بسنت بِند کچھ دنوں کے لیے گھر آئے تھے۔ وہ جہان آباد کے سلیماں پور گاؤں سے کچھ گھنٹوں کی دوری پر واقع پٹنہ میں گزشتہ کچھ مہینوں سے زرعی مزدوری کر رہے تھے۔
سنکرانتی کا تہوار ختم ہو جانے کے بعد، اگلے دن، یعنی ۱۵ جنوری کو وہ کام پر لوٹنے والے تھے اور بغل کے گاؤں چندھریا سے کچھ مزدوروں کو بلانے کے لیے گئے تھے۔ ان مزدوروں کے ساتھ ہی وہ واپسی کا سفر طے کرنے والے تھے۔ وہ مزدوروں سے بات کر ہی رہے تھے کہ پولیس اور ایکسائز افسران کی گاڑی وہاں آ پہنچی، مبینہ طور پر جن کا کام ہے، ’’بہار میں شراب اور منشیات پر پابندی لگانا، اور بیداری پیدا کرنا…‘‘
پولیس کو دیکھ کر لوگ ڈر کے مارے ادھر ادھر بھاگنے لگے، جس سے بسنت بھی ڈر گئے اور بھاگنے لگے۔ تقریباً ۲۷ سالہ بسنت بتاتے ہیں، ’’پیر میں اسٹیل لگے ہونے کی وجہ سے میں تیز دوڑ نہیں پاتا ہوں۔ مشکل سے ۶۰-۵۰ فٹ ہی دوڑ پایا کہ چھاپہ مار ٹیم کے لوگوں نے پیچھے سے کالر پکڑ کر گاڑی میں بیٹھا لیا۔‘‘
انہوں نے چھاپہ مار ٹیم سے کہا تھا کہ ان کی جانچ کی جائے، ان کے گھر میں بھی چھاپہ ماری کی جائے۔ لیکن کوئی چیکنگ نہیں ہوئی۔ ’’پولیس نے کہا کہ جہان آباد شہر کے ایکسائز ڈپارٹمنٹ کے تھانہ لے جا کر چھوڑ دیں گے۔‘‘
حالانکہ، تھانہ پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ ان کے نام پر آدھا لیٹر شراب چڑھا دیا گیا تھا۔ اور، شراب بندی اور ایکسائز قانون کے تحت شراب برآمد ہونے کا معاملہ درج کر لیا گیا تھا۔ کسی کے پاس سے پہلی بار شراب ملتی ہے، تو اسے پانچ سال تک کی جیل اور ایک لاکھ روپے تک کے جرمانہ کی سزا ہوتی ہے۔
’’وہاں ہم دو گھنٹے تک لڑتے رہے کہ ہمیں چیک کیا جائے۔‘‘ لیکن ان کی اپیل کسی نے نہیں سنی اور ایف آئی آر درج کر لیا گیا۔ گرفتاری کے بعد جب بسنت کو ضلع عدالت میں پیش کیا گیا، تو ان کے مطابق، ’’کورٹ میں، ہم نے جج صاحب کو بتایا کہ ہمارے خاندان میں کوئی شراب نہیں بیچتا ہے۔ ہم کو چھوڑ دیا جائے۔‘‘ بسنت بتاتے ہیں کہ عدالت نے آئی او (جانچ کرنے والے افسر) کو بلایا، لیکن ایکسائز محکمہ کے عہدیداروں نے کہا کہ آئی او چھاپہ ماری کرنے گیا ہوا ہے۔
اس کے بعد، پیشی ختم ہو گئی اور بسنت کو کاکو جیل بھیج دیا گیا۔ بسنت چار دن جیل میں رہے، اور ۱۹ جنوری، ۲۰۲۳ کو انہیں ضمانت پر رہا کیا گیا۔ ان کے ضمانت دار ان کی ماں اور ان کے ماموں زاد بھائی تھے، جنہوں نے بالترتیب اپنی زمین اور موٹر سائیکل کے کاغذ کے ذریعے ضمانت کی گارنٹی دی تھی۔
*****
جہان آباد ضلع میں چھ تھانے (پولیس اسٹیشن) ہیں، جن میں سے ہولاس گنج، پالی اور برابر پریَٹن تھانوں میں درج ۵۰۱ ایف آئی آر کا مطالعہ کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے ۲۰۷ ایف آئی آر میں ملزم موسہر برادری کے لوگ ہیں، جن کا شمار ریاست کے سب سے غریب اور حاشیہ پر پڑی برادریوں میں ہوتا ہے۔ موسہر کے بعد سب سے زیادہ ملزم بِند اور یادو برادری کے لوگ ہیں، جو دیگر پس ماندہ طبقہ (او بی سی) میں آتے ہیں۔
غیر سرکاری تنظیم ’لاء فاؤنڈیشن‘ کے بانی پروین کمار کہتے ہیں، ’’شراب بندی قانون کے تحت سب سے زیادہ گرفتاریاں دلت، پچھڑوں، اور خاص کر موسہروں کی ہو رہی ہے۔ پولیس گاڑی لے کر موسہر بستیوں میں جاتی ہے اور بچوں سے لے کر عورتوں تک کو بغیر کسی ثبوت کے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیتی ہے۔ ’’ان میں زیادہ تر لوگ اتنے غریب ہوتے ہیں کہ ان کے پاس اپنا وکیل رکھنے کے لیے بھی پیسہ نہیں ہوتا ہے، لہٰذا کئی مہینوں تک وہ جیل میں ہی بند پڑے رہتے ہیں۔‘‘
بسنت کے گاؤں سلیماں پور میں ۱۵۰ کنبے رہتے ہیں (مردم شماری ۲۰۱۱)، جن میں سے زیادہ تر کے پاس اپنی کوئی زمین نہیں ہے اور یہ لوگ روزی روٹی کے لیے مزدوری کرتے ہیں۔ تقریباً ۱۲۴۲ لوگوں کی آبادی میں بِند برادری کے علاوہ یہاں موسہر، یادو، پاسی اور کچھ مسلم برادری کے لوگ بھی رہتے ہیں۔
خود کے اوپر تھوپے گئے کیس کی وجہ سے ناراض بسنت اپنے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’یہ ہمارا گھر ہے۔ ہم کودیکھئے، ہم شراب بیچنے والے لگتے ہیں سر؟ ہمارے پورے خاندان میں کوئی شراب نہیں بیچتا ہے۔‘‘ جب بسنت کی بیوی کویتا دیوی نے سنا کہ ان کے شوہر پر آدھا لیٹر شراب رکھنے کا الزام ہے، تو ان کا کہنا تھا، ’’وہ شراب کیوں بیچیں گے؟ انہوں نے کبھی شراب نہیں پی۔‘‘
اینٹ اور پھوس کا بنا ان کا گھر تقریباً ۳۰ فٹ چوڑی نہر کے کنارے بنا ہوا ہے۔ نہر پار کر کے سڑک پر پہنچنے کے لیے نہر پر بجلی کے دو پول رکھ دیے گئے ہیں۔ بارش کے دنوں میں جب نہر پانی سے لبالب بھر جاتی ہے، تو اس پول کو پار کرنا جوکھم بھرا ہوتا ہے۔ ان کا آٹھ سالہ بیٹا سرکاری اسکول میں پہلی جماعت میں پڑھتا ہے، اور پانچ سال کی بیٹی آنگن واڑی سینٹر میں جاتی ہے۔ سب سے چھوٹی والی بچی ابھی دو سال کی ہے۔
تقریباً ۲۵ سال کی کویتا کہتی ہیں، ’’شراب بندی سے ہم کو تو کوئی فائدہ نہیں لگ رہا ہے، الٹا نقصان ہو گیا۔‘‘
دوسری طرف، بسنت ابھی اس بات سے پریشان ہیں کہ عدالت کی سماعت میں ان کا وقت اور پیسہ برباد ہوگا۔ وہ کہتے ہیں، ’’جو رئیس ہے اس کے گھر پر شراب کی ڈیلیوری ہو رہی ہے۔ وہ لوگ آرام سے گھر بیٹھ کر پی رہے ہیں۔ انہیں کچھ نہیں کیا جاتا ہے۔‘‘
بسنت کے ۵ ہزار روپے وکیل کی فیس اور ضمانت لینے میں خرچ ہو چکے ہیں۔ وہ ان دنوں میں کھیت پر کام نہیں کر پائے، تو مزدوری کا بھی نقصان ہوا۔ وہ پوچھتے ہیں، ’’ہم کمائیں کہ کورٹ کا چکر لگائیں؟‘‘
*****
ہمارا نام مت لکھئے گا…آپ نام لکھیں گے، تو پولیس ہم کو بھی کچھ کر دے گی۔ ہم کیا کریں گے…ہم کو بال بچوں کے ساتھ یہیں رہنا ہے۔‘‘ سیتا دیوی (بدلا ہوا نام) جب یہ کہتی ہیں، تو فکرمند نظر آتی ہیں۔ ان کی فیملی جہان آباد ریلوے اسٹیشن سے بمشکل ۳ کلومیٹر دور واقع موسہری میں رہتی ہے۔ ان کا تعلق موسہر برادری سے ہے، جسے بہار میں مہا دلت کا درجہ حاصل ہے۔
ان کے والد رام بھوال مانجھی (بدلا ہوا نام) کو عدالت نے شراب بندی اور ایکسائز قانون، ۲۰۱۶ کے معاملے میں ایک سال پہلے باعزت بری کر دیا تھا، لیکن سیتا کے من میں ڈر اب بھی گہرا بیٹھا ہوا ہے۔
دو سال پہلے، رام بھوال کو شراب بندی قانون کے تحت شراب رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ سیتا دیوی کہتی ہیں، ’’گھر میں کوئی شراب نہیں ملی تھی، لیکن پولیس انہیں اپنے ساتھ لے گئی۔ ہم لوگ نہ تو شراب بناتے ہیں اور نہ ہی اسے بیچتے ہیں۔ ہمارا مرد شراب پیتا بھی نہیں ہے۔‘‘
تھانہ میں درج ایف آئی آر کے مطابق، ’’۲۴ نومبر، ۲۰۲۱ کی صبح ۸ بجے پولیس نے ان کے گھر سے ۲۶ لیٹر دیسی چُلائی شراب برآمد کی تھی، جو مہوا اور گڑ سے بنتی ہے۔‘‘ پولیس کا کہنا ہے کہ چھاپہ ماری کے وقت رام بھوال موقع سے فرار ہو گئے تھے اور تقریباً ایک مہینہ بعد، ۲۴ دسمبر کو انہیں گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔
شوہر کے جیل میں رہنے پر یہ ایک سال سیتا دیوی کے لیے مشکلوں بھرا رہا۔ انہیں اپنے تینوں بچوں – ۱۸ سال کی بیٹی، ۱۰ اور ۸ سال کے دو بیٹوں – کو سنبھالنا تھا۔ وہ کبھی کبھی رام بھوال سے ملنے کاکو جیل جاتی تھیں، تو اکثر دونوں رو پڑتے تھے۔ ’’وہ پوچھتے تھے کہ ہم لوگ کیسے کھا رہے ہیں، بچے کیسے ہیں۔ جب بتاتے تھے کہ بہت پریشانی ہے، تو وہ رونے لگتے تھے۔ ہم بھی رو دیتے تھے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ آنکھوں میں بھر آئے آنسوؤں کو چھپانے کے لیے ادھر ادھر دیکھنے لگتی ہیں۔
اس دوران فیملی کا پیٹ پالنے کے لیے انہیں کھیتوں میں مزدوری کرنی پڑی اور پڑوسیوں سے قرض بھی لینا پڑا۔ ’’ماں باپ کھیت بٹیّا [کرایے پر کھیت] لے کر کھیتی کرتا ہے۔ ان لوگوں نے چاول دال دے دیے۔ کچھ دوسرے رشتہ داروں نے بھی اناج دیا۔‘‘ تھوڑا رک کر وہ کہتی ہیں، ’’ایک لاکھ روپے تو قرض ہو گیا ہے ہمارے اوپر۔‘‘
اس قسم کی گرفتاری کو عدالت میں غلط ثابت کرنا تب مشکل ہو جاتا ہے، جب واقع کا مخبر (انفارمر)، شراب کی جانچ کرنے والا، جانچ افسر اور چھاپہ ماری ٹیم کے دو رکن ہی گواہ بھی ہوں۔ لیکن، رام بھوال کے معاملے کی سماعت کے دوران چھاپہ ماری ٹیم کے دونوں ممبران نے اپنے بیانوں میں رام بھوال کے گھر سے شراب کی برآمدگی سے انکار کر دیا، اور عدالت نے گواہوں کے بیانوں میں بڑا تضاد پایا۔
اس کے بعد، ۱۶ نومبر کو جہان آباد کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اور سیشن کورٹ نے رام بھوال مانجھی کو تمام الزامات سے بری کر دیا۔
سیتا دیوی یاد کرتی ہیں، ’’سُکھل ٹھٹّھر [کافی دبلے ہو کر] نکلے تھے جیل سے۔‘‘
جیل سے لوٹنے کے ۱۰ دن بعد ہی رام بھوال کام کی تلاش میں جہان آباد سے باہر چلے گئے۔ تقریباً ۳۶ سال کی سیتا کہتی ہیں، ’’گھر پر دو تین مہینے رہتے، تو اچھا کھانا کھلا کر ان کا جسم تندرست بنا دیے، لیکن انہیں ڈر لگ رہا تھا کہ پولیس کہیں دوبارہ نہ گرفتار کر لے، اس لیے وہ چنئی چلے گئے۔‘‘
رام بھوال کی مشکلیں ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں۔
اس معاملے میں تو رام بھوال بری ہو گئے، لیکن شراب بندی قانون کی ہی الگ الگ دفعات کے تحت سال ۲۰۲۰ میں رام بھوال مانجھی کے خلاف درج دو اور معاملے ابھی زیر غور ہیں۔ شراب بندی اور ایکسائز ڈپارٹمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق، سال ۲۰۱۶ کے اپریل ماہ سے لے کر ۱۴ فروری، ۲۰۲۳ تک اس قانون کے تحت ۷ لاکھ ۵۴ ہزار ۲۲۲ لوگوں کی گرفتاری ہوئی ہے۔ ان میں سے ایک لاکھ ۸۸ ہزار ۷۷۵ لوگوں کو سزا ہو چکی ہے، جن میں نابالغوں کی تعداد ۲۴۵ ہے۔
سیتا کو نہیں معلوم کہ ان معاملوں کا انجام ان کے حق میں ہوگا کہ نہیں۔ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا شراب بندی قانون کا کوئی مثبت اثر نہیں ہوا، تو وہ مشتعل ہو جاتی ہے۔ ’’کوچی بجھائے گا ہم کو [ہمیں کیا پتہ چلے گا]۔ ہم تو لنگٹا [ننگے] ہو گئے۔ ایک بیٹی بھی جوان ہے، اس کی شادی کرنی ہے۔ پتہ نہیں کیسے کریں گے۔ ہمارے لیے تو ایسا وقت آ گیا ہے کہ کٹورا لے کر روڈ پر بھیک چھانیں گے۔‘‘
سال ۲۰۲۱ کی شروعات میں، رام بھوال کے چھوٹے بھائی کی موت کسی نامعلوم بیماری کی وجہ سے ہو گئی تھی، اور ان کی بیوی بھی پچھلے سال نومبر میں گزر گئیں۔ اب اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ ان کے دونوں بچوں کی پرورش کی ذمہ داری سیتا ہی نبھا رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’بھگوان نے ہم کو چھپر پھاڑ کر دُکھ دیا ہے، تو جھیل رہے ہیں۔‘‘
یہ اسٹوری بہار کے ایک ٹریڈ یونینسٹ کی یاد میں دی گئی فیلوشپ کے تحت لکھی گئی ہے، جن کی زندگی ریاست میں حاشیہ پر سمٹی برادریوں کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے گزری تھی۔
مترجم: محمد قمر تبریز