ساٹھ فٹ کی گہرائی تک کھدائی کرنے کے بعد، پانڈورنگ اڈسول اور ان کے مزدوروں کو زمین سے ’’ایک گلاس پانی تک‘‘ نہیں ملا۔ ان کی بیوہ اندو بائی کہتی ہیں، ’’انہوں نے گاؤں میں پانی لانے کی کوشش کی، اور ایسا ہو گیا۔‘‘

کپاس اور سویابین کی فصلوں کی آبپاشی کے لیے پانی کو لے کر اپنے کنبے کی مسلسل پریشانیوں کو ختم کرنے کی غرض سے ۲۰۱۲  میں ایک کنواں کھودنے کے لیے پرعزم پانڈورنگ نے رشتہ داروں سے مختلف مد میں حاصل رقم کے علاوہ بینک سے تقریباً ۱ لاکھ روپے کا قرض لیا تھا۔ انہوں نے اپنے تمام قرضوں کوکنویں کے پانی کا استعمال کر کے حاصل فصلوں کی اچھی پیداوار سے ادا کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

لیکن قحط زدہ مراٹھواڑہ خطہ میں واقع عثمان آباد ضلع کے کلمب تعلقہ کے بھوگاجی گاؤں میں زمین سے پانی نہیں نکلنے والا تھا۔ قرض کی بے چینی پانڈورنگ کے اندر دھیرے دھیرے کنویں سے بھی گہری ہوتی چلی گئی۔ سال ۲۰۱۴ میں (اندو بائی کو ٹھیک سے یاد نہیں کہ کب) انہوں نے اپنے گھر میں پھانسی لگا لی۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں کھیت میں تھی۔ میرے ایک پڑوسی دوڑتے ہوئے میرے پاس یہ اطلاع دنیے کے لیے آئے کہ انہوں نے خود کو اندر سے بند کر لیا ہے…‘‘

اندوبائی ابھی جذباتی چوٹ سے عہدہ برآ ہونے کے لیے جدوجہد کر ہی رہی تھیں کہ ان پر جلد ہی جدوجہد کے ایک نئے دور کا انکشاف ہو گیا۔ ان کے شوہر کی خودکشی کو حکومت کے طے کردہ مخصوص معیار کے مطابق ’اہل‘ قرار نہیں دیا گیا تھا (جزوی طور پر اس کا مقصد زرعی خودکشی کی تعداد کو کاغذ پر کم کرنا تھا)۔ اگر پانڈورنگ حکومت کے رہنما خطوط کے مطابق خود کو مارنے میں کامیاب ہو جاتے، تو اندوبائی کو ریاستی حکومت کی جانب سے ۱ لاکھ روپے کا معاوضہ ملتا (۳۰ ہزار روپے نقد اور ۷۰ ہزار روپے بینک میں فکسڈ ڈپازٹ کے طور پر)۔

Woman sitting on chair
PHOTO • Sharmila Joshi
Woman sitting on chair
PHOTO • Sharmila Joshi

بہت سی کسان بیواؤں کی طرح بھوگاجی گاؤں کی اندو بائی اڈسول (بائیں) کو نہیں معلوم ہے کہ ان کے شوہر پر کتنی رقم واجب الادا ہے۔ مارڈی گاؤں کی سنگیتا کوکرے (دائیں) اپنے شوہر کی خودکشی کے بعد کاغذی کارروائی کے چکرمیں الجھ کر رہ گئی ہیں

انہیں نہیں معلوم کہ ان کے شوہر کی خودکشی معاوضے کے لیے ’مستحق‘ کیوں نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’وہ ہمیں نہیں بتاتے…‘‘ جب ہم اس ہفتہ کی ایک دوپہر کو جنوبی ممبئی کے آزاد میدان میں بات کر رہے تھے، تو ان کے چہرے کی افسردگی بڑھتی جا رہی تھی۔ ’’میں نے تمام دفاتر کے چکر لگائے ہیں…‘‘ اندو بائی، جن کی عمر ۴۰ کی دہائی میں ہے اور جو مراٹھا برادری سے تعلق رکھتی ہیں، کو ریاست کی جانب سے ملنے والی ۶۰۰ روپے ماہانہ کی معمولی بیوہ پنشن بھی نہیں ملی۔ ’’میں نے پڑوسی گاؤں کے ایک شخص [ممکنہ طور پر دلال] کو ۳۰۰۰ روپے اور تمام کاغذات دیے تھے، لیکن ابھی تک مجھے کوئی پنشن نہیں ملی ہے۔‘‘

اور اب وہ اپنے شوہر کا قرض ادا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ ان کے اندازے کے مطابق یہ رقم ۴ لاکھ روپے کے قریب ہے۔ بہت سی کسان بیواؤں کی طرح اندوبائی کو بھی نہ تو صحیح رقم کا علم ہے اور نہ ہی قرض کی صحیح شرائط کا۔ بہت سے کسان گھرانوں کے لیے قرض کی رقم شوہر کی خودکشی کے بعد بیوی کے لیے ایک اضافی صدمہ کے طور پر نازل ہوتی ہے۔

اندوبائی کے دو بیٹے ہیں، اور دونوں ہی شادی شدہ ہیں۔ وہ دونوں ان کے ساتھ اپنی چار ایکڑ زمین پر کام کرتے ہیں، اور جب کبھی کام دستیاب ہوتا ہے تو وہ سبھی دوسرے کے کھیتوں میں زرعی مزدور کے طور پر ۱۵۰ روپے یومیہ اجرت پر بھی کام کرتے ہیں۔ ’’میں ان کا قرض کیسے ادا کروں گی جب کہ میرے لیے اپنے گھر کا انتظام کرنا ہی مشکل ہے؟‘‘ وہ پوچھتی ہیں۔ ’’مجھے اب کوئی کیم [اسکیم] نہیں چاہیے، بس ایک بار ہمارا قرض معاف کر دو…؟‘‘

حالانکہ قرض، تناؤ اور نوکر شاہی کی بھول بھلیا سے گزرتے ہوئے کم از کم  اتنا ضرور ہوا کہ اندوبائی اپنے اور اپنے بیٹوں کے نام پر زرعی زمین کا مالکانہ حق منتقل کرانے میں کامیاب ہو گئیں۔ سنگیتا کوکرے ابھی تک مالکانہ حق کی دستاویز کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔

مارچ ۲۰۱۷ میں اپنے گھر کے اندر ان کے شوہر نے پھانسی لگا لی تھی۔ اس کے بعد وہ کاغذی کارروائیوں اور ثبوتوں کی ایک حیران کن بھول بھلیا میں پھنس گئی تھیں۔ ان کے کاغذات میں ان کے شوہر کے آدھار کارڈ کی کاپیاں، ان کی موت کی سند، ان کا اپنا کا آدھار کارڈ، ووٹر شناختی کارڈ، فیملی کا راشن کارڈ، بجلی کے بل، تین تصویریں، اور دوسرے ضروی کاغذات شامل تھے۔ بیوہ پنشن حاصل کرنے، ایک کمرہ کے ٹن کی چھت والے مکان کو اپنے نام پر منتقل کرانے اور کچھ نہایت ہی ضروری امداد حاصل کرنے کے لیے انہیں ان سبھی کاغذات کے ساتھ ساتھ دوسرے دستاویزات کے مختلف مجموعے متعدد سرکاری محکموں میں جمع کرانے پڑے تھے۔

Women raising their fists in protest
PHOTO • Sharmila Joshi

۲۱ نومبر ۲۰۱۸ کو تقریباً ۸۰ سے ۱۰۰ خواتین، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق مراٹھواڑہ سے تھا اور کچھ ودربھ سے تھیں، جنوبی ممبئی کے آزاد میدان میں بیوہ اور کسانوں کی حیثیت سے اپنی جدوجہد کو اجاگر کرنے اور اپنے مطالبات پر زور دینے کے لیے جمع ہوئیں

سنگیتا کے شوہر بیرو، عثمان آباد ضلع کے لوہارا تعلقہ میں واقع اپنے گاؤں مَارڈی سے تقریباً ۳۰ کلومیٹر دور تُلجاپور شہر میں ایک کھانے کی دکان پر بطور مددگار کام کرتے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ گھر چلانے کے لیے وہ انہیں ماہانہ ۶۰۰۰ سے ۷۰۰۰ روپے دیتے تھے۔ لیکن بعد میں ان کے اپنے اخراجات، خاص طور پر شراب نوشی کے اخراجات، ان کی کمائی سے تجاوز کر گئے۔ چنانچہ انہوں نے مقامی دکانداروں، رشتہ داروں، پڑوسیوں سے چھوٹی لیکن مسلسل بڑھتی ہوئی رقم ادھار لینا شروع کر دیا۔ دھنگر برادری سے تعلق رکھنے والی ۳۳ سالہ سنگیتا کا کہنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ  ان کے قرضے بڑھ کر ۲ لاکھ روپے سے تجاوز کر گئے۔

وہ یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں، ’’ہماری شادی کے پہلے دس سال تک معاملات ٹھیک چل رہے تھے، لیکن ان کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا، کیونکہ ان کے بڑے بھائی پشتینی زمین میں سے ہمارا حصہ نہیں دے رہے تھے۔‘‘ ان کے سسر چھ ایکڑ زمین کے مالک تھے اور اپنے تین بیٹوں کے لیے دو دو ایکڑ چھوڑ کر گئے تھے۔ بیرو نے لوہارا کی عدالت میں ایک مقدمہ دائر کیا تھا، اور یہ اب بھی ہندوستان کے عدالتی نظام میں آہستہ آہستہ رینگ رہا ہے۔

اس کے علاوہ بیرو کا غصہ اس لیے بھی بڑھ گیا تھا کیونکہ ان کی چار بیٹیاں تھیں۔ وہ پانچواں بچہ بیٹا چاہتے تھے۔ ان کی سب سے بڑی بیٹی اب ۱۶سال کی ہے، بیٹا ۸ سال کا ہے۔ سنگیتا یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’انہوں نے مجھے مارنا پیٹنا شروع کر دیا تھا۔ اگر میں ان سے قرض کے بارے میں پوچھتی تو وہ کہتے، ’میں نے پیسے لیے ہیں، میں ہی اسے واپس کروں گا‘۔ لہٰذا، میں خاموش رہوں۔‘‘

پچھلے سال ۳۰ مارچ کو ۳۴ سالہ بیرو آٹا رکھنے والے ایلومینیم کے ڈبے پر چڑھ گئے، اور اپنی ٹن کی چھت کے نیچے لوہے کے شہتیر پر رسی پھینک کر خود کو پھانسی لگا لی۔ صبح کے تقریباً گیارہ بجے تھے۔ ’’گھر پر کوئی نہیں تھا۔ انہوں نے اندر سے دروازہ بند کر رکھا تھا۔ جب میری سب سے بڑی بیٹی روپالی گھر آئی تو اس نے کھڑکی کی دراڑ سے جھانک کر اپنے والد کو دیکھا…‘‘

وہ قرضے جن کے متعلق بیرو کا اصرار تھا کہ وہ خود ہی واپس کریں گے، لیکن واپس نہیں کیے۔ ان کی ادائیگی سے متعلق سوالات پر ان کی برہمی شاید ان کے اپنے خوف اور پریشانی کو چھپانے کی کوشش ہوتی تھی۔ اور اب وہ قرض سنگیتا کے قرض بن گئے ہیں۔ ’’قرض دینے والے مجھ سے تقاضہ کرتے ہیں…لیکن یہ گاؤں والوں کے بلا سود قرضے ہیں، اس لیے یہ راحت کی بات ہے۔ ورنہ، رقم بڑھتی ہی رہتی۔‘‘

Women smiling
PHOTO • Sharmila Joshi

مہاراشٹر میں خودکشی سے متاثرہ زرعی گھرانوں کی خواتین کے ذریعہ آزاد میدان میں منعقد ’شوک سبھا‘ میں کچھ ہلکے پھلکے لمحات بھی تھے

پورے مہاراشٹر میں کسی کسان فیملی کے آدمی کی خودکشی کا حوصلہ شکن واقعہ اس کی بیوہ کے لیے صدمہ اور غم سے کہیں زیادہ ہوتا ہے، جو عام طور پر خود بھی ایک کسان ہوتی ہے جیسا کہ اندو بائی اور سنگیتا کے معاملے میں ہے۔ زراعت کے کام کا ایک بڑا حصہ (بوائی، روپائی، کٹائی، تھریشنگ، فصلوں کو کھیت سے گھر تک لانے، فوڈ پروسیسنگ، ڈیری اور بہت کچھ) خواتین کے ذمہ ہوتا ہے۔ بیوہ ہونے پر خواتین کو کسانوں کے طور پر اپنا کام جاری رکھتے ہوئے اپنے شوہر کے حصہ کے کام کا اضافی بوجھ بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ اور پھر کاغذی کارروائی، صحت کے مسائل، بچوں کی تعلیم اور بہت سے دوسرے محاذوں پر برسوں تک ان کی جدوجہد جاری رہتی ہے۔

یہ جدوجہد دسیوں ہزار کنبوں کی جدوجہد ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق ۱۹۹۵ سے ۲۰۱۵ کے درمیان تقریباً ۶۵ ہزار کسانوں (جن میں سے ۹۰ فیصد مرد تھے) نے مہاراشٹر میں خودکشی کی ہے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد مراٹھواڑہ اور ودربھ کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے کسانوں کی ہے۔ اور ان اعداد و شمار سے کسان گھرانوں کے بیرو جیسے بے شمار غیرکسانوں کو ممکنہ طور پر خارج کر دیا جائے گا۔

اس ہفتے، ۲۱ نومبر کو، تقریباً ۸۰ سے ۱۰۰ خواتین، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق مراٹھواڑہ سے تھا اور کچھ ودربھ سے بھی تھیں، جنوبی ممبئی کے آزاد میدان میں جمع ہوئیں۔ اس مجمع کو انہوں نے ’شوک سبھا‘ کا نام دیا۔ اس میں انہوں نے بیواؤں کی حیثیت سے اور کسانوں کے طور پر اپنی جدوجہد کو اجاگر کیا اور اپنے مطالبات پورے کرنے پر زور دیا۔ انہیں یہاں مہیلا کسان ادھیکار منچ (مکام) کے ذریعے اکٹھا کیا گیا تھا، جو پورے ہندوستان میں خواتین کسانوں کو درپیش مسائل پر کام کرنے والا نیٹ ورک ہے۔

اس منچ سے وابستہ سیما کلکرنی نے اس دوپہر کو ایک پریس کانفرنس میں کہا، ’’ہماری تنظیم بنیادی طور پر خواتین کو کسان تسلیم کرانے کے لیے بنائی گئی تھی۔‘‘ اور اس کا مقصد مرد کسان کی خودکشی کے بعد اس کی بیوی اور بچوں پر پڑنے والے اثرات پر توجہ مرکوز کرنا تھا۔ ’’اس کے بعد وہ کیسے جی رہی ہیں؟ ان کے بچے کیسے خود کو سنبھال رہے ہیں؟ اس سے متعلق ابھی تک بہت کم بحث ہوئی ہے۔‘‘

Women standing under empty canopy
PHOTO • Sharmila Joshi

شام ہوتے ہوتے خواتین نے اپنے بیگ اکٹھے کیے اور ٹرین یا بس پر سوار ہوکر واپس اپنے گاؤوں، اپنی زمینوں کی طرف لوٹ کر بیواؤں اور کسانوں کی طرح زندگی گزارنے کے لیے تیار ی کرنے لگیں

ستمبر-اکتوبر ۲۰۱۸ میں مکام اور اس سے منسلک تقریباً ۲۰ تنظیموں نے مراٹھواڑہ اور ودربھ کے ۱۱ اضلاع سے ۵۰۵ خواتین کا سروے کیا۔ ان کے کچھ نتائج یہاں درج کیے جاتے ہیں:

صرف ۳۴ فیصد خواتین کی پنشن منظور ہوئی تھی؛ ۲۹ فیصد اپنے نام پر اراضی کا حق منتقل کرنے سے قاصر رہیں، جبکہ ۱۱ فیصد کو اس منتقلی کی حالت کا علم نہیں تھا؛ اور ۴۳ فیصد خواتین مکان کا مالکانہ حق منتقل نہیں کرا سکیں۔ سروے کیے گئے تقریباً ۵۰ فیصد گھرانوں میں خواتین کے پاس علاحدہ راشن کارڈ تھے۔ اور ۳۵۵ بچوں میں سے صرف ۱۲ سے ۲۴ فیصد اسکول فیس میں رعایت یا کتابوں اور یونیفارم کی صورت میں مادی مدد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

مکام اور مہاراشٹر اسٹیٹ ویمن کمیشن نے فروری اور مارچ ۲۰۱۸ کے درمیان ناگپور اور اورنگ آباد کی میٹنگوں میں جن خواتین سے بات کی تھی، ان میں سے بہت سی خواتین نے محسوس کیا کہ خودکشی کے بعد ایک لاکھ  روپے کا معاوضہ ناکافی ہے۔ سال ۲۰۱۵ میں آندھرا پردیش حکومت نے اس رقم کو بڑھا کر ۳۵۰۰۰۰ روپے کر دیا تھا۔ اور بہت سی خواتین کو رشوت کے طور پر ۳۰ ہزار روپے کی بڑی رقم دینے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔

ان میٹنگوں کی ایک رپورٹ، جس کا عنوان ہے ’مہاراشٹر کے خودکشی سے متاثرہ گھرانوں کی خواتین کسانوں کی سب سے بڑی تشویش‘، جس میں کہا گیا ہے: ’’خودکشی سے متاثرہ گھرانوں کی بہت سی خواتین نے کہا کہ ان کے نام [حکومت کی طرف سے اعلان کردہ] قرض معافی کی فہرست میں نہیں ہیں۔ فیملی کے نام پر پرانے قرضوں کی موجودگی میں یہ خواتین بینکوں سے نئے قرضے لینے سے قاصر ہیں…اس طرح وہ مائیکرو فنانس یا غیررسمی قرض دہندگان کی طرف رجوع کر رہی ہیں جو زیادہ شرح سود پر قرض دیتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی حالت مزید کمزور ہو جاتی ہے۔‘‘

Lone woman sitting under empty pandal
PHOTO • Sharmila Joshi
Close-up of old woman
PHOTO • Sharmila Joshi

وردھا ضلع کے سورٹا گاؤں سے تعلق رکھنے والی مندا الونے (بائیں) کہہ رہی ہیں کہ وہ ہراسانی کا مقابلہ کرنے کے لیے پرعزم ہیں؛ حالانکہ اندوبائی (دائیں) ایک کسان کی بیوہ اور مفلس کسان کے طور پر اپنے برسوں کے تجربے کے بعد تقریباً شکست تسلیم کرچکی ہیں

ان خواتین کو روزگار کے متبادل کی شدید کمی، صحت کی نگہداشت تک رسائی کا فقدان اور یہاں تک کہ بے دخلی کا بھی سامنا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کسان بیواؤں کو اکثر اسکیموں یا معاوضے کے حصول کی کوشش کے دوران جنسی استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس میں گھریلوتشدد کا بھی ذکر ہے۔

یہ استحصال خودکشی سے پہلے اور خودکشی کے بعد بھی ہو سکتا ہے۔ اگرچہ سنگیتا آزاد میدان میں موجود کچھ دوسری خواتین کی طرح اپنے شوہر کی طرف سے کبھی کبھار ہونے والی مار پیٹ سے چشم پوشی کرتی نظر آتی ہیں، لیکن وہ عورتیں بیوہ ہونے کے بعد اپنے جنسی استحصال کے تجربے کو نفرت اور تکلیف کے ساتھ بیان کرتی ہیں۔ سنگیتا کہتی ہیں، ’’مجھے اس بات کے طعنے سننے پڑتے ہیں کہ میں اکیلے کیسے رہوں گی۔ کئی بار مردوں نے مجھ سے ان کے ساتھ ’دوست‘ بننے کی فرمائش کی ہے۔ میں سب کو بتاتی ہوں کہ میں عزت اور وقار کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔‘‘

وردھا ضلع کے آروی تعلقہ کے سورٹا گاؤں سے تعلق رکھنے والی ۳۸ سالہ مَندا الونے کہتی ہیں، ’’صرف مرد ہی ہمیں بری نیت سے نہیں دیکھتے ہیں، بلکہ نوجوان لڑکے بھی ایسا کرتے ہیں۔‘‘ مَندا کے شوہر کو ٹریکٹر کے ایک حادثہ میں پیر میں چوٹ لگی تھی، جس کے علاج میں ان کے لواحقین پر ہسپتال کے بلوں کے مد میں ۳ لاکھ روپے کا بوجھ آن پڑا تھا۔ شراب نوشی کرتے تھے، پریشان رہتے تھے اور افسردگی میں مبتلا تھے کہ ان کی معذوری انہیں زیادہ کام نہیں کرنے دے گی، لہٰذا ۲۰۱۳ میں ہولی کے دن انہوں نے وردھا ندی میں چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی۔

مَندا اب اپنی تین ایکڑ زرعی زمین پر کپاس اور ارہر کی کھیتی کرتی ہیں، اور ۱۰۰ سے ۱۵۰ روپے یومیہ اجرت پر زرعی مزدور کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔ وہ کسانوں کی ایک مقامی تنظیم میں شامل ہیں، جو انہیں جلسوں اور تقریبات میں لے جاتی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’کچھ لوگ حیران ہوتے ہیں کہ میں کہاں جا رہی ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں ضرور دوسرے مردوں کے ساتھ گھوم رہی ہوں گی۔ مجھے اس کی عادت سی ہو گئی ہے۔ اگر مجھے تنہا رہنا ہے اور اپنے دو بچوں کی پرورش کرنی ہے [ان کی بیٹی ۱۶ سال کی ہے اور بیٹا ۱۵ سال کا ہے] تو مجھے اس کا سامنا کرنا ہی پڑے گا اور اس پر قابو پانا پڑے گا۔‘‘

دوسری طرف، ایک کسان کی بیوہ اور ایک مفلس کسان کے طور پر اندوبائی اپنے برسوں کے تجربے کے بعد اب تقریباً شکست تسلیم کر چکی ہیں۔ وہ سوال کرتی ہیں، ’’مجھے کوئی پنشن نہیں ملی، [میرے شوہر کے کھودے گئے کنویں سے] کوئی پانی نہیں ملا، میرے پاس کوئی کام نہیں ہے، کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم زندگی کیسے گزاریں؟ ہم اپنی صحت کا خیال کیسے رکھیں؟ ہم کیسے باقی چیزوں کا انتظام کریں۔‘‘ اندوبائی کئی برسوں سے ایک امید کے ساتھ کسانوں کی مختلف میٹنگوں اور ریلیوں میں جاتی رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں ناگپور، اورنگ آباد، کلمب اور دیگر مقامات پر گئی ہوں۔ لیکن ان سے کچھ نہیں ہوتا۔ اب میں کہاں جاؤں؟ کس سے پوچھوں؟‘‘

مترجم: شفیق عالم

Sharmila Joshi

Sharmila Joshi is former Executive Editor, People's Archive of Rural India, and a writer and occasional teacher.

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Shafique Alam
shafique.aalam@gmail.com

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam