’’ تین آنی دون کِٹّی [تین جمع دو کتنے ہوئے]؟‘‘ پرتبھا ہلیم پوچھتی ہیں۔ ان کے سامنے زمین پر ۷ سے ۹ سال کے تقریباً ۱۰ بچوں کا ایک گروپ بیٹھا ہوا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی جواب نہیں دیتا ہے۔ پرتبھا چاک بورڈ پر لکھنے کے بعد پیچھے مڑ کر بچوں کو دیکھتی ہیں اور اپنے ہاتھوں اور سر سے اشارہ کرکے انہیں دوہرانے کے لیے کہتی ہیں، ’’پانچ‘‘۔

پرتھبا چمڑے اور اسٹیل سے بنے اور ربر کے تلوے والے اسٹمپ پروٹیکٹر کے سہارے کھڑی ہیں۔ یہ اسٹمپ پروٹیکٹر ان کے دونوں گھٹنوں پر بندھے ہوئے ہیں۔ ان کی کہنی کے پاس سفید چاک کا ایک ٹکڑا بندھا ہوا ہے۔

’اسکول‘ چل رہا ہے، جو پالگھر ضلع کے کرہے گاؤں میں ہلیم فیملی کے تین کمرے کے سیمنٹ والے گھر میں واقع ہے۔ یہاں، پرتبھا اس سال ۲۰ جولائی سے مہاراشٹر کے پالگھر ضلع کے وکرم گڑھ تعلقہ میں واقع اس گاؤں کے تقریباً ۳۰ آدیواسی بچوں کو انگریزی، تاریخ، مراٹھی اور ریاضی پڑھا رہی ہیں۔ بچے صبح ۱۰ بجے سے دوپہر ۱ بجے کے درمیان گروپ میں آتے ہیں۔ یہ بچے اپنے ساتھ، ۱۳۷۸ لوگوں کی آبادی والے اس گاؤں کے ۲ ضلع پریشد اسکولوں کے ذریعہ دی گئی کتابیں لیکر آتے ہیں۔

’’آپریشن کے بعد سے، ہر چھوٹا کام ختم کرنے میں لمبا وقت لگتا ہے۔ اس کی وجہ سے لکھنا بھی مشکل ہے،‘‘ پرتبھا کہتی ہیں، جب کہ ایک طالب علم ان کے اوپری بازو پر ویلکرو کی پٹّی کے ساتھ چاک باندھتا ہے۔

پچھلے سال تک، پرتبھا ہلیم، جن کا تعلق وارلی آدیواسی برادری سے ہے، مقامی ضلع پریشد (زیڈ پی) اسکولوں میں ۲۸ برسوں سے پڑھا رہی تھیں۔ ۲۰ سال کی عمر میں شادی ہونے کے بعد، پرتبھا کرہے سے تقریباً ۱۰۰ کلومیٹر دور، بھیونڈی شہر آ گئیں، جہاں ان کے شوہر کام کرتے تھے – ۵۰ سالہ پانڈورنگ ہلیم، ریاستی آبپاشی دفتر میں اب ایک سینئر کلرک ہیں۔ ۲۰۱۵ میں جب ان کا تبادلہ پاس کے تھانے ضلع میں ہوا، تو پرتبھا وہاں سے بھیونڈی پڑھانے آتی تھیں۔

جون ۲۰۱۹ میں، بھیونڈی کے ایک نئے ضلع پریشد اسکول میں کام شروع کرنے کے کچھ ہی عرصے بعد، پرتبھا کرہے میں اپنی فیملی کے گھر گئیں، جہاں وہ ہر مہینے جاتی تھیں۔ تبھی پرتبھا کی پریشانیاں شروع ہوئیں۔ اس مہینے، ۵۰ سالہ پرتبھا میں گینگرین مرض کی تشخیص ہوئی، یہ حالت جسمانی نسیج کے کام نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ گینگرین عام طور پر کسی پرانے مرض، زخم یا انفیکشن کی وجہ سے خون کی سپلائی بند ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔

اس کے کچھ دنوں بعد ہی، ان کی کہنی کے نیچے کے دونوں ہاتھ، اور گھٹنے کے نیچے کے دونوں پیر کاٹنے پڑے۔

PHOTO • Shraddha Agarwal

کرہے گاؤں میں پرتبھا ہلیم کے گھر میں ’اسکول‘ چل رہا ہے، اور پرتبھا اسٹمپ پروٹیکٹر کے سہارے چلتی ہیں، اور ہاتھوں پر بندھی چاک سے لکھتی ہیں

’’میں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ میرے ساتھ ایسا ہو سکتا ہے۔ میں یہاں [کرہے میں] تھی، جب مجھے اچانک بہت تیز بخار آیا،‘‘ پرتبھا بتاتی ہیں۔ ۱۶ جون، ۲۰۱۹ کو شام کے تقریباً ۸ بج رہے تھے۔ ’’یہ سوچ کر کہ بخار ٹھیک ہو جائے گا، میں نے ایک پیراسیٹامول لی۔ لیکن اگلی صبح میں بہت بیمار محسوس کرنے لگی، تو میرا بیٹا اور شوہر مجھے اسپتال لے گئے۔ مجھے یہ سب یاد نہیں ہے۔ مجھے اُس پورے دن ہوش نہیں تھا۔‘‘

۱۷ جون کی صبح، فیملی کی گاڑی سے پرتبھا کو ۱۲۰ کلومیٹر دور، کلوا کے پرائیویٹ دیہی اسپتال لے جایا گیا۔ ’’وہاں ڈاکٹروں نے میرے شوہر کو بتایا کہ میری حالت کافی سنگین ہے اور مجھے اسی وقت تھانے کے پرائیویٹ اسپتال لے جانا پڑے گا،‘‘ پرتبھا بتاتی ہیں۔ اسی دن، پرتبھا کی فیملی انہیں ایمبولینس سے اُس پرائیویٹ اسپتال میں لے گئی۔

’’آخرکار جب مجھے ہوش آیا، تو پتا چلا کہ میں اسپتال میں ہوں۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ مجھے ڈینگو ہو گیا ہے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کھیتوں میں کام کرتے وقت کچھ ہوا تھا کیا؟ لیکن کچھ نہیں ہوا تھا۔ جب ہم ہفتے کے آخر میں بابا سے ملنے آتے ہیں، تو ہمیشہ کھیت میں کام کرتے ہیں۔ وہ بوڑھے ہیں، اس لیے ہم اپنے پلاٹ پر دھان کی بوائی کرنے میں مدد کرتے ہیں۔‘‘ کرہے گاؤں میں پانڈورنگ کے والد کی چار ایکڑ زمین ہے، جس پر ان کی فیملی دھان، باجرا، ارہر اور اڑد کی کھیتی کرتی ہے۔ ’’لیکن، بے ترتیب بارش کی وجہ سے ہم نے کھیت پر زیادہ کام کرنا بند کر دیا تھا؟‘‘ پرتبھا کہتی ہیں۔

۱۹ جون کو، جب پرتبھا تھانے کے پرائیویٹ اسکول میں تھیں، انہوں نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ پیر سیاہ ہونے لگے ہیں۔ ’’ڈاکٹروں نے جب کہا کہ شاید کھیت میں مجھے کسی کیڑے نے کاٹ لیا ہوگا، تب مجھے اس پر یقین نہیں ہوا تھا۔ لیکن بخار بڑھتا گیا اور میرے جسم کی حالت مزید بگڑنے لگی۔ میرے دونوں پیر اور اس [دائیں] ہاتھ میں جلن بھی شروع ہو گئی تھی۔ پہلے تو ڈاکٹروں نے کہا کہ میں ٹھیک ہو جاؤں گی، لیکن اگلی رات میرے ہاتھ کافی ٹھنڈے پڑنے لگے۔ میں چیختی رہی۔ اس کے بعد، میں اگلے ۱۹ دنوں تک چیختی رہی۔ میرے پیر جل رہے تھے اور اس میں ہاتھوں سے زیادہ درد ہو رہا تھا۔‘‘

تین دن بعد پتا چلا کہ پرتبھا کو گینگرین کا مرض ہے۔ ’’شروع میں، ڈاکٹروں کو بھی سمجھ نہیں آیا کہ یہ کیسے ہوا۔ انہوں نے کئی ٹیسٹ کیے۔ میرا بخار اتر نہیں رہا تھا اور مجھے اتنا درد ہو رہا تھا۔ پیروں کی جلن کی وجہ سے میں چختی رہی۔ ایک ہفتہ بعد انہوں نے کہا کہ اب میں ٹھیک ہو جاؤں گی، کیوں کہ میرے بائیں ہاتھ کی تین انگلیاں تب بھی حرکت کر رہی تھیں۔ میرے شوہر پوری طرح صدمے میں تھے۔ انہیں سمجھ میں نہیں آیا کہ ہم کیا کریں۔ میرے بیٹے نے سب کچھ سنبھالا۔‘‘

'When the doctors first told me about the operation I went into shock... Since then, every small task takes longer to complete. Even writing with this chalk is difficult'
PHOTO • Shraddha Agarwal
'When the doctors first told me about the operation I went into shock... Since then, every small task takes longer to complete. Even writing with this chalk is difficult'
PHOTO • Shraddha Agarwal

’جب ڈاکٹروں نے مجھے پہلی بار آپریشن کے بارے میں بتایا، تو میں صدمے میں چلی گئی... تب سے، ہر چھوٹا کام کرنے میں کافی وقت لگتا ہے۔ اس چاک سے لکھنا بھی مشکل ہے‘

ان کا ۲۷ سالہ بیٹا سُمت، سول انجینئر ہے جو ممبئی کی ایک تعمیراتی کمپنی میں کام کرتا تھا، لیکن اپنی ماں کے اسپتال میں داخل ہونے کے بعد لمبی چھٹی نہ مل پانے کے سبب اسے نوکری چھوڑنی پڑی۔ ’’اس نے میرے آپریشن سے متعلق تمام فیصلے لیے۔ تمام کاغذات پر دستخط کیے۔ وہی مجھے کھانا کھلاتا تھا، نہلاتا تھا، میرے بیٹے نے سب کچھ کیا،‘‘ پرتبھا یاد کرتی ہیں۔

پچھلے سال جون کے آخر میں، تھانے کے اسپتال کے ڈاکٹروں کو پرتبھا کا دایاں ہاتھ کاٹنا پڑا۔ ’’آپریشن ٹھیک سے نہیں کیا گیا۔ انہوں نے ان کے دائیں ہاتھ کو بہت بری طرح سے کاٹا،‘‘ زخم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سُمت کہتے ہیں۔ ’’انہوں نے ہم سے ایک ہاتھ کاٹنے کے ساڑھے تین لاکھ روپے لیے اور اسے ٹھیک سے کیا بھی نہیں۔ وہ درد کی وجہ سے بہت روتی تھیں۔ میرے والد نے کہا کہ ہم اسپتال کا خرچ مزید برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘

بھیونڈی کے ضلع پریشد اسکول نے پرتبھا کو اس خرچ میں کچھ مدد کرنے کے لیے، اگست میں تین مہینے کی تنخواہ دی – ان کی ماہانہ تنخواہ تقریباً ۴۰ ہزار روپے تھی۔ ’’اُس [تھانے کے] اسپتال میں ہم نے اتنے پیسے کھو دیے۔ تقریباً ۲۰ دنوں کے لیے انہوں نے ہم سے تقریباً ۱۳ لاکھ روپے لیے۔ میرے بھائی نے ہمیں کچھ پیسے قرض دیے اور میرے اسکول کے دوستوں نے بھی ہماری مدد کی۔ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں بچا تھا۔ میرے شوہر نے بھی قرض لیا تھا،‘‘ پرتبھا بتاتی ہیں۔

۱۲ جولائی کے آس پاس، وہ جتنا کر سکتے تھے اس سے کہیں زیادہ پیسے خرچ کرنے کے بعد، پرتبھا کی فیملی انہیں جنوبی ممبئی کے سرکاری جے جے اسپتال لیکر آ گئی، جہاں وہ تقریباً ایک مہینہ تک رہیں۔ ’’جے جے آنے کے بعد بھی میرے پیروں میں درد ہوتا رہا۔ اگر کوئی میرا پیر چھوتا، تو میں چیخنے لگتی تھی،‘‘ وہ یاد کرتی ہیں۔ ’’نو دنوں تک میں کچھ کھا نہیں سکی، سو نہیں سکی۔ میرے پیروں میں بہت جلن ہوتی تھی۔ ڈاکٹروں نے مجھے ۲-۳ دنوں تک نگرانی میں رکھا اور پھر آپریشن کرنے کا فیصلہ لیا۔‘‘

۱۵ جولائی کو پانچ گھنٹے تک چلے اس آپریشن میں ان کے باقی بچے تین اعضاء – بایاں ہاتھ اور دونوں پیر – کو بھی کاٹ دیا گیا۔

’’ڈاکٹروں نے جب مجھے پہلی بار آپریشن کے بارے میں بتایا، تو میں صدمے میں چلی گئی،‘‘ پرتبھا کہتی ہیں۔ ’’میں اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنے لگی کہ اب میں پڑھانے کے لیے اسکول نہیں جا پاؤں گی۔ مجھے بس گھر پر رہنا پڑے گا اور میں پوری طرح دوسروں پر منحصر رہوں گی۔ میں یہ سوچ کر رونے لگی کہ میں کبھی کھانا نہیں پکا پاؤں گی۔ لیکن میرے رشتہ دار اور دوست مجھ سے ملنے روز آتے تھے۔ انہوں نے مجھے بہت ہمت دی۔ یہاں تک کہ ڈاکٹروں نے بھی کہا کہ مصنوعی اعضاء کے ساتھ میں واپس اسکول جا پاؤں گی، اور پہلے کی طرح سب کچھ کر پاؤں گی۔ انہوں نے اسے میرے لیے آسان بنا دیا۔ میں بہت ڈری ہوئی تھی، مگر میرے والدین نے بھی مجھے بہت ہمت دی اور آپریشن کے بعد میری بہت مدد کی۔ میں ان کی بہت شکر گزار ہوں۔‘‘

Pratibha Hilim with her son Sumeet and daughter Madhuri, who says, 'We tell her we are there for you. We children will become your arms and legs'
PHOTO • Shraddha Agarwal
Pratibha Hilim with her son Sumeet and daughter Madhuri, who says, 'We tell her we are there for you. We children will become your arms and legs'
PHOTO • Shraddha Agarwal

پرتبھا ہلیم اپنے بیٹے سُمت اور بیٹی مادھوری کے ساتھ، جو کہتے ہیں، ’ہم ان سے کہتے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ہم بچے آپ کے ہاتھ اور پیر بن جائیں گے‘

جے جے اسپتال سے ۱۱ اگست، ۲۰۱۹ کو چھٹی ملنے کے بعد، پرتبھا اپنی ماں، ۶۵ سالہ سنیتا واگھے، جو کھیت اور گھر میں کام کرتی ہیں، کے ساتھ رہنے چلی گئیں۔ پرتبھا کے والدین کے پاس پالگھر ضلع کے جوہر تعلقہ کے چلتواڑ گاؤں میں چھ ایکڑ زمین ہے، جس پر وہ چاول، ارہر اور باجرا کی کھیتی کرتے ہیں۔ ان کے ۷۵ سالہ والد، اروِند واگھ، کچھ زرعی مزدوروں کے ساتھ اب بھی کھیت پر کام کرتے ہیں۔ پرتبھا چلتواڑ میں مارچ ۲۰۲۰ تک رہیں، جب ان کی فیملی لاک ڈاؤن کی وجہ سے واپس کرہے گاؤں لوٹ گئی تھی۔ (اس سال ستمبر میں، پرتبھا کے شوہر کرہے گاؤں میں رہنے کے لیے واپس آ گئے، اور موٹربائک سے جوہر تعلقہ کے آبپاشی دفتر میں کام کرنے جاتے ہیں)۔

پچھلے سال تک، پرتبھا کو فالو اَپ اور ٹیسٹ کے لیے اپنے بیٹے کے ساتھ ۳-۴ بار جے جے اسپتال جانا پڑا۔ فروری ۲۰۲۰ میں، انہوں نے جنوبی ممبئی کے حاجی علی میں، وزارت صحت اور خاندانی بہبود کے ذریعہ چلائے جانے والے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف فزیکل میڈیسن اینڈ ریہیبلی ٹیشن میں مصنوعی اعضاء لگانے سے پہلے کی فزیو تھیراپی شروع کی۔ یہاں کے ڈاکٹروں نے ان سے اپنے دائیں ہاتھ کو پوری طرح ٹھیک ہو جانے تک انتظار کرنے کے لیے کہا تھا۔ یہ ادارہ چلتواڑ سے تقریباً ۱۶۰ کلومیٹر دور ہے، اور ان کے بیٹے سُمت انہیں ہر دوسرے دن وہاں گاڑی سے لے جاتے تھے؛ ایک طرف کا راستہ طے کرنے میں چار گھنٹے لگتے تھے۔ ’’انہوں نے ہمیں، میرے سارے زخم بھرنے کے بعد تھیراپی کے لیے واپس آنے کو کہا تھا۔ لیکن [مہینوں تک] تقریباً روزانہ میرے دائیں ہاتھ میں درد ہوتا تھا،‘‘ پرتبھا یاد کرتی ہیں۔ ’’میری بیٹی مادھوری نے تمام گھریلو کاموں کا ذمہ لیا اور اب بھی وہ مجھے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتی ہے۔ میں پٹّی کے استعمال سے کھانے کی کوشش کرتی ہوں، لیکن چمچہ گر جاتا ہے۔‘‘

پرتبھا کی سب سے چھوٹی بیٹی، ۲۵ سالہ مادھوری، ساونت واڑی تعلقہ کی ایک یونیورسٹی میں آیورویدک میڈیسن کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ جولائی ۲۰۱۹ میں پرتبھا کے آپریشن کے دوران، ان کا امتحان چل رہا تھا اور وہ اپنی ماں کے ساتھ نہیں آ پائی تھیں۔ ’’لیکن بھگوان نے ہمارے لیے میری ماں کو دوسری زندگی دے دی،‘‘مادھوری کہتی ہیں۔ ’’اب میں اس لڑائی میں ان کی مدد کرنے کے لیے سب کچھ کروں گی۔ کبھی کبھی وہ اپنے پیر اور ہاتھ چھن جانے پر بہت روتی ہیں۔ انہوں نے پہلے ہمارے لیے کتنا کچھ کیا ہے – اب ہماری باری ہے۔ ہم انہیں کہتے ہیں کہ ہم ان کے لیے یہاں ہیں۔ ہم بچے آپ کے ہاتھ اور پیر بن جائیں گے۔‘‘ پرتبھا کی سب سے بڑی بیٹی، ۲۹ سالہ پرنالی دروٹھے، ضلع زرعی دفتر میں معاون زرعی افسر ہیں اور ان کا ایک سال کا بیٹا ہے۔

پرتبھا اور ان کی فیملی اب بے صبری کے ساتھ، حاجی علی سنٹر سے ان کے مصنوعی اعضاء کا انتظار کر رہے ہیں – یہیں سے انہیں اسٹمپ پروٹیکٹر بھی ملے تھے۔ ’’مارچ میں مجھے میرے [مصنوعی] ہاتھ اور پیر واپس ملنے والے تھے۔ میرے سائز کے مطابق وہ بن چکے تھے اور وہاں رکھے ہوئے تھے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’لیکن ڈاکٹر نے میسج کے ذریعہ مجھے [لاک ڈاؤن کی وجہ سے] کچھ مہینوں کے بعد آنے کو کہا۔ جب بھی سنٹر کھلے گا، مجھے پھر سے ٹریننگ ملے گی اور پھر وہ میرے ہاتھ اور پیر لگا دیں گے۔‘‘

Some of Pratibha's students: 'Their parents are really poor. How will they get a phone for online education?' she asks. 'School has always been my whole world. Being with kids also helps me feel like I am normal again'
PHOTO • Shraddha Agarwal

پرتبھا کے کچھ طالب علم: ’ان کے والدین کافی غریب ہیں۔ آن لائن تعلیم کے لیے ان کے پاس فون کہاں سے آئے گا؟‘ وہ پوچھتی ہیں۔ ’اسکول ہمیشہ سے میری پوری زندگی رہا ہے۔ بچوں کے ساتھ رہنے سے بھی مجھے پھر سے نارمل محسوس ہوتا ہے‘

جنوری سے، پرتبھا دونوں پیروں پر لگے کہنی پیڈ کے استعمال سے چل رہی ہیں۔ ’’یہ مجھے سنٹر نے دیا تھا کیوں کہ اس سے مجھے [مصنوعی ہاتھ اور پیر کے ساتھ] چلنے میں آسانی ہوگی، اور یہ میرے توازن میں بھی مدد کرے گا۔ شروع میں کافی درد ہوتا تھا۔ ان کے ساتھ چلنے میں مجھے ایک مہینہ لگا،‘‘ پرتبھا کہتی ہیں۔ بازآباد کاری مرکز نے پرتبھا کو مصنوعی اعضاء کے ساتھ بیٹھنے، کھڑا ہونے اور دیگر بنیادی سرگرمیاں دوبارہ سیکھنے میں مدد کی، اور انہیں پٹھوں کو مضبوط بنانے کے لیے یوگا اور دیگر ورزشیں سکھائیں۔ سنٹر نے انہیں ویلکرو پٹی کے ساتھ اپنے بازوؤں سے چمچہ، قلم یا چاک جیسی چیزیں اٹھانا بھی سکھایا۔

پچھلے سال ہاتھ پیر کٹنے کے بعد، پرتبھا کا ضلع پریشد اسکول میں ٹیچر کا کام رک گیا۔ اور پھر مارچ میں کووڈ- ۱۹ لاک ڈاؤن شروع ہو گیا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ لاک ڈاؤن کے دوران گاؤں کے بچوں کو پڑھائی کرنے میں کافی جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔ وہ دیکھ رہی تھیں کہ بچے یا تو گھوم پھر رہے ہیں یا کھیتوں میں کام کر رہے ہیں۔ ’’یہ غریب لوگ ہیں۔ وہ آن لائن تعلیم کو نہیں سمجھتے ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’ان کے والدین واقعی میں غریب ہیں۔ آن لائن تعلیم کے لیے ان کے پاس فون کہاں سے آئے گا؟‘‘

اس لیے پرتبھا نے بچوں کو مفت میں پڑھانے کا فیصلہ کیا۔ ’’یہاں آدیواسی بچوں کے حالات کافی خراب ہیں۔ وہ مشکل سے دو بار کھانا کھاتے ہیں۔ کبھی کبھی میری بیٹی یہاں آنے والے بھوکے بچوں کے لیے کھانا بناتی ہے۔ ہم عام طور پر بچوں کو کیلے دیتے ہیں، لیکن خاص دنوں پر ہم فرسان اور چاکلیٹ تقسیم کرتے ہیں۔‘‘

لیکن، وہ مزید کہتی ہیں، ’’کئی [بچوں] نے فصل کی کٹائی کے موسم کے سبب [ان کے گھر پر کلاس میں] آنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ ان کے والدین انہیں کھیتوں پر لے جاتے ہیں۔ یا بچوں کو اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کا خیال رکھنے کے لیے گھر میں ہی رکنا پڑتا ہے۔ اگر میرے پیر ہوتے، تو میں اس گاؤں کے ہر گھر میں جاتی اور ان کے والدین سے کہتی کہ وہ اپنے بچوں کو میرے پاس بھیجیں۔‘‘

اگست ۲۰۲۰ میں، پرتبھا نے بھیونڈی کے ضلع پریشد اسکول سے کرہے گاؤں میں تبادلہ کے لیے درخواست دی ہے – ان کی نوکری برقرار ہے، اور اگست ۲۰۱۹ تک کی تین مہینے کی تنخواہ ملنے کے بعد سے بغیر تنخواہ کے چھٹی پر ہیں۔ ’’جب تک اسکول نہیں کھلتے ہیں، میں بچوں کو اپنے گھر پر پڑھاتی رہوں گی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ مصنوعی ہاتھ پیر کام پھر سے شروع کرنے میں ان کی مدد کریں گے۔

’’میں خود اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہتی ہوں۔ میں اسکول واپس جاکر پڑھانا چاہتی ہوں۔ میں اپنا کام خود کرنا چاہتی ہوں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’اسکول ہمیشہ سے میری پوری زندگی رہا ہے۔ بچوں کے ساتھ رہنے سے مجھے پھر سے نارمل محسوس ہوتا ہے،‘‘ پرتبھا آگے کہتی ہیں، اور مجھے دروازے تک چھوڑنے کے لیے صوفے سے اٹھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ لیکن ان کی کہنی کے پیڈ لگے ہوئے نہیں ہیں، اور وہ توازن کھو دیتی ہیں اور گرتے گرتے بچتی ہیں۔ وہ توازن تو دوبارہ حاصل کر لیتی ہیں، لیکن ان کے چہرے پر پریشانی صاف نظر آ رہی ہے۔ ’’اگلی بار آنا تو ہمارے ساتھ کھانا ضرور کھانا،‘‘ صوفے پر بیٹھتے ہوئے اور مجھے وداع کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Shraddha Agarwal

Shraddha Agarwal is a Reporter and Content Editor at the People’s Archive of Rural India.

Other stories by Shraddha Agarwal
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez