’’ چالون، چالون ، میں جنم لے رہے بچے کو ماں کے پیٹ سے باہر نکلنے میں مدد کرتی ہوں۔‘‘

بچوں کو اس دنیا میں لانے میں مدد کرنے والی گنامائے منوہر کامبلے جب پرانی باتوں کو یاد کر رہی تھیں، تو ان کی آنکھیں چمکنے لگی تھیں۔ عمر کے ۸۶ سال گزر چکے تھے، لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ وہ دوبارہ ہمیشہ چاق و چوبند رہنے والی وہی پرانی دایہ بن گئی ہیں۔ بچہ دانی سے باہر نکلنے کے عمل کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ ہاتات کاکن گھالتو نا، اگدی تسن! [جیسے ہم چوڑیاں پہنتے ہیں، ٹھیک ویسے ہی]۔‘‘ یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنی کلائیوں کی طرف اشارہ کیا، جس میں لال رنگ کی شیشے کی چوڑیاں چمک رہی تھیں۔

جب سے گنامائے نے زچگی میں عورتوں کی مدد کرنا شروع کیا تھا، تب سے سات دہائیوں کے دوران واگ دری گاؤں کی اس دایہ نے عثمان آباد ضلع میں سینکڑوں بچوں کی ان کے گھر پر پیدائش میں مدد کی تھی۔ ’’یہ ہاتھوں کا کمال ہے،‘‘ اس ماہر دایہ نے کہا تھا، جنہوں نے آخری بار چار سال پہلے ایک بچہ کی پیدائش میں مدد کی تھی، جب وہ ۸۲ سال کی ہو چکی تھیں۔ انہوں نے فخریہ لہجے میں کہا تھا، ’’میرے ہاتھ سے کبھی کوئی گڑبڑ نہیں ہوئی۔ بھگوان میرے ساتھ ہے۔‘‘

گنامائے کی بیٹی، وندنا، شولاپور کے سول اسپتال کا ایک واقعہ یاد کرتی ہیں کہ ان کی ماں نے ڈاکٹروں سے کہا تھا کہ وہ انہیں ان تین بچوں کو پیدا کرنے کا ذمہ اٹھانے دیں، جو سیزیرین کی مدد سے پیدا ہونے والے تھے۔ ’’انہوں نے کہا، ’آپ ہم سے زیادہ ماہر ہیں، آجی [دادی]‘۔‘‘ ان کی حیرت کو یاد کرکے گنامائے مسکرانے لگی تھیں۔

ان کی مہارت صرف بچہ پیدا کرانے تک محدود نہیں تھی۔ انہیں پورے مہاراشٹر سے، جیسے شولاپور، کولہاپور اور پونہ سے لوگ بلاتے تھے۔ کچھ مہینے پہلے ’پاری‘ کی ملاقات ان کی پوتی شری دیوی سے ہوئی تھی، جنہوں نے بڑے فخر سے ہمیں بتایا، ’’میری دادی ان چیزوں کو نکالنے میں بہت اچھی ہیں جو کبھی کبھی بچے کی آنکھوں، کانوں یا ناک میں پھنس جاتی ہیں۔ چاہے بیج ہو، موتی ہو، لوگ ان چیزوں کو نکلوانے کے لیے اپنے بچوں کو لے کر ان کے پاس ہی آتے ہیں۔‘‘ دائیاں ان کاموں کو اپنے کام کا حصہ سمجھتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ پیٹ درد، یرقان (پیلیا)، زکام، کھانسی، بخار اور اس قسم کی دوسری بیماریوں کے علاج میں کام آنے والی جڑی بوٹیوں کی جانکاریاں بھی رکھتی ہیں۔

Gunamay Kamble (in green saree) with her family in Wagdari village of Tuljapur taluka . From the left: granddaughter Shridevi (in yellow kurta); Shridevi's children; and Gunamay's daughter Vandana (in purple saree)
PHOTO • Medha Kale

گنامائے کامبلے (سبز رنگ کی ساڑی میں) اپنی فیملی کے ساتھ تلجاپور تعلقہ کے واگ دری گاؤں میں۔ بائیں سے: پوتی شری دیوی (زرد رنگ کے کرتے میں)، شری دیوی کے بچے، اور گنامائے کی بیٹی وندنا (بینگنی ساڑی میں)

گنامائے جیسی دائیاں روایتی طور پر بچہ پیدا کرانے کا کام کرتی رہی ہیں، جو نرس کے طور پر زچہ اور بچہ کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ انہوں نے کوئی جدید ٹریننگ یا سرٹیفکیٹ حاصل نہیں کیا ہے، لیکن دلت خاندانوں سے تعلق رکھنے والی زیادہ تر عورتوں نے گاؤوں اور شہروں کے کم آمدنی والے کنبوں کی ماؤں کی کئی نسلوں سے مدد کی ہے، اور انہیں دلاسہ دیا ہے، ’’تم اس سے باہر نکل آؤگی۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘

حالانکہ، گزشتہ ۴-۳ دہائیوں سے جس طرح سے اسپتالوں میں بچے کی پیدائش پر زور دیا جانے لگا ہے، اس سے دائیوں کا کام متاثر ہونے لگا ہے۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے پہلے مرحلہ (۹۳-۱۹۹۲) کے مطابق، مہاراشٹر میں آدھے سے بھی کم بچوں نے کسی طبی مرکز میں جنم لیا تھا۔ تین دہائیوں بعد، ۲۱-۲۰۱۹ میں یہ تعداد ۹۵ فیصد ہے (این ایف ایچ ایس۔۵)۔

گنامائے جیسی ماہر اور تجربہ کار دایہ، جو جڑواں بچوں کی ڈیلیوری کرا سکتی ہیں، اور پیٹ میں بچے کے الٹ جانے (بریچ پریزنٹیشن) یا بچے کے مرا ہوا پیدا ہونے پر ماں کو سنبھال سکتی ہیں، اسے ایک حاملہ عورت کو کسی سرکاری اسپتال کے بارے میں بتانے یا اسے طبی مرکز لے جانے کے کام تک محدود کر دیا گیا ہے۔ ایسے ہر ایک معاملے میں، جہاں دایہ کسی حاملہ عورت کو سرکاری اسپتال لے جاتی ہے، اس کے عوض اسے ۸۰ روپے ملتے ہیں۔

بچے کی پیدائش میں اپنی کم ہوتی اہمیت کے باوجود گنامائے نے کہا تھا، ’’گاؤں کے لوگ مجھے پسند کرتے ہیں، اور مجھے چائے کے لیے بلاتے ہیں یا بھاکری دیتے ہیں۔ لیکن ہمیں شادی پر نہیں بلایا جاتا۔ تقریب ختم ہو جانے کے بعد ہمیں کھانا بھجوایا جاتا ہے۔‘‘ ان کا سماجی تجربہ یہ بتاتا ہے کہ بھلے ہی ان کے کام کی تعریف کی جاتی ہو، لیکن ان کے جیسے دلتوں کے لیے ذات پر مبنی تفریق ابھی بھی جاری ہے۔

*****

مانگ برادری کے ایک دلت خاندان میں پیدا ہوئیں گنامائے کے شوہر پڑھے لکھے تھے اور ان کے بھائی بہن اسکول جاتے تھے، لیکن ان کی شادی سات سال کی عمر میں ہو گئی تھی۔ حیض شروع ہونے کے بعد انہیں سسرال بھیج دیا گیا۔ انہوں نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ۱۹۴۸ میں جب ہندوستانی فوج نے حیدر آباد کے نظام سے قلعہ کا قبضہ چھین کر اپنے ماتحت کر لیا تھا، تب ’’میں صرف ۱۲-۱۰ سال کی تھی اور ابھی بھی فراک پہنتی تھی۔ جس سال میں یہاں واگ دری آئی تھی، اسی سال نل درگ قلعہ کو فتح کر لیا گیا تھا۔‘‘

واگ دری، عثمان آباد ضلع کے تلجاپور تعلقہ میں ۲۶۵ گھروں (مردم شماری ۲۰۱۱) کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، اور گنامائے گاؤں کے باہری علاقے میں واقع ایک دلت بستی میں رہتی تھیں۔ رمئی آواس یوجنا، جو دلتوں کے لیے ریاستی حکومت کے ذریعے لائی گئی ایک رہائشی اسکیم ہے، کے تحت ۲۰۱۹ میں ان کے ایک کمرے کے گھر میں دو اور کمرے جوڑے گئے۔

Gunamay sitting on a metal cot in her courtyard
PHOTO • Medha Kale
Vandana and Shridevi with Gunamay inside her home. When she fell ill in 2018, Gunamay had to leave the village to go live with her daughters
PHOTO • Medha Kale

بائیں: گنامائے اپنے برآمدے میں لوہے کی چارپائی پر بیٹھی ہوئی ہیں۔ دائیں: وندنا اور شری دیوی، گنامائے کے ساتھ گھر کے اندر بیٹھی ہیں۔ ۲۰۱۸ میں جب گنامائے بیمار پڑیں، تو انہیں اپنی بیٹیوں کے ساتھ رہنے کے لیے گاؤں چھوڑ کر جانا پڑا

گنامائے جب چھوٹی سی عمر میں دلہن بن کر گاؤں آئیں، تو وہ ایک مٹی کے گھر میں اپنے سسرال والوں کے ساتھ رہتی تھیں۔ فیملی کے پاس اپنی کوئی زمین نہیں تھی اور ان کے شوہر منوہر کامبلے، گاؤں اور گاؤں کے مکھیا کے لیے کام کرتے تھے۔ ان کے کام کے بدلے ان کی فیملی کو بلوتیداری سسٹم کے تحت تنخواہ دی جاتی تھی۔ یہ لین دین کا ایک روایتی طریقہ ہے، جہاں سال میں ایک بار زرعی پیداوار کی شکل میں انہیں اجرت ادا کی جاتی تھی۔

لیکن یہ فیملی کے کھانے پینے کے لیے کافی نہیں تھا، اسی لیے گنامائے نے بکریاں اور کچھ بھینسیں پالیں، اور ان کے دودھ سے بنا گھی بھی بیچا۔ بعد میں، انہوں نے ۱۹۷۲ میں خشک سالی کے بعد شروع کی گئی روزگاری گارنٹی اسکیم کے تحت کام کیا، دہاڑی مزدوری کی اور بچے کی پیدائش میں مدد کرنا بھی شروع کیا۔

انہوں نے بتایا، ’’ڈیلیوری کرانا بڑے جوکھم کا کام ہے۔ کسی کے پیر سے کانٹا نکالنا بھی آسان نہیں ہے اور یہاں تو ایک عورت سے ایک پورا جسم باہر نکالنا ہوتا ہے۔‘‘ لیکن اتنے مشکل اور ضروری کام میں لگے ہونے کے باوجود انہوں نے بتایا کہ ’’لوگ من مانے طریقے سے محنتانہ دیتے رہے۔ کوئی مٹھی بھر اناج دیتا، کوئی دس روپے پکڑا دیتا۔ دور دراز کے گاؤں سے کوئی سو روپے بھی دے سکتا ہے۔‘‘

وہ رات بھر نئی نئی ماں بنی عورت کے ساتھ رکتیں، اسے اور اس کے بچے کو نہلاتی تھیں، اور اس کے بعد ہی وہاں سے جاتی تھیں۔ یاد کرتے ہوئے انہوں نے آگے کہا، ’’میں کسی کے گھر میں چائے یا کھانا کچھ بھی نہیں کھاتی۔ بس مٹھی بھر اناج ملتا ہے، جسے اپنی ساڑی کے ایک سرے سے باندھ کر گھر لے آتی ہوں۔‘‘

گنامائے کو یاد ہے کہ ۸ سال پہلے ایک وکیل کی فیملی نے انہیں ۱۰ روپے دیے تھے۔ وہ گھر کی بہو کے ساتھ رات بھر رہیں، اور مشکل ڈیلیوری میں اس کی مدد اور دیکھ بھال کی۔ گنامائے نے بتایا، ’’صبح، اس نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔ جب میں جانے لگی تو اس کی ساس نے مجھے ۱۰ روپے دیے۔ میں نے ان کے ۱۰ روپے انہیں لوٹا دیے اور ان سے کہا، ’یہ میرے ہاتھوں کی چوڑیاں ۲۰۰ روپے کی ہیں۔ اپنے ۱۰ روپے اپنے پاس رکھئے اور اس سے ایک پیکٹ بسکٹ خرید کر کسی بھکاری کو دے دیجئے۔‘‘

Gunamay's daughter Vandana (in purple saree) says dais are paid poorly
PHOTO • Medha Kale
‘The bangles I am wearing cost 200 rupees,' Gunamay had once told a lawyer's family offering her Rs. 10 for attending a birth. ‘ Take these 10 rupees and buy a packet of biscuits for a beggar'
PHOTO • Medha Kale

بائیں: گنامائے کی بیٹی وندنا (بینگنی رنگ کی ساڑی میں) کہتی ہیں کہ دائیوں کو بہت کم پیسہ ملتا ہے۔ دائیں: گنامائے نے ایک بار ایک وکیل کی فیملی سے کہا تھا، ’یہ میرے ہاتھوں کی چوڑیاں ۲۰۰ روپے کی ہیں۔ اپنے ۱۰ روپے اپنے پاس رکھئے اور اس سے ایک پیکٹ بسکٹ خرید کر کسی بھکاری کو دے دیجئے۔‘ وہ لوگ بچے کا جنم کرانے کے محض ۱۰ روپے پکڑا رہے تھے

لوگوں کے من میں اپنے کام کے تئیں حقارت کا جذبہ اور کام کے بدلے معمولی سی اجرت کو دیکھ کر گنامائے کی سب سے بڑی بیٹی، وندنا نے فیصلہ کیا کہ وہ بڑی ہو کر دایہ نہیں بنیں گی۔ وندنا کہتی ہیں، ’’کوئی پیسے نہیں دیتا، نہ تو لوگ اور نہ ہی سرکار۔ میں کیوں محنت کروں جب اس کی کوئی قیمت ہی نہیں ہے؟ مجھے اپنے چار بچوں کا پیٹ پالنا ہے، اس لیے میں نے یہ کام بند کر دیا اور دہاڑی مزدوری کرنے لگی۔‘‘ وندنا آج کل پونہ میں رہتی ہیں۔ انہیں گنامائے نے ٹریننگ دی تھی، لیکن وہ اب صرف ایک نئی نئی ماں بنی عورت اور اس کے بچے کو نہلانے میں ہی مدد کرتی ہیں۔

وندنا اور ان کی تین بہنوں کے کل ۱۴ بچے ہیں، اور ایک کو چھوڑ کر بقیہ سبھی کی ڈیلیوری گنامائے نے کرائی تھی۔ گنامائے کی تیسری بیٹی کو ڈیلیوری کے لیے اسپتال لے جایا گیا تھا، اور سیزیرین سیکشن کے تحت ڈیلیوری ہوئی تھی۔ انہیں ان کے شوہر اسپتال لے گئے تھے۔ انہوں نے بتایا، ’’میرا داماد ایک اسکول میں پڑھاتا تھا (اب وہ ریٹائر ہو چکا ہے)۔ اسے [گھر پر بچے کی پیدائش اور اس سے جڑی مہارت پر] بھروسہ نہیں تھا۔‘‘

گنامائے یہ دیکھ کر مایوس ہوئی تھیں کہ کیسے گزشتہ ۳-۲ دہائیوں میں، عورتیں بڑی تعداد میں سیزیرین سیکشن کے ذریعے ڈیلیوری کرانے کا انتخاب کر رہی ہیں یا انہیں اس کی صلاح دی جا رہی ہے۔ مہاراشٹر میں، ایسے طریقے کا انتخاب کرنے والی عورتوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ سال ۲۱-۲۰۱۹ میں این ایف ایچ ایس۔۵ کے اعداد و شمار کے مطابق، ۲۵ فیصد سے زیادہ حاملہ خواتین کا سیزیرین آپریشن ایک سرکاری اسپتال میں ہوا تھا۔ پرائیویٹ اسپتالوں کے لیے یہ تعداد اور بھی زیادہ تھی، جہاں اسپتال میں زچگی (ڈیلیوری) کے لیے داخل ۳۹ فیصد خواتین نے جنم دینے کے لیے اس طریقہ کا انتخاب کیا۔

گنامائے کا کہنا تھا، ’’دیکھئے، حاملہ ہونا اور بچے کو جنم دینا، دونوں ہی قدرتی عمل ہیں۔‘‘ وہ سیزیرین کے دوران پیٹ کو کاٹنے، اسے سلنے جیسے طریقوں کو غیر ضروری مانتی تھیں اور اس بارے میں ان کے خیالات بہت پختہ تھے: ’’وہ پہلے کاٹتے ہیں، اور پھر سلائی کرتے ہیں۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ ایک عورت اس کے بعد اٹھ یا بیٹھ سکتی ہے؟ حاملہ عورت کا جسم بہت نازک اور ملائم ہوتا ہے۔‘‘ انہوں نے دائیوں کے درمیان موجود ایک بیحد عام سے تصور کو دہراتے ہوئے کہا تھا، ’’ وار [پلیسینٹا] نکالنے سے پہلے نال کو نہیں کاٹا جانا چاہیے، کیوں کہ ایسا کرنے سے پلیسینٹا، لیور سے جا کر چپک جاتا ہے۔‘‘

انہوں نے ’پاری‘ کو بتایا کہ زچگی کے بارے میں ان کی تمام معلومات ایک نوجوان ماں کے طور پر اپنے ذاتی تجربات پر مبنی ہیں۔ اپنی نوجوانی کی عمر کے تجربات کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے بتایا تھا، ’’میں نے اپنے بچوں کی پیدائش سے سیکھا ہے۔ زچگی کے دوران زور سے [دھکہ دینے یا] دم لگانے، اور [اپنے یا ماں کے] پیٹ کو سہلانے سے بچہ باہر نکلتا ہے۔ میں نے اپنے پاس کسی کو بھی آنے نہیں دیا، یہاں تک کہ ماں سے بھی باہر انتظار کرنے کو کہا تھا۔ اور جب سب کچھ ہو گیا، تب میں نے انہیں بلایا۔‘‘

Gunamay (left) practiced as a dai for most of her 86 years . A lot of her learning came from her experiences of giving birth to Vandana (right) and three more children
PHOTO • Medha Kale
Gunamay (left) practiced as a dai for most of her 86 years . A lot of her learning came from her experiences of giving birth to Vandana (right) and three more children
PHOTO • Medha Kale

گنامائے (بائیں) نے اپنی ۸۶ سال کی عمر کا زیادہ تر حصہ دایہ کے طور پر کام کرکے گزارا تھا۔ ان کی معلومات کا ایک بڑا ذریعہ وندنا (دائیں) اور اپنے تین دیگر بچوں کو جنم دینا تھا

حمل میں بچے کے مر جانے پر بھی لوگ ڈیلیوری کے لیے گنامائے کی مہارت پر بھروسہ کرتے تھے۔ درد زہ میں مبتلا ایک نوجوان عورت کے معاملے کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے بتایا، ’’مجھے لگا کہ بچہ ماں کے پیٹ میں ہی مر گیا ہے۔‘‘ نزدیکی اسپتال کے ایک ڈاکٹر نے کہا تھا کہ ماں کو شولاپور لے جانا پڑے گا، تاکہ سیزیرین کے ذریعے مرے ہوئے بچے کو باہر نکالا جا سکے۔ گنامائے نے بتایا، ’’مجھے معلوم تھا کہ وہ لوگ سیزیرین کا خرچ برداشت کرنے کی حالت میں نہیں ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے تھوڑا وقت دو، اور اس کے پیٹ کو لگاتار سہلا کر اور دبا کر میں نے اس کے پیٹ سے مرے ہوئے بچے کو باہر نکالا۔‘‘ وندنا بتاتی ہیں، ’’یہ تو اور بھی زیادہ مشکل تھا، کیوں کہ پیٹ میں کوئی حرکت نہیں ہو رہی تھی۔‘‘

گنامائے کے مطابق، ’’میں ان عورتوں کی مدد کیا کرتی تھی، جن کی بچہ دانی باہر آ جاتی تھی، لیکن صرف تبھی جب یہ بچے کو جنم دینے کے بعد ہوا ہو۔ بعد میں ڈاکٹر کو ضرور دکھانا چاہیے۔‘‘ وہ یہ بات اچھی طرح جانتی تھیں کہ کب انہیں پیچھے ہٹنا چاہیے اور کسی ڈاکٹر سے صلاح مشورہ کرنا چاہیے۔

دائیوں کو ٹریننگ دینے کے لیے ایک ملک گیر پروگرام ۱۹۷۷ میں شروع کیا گیا تھا اور اسی کے آس پاس کئی رضاکارانہ تنظیموں نے بھی اپنے طبی پروگراموں کے تحت دائیوں کو ٹریننگ دینا شروع کیا۔

گنامائے نے باہر املی کے درخت کے نیچے بیٹھنے کے لیے دھیرے دھیرے کمرے سے باہر نکلتے ہوئے کہا تھا، ’’میں ٹریننگ کے لیے شولاپور گئی تھی، لیکن مجھے یاد نہیں ہے کہ کب۔ انہوں نے ہمیں صفائی کی اہمیت کے بارے میں بتایا، جیسے ہاتھ صاف رکھنا، صاف بلیڈ اور حمل کی نال کاٹنے کے لیے صاف دھاگے کا استعمال کرنا۔ میں نے ہر ڈیلیوری پر نئی کٹ کا استعمال کیا۔ لیکن، ہم نے ان کے ذریعے سکھائی گئی ہر چیز پر عمل نہیں کیا۔‘‘ انہوں نے یہ باتیں بغیر کسی لاگ لپیٹ کے کھل کر کہیں، کیوں کہ ان کا اپنا علم، ہنر اور تجربہ ان سب سے کہیں زیادہ تھا۔

گنامائے سال ۲۰۱۸ میں ایک بار چکر کھا کر گر گئی تھیں۔ اس کے بعد سے ہی وہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ کبھی تلجاپور بلاک کے کسئی علاقے میں یا پونہ شہر میں رہتی تھیں۔ لیکن، انہیں اپنے گاؤں واگ دری سے اچھی کوئی دوسری جگہ نہیں لگی، جہاں ایک بار انہوں نے مجھ سے کہا تھا، ’’میں نے بچے کے جنم کا کام اسی طرح سنبھالا، جیسے اندرا گاندھی نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی تھی۔‘‘

پوسٹ اسکرپٹ: گنامائے پچھلے کئی مہینوں سے بیمار چل رہی تھیں۔ ۱۱ نومبر، ۲۰۲۲ کو ان کا انتقال ہو گیا جب یہ اسٹوری اشاعت کے لیے تیار کی جا رہی تھی۔

اس اسٹوری کا ایک ورژن سال ۲۰۱۰ میں تتھاپی-ڈبلیو ایچ او انڈیا پبلی کیشن ’ایز وی سی اٹ‘ میں شائع ہوا تھا۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Medha Kale
mimedha@gmail.com

Medha Kale is based in Pune and has worked in the field of women and health. She is the Translations Editor, Marathi, at the People’s Archive of Rural India.

Other stories by Medha Kale
Editor : Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. A journalist and teacher, she also heads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum, and with young people to document the issues of our times.

Other stories by Priti David
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez