’’یہ بانس گیت ہمارے بزرگ لمبے عرصے سے گاتے آ رہے ہیں،‘‘ پنچ رام یادو نے مجھے بتایا، جب وسطی چھتیس گڑھ کے بھیلائی شہر میں منعقد مقامی موسیقاروں کے سالانہ میلہ میں میری ان سے ملاقات ہوئی تھی۔

کچھ سال پہلے مئی کے مہینہ میں اُس میلہ میں ٹہلتے ہوئے، گیت کی گونجتی آوازوں نے مجھے اپنی جانب متوجہ کیا۔ تین آدمی ایک لمبے، پورے طرح سجائے گئے گول آلہ موسیقی، بانس باجا بجا رہے تھے۔ اسے یادو ذات کے ایک او بی سی ذیلی گروپ، راؤت کے مردوں کے ذریعہ خاص طور سے چھتیس گڑھ کے دُرگ (جہاں بھیلائی شہر واقع ہے)، بالود، دھمتری، گریابند، کانکیر اور مہاسمند ضلعوں میں بجایا جاتا ہے۔

تقریباً ۵۰ اور ۶۰ سال کی عمر کے تینوں موسیقار جہاں ایک طرف اس آلہ موسیقی کو بجا رہے تھے، وہیں ان کے کچھ ساتھی گلوکار یکساں طور پر گونجتی آوازوں میں بھگوان کرشن اور دیگر مشہور چرواہوں کے گیت گا رہے تھے۔

چار سے پانچ فٹ لمبا بانس باجا روایتی طور سے گوالوں کا آلہ موسیقی رہا ہے۔ فنکار (برادری کے صرف مرد ہی اس آلہ موسیقی کو بجاتے ہیں) عام طور پر باجا خود بناتے ہیں، کئی بار مقامی بڑھئی کی مدد سے – صحیح بانس کا انتخاب کرنے سے لیکر اسے تیار کرنے تک، پھر اس میں چار سوراخ کرتے ہیں اور آلہ موسیقی کو اونی پھولوں اور رنگین کپڑوں سے سجاتے ہیں۔

ویڈیو دیکھیں – بانس گیت اور باجا: چھتیس گڑھ کے گائے کے چرواہوں کی دھن

روایتی پیشکش میں دو بانس باجا بجانے والے کے ساتھ ایک داستان گو اور ایک راگی ہوتا ہے۔ داستان گو جب گاتا اور کہانی سناتا ہے، تب راگی اپنے جوشیلے الفاظ یا جملوں سے موسیقاروں اور داستان گو- گلوکار کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ پیشکش سے پہلے سرسوتی، بھیرو، مہامایا اور گنیس جیسے دیوی دیوتاؤں کی پرارتھنا کی جاتی ہے، اس کے بعد کہانی سنانے کی شروعات ہوتی ہے۔ کہانی کی بنیاد پر، یہ پیشکش آدھے گھنٹہ سے تین گھنٹے تک اور روایتی طور پر پوری رات بھی چل سکتا ہے۔

بالود ضلع کے گُنڈردیہی بلاک کے سرّی گاؤں کے پنچ رام یادو طویل عرصے سے بانس باجا بجانے والوں کے ساتھ ان کے فنی مظاہرہ میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ ’’ہمیں اپنی وراثت کو بچانا ہوگا اور اپنی نئی نسل کو اس سے متعارف کرانا ہوگا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ لیکن بتاتے ہیں کہ ان کی برادری کے نوجوان، جنہوں نے تعلیم حاصل کر لی ہے، اس روایت میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں ہے، اور صرف بزرگ ہی بانس گیت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

آج کل کے نوجوان اسے پسند نہیں کرتے،‘‘ پڑوسی گاؤں، کنکوٹ کے سہدیو یادو کہتے ہیں۔ ’’ان روایتی چھتیس گڑھی گیتوں کی بجائے فلمی گیتوں میں ان کی زیادہ دلچسپی ہے۔ بانس گیت میں، ہم مختلف مواقع پر روایتی دادریا، کرما اور دیگر گیت گاتے تھے۔ لوگوں کے ذریعے مدعو کیے جانے پر ہم مختلف جگہوں پر جاتے تھے۔ لیکن نئی نسل اس کے تئیں نا امید ہے۔ اب ہمیں شاید ہی کوئی دعوت ملتی ہے۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ہماری موسیقی کو ٹیلی ویژن پر بھی فروغ دیا جائے۔‘‘

کئی بار، منڈلی کو اب بھی کسی ثقافتی تقریب میں پیشکش کے لیے سرکاری دفتر سے یا یادو برادری کے پروگراموں کے لیے کبھی دعوت مل جاتی ہے، جس کے لیے انہیں معمولی پیسے ملتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی باجا اور گیت سے ہونے والی آمدنی پر منحصر نہیں رہ سکتا ہے۔ کچھ موسیقاروں کے پاس زمین کے چھوٹے ٹکڑے ہیں، لیکن ان میں سے زیادہ تر لوگ معاش کے لیے مویشی چراتے ہیں۔ ’’اگر کوئی ہمیں مدعو کرتا ہے، تو ہم وہاں جاتے ہیں، کیوں کہ یہ بانس گیت ہماری وراثت ہے،‘‘ پنچ رام یاد کہتے ہیں۔ ’’اس لیے ہم اسے گانا کبھی بند نہیں کریں گے۔‘‘

Left: Baans vaadak Babulal Yadav. Right: Babulal Yadav (middle) and Sahadev Yadav (right), who says, 'Now we get rarely any invitations'
PHOTO • Purusottam Thakur
Left: Baans vaadak Babulal Yadav. Right: Babulal Yadav (middle) and Sahadev Yadav (right), who says, 'Now we get rarely any invitations'
PHOTO • Purusottam Thakur

بائیں: بانس باجا بجانے والے بابو لال یادو۔ دائیں: بابو لال یادو (درمیان میں) اور سہدیو یادو (دائیں) کہتے ہیں، ’اب ہمیں شاید ہی کوئی دعوت ملتی ہے‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Purusottam Thakur
purusottam25@gmail.com

Purusottam Thakur is a 2015 PARI Fellow. He is a journalist and documentary filmmaker. At present, he is working with the Azim Premji Foundation and writing stories for social change.

Other stories by Purusottam Thakur
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez