’’یہاں کی ہلبی اور گونڈی زبانوں میں اسے گھوڑونڈی کہتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے گھڑسواری۔ اس چھڑی کے ساتھ جب آپ چلتے یا دوڑتے ہیں، تو آپ کو گھوڑے کی سواری کرنے جیسا محسوس ہوتا ہے،‘‘ کیبائب لینگا (مردم شماری میں کیوائب لینگا کے طور پر درج) کے ساکن اور ٹیچر، گوتم سیٹھیا کہتے ہیں۔

چھتیس گڑھ کے بستر علاقے میں کونڈا گاؤں ضلع کے کونڈا گاؤں بلاک کے اس گاؤں کی جھگڑہِن پارہ بستی میں، نوعمر لڑکے – میں نے کسی بھی لڑکی کو یہاں گھوڑونڈی کے ساتھ کھیلتے ہوئے نہیں دیکھا ہے – ہریلی اماوَسیا (جولائی- اگست کے آس پاس) کے مبارک دن چھڑی کی سواری کرتے ہیں۔ یہ سواری اور کھیل اگست- ستمبر میں گنیش چترتھی کے فوراً بعد، نیاکھانی (یا چھتیس گڑھ کے دیگر حصوں میں نواکھانی) تک جاری رہتا ہے۔

ویڈیو دیکھیں – گھوڑونڈی: بستر کا مزیدار توازن بنانے کا کھیل

’’ہم بھی اس کے ساتھ خوب کھیلتے تھے،‘‘ مقامی سطح پر بنائے گئے اس پوگو- اسٹِک کے بارے میں گوتم کہتے ہیں، جسے چھتیس گڑھ اور اوڈیشہ کے دیگر حصوں میں گیڈی بھی کہا جاتا ہے۔ ’’ہم اسے خود بناتے تھے [عام طور پر سال یا کاڑا کی لکڑی سے]۔‘‘

بچے کے سائز اور ہنر کی بنیاد پر، پیر رکھنے والا حصہ الگ الگ اونچائیوں پر فٹ کیا جاتا ہے – توازن بنانا وہ گرکر اور اٹھ کر، اور دوسروں کو دیکھ کر، یا مقامی ڈانسرز کو دیکھ کر سیکھتے ہیں، جو اپنے مظاہرہ میں ان چھڑیوں کا استعمال کرتے ہیں۔

یہاں پر نیاکھانی کے دوسرے دن، لوگ گھوڑونڈی کے علامتی دیوتا کی پوجا کرتے ہیں، ایک مقام پر سبھی چھڑیاں جمع کرتے ہیں اور مقامی روایتوں کے مطابق انہیں توڑتے ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Purusottam Thakur
purusottam25@gmail.com

Purusottam Thakur is a 2015 PARI Fellow. He is a journalist and documentary filmmaker. At present, he is working with the Azim Premji Foundation and writing stories for social change.

Other stories by Purusottam Thakur
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez