وہ بہت بڑا بیل تھا۔ لیکن چار سال کی چھوٹی سی بچی، کُنڈوی، اُس کے ساتھ ایسے کھیل رہی تھی جیسے وہ کتے کا کوئی پِلّا ہو۔ (مضبوط پُٹّھوں اور ہڈیوں والا ۱۲۰۰ پاؤنڈ وزنی پلّا، کیا آپ تصور کر سکتے ہیں)۔

اس خمیدہ، نوک دار سینگ اور اونچے کوہان والے بیل کو وہ بچی ’بُلی بوائے‘ کہہ کر پکار رہی تھی۔ کنڈوی نام کی یہ بچی تمل ناڈو کے تریپور کے قریب واقع کوٹّ پلَیَم گاؤں میں رہتی ہے۔ پونگل (فصل کی کٹائی کے وقت منایا جانے والا تہوار) سے ایک دن پہلے والی رات کو جب وہ اس خوبصورت کنگایم بیل کو گڈ نائٹ (شب بخیر) کہنے جا رہی تھی، تو مجھے بھی اپنے ساتھ لے کر گئی۔

Bulli Boy, the 16-year-old Kangayam stud bull
PHOTO • Aparna Karthikeyan

۱۶ سال کا کنگایم بیل، بُلّی بوائے

اس نے لحیم شحیم جانور کے بالکل قریب جا کر اسے بڑے پیار سے گڈ نائٹ کہا۔ اس کے والد سیناپتی کنگایم کیٹل ریسرچ فاؤنڈیشن کے سربراہ ہیں، لہٰذا افزائش مویشیاں کے ایک نگراں کی بیٹی کے طور پر وہ اِس بات کو اچھی طرح جانتی تھی کہ بُلی بوائے کی نسل کتنی اعلیٰ ہے۔

سولہ سال کی عمر میں اس بیل کی خوبصورتی دو بالا ہو گئی تھی، لیکن ساتھ ہی عمر نے اس کے رویے میں نرمی بھی پیدا کردی تھی۔ اب وہ کسی اجنبی کو دیکھ کر اسے ڈرانے کے لیے نہ تو زمین پر اپنے پیر پٹکتا اور نہ ہی سینگوں کو زور سے ہلاتا تھا۔

دیسی نسل کا کنگایم کسی زمانے میں تمل ناڈو کے کونگو خطہ میں (ایروڈ اور کوئمبٹور کے آس پاس) ہر جگہ نظر آ جاتا تھا۔ لیکن، اب یہ نایاب ہو چکا ہے۔ یہاں کے زیادہ تر مویشی بدیسی ہیں۔ لیکن جرسی، ہولسٹین اور براؤن سوئس نسل کے مویشی گھاس پھوس، جھاڑیوں اور خشکی والے اس علاقے میں پوری طرح سے اجنبی لگتے ہیں۔

With age, Bulli Boy's hump has tilted to one side
PHOTO • Aparna Karthikeyan

عمر بڑھنے کی وجہ سے بُلی بوائے کا کوہان ایک طرف کو جھک گیا ہے

بُلی بوائے کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ جیسے وہ اسی جگہ کا رہنے والا ہو۔ عمر بڑھنے کی وجہ سے اس کا کوہان ایک طرف کو جھک گیا ہے۔ کُنڈوی کے والد کارتِکیہ شو سیناپتی بتاتے ہیں کہ وہ ایک شاندار بیل ہے اور آج بھی بہت سے بچھڑے پیدا کرتا ہے۔ لیکن اُس رات ہم وہاں دیر تک نہیں رُکے، کیوں کہ کُنڈوی کُتّوں کو گڈ نائٹ کہنا چاہتی تھی۔ لیکن وہی لڑکی، جو اتنے خطرناک بیل سے بالکل نہیں ڈرتی تھی، مویشی خانہ کے کُتے کے ایک چھوٹے سے پلّہ کو دیکھ کر تیزی سے بھاگی، جو کھیلنے کے لیے اس کے پیچھے پیچھے دوڑنے لگا تھا۔ اُسے ’ڈراؤنے‘ جانور سے بچاتے وقت ہم سارے لوگ زور زور سے ہنسنے لگے۔

جنوری کا مہینہ چل رہا تھا اور اگلی صبح کافی سرد تھی۔ میں سورج طلوع ہونے سے کافی پہلے اس مویشی خانہ میں پہنچ گئی، جہاں بیل بندھے ہوئے تھے۔ وہاں صرف بلی بوائے کے سانس لینے کی آواز سنائی دے رہی تھی، جو اچھی بھی تھی، لیکن ساتھ ہی ڈراؤنی بھی۔ گائیں – جو زیادہ تر اس کے حرم کا حصہ ہوتی ہیں – متحمل مزاج تھیں۔ اُن میں سے چھ گایوں کے پاس بچھڑے تھے۔ یہ دودھ دینے والی گائیں تھیں، لیکن دنیا کی زیادہ دودھ دینے والی گایوں کے مقابلے ان کا دودھ آٹے میں نمک کی طرح ہوتا ہے۔ (کنگایم گائیں اوسطاً ایک دن میں دو ہی لیٹر دودھ دیتی ہیں، جب کہ دوسری نسل کی کچھ گائیں عام طور پر ایک دن میں ۲۰ لیٹر سے بھی زیادہ دودھ دیتی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر دودھ تو بچڑھے پی جاتے ہیں اور گھریلو استعمال کے لیے تھوڑا سا ہی دودھ بچتا ہے)۔

Cow with calf: calves are born red and later fade to a white
PHOTO • Aparna Karthikeyan

بچھڑے کے ساتھ گائے: بچھڑے پیدائش کے وقت سرخ رنگ کے ہوتے ہیں، لیکن بڑا ہونے پر سفید رنگ کے ہو جاتے ہیں

فصل کی کٹائی کے وقت منایا جانے والا تہوار پونگل، تمل ناڈو کے دیہی علاقوں میں بہت خاص ہوتا ہے۔ یہ وہ موقع ہوتا ہے، جب کسان اپنی پیداوار کے لیے سورج دیوتا کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ وہ مٹی کے ایک برتن کے چاروں طرف گنّے اور ہلدی کے گچھے رکھتے ہیں، اور (لکڑی کی آگ پر) دودھ، الائچی اور بھونے ہوئے کاجو کے ساتھ چاول اور گڑ کو ملا کر پکاتے ہیں۔ پھر اس پکوان کو (جسے سکّرئی پونگل کہا جاتا ہے) پوجا کے دوران دیوی دیوتا کو چڑھایا جاتا ہے۔ جلتے ہوئے کافور کے ڈھیلے سے بنائے گئے دائرے میں اسے کیلے کے پتوں پر رکھا جاتا ہے۔

Pongal celebration at Karthikeya's house: his mother (centre) performs the puja and Kundavi prays
PHOTO • Aparna Karthikeyan

کارتِکیہ کے گھر پر پونگل کی تقریب: ان کی ماں (درمیان میں) پوجا میں مصروف ہیں، جب کہ کُنڈوی پرارتھنا کر رہی ہے

دوپہر کا لذیذ کھانا کھانے کے بعد، ہم لوگ دوبارہ کھلیان کی طرف روانہ ہو گئے۔ اِس بار کُنڈوی اُس بیل کو دیکھنا چاہتی تھی، جسے مویشی خانہ میں نئی جان پھونکنے کے لیے حال ہی میں خریدا گیا تھا۔ وہ ایک نوجوان وحشی جانور تھا اور اس کی آنکھوں میں وہ خاموشی نہیں تھی، جو عام طور پر آپ گائے یا بچھڑوں میں دیکھتے ہیں۔ بلکہ ان سیاہ آنکھوں میں ایک طرح کی وحشت چھپی ہوئی تھی، جس کا استعمال وہ کسی بھی وقت کر سکتا تھا۔

مویشی خانہ کے یہ دونوں بیل پرانی کنگایم نسل کے ہیں – سفید رنگ کے، جن کے کندھوں، پیٹھ اور کوہان پر سیاہ نشان ہیں۔ کنگایم نسل کے بچھڑے پیدائش کے وقت سرخ رنگ کے ہوتے ہیں، لیکن بڑا ہونے پر سفید رنگ کے ہو جاتے ہیں۔ سانڑھ بننے والے بیلوں پر کالے دھبے ہو جاتے ہیں، جو کہ ان کے بڑے جسموں میں ٹیسٹوسٹیرون (فوطیرون) کے پھیلنے کا نتیجہ ہے۔ (خَصّی کیے ہوئے بیل پوری طرح سفید رنگ کے ہوجاتے ہیں)۔

The new bull
PHOTO • Aparna Karthikeyan

نیا بیل

کنگایم مویشیوں کی پہچان تھوڑی الگ اس لیے بھی ہوتی ہے کیوں کہ اس نسل کی گایوں میں بھی بیلوں کی طرح کوہان اور سینگ ہوتے ہیں۔ روایتی طور پر ان کا استعمال بیل گاڑی چلانے، کھیت جوتنے اور کنویں سے پانی کھینچنے میں کیا جاتا ہے۔ حاملہ ہونے کے آخری دنوں تک ان سے یہ سبھی کام لیا جاتا ہے اور جب وہ بچھڑوں کو جنم دے دیتی ہیں، تو اس کے کچھ ہفتوں بعد ہی ان سے وہی سارے کام دوبارہ لینا شروع کر دیا جاتا ہے۔ کارتکیہ طنزیہ لہجے میں کہتے ہیں کہ کیا بدیسی نسل سے یہ سارے کام لیے جا سکتے ہیں۔

اب، تمل ناڈو کے کئی حصوں میں گایوں اور بیلوں سے کھیتی کے یہ سارے کام نہیں لیے جاتے؛ ان کی جگہ ٹریکٹروں نے لے لی ہے۔ لیکن، فصل کی کٹائی کے اس تہوار کے اگلے دن مویشیوں کی پوجا اب بھی کی جاتی ہے۔ ’ماتو پونگل‘ (جس کا لغوی معنی ہے: گایوں کے لیے پونگل) نام کا یہ تہوار ۱۵ یا ۱۶ جنوری کو منایا جاتا ہے۔ اس دن مویشیوں کو نہلایا جاتا ہے، ان کے سینگوں کو چمکدار رنگوں سے رنگا جاتا ہے اور ان کی پیشانیوں پر صندل اور کُمکُم کے پیسٹ لگائے جاتے ہیں۔ یہ ایک طرح سے شکریہ ادا کرنے کی تقریب ہے، جس کے دوران ان مویشیوں کو کھانے کے لیے سکّرئی پونگل اور گنّے دیے جاتے ہیں۔

Bulli Boy is taken for a walk
PHOTO • Aparna Karthikeyan

بُلّی بوائے کو گھمانے لے جایا جا رہا ہے

لوگ اب گائے کو دودھ حاصل کرنے کے لیے پالتے ہیں۔ لیکن کنگایم گائیں چونکہ کم دودھ دیتی ہیں، اس لیے وہاں کے لوگ اب ان کی جگہ ایسی نسل کی گائیں پالنے لگے ہیں، جو علاقائی موسم اور نباتات کے موافق خود کو ڈھال سکیں، اور مہلک بیماریوں سے لڑ سکیں۔ بدیسی نسل کی گایوں کو مہنگے چارے، اینٹی بایوٹکس کی ضرورت ہوتی ہے اور انہیں بار بار ڈاکٹروں کے پاس لے جانا پڑتا ہے۔ کئی جگہ مویشی خانوں میں انہیں تپتے ہوئے سورج کا مقابلہ کرنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ اس کے باوجود کچھ کاشتکار انہیں پالنے کے لیے تیار ہیں۔ اس کے لیے انہیں مویشی خانے بھی نئے سرے سے تیار کرنے پڑتے ہیں۔ وہ یہ سارا خرچ برداشت کرنے کو اس لیے تیار ہیں، کیوں کہ دودھ سے ہونے والا قلیل مدتی منافع انہیں اس نسل کے ختم ہونے پر طویل مدتی خسارے سے بچاتا ہے۔

اُس دن شام کو ہم نے نئے بیل کو دیکھا، جسے ٹہلانے کے لیے باہر لے جایا جا رہا تھا۔ دو مضبوط اور کاشتکاری کے ماہر ہاتھ اس کی رسیوں کو پکڑے ہوئے تھے، پھر بھی ایسا لگ رہا تھا گویا وہ بیل ہی انہیں ٹہلانے لے جا رہا ہے۔ کارتکیہ – جو نئے بیل کو خود سے مانوس کرنے کی کوشش کر رہے تھے – بُلّی بوائے کی پیٹھ کو سہلانے لگے۔ انہوں نے تمل زبان کا ایک مقولہ دہرایا، جس کا معنی ہے، بیل کو پالنے کا مطلب ہے اسے آدھا کھلایا جائے اور آدھا سہلایا جائے۔ یہ بات انہوں نے بُلّی بوائے کو سہلاتے وقت کہی۔ میں بھی اس لحیم شحیم جانور کے پاس گئی اور اس کی گرم پیٹھ کو تھپتھپایا۔ لیکن، ایک منٹ بعد اس نے میرے خوف کو بھانپ کر اپنی جلد کو ہلانا شروع کردیا، اور مڑ کر میری طرف دیکھنے لگا۔ اُن نرم آنکھوں میں کہیں نہ کہیں، پرانی شرارت کا ایک اشارہ چھپا ہوا تھا۔ میں نے سوچا کہ بُلیّ بوائے کو کُنڈوی کے پاس ہی چھوڑ دینا چاہیے، اور وہاں سے نکل آئی۔ اس امید کے ساتھ کہ کبھی اس مویشی خانہ کے پلّوں کے ساتھ وقت گزاروں گی۔

Karthikeya gives Bulli Boy a rub
PHOTO • Aparna Karthikeyan

بُلّی بوائے کو سہلاتے ہوئے کارتکیہ

مترجم: محمد قمر تبریز

Aparna Karthikeyan
aparna.m.karthikeyan@gmail.com

Aparna Karthikeyan is an independent journalist, author and Senior Fellow, PARI. Her non-fiction book 'Nine Rupees an Hour' documents the disappearing livelihoods of Tamil Nadu. She has written five books for children. Aparna lives in Chennai with her family and dogs.

Other stories by Aparna Karthikeyan
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez