ایف آئی آر میں درج ہے، ’’کونڈرا سمیّا نے مالی قرض کے سبب پیدا شدہ ذہنی تکلیفوں کی وجہ سے حشرہ کش پی لیا۔‘‘

ایف آئی آر (فرسٹ انفارمیشن رپورٹ) ۱۷ ستمبر، ۲۰۱۷ کو نرساپور سے تین کلومیٹر دور تریگوپُلا پولیس اسٹیشن میں درج کرائی گئی تھی۔ نرساپور وہ گاؤں ہے، جہاں سمیا اور ان کی بیوی کونڈرا ساگریکا نے بارش سے سینچی، ۶ ایکڑ زمین پر بی ٹی کپاس کی کھیتی کی تھی۔

ان کا قرض تقریباً ۵ لاکھ روپے کے آس پاس پہنچ گیا تھا۔ یہ قرض الگ الگ شرح سود پر زیادہ تر رشتہ داروں سے لیا گیا تھا۔ سمیا اور ساگریکا کے پاس تقریباً ایک ایکڑ سے زیادہ زمین تھی اور بقیہ انہوں نے رشتہ داروں سے لیز پر لی تھی۔ ساگریکا کہتی ہیں، ’’کھیتی کے ہر سیزن سے پہلے کسانوں کو قرض لینا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے قرض چڑھ گیا۔‘‘ خشک سالی نے اس قرض کو مزید بڑھا دیا۔

اپنی خود کی زمین پر کھیتی کرنے کی کوشش کرنے سے پہلے، دونوں کپاس کے کھیتوں میں زرعی مزدور کے طور پر کام کیا کرتے تھے۔ سال ۲۰۱۱ میں شادی کرنے کے بعد، وہ کچھ دنوں تک حیدر آباد میں رہے، جہاں سمیا نے ڈرائیور کا کام کیا۔ والد کی طبیعت خراب رہنے کی وجہ سے، وہ ۲۰۱۳ میں جنگاؤں ضلع میں واقع اپنے گاؤں نرساپور لوٹ آئے۔

ستمبر ۲۰۱۷ میں خودکشی کے وقت سمیا کی عمر ۲۹ سال تھی۔ ساگریکا محض ۲۳ سال کی تھیں۔ ان کے بچے اسنیہتا اور ساتوک ۵ اور تین سال کے تھے۔ ساگریکا کہتی ہیں، ’’بچے تقریباً ہر روز میرے شوہر کے ساتھ گزارے گئے لمحوں کو یاد کرتے ہیں۔ شوہر کے گزر جانے کے بعد پہلا سال میرے لیے بہت مشکل تھا۔ رشتہ دار مجھے اجتماعی تقریبات میں نہیں بلاتے تھے۔ اب انہوں نے میری مشکلیں دیکھی ہیں اور وہ مجھے بلانے لگے ہیں۔‘‘

Kondra Sammaiah was 29 years old in September 2017, Sagarika was 23. Their children, Snehitta and Satvik, were 5 and 3
PHOTO • Raju Ooru Govardhangiri
Kondra Sammaiah was 29 years old in September 2017, Sagarika was 23. Their children, Snehitta and Satvik, were 5 and 3
PHOTO • Kondra Sagarika

ستمبر ۲۰۱۷ میں کونڈرا سمیا کی عمر ۲۹ سال اور ساگریکا کی عمر ۲۳ سال تھی۔ ان کے بچے اسنیہتا اور ساتوک، بالترتیب ۵ اور ۳ سال کے تھے

فروری ۲۰۱۸ میں، اپنے شوہر کی موت کے کچھ مہینوں بعد، ساگریکا نے اپنی زمین پر اُگائے تقریباً ۷ کوئنٹل کپاس کو کسی طرح ایک مقامی خریدار کو بیچا۔ خرچوں کو کاٹ کر انہیں تقریباً ۱۲ ہزار روپے کی کمائی ہوئی، جسے انہوں نے روزمرہ کے کاموں میں استعمال کیا۔ سال ۲۰۱۸ کے بوائی کے موسم میں انہوں نے پھر سے کپاس کی کھیتی کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اس کے بعد بے حد کم کمائی ہونے کی وجہ سے بند کر دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ زمین خالی پڑی ہے اور اب بوائی سے پہلے زمین کو مسطح (برابر) کرنے اور دیگر بہت سے دوسرے کام کرنے ہوں گے۔ پٹّہ پر لی گئی زمین کی لیز آگے کے لیے نہیں بڑھائی گئی۔

شوہر کے انتقال کے کچھ ہفتے بعد وہ زمین اپنے نام کرانے کے لیے تریگوپُلا کے ’منڈل ریونیو آفس (ایم آر او)‘ گئی تھیں۔ ان کی ساس اور دیور نے اس بات کی جم کر مخالفت کی۔ لیکن، جولائی ۲۰۲۰ میں ساگریگا کو ایک ایکڑ زمین اپنے نام پر مل گئی۔ اور نامنی کے طور پر ان کے بیٹے کا نام تھا۔

وہ اپنے بچوں کے ساتھ اس گھر میں رہتی تھیں، جو ان کے شوہر کی فیملی کا ہے۔ انہیں کرایہ دینے کے لیے نہیں کہا جاتا ہے، لیکن وہ اپنی کمائی سے ہی مہینے کے تمام اخراجات کا بندوبست کرتی ہیں۔ سال ۲۰۱۴ میں ان کے سسر، کونڈرا یے لیّا کا انتقال ہو گیا تھا اور ان کی ساس، کونڈرا انجمّا کو حیدرآباد میں گھر میں رہنے والی گھریلو ملازمہ کے طور پر نوکری مل گئی تھی۔

Sagarika works as an agricultural labourer, and at MGNREGA sites when work is available
PHOTO • Jodumuntala Shreeja

ساگریکا زرعی مزدوری کرنے کے ساتھ ساتھ، کام دستیاب ہونے پر منریگا کے تحت مزدوری کرتی ہیں

ساگریگا کے چچا (سسر کے بھائی)؛ ایک دوسرے گاؤں میں رہتے ہیں اور انہوں نے نرساپور کی ۵ ایکڑ کی اُس زمین پر حال ہی میں کھیتی کرنا شروع کیا ہے، جو انہوں نے سمیا اور ساگریکا کو لیز پر دی تھی۔ اس سال اکتوبر میں، انہوں نے ساگریکا کو وہ گھر چھوڑنے کے لیے کہا جس میں وہ رہ رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’اب چونکہ انہوں نے یہاں (نرساپور میں) کھیتی شروع کر دی ہے، اس لیے انہیں یہاں آنے پر رہنے کے لیے جگہ چاہیے۔ انہوں نے مجھے دیوالی تک گھر خالی کرنے کے لیے کہا، لیکن مجھے کوئی جگہ نہیں ملی۔ گاؤوں میں کرایے کی جگہ تلاش کرنا مشکل ہوتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم میں کیا کروں۔‘‘

ساگریکا کے والدین نرساپور میں رہتے ہیں۔ ان کی ماں، شترلا کنک لکشمی (۴۵ سال) ایک آشا ورکر (منظور شدہ سماجی صحت کارکن) ہیں۔ ان کے والد، شترلا ایلیّا (۶۰ سال) نے کئی سال پہلے بگڑتی صحت کی وجہ سے دہاڑی (سامان چڑھانے اور اتارنے) کا کام کرنا بند کر دیا ہے۔

سمیا کی خودکشی کے بعد ساگریکا زرعی مزدوری کر کے اور منریگا کے کام کی جگہوں پر بطور مزدور ہونے والی اپنی آمدنی سے تمام اخراجات کا انتظام کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’جب میرے شوہر زندہ تھے، کام تو میں تب بھی کرتی تھی، لیکن مجھے باہر جانے کی ضرورت نہیں تھی اور بچوں کی پرورش اکیلے نہیں کرنی پڑتی تھی۔ اب میں جانتی ہوں کہ میرے پاس ایسا کوئی نہیں ہے جس پر میں منحصر رہ سکوں۔ اس بات کا احساس ہونا انتہائی تکلیف دہ ہے۔ سمیا کی طرح ساگریکا بھی مالا ذات سے تعلق رکھتی ہیں، جو دلت کمیونٹی کی فہرست میں شامل ہے۔

پچھلے سال طبیعت بگڑنے کی وجہ سے انہوں نے مارچ کے بعد کھیتوں میں کام کرنا بند کر دیا تھا، لیکن اپریل اور مئی میں منریگا کا کام کیا تھا۔ اس سال جنوری اور فروری میں انہوں نے پھر سے کھیتوں میں کام کیا۔ اور مارچ میں لاک ڈاؤن لگنے کے بعد انہیں اپریل اور مئی میں تقریباً ۳۰ دنوں کے لیے منریگا کا کام ملا۔ لیکن انہیں صرف ۱۵۰۰ روپے ہی مزدوری میں ملے تھے۔ اس سال اگست کے بعد سے ہی وہ لگاتار کام کر پا رہی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں، ’’طبیعت ٹھیک نہیں ہے، اسی لیے کام بند کیا تھا۔ میرے کام میں دن بھر جھکے رہنا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر نے جھکنے سے بالکل منع کیا ہے۔ اس لیے میں نے بند کر دیا۔‘‘ پچھلے سال فروری میں، ساگریکا کو وارنگل شہر کے ایک نرسنگ ہوم میں، اپریل ۲۰۱۴ میں ساتوک کی سی-سیکشن ڈیلیوری کے دوران ٹانکوں کے پاس خون کے تھکّے کا پتہ چلا تھا۔

پچھلے چھ مہینوں سے ساگریکا کو بار بار ہونے والے بخار اور تھکان کی شکایت رہتی ہے۔ ساتھ ہی، خون کے تھکے کی وجہ سے درد بنا رہتا ہے۔ اس سے وہ لگاتار بستر پر پڑے رہنے کو مجبور ہیں۔ وہ نہیں جانتیں کہ نرساپور سے تقریباً ۲۵ کلومیٹر دور جنگاؤں میں، ڈاکٹر سے علاج کرانے کے باوجود، اس کا کوئی حل کیوں نہیں نکل پا رہا۔

اتنی مشکلیں برداشت کرتے ہوئے بھی انہیں گھر کا سارا کام کرنا پڑتا ہے، اور وہ کام شروع کرنے کے لیے صبح ۵ بجے اٹھ جاتی ہیں۔ پھر وہ اسنیہتا کو جگاتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ خود کو بھی کام کے لیے تیار کرتی ہیں۔ وہ ساتوک کو دن بھر کے لیے ساگریکا کے والدین کے گھر بھیج دیتی ہیں۔ وہ صبح نو بجے کام پر پہنچ جاتے ہیں اور شام چھ بجے تک گھر لوٹتے ہیں۔

Sagarika lives with her kids Snehitta and Satvik in Narasapur village, in a house that belongs to her husband’s family
PHOTO • Courtesy: Kondra Sagarika
Sagarika lives with her kids Snehitta and Satvik in Narasapur village, in a house that belongs to her husband’s family
PHOTO • Ramulu Beeram

ساگریکا اپنے شوہر کی فیملی کے نرساپور گاؤں میں واقع گھر میں اپنے بچوں، اسنیہتا اور ساتوک کے ساتھ رہتی ہیں

ساگریکا کہتی ہیں کہ جب سے ان کے شوہر کی موت ہوئی ہے، انہوں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ’’جب لوگ میرے بارے میں کوئی بری بات کہتے ہیں، تو میں مایوس نہیں ہوتی۔ میں جانتی ہوں کہ مجھے اپنے بچوں کے لیے جینا ہے۔ میں انہیں پڑھانے کے لیے کام کرتی رہوں گی۔‘‘

وہ اپنے شوہر کے ذریعے لیے گئے کسی بھی قرض کی کوئی چھوٹی رقم تک نہیں چکا پائی ہیں۔ سال ۲۰۲۰ میں وہ اپنی بہن سے لیے گئے پیسے لوٹانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ انہوں نے ۶۲ ہزار میں سے کسی طرح ۵۰ ہزار روپے لوٹا دیے ہیں۔ ان کی بہن اسی گاؤں میں اپنے شوہر کے ساتھ ۲ ایکڑ زمین پر کھیتی کرتی ہیں۔ این ایس ایس کی ۷۰ویں راؤنڈ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں قرض میں مبتلا کسان کنبوں میں تلنگانہ کا حصہ ۸۹ اعشاریہ ۱ فیصد ہے، جو قومی سطح (۵۱ اعشاریہ ۹ فیصد) سے بہت زیادہ ہے۔

ساگریکا کو ۲۰۰۰ روپے ماہانہ کی بیوہ پنشن ملتی ہے۔ اس کے علاوہ، آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں کسانوں کے حقوق کی وکالت کرنے والے گروپ، ریتو سوراجیہ ویدکا سے لوگوں کو سرکاری اسکیموں کے لیے فارم وغیرہ بھروانے اور ویری فکیشن وغیرہ کی کارروائی کی خاطر پولیس اسٹیشن جانے کے لیے کبھی کبھی ۲۰۰۰ روپے کی اعزازی رقم ملتی ہے۔

ساگریکا کو تلنگانہ حکومت کے ذریعے متوفی کسان کی فیملی کو دیا جانے والا ۶ لاکھ روپے کا معاوضہ بھی نہیں ملا ہے۔

ساگریکا یاد کرتی ہیں، ’’شروع میں انہوں نے (ایم آر او کے عہدیداروں) نے مجھے بتایا کہ مجھے معاوضہ کی رقم ملے گی۔ وہ مجھے بار بار آنے کو کہتے۔ دسمبر ۲۰۱۸ میں انہوں نے کہا کہ جانچ میں پایا گیا ہے کہ گاؤں میں کسی کے ساتھ میرے شوہر کی ان بن تھی۔ اس لیے یہ کسان خودکشی نہیں تھی، اور میری کیس بند کر دیا گیا ہے۔‘‘

'We eat only rice and pickles now,' says Sagarika, as prices have increased after the lockdown
PHOTO • Ramulu Beeram

ساگریکا کہتی ہیں، ’اب ہم صرف چاول اور اچار کھاتے ہیں۔‘ لاک ڈاؤن لگنے کے بعد قیمت بڑھ گئی ہے

لیکن ایف آئی آر میں کسی سے ان بن ہونے کا کوئی ذکر نہیں ہے، اور ساگریکا اس بات پر زور دیتی ہیں کہ ان کے شوہر کی کسی سے کوئی لڑائی نہیں تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ خودکشی کے بعد کوئی بھی عہدیدار معاملے کی ’اہلیت‘ کی جانچ کے لیے ان کے گھر نہیں آیا۔ جب بھی وہ ایم آر او جاتی ہیں، انہیں کیس بند ہونے کی الگ وجہ بتائی جاتی ہے۔

وہ نومبر ۲۰۱۹ میں بھی اس بات کا پتہ لگانے کی کوشش کرتی رہیں کہ ان کا کیس کیوں بند کیا گیا۔ انہوں نے آر ٹی آئی ( رائٹ ٹو انفارمیشن ) کے ذریعے اپنے معاوضے کی جانکاری مانگی۔ اس میں ریتو سوراجیہ ویدکا نے ان کی مدد کی۔ ان کی درخواست فروری ۲۰۲۰ میں جنگاؤں کے ریونیو ڈسٹرکٹ آفس کو بھیجی گئی تھی۔ ساگریکا کو ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا ہے۔

اور پھر ۲۵ مارچ سے ملک بھر میں لاک ڈاؤن لگنے اور اسکول بند ہونے کے بعد سے انہیں اپنے بچوں کی فکر لگی رہتی ہے۔ لاک ڈاؤن کے بعد اسنیہتا کو جنگاؤں کے پرائیویٹ بورڈنگ اسکول سے گھر بھیج دیا گیا۔ گاؤں کے سرکاری اسکول میں پڑھنے والا ساتوک بھی تب سے گھر پر ہی ہے۔ ۱۰ویں تک پڑھیں ساگریکا کہتی ہیں، ’’بچے پورا وقت گھر سے باہر کھیل رہے ہوتے ہیں۔ وہ پورا ڈسپلن کھوتے جا رہے ہیں۔‘‘

’’لاک ڈاؤن کے بعد تقریباً ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ پہلے ہم ۱۰ روپے کا دودھ کا پیکٹ لیتے تھے، جو اب ۱۲ روپے کا ہو گیا ہے۔ میرے لیے سبزیاں خریدنا مشکل ہو گیا ہے۔ اب ہم چاول اور اچار کھاتے ہیں۔ شام کو بچے اگر کھانا مانگتے ہیں، تو میں انہیں دیتی ہوں۔ صرف تب، جب وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے بھوک لگی ہے‘، ورنہ ہم بس سو جاتے ہیں۔‘‘

یہ اسٹوری جون سے دسمبر ۲۰۲۰ کے درمیان فون پر کیے گئے انٹرویو پر مبنی ہے۔ رپورٹر، ریتو سوراجیہ ویدکا کی حیدرآباد میں مقیم لکشمی پرینکا بولاورم اور پوسٹ گریجویٹ طالب علم ونیت ریڈی کو اس اسٹوری میں مدد کرنے کے لیے ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Riya Behl

Riya Behl is a journalist and photographer with the People’s Archive of Rural India (PARI). As Content Editor at PARI Education, she works with students to document the lives of people from marginalised communities.

Other stories by Riya Behl
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez