پھاٹ!

یہ تُپکی سے نکلی پینگ پھلی کی گولی کی آواز ہے۔ پینگ اور تُپکی ، چھتیس گڑھ کے جگدل پور شہر میں منعقد ہونے والے گونچا تہوار میں علامتی طور پر سلامی پیش کرنے کے کام آتے ہیں۔

تُپکی ایک قسم کی ’بندوق‘ ہے، جو بانس کی نلی (بیرل) سے بنتی ہے اور اس میں ایک جنگلی پھل – پینگ کو کارتوس یا گولی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ’بندوقیں‘ اس مقبول تہوار کے موقع پر بھگوان جگن ناتھ کے ’رتھ‘ کے پاس سلامی کے طور پر داغی جاتی ہیں۔ جولائی کے مہینہ میں منعقد ہونے والا یہ تہوار ریاست کے بستر علاقے کے ہزاروں لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔

جگدل پور کے رہنے والے ونمالی پانیگرہی بتاتے ہیں، ’’گونچا تہوار کے موقع پر لوگ آس پاس کے گاؤوں سے بڑی تعداد میں آتے ہیں اور کم از کم ایک تُپکی ضرور خریدتے ہیں۔‘‘ ان کی یادداشت میں ایسا کوئی رتھ نہیں ہے جسے نکالنے کے دوران تُپکی کا استعمال نہ ہوا ہو۔

گولی یا کارتوس کی طرح استعمال کیا جانے والے پینگ گول چھوٹا سا سبز و زرد رنگ کا ایک پھل ہے، جو ایک لمبی بیل – ملکانگنی (سیلاسٹرس پینی کیولیٹس ولڈ) میں گچھوں میں اگتا ہے۔ یہ پھل ارد گرد کے جنگلوں میں کثرت سے ملتا ہے۔

ایسے تو گونچا تہوار، پوری میں بھی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے لیکن تپکی اور پینگ کے ذریعے دی جانے والی سلامی کی روایت بستر علاقے میں منائے جانے والے گونچا کو مخصوص بناتی ہے۔ کسی زمانے میں بانس کی بنی یہ بندوق جانوروں کو جنگل میں بھگانے کے کام آتی تھی۔

Lord Jagannath being brought down from the rath by priests of the temple in Jagdalpur, Chhattisgarh
PHOTO • Vijaya Laxmi Thakur
Devotees swarm around the rath.
PHOTO • Vijaya Laxmi Thakur
Sonsaay Baghel wrapping palm leaves around the hollow bamboo to decorate a tupki.
PHOTO • Vijaya Laxmi Thakur
Armed with a tupki and a peng, a devotee gets ready to fire!
PHOTO • Vijaya Laxmi Thakur

اوپر بائیں: بھگوان جگن ناتھ کو جگدل پور، چھتیس گڑھ کے مندر کے پجاریوں کے ذریعے رتھ سے نیچے اتارا جا رہا ہے۔ اوپر دائیں: رتھ کے چاروں طرف جمع عقیدت مندوں کی بھیڑ۔ نیچے بائیں: تپکی کو خوبصورت بنانے کے لیے سونسائے بگھیل کھوکھلے بانس پر تاڑ کے پتّے لپیٹ رہے ہیں۔ نیچے دائیں: تپکی اور پینگ سے لیس ایک عقیدت مند گولی داغنے کے لیے تیار ہے

جمواڑہ گاؤں کے رہنے والے ۴۰ سالہ سونسائے بگھیل بانس کے کاریگر کے علاوہ ایک کسان بھی ہیں۔ ان کا تعلق دھوروا آدیواسی برادری سے ہے اور جولائی میں منعقد ہونے والے تہوار کے کچھ ہفتے پہلے سے، یعنی جون کے مہینہ سے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر تپکی بنانے کے کام میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’ہر سال تہوار سے پہلے ہم تپکی بنانے کا کام شروع کر دیتے ہیں۔ ہم پہلے سے ہی جنگل سے بانس اکٹھا کرکے انہیں خشک کر لیتے ہیں۔‘‘

تپکی ’بندوق‘ کو کلہاڑی اور چاقو کی مدد سے بانس کے ایک لمبے ٹکڑے کو کھوکھلا کرکے بنایا جاتا ہے۔ پھر اس کے اوپر رنگ برنگے پتے اور الگ الگ قسم کے کاغذ لپیٹے جاتے ہیں، تاکہ تپکی دیکھنے میں خوبصورت لگے۔

سونسائے بتاتے ہیں، ’’ہم جنگل سے پکنے کے بعد پینگ پھل اکٹھا کرتے ہیں۔ مارچ کے بعد یہ پھل آنے لگتے ہیں اور بازاروں میں عموماً ۱۰ روپے فی گچھے کے حساب سے فروخت ہوتے ہیں۔ ایک گچھے میں تقریباً ۱۰۰ پینگ ہوتے ہیں۔‘‘ ان کے مطابق، ’’یہ ایک ادویاتی پھل ہے۔ اس کے تیل کو جوڑوں کے درد (گٹھیا) کے لیے بہت مفید بتایا جاتا ہے۔‘‘ ایک اچھا کارتوس تو یہ ہے ہی۔

تُپکی بنانا اور بیچنا اس علاقے کے بہت سے لوگوں کے لیے ان کی سالانہ آمدنی کا ایک ذریعہ ہے۔ تہوار کے وقت ہر گاؤں میں اچھی خاصی تعداد میں تُپکی بنانے والے کاریگر دکھائی دینے لگتے ہیں۔ ایک تپکی ۳۵ سے ۴۰ روپے میں فروخت ہوتی ہے اور بگھیل اپنے گاؤں سے تقریباً ۱۲ کلومیٹر کا سفر طے کرکے انہیں بیچنے کے لیے جگدل پور شہر جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تین دہائی پہلے ایک تپکی کی قیمت صرف دو روپے ہوا کرتی تھی۔

بگھیل، بستر ضلع کی جگدل پور تحصیل میں اپنی چار ایکڑ زمین پر دھان کی کھیتی کرتے ہیں، جو پوری طرح سے مانسون پر منحصر ہے۔ سال ۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق، ان کے گاؤں جمواڑہ کے ۷۸۰ کنبوں میں ۸۷ فیصد لوگ دھوروا اور ماریا آدیواسی برادریوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

Women selling panas kua (ripe jackfruit) at the Goncha festival. It’s a popular offering to Lord Jagannath
PHOTO • Vijaya Laxmi Thakur

گونچا تہوار کے موقع پر پنس کوا (پکا ہوا کٹہل) بیچتی ہوئی عورتیں۔ یہ بھگوان جگن ناتھ کو چڑھایا جانے والا ایک مقبول نذرانہ ہے

Craftsmen working on building a new rath (chariot) in Jagdalpur town. Raths are made using sal and teak wood.
PHOTO • Vijaya Laxmi Thakur
As the rath nears Shirasar Bhavan in Jagdalpur, devotees rush towards it
PHOTO • Vijaya Laxmi Thakur

بائیں: جگدل پور شہر میں ایک نیا رتھ بنانے میں مصروف کاریگر۔ رتھ عموماً سال اور ساگون کی لکڑی سے بنائے جاتے ہیں۔ دائیں: جگدل پور میں شیراسر بھون کے قریب پہنچتا ہوا رتھ اور درشن کے لیے امڈا عقیدت مندوں کا ہجوم

گونچا تہوار کے شروع ہونے کی کہانی بھگوان جگن ناتھ کی کہانی سے جڑی ہوئی ہے۔ چالوکیہ شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے راجہ پروشوتم دیو ایک بار بھگوان جگن ناتھ کو سونے اور چاندی کا نذرانہ چڑھانے پوری گئے۔ نذرانہ سے خوش ہو کر پوری کے راجہ کی ہدایت پر جگن ناتھ مندر کے پجاریوں نے پرشوتم دیو کو تحفے میں ۱۶ پہیوں کا ایک رتھ دیا۔

بعد میں سال اور ساگون کی لکڑیوں سے بنا وہ لمبا چوڑا رتھ کئی حصوں میں تقسیم ہو گیا اور اس کے چار پہیے بستر میں بھگوان جگن ناتھ کو چڑھا دیے گئے۔ بعد میں، یہ بستر کی رتھ یاترا یا گونچا تہوار کے طور پر جانا جانے لگا۔ (باقی بچا ۱۲ پہیوں کا رتھ ماتا دنتیشوری کو چڑھا دیا گیا تھا۔)

یہ پرشوتم دیو ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے تُپکی کو دیکھا اور اسے گونچا تہوار میں استعمال کیے جانے کی اجازت دی۔ اس تہوار میں بھگوان جگن ناتھ کو پنس کوا (ہلبی زبان میں جس کا مطلب پکا ہوا کٹہل ہوتا ہے) کا پرساد چڑھایا جاتا ہے۔ جگدل پور شہر کے گونچا تہوار میں پکا ہوا کٹہل بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتا ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Thamir Kashyap

Thamir Kashyap is a reporter, documentary photographer and filmmaker based in Chhattisgarh. He belongs to the Raj Muria Adivasi community, and has a postgraduate diploma in Radio & TV Journalism from the Indian Institute of Mass Communication, Delhi.

Other stories by Thamir Kashyap
Photographs : Vijaya Laxmi Thakur

Vijaya Laxmi Thakur is a photographer based in Chhattisgarh.

Other stories by Vijaya Laxmi Thakur
Editor : Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. A journalist and teacher, she also heads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum, and with young people to document the issues of our times.

Other stories by Priti David
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez