رادھا کے ذریعے دکھائی گئی ہمت کی قیمت ان کے کتوں کو چکانی پڑی۔ پہلے کتے کا سر کاٹ دیا گیا، دوسرے کو زہر دے دیا گیا، تیسرا لاپتہ ہے، اور چوتھے کو ان کی آنکھوں کے سامنے ہی قتل کر دیا گیا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میرے گاؤں کے چار طاقتور لوگوں نے میرے ساتھ جو کچھ کیا اس کی وجہ سے آج وہ جیل میں بند ہیں۔ عصمت دری کے معاملے میں سمجھوتہ نہ کرنے پر وہ مجھ سے بہت زیادہ نفرت کرتے ہیں۔‘‘

تقریباً چھ سال پہلے چار لوگوں نے رادھا (یہ ان کا اصلی نام نہیں ہے) پر جنسی حملہ کیا تھا۔ وہ اپنے گاؤں سے بیڈ شہر جا رہی تھیں – تقریباً ۱۰۰ کلومیٹر دور، بیڈ ضلع میں – تبھی ایک پرائیویٹ گاڑی کے ڈرائیور نے لفٹ دینے کے بہانے ان کا اغوا کر لیا تھا۔ اس کے بعد وہ اور اسی گاؤں کے اس کے تین دوستوں نے ان کی عصمت دری کی۔

اپنے ذہنی کرب کو بیان کرتے ہوئے ۴۰ سالہ رادھا کہتی ہیں، ’’اس واقعہ کے بعد میں کئی ہفتوں تک پریشان رہی۔ میں نے انہیں قانونی سزا دلوانے کا فیصلہ کیا، لہٰذا میں نے ان کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرائی۔‘‘

اپنے اوپر ہوئے اس پر تشدد حملہ کے وقت رادھا اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ بیڈ شہر میں رہتی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میرے شوہر وہاں پر ایک مالیاتی ایجنسی میں کام کرتے تھے۔ میں تھوڑے تھوڑے وقفہ پر اپنے کھیتوں کو دیکھنے کے لیے گاؤں چلی جاتی تھی۔‘‘

پولیس میں شکایت درج کرانے کے بعد رادھا پر کیس کو واپس لینے کا دباؤ پڑنے لگا۔ رادھا بتاتی ہیں کہ گنہگاروں اور ان کے رشتہ داروں کا گرام پنچایت کے ممبران کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور وہ گاؤں کے رسوخ دار لوگ ہیں۔ ’’میں نے وہ دباؤ محسوس کیا۔ لیکن میں گاؤں سے دور رہتی تھی۔ شہر میں میری حمایت کرنے والے کئی لوگ تھے۔ میں وہاں خود کو کچھ حد تک محفوظ اور پر اعتماد محسوس کرتی تھی۔‘‘

لیکن مارچ ۲۰۲۰ میں کووڈ۔۱۹ وبائی مرض شروع ہونے کی وجہ سے انہیں لوگوں کی طرف سے ملنے والا تحفظ ختم ہونے لگا۔ ملک گیر لاک ڈاؤن کا اعلان ہونے کے بعد ان کے شوہر، منوج (یہ ان کا اصلی نام نہیں ہے) کی نوکری چلی گئی۔ رادھا بتاتی ہیں، ’’وہ ہر مہینے ۱۰ ہزار روپے کماتے تھے۔ ہم ایک کرایے کے مکان میں رہتے تھے، لیکن منوج کے بے روزگار ہونے کے بعد ہم کرایہ دینے کے قابل نہیں رہے۔ گزر بسر کرنا کافی مشکل ہو گیا تھا۔‘‘

چونکہ ان کے پاس اب کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا تھا، اس لیے رادھا، منوج اور ان کے بچوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے گاؤں لوٹنا پڑا – یعنی اسی جگہ پر، جہاں رادھا کی عصمت دری کی گئی تھی۔ وہ بتاتی ہیں، ’’یہاں پر ہمارے پاس تین ایکڑ زمین ہے، اس لیے ہم یہاں رہنے کے لیے آ گئے۔ ہم کسی اور چیز کے بارے میں سوچ نہیں سکتے تھے۔‘‘ اب یہ فیملی زمین کے اس ٹکڑے پر ایک جھونپڑی میں رہتی ہے، اور رادھا وہاں کپاس اور جوار اُگاتی ہیں۔

رادھا جیسے ہی گاؤں لوٹیں، گنہگاروں کے گھر والوں نے انہیں نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ رادھا کہتی ہیں، ’’کیس چل رہا تھا۔ اسے واپس لینے کے لیے دباؤ کافی بڑھ گیا۔‘‘ لیکن جب انہوں نے پیچھے ہٹنے سے منع کر دیا، تو یہ دباؤ دھمکی میں تبدیل ہو گیا۔ رادھا کہتی ہیں، ’’گاؤں میں، اب میں ان کے ٹھیک سامنے تھی۔ مجھے دھمکی دینا اور ہراساں کرنا آسان ہو گیا۔‘‘ لیکن رادھا نے ہار نہیں مانی۔

رادھا اپنے گاؤں کے کھیت سے شہر کی طرف جا رہی تھیں تبھی انہیں اغوا کرکے ان پر حملہ کیا گیا

سال ۲۰۲۰ کے وسط میں، ان کے گاؤں اور دو پڑوسی گاؤوں کی گرام پنچایت نے رادھا اور ان کی فیملی کا سماجی بائیکاٹ کرنے کا اعلان کر دیا۔ رادھا پر الزام لگایا گیا کہ وہ ’’بد کردار‘‘ ہیں اور اپنے گاؤں کو بدنام کر رہی ہیں۔ ان کے اوپر تینوں گاؤوں میں گھومنے پھرنے پر ’’پابندی‘‘ لگا دی گئی۔ وہ یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں، ’’میں جب گھریلو ضروریات پوری کرنے کے لیے گھر سے باہر نکلتی، تو لوگ مجھے بھلا برا کہتے۔ اصل میں وہ کہنا چاہتے تھے کہ ’تم ہمارے لوگوں کو جیل بھیجنا چاہتی ہو، پھر بھی تمہاری اتنی ہمت کہ گاؤں میں ہمارے درمیان رہو‘۔‘‘

انہیں اکثر ایسا محسوس ہوتا کہ وہ اب ٹوٹ جائیں گی۔ ’’ مالا سواتہالا سنبھالنا مہتوچا ہوتا (میرے لیے خود کو سنبھالنا ضروری تھا)،‘‘ وہ مراٹھی میں کہتی ہیں۔ ’’یہ کیس اب جلد ہی ختم ہونے والا ہے۔‘‘

کورٹ کیس کے دوران بیڈ میں خواتین کے حقوق کے لیے لڑنے والی ایک کارکن، منیشا ٹوکلے ہمیشہ رادھا کے رابطہ میں رہیں۔ اس سے پہلے انہوں نے پولیس میں شکایت درج کرانے میں رادھا کی مدد کی تھی۔ ٹوکلے بتاتی ہیں، ’’ہمارے وکیل کو [مثبت] فیصلہ آنے کا پورا اعتماد تھا۔ لیکن رادھا کے لیے مضبوطی سے کھڑے رہنا ضروری تھا۔ میں چاہتی تھی کہ وہ پر اعتماد رہے اور حالات سے گھبرائے نہیں۔‘‘ کارکن نے اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ رادھا کو منودھیریہ اسکیم کے ذریعے ڈھائی لاکھ روپے کا معاوضہ ملے، جس کے تحت مہاراشٹر حکومت عصمت دری کی متاثرہ کو مالی مدد فراہم کرتی ہے۔

لمبی چلنے والی قانونی کارروائی کے سبب منوج کبھی کبھی پریشان ہو جاتے تھے۔ ٹوکلے کہتی ہیں، ’’وہ کبھی کبھی مایوس ہو جاتے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ تحمل سے کام لیں۔‘‘ ٹوکلے دیکھ رہی تھی کہ کیسے منوج پوری ہمت سے رادھا کی اس لڑائی میں ان کے ساتھ کھڑے تھے۔

یہ کیس دھیمی رفتار سے آگے بڑھ رہا تھا اور وبائی مرض کے دوران تو اس کی رفتار مزید دھیمی ہو گئی جب عدالت کا کام آن لائن ہونے لگا تھا۔ رادھا کہتی ہیں، ’’ [تب تک] چار سال پہلے ہی گزر چکے تھے۔ لاک ڈاؤن کے بعد دو چار بار سماعت ملتوی کر دی گئی تھی۔ ہم نے ہار نہیں مانی، لیکن اس نے انصاف حاصل کرنے کی ہماری امید کو کم کر دیا تھا۔‘‘

ان کا صبر و تحمل رائیگاں نہیں گیا۔ پچھلے سال اکتوبر میں، جب اس جرم کے ارتکاب میں تقریباً چھ سال گزر چکے تھے، بیڈ سیشن کورٹ نے ملزمین کو عصمت دری کرنے کا مجرم پایا۔ مردوں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ ٹوکلے کہتی ہیں، ’’ہم نے جب رادھا کو اس فیصلہ کے بارے میں بتایا، تو وہ ایک منٹ کے لیے خاموش ہو گئیں اور پھر زار و قطار رونے لگیں۔ ان کی لمبی لڑائی آخرکار رنگ لائی۔‘‘

لیکن ہراسانی کا سلسلہ یہیں نہیں رکا۔

دو مہینے بعد، رادھا کو ایک نوٹس ملا کہ انہوں نے کسی اور کی زمین پر ناجائز طریقے سے قبضہ کر لیا ہے۔ گرام سیوک کے دستخط سے جاری ہونے والی اس دستاویز کے مطابق، رادھا جس زمین پر کھیتی کر رہی تھیں اور رہ رہی تھیں، وہ ان کے گاؤں کے چار دیگر لوگوں کی ہے۔ رادھا کہتی ہیں، ’’وہ لوگ میری زمین کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ یہاں کے ہر شخص کو معلوم ہے کہ کیا ہو رہا ہے، لیکن خوف کی وجہ سے کوئی بھی کھل کر میرا ساتھ نہیں دے رہا ہے۔ وبائی مرض کے دوران مجھے پتہ چلا کہ ایک عورت کی زندگی کو برباد کرنے کے لیے لوگ کس حد تک جا سکتے ہیں۔‘‘

پولیس میں شکایت درج کرانے کے بعد رادھا پر کیس کو واپس لینے کا دباؤ پڑنے لگا۔ گنہگاروں اور ان کے رشتہ داروں کا گرام پنچایت کے ممبران کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور وہ گاؤں کے رسوخ دار لوگ ہیں

ٹن کی چھت والے جس گھر میں رادھا کی فیملی رہتی ہے، وہ مانسون کے دوران ٹپکتی ہے اور گرمیوں میں گرم ہو جاتی ہے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’جب ہوا تیز چلتی ہے، تو ایسا لگتا ہے کہ چھت اڑ جائے گی۔ ایسا ہونے پر میرے بچے بستر میں چھپ جاتے ہیں۔ یہ ہے میری حالت، پھر بھی وہ مجھے اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔ انہوں نے میری پانی کی سپلائی بھی روک دی ہے اور مجھے یہاں سے بھگانے کی دھمکی دی ہے۔ لیکن میرے پاس سبھی کاغذات موجود ہیں۔ میں کہیں نہیں جانے والی۔‘‘

رادھا نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو ایک لیٹر لکھ کر بتایا کہ کیسے ان کی زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اور انہیں تحفظ کی ضرورت ہے۔ بعد میں، گرام سیوک نے مجسٹریٹ کو خط لکھ کر بتایا کہ نوٹس میں کسی اور نے ان کا فرضی دستخط کیا تھا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ زمین دراصل رادھا کی ہی ہے۔

رادھا کی اس حالت کو دیکھتے ہوئے، ۲۰۲۱ کے شروع میں، مہاراشٹر قانون ساز کونسل کی نائب چیئرمین، نیلم گوڑھے نے ریاستی دیہی ترقی کے وزیر، حسن مشرف کو ایک خط لکھا۔ انہوں نے رادھا اور ان کی فیملی کو تحفظ فراہم کرنے، اور تین گاؤوں کے ذریعے غیر قانونی طور پر سماجی بائیکاٹ کا نوٹس جاری کرنے کی انکوائری کرانے پر زور دیا۔

اب رادھا کے گھر کے باہر چوبیسوں گھنٹے ایک پولیس کانسٹیبل کو تعینات کر دیا گیا ہے۔ رادھا کہتی ہیں، ’’میں ابھی بھی خود کو پوری طرح محفوظ محسوس نہیں کرتی۔ پولیس والا یہاں کبھی ہوتا ہے، کبھی نہیں ہوتا۔ رات میں مجھے اچھی طرح نیند نہیں آتی۔ [مارچ ۲۰۲۰ میں] لاک ڈاؤن سے پہلے، میں کم از کم آرام سے سو پاتی تھی، کیوں کہ میں گاؤں سے دور تھی۔ اب میں ہمیشہ تھوڑا بہت جاگتی رہتی ہوں، خاص کر جب گھر پر صرف میں اور میرے بچے ہوں۔‘‘

یہاں تک کہ منوج کو بھی تب اچھی طرح نیند نہیں آتی، جب وہ اپنی فیملی سے دور ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’مجھے ہمیشہ فکر لگی رہتی ہے کہ آیا وہ ٹھیک ٹھاک اور محفوظ ہیں یا نہیں۔‘‘ شہر میں اپنی نوکری چلی جانے کے بعد دہاڑی مزدور کے طور پر کام کرنے کے بعد، انہیں پچھلے سال ستمبر میں روزگار مل گیا تھا۔ ان کے کام کی جگہ گاؤں سے ۶۰ کلومیٹر دور ہے، جہاں پر انہوں نے ایک چھوٹا سا کمرہ کرایے پر لیا ہے۔ رادھا بتاتی ہیں، ’’ان کی تنخواہ [وبائی مرض سے پہلے] وہ جتنا کماتے تھے اس سے کافی کم ہے۔ اس لیے وہ اتنا بڑا کمرہ کرایے پر نہیں لے سکتے جہاں ہم سبھی لوگ ایک ساتھ رہ سکیں۔ وہ ہفتے میں ایک بار آتے ہیں اور ہم لوگوں کے ساتھ ۳-۴ دن گزارتے ہیں۔‘‘

رادھا کو یہ فکر ستائے جا رہی ہے کہ مقامی اسکول جب کھل جائے گا، تو ان کی تین بیٹیوں (جن کی عمر ۸ سال، ۱۲ سال اور ۱۵ سال ہے) کے ساتھ وہاں کیسا برتاؤ کیا جائے گا۔ ’’مجھے نہیں معلوم کہ کیا انہیں بھی ہراساں کیا جائے گا یا دھمکی دی جائے گی۔‘‘

ان کے کتے ان کی بے چینی کو کم کرنے میں مدد کرتے تھے۔ رادھا بتاتی ہیں، ’’ان سے بھی تھوڑا بہت تحفظ ملتا تھا۔ اگر کوئی جھونپڑی کے پاس آنے کی کوشش کرتا، تو وہ بھونکنے لگتے تھے۔ لیکن ان لوگوں نے ان کتوں کو بھی ایک ایک کرکے مارنا شروع کر دیا۔ میرے چوتھے کتے کو ابھی حال ہی میں مار دیا گیا ہے۔‘‘

رادھا کہتی ہیں کہ پانچویں کتے کو پالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ’’کم از کم گاؤں کے کتوں کی جان محفوظ رہنی چاہیے۔‘‘

اسٹوری کی اس سیریز کو، رپورٹر کو آزادانہ صحافتی گرانٹ کے توسط سے پولٹزر سنٹر کی م دد حاصل ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Text : Parth M.N.

Parth M.N. is a 2017 PARI Fellow and an independent journalist reporting for various news websites. He loves cricket and travelling.

Other stories by Parth M.N.
Illustrations : Labani Jangi

Labani Jangi is a 2020 PARI Fellow, and a self-taught painter based in West Bengal's Nadia district. She is working towards a PhD on labour migrations at the Centre for Studies in Social Sciences, Kolkata.

Other stories by Labani Jangi
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez