڑوسی ورسا بچھمّا، اور ان کے کنبوں کو دیورا گونڈی کی آر اینڈ آر کالونی میں منتقل کر دیا گیا تھا

کارم چیل یمّا مئی-جون ۲۰۱۶ میں اپنے شوہر، بیٹے اور بیٹی کے ساتھ دیورا گونڈی سے تقریباً ۱۵ کلومیٹر دور ان کے گاؤں کے لیے دوبارہ بسائی گئی کالونی میں منتقل ہوئیں۔ الاٹ کیے گئے مکان کے سائز اور معیار سے ناخوش، اس فیملی نے ۵ لاکھ روپے سے زائد کی لاگت سے ایک اور گھر بنا لیا ہے۔ اس کے لیے کچھ رقم ان کی بچت سے آئی تھی اور کچھ آر اینڈ آر پیکیج کے تحت جزوی طور پر ملی تھی۔ ۳۰ سالہ چیل یمّا بتاتی ہیں، ’’لیکن مکان بنانے کے لیے مجھے [پولاورم میں ساہوکاروں سے] ۳۶ فیصد کی شرح سود پر ۲ لاکھ روپے کا قرض لینا پڑا۔‘‘ وہ جنگل کی زمین پر کھیتی کرتی ہیں اور جنگلات کی پیداوار جمع کرتی ہیں۔ انہیں نہ تو زمین کے بدلے زمین الاٹ ہوئی ہے اور نہ ہی فی کنبہ ۵ء۳ لاکھ روپے کے باز آبادکاری پیکیج کی پوری رقم ملی ہے۔

۶۰ سالہ بوراگم جگا راؤ کہتے ہیں، ’’[دیورا گونڈی] گاؤں میں کل ۵۰۰ ایکڑ جنگلاتی زمینیں ہیں، جبکہ بمشکل ۱۰ ایکڑ کے پٹّے دیے گئے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ باقی دعوے زیر التوا ہیں۔ یہاں تک کہ ان ۱۰ ایکڑ میں بھی زمین کے بدلے زمین الاٹ نہیں کی گئی ہے۔‘‘ انہیں بھی دیورا گونڈی کی آر اینڈ آر کالونی میں منتقل ہونے پر مجبور کیا گیا تھا۔ جگا راؤ کے پاس تین ایکڑ مالیہ زمین ہے اور مزید چار ایکڑ جنگلاتی زمین پر کاشت کرتے ہیں۔ انہیں آر اینڈ آر کالونی سے ۲۰ کلومیٹر دور گنجاورم میں صرف تین ایکڑ کا متبادل پلاٹ دیا گیا تھا۔ وہ زمین پتھروں اور ریت سے بھری پڑی ہے اور کاشت کے لیے ناموزوں ہے۔

گرام سبھا کی متعدد قراردادوں اور وزارت کو لکھے گئے خطوط کے مطابق، حکومت آندھرا پردیش نے ۲۰۰۹ میں (اس وقت کے) کھمم، مغربی گوداوری اور مشرقی کرشنا اضلاع میں ۱۰ ہزار ایکڑ سے زیادہ کی زمین کی منتقلی کے لیے وزارت ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کو غلط اعداد و شمار پیش کر کے جنگلات کی منظوری حاصل کی تھی۔

جگا راؤ کہتے ہیں، ’’ہم املی، شہد، گوند اور جنگل کی دوسری پیداوار حاصل کرتے تھے، جو یہاں نہیں ملتی ہیں۔ چیل یمّا کہتی ہیں، ’’ہم نے پہاڑیوں اور پتھروں کی شکل میں اپنے قبائلی دیوتاؤں اور ثقافتی دیوتاؤں کو بھی کھو دیا ہے۔‘‘ وہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اب تہواروں اور خاص موقعوں پر دیوتاؤں کی عبادت کی غرض سے اپنے پرانے گاؤں جاتی ہیں۔

اس دوران پولاورم پروجیکٹ لاکھوں دیگر خاندانوں کی زندگیوں اور ان کے ذریعہ معاش کے درمیان سے اپنا راستہ بنا رہا ہے۔

مترجم: شفیق عالم

Rahul Maganti

Rahul Maganti is an independent journalist and 2017 PARI Fellow based in Vijayawada, Andhra Pradesh.

Other stories by Rahul Maganti
Editor : Sharmila Joshi

Sharmila Joshi is former Executive Editor, People's Archive of Rural India, and a writer and occasional teacher.

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Shafique Alam
shafique.aalam@gmail.com

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam