’’ہم ایک خفیہ راستے سے باہر نکل آئے۔ لیکن ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ہمارے پاس اگر سامان ہوتا، تو ہم گھر پر بیٹھ کر ٹوکری کی بنائی کرتے اور انہیں تیار کر سکتے ہیں،‘‘ تلنگانہ کے کانگل میں ٹوکری بنانے والوں کے ایک گروپ نے کہا۔ ان کا خفیہ راستہ؟ ایک ایسا راستہ جس پر نہ تو پولس کے بیریکیڈ لگے ہیں اور نہ ہی گاؤں والوں کے ذریعے کانٹے دار جھاڑیاں لگائی گئی ہیں۔

۴ اپریل کو صبح تقریباً ۹ بجے، نیلی گُندھ راشی رامولمّا، چار دیگر عورتوں اور ایک مرد کے ساتھ آٹو رکشہ میں سوار ہوئیں تاکہ کانگل سے سات کلومیٹر دور کی ایک بستی، ویلّی ڈنڈو پانڈو جاکر کھجور کی پتّے دار ٹہنیاں جمع کر سکیں۔ ان سے وہ ٹوکریاں بُنتے ہیں۔ وہ عام طور پر انہیں مشترکہ زمین، یا کبھی کبھی کھیتوں سے جمع کرتے ہیں اور اس کے بدلے میں کسانوں کو کچھ ٹوکریاں دیتے ہیں۔

مارچ سے لیکر مئی تک کی مدت، کانگل کے ٹوکری بنانے والوں کے لیے ٹوکریاں بیچنے کا اہم وقت ہوتا ہے – یہ لوگ ییرو کُلا برادری کے ہیں، جو تلنگانہ میں درج فہرست ذات میں شامل ہے۔ ان مہینوں میں گرم درجہ حرارت ان پتے دار ٹہنیوں کو سکھانے کے لیے مناسب ہوتے ہیں۔

سال کے باقی دن، وہ عام طور پر زرعی مزدوروں کے طور پر کام کرتے ہیں، اور تقریباً ۲۰۰ روپے یومیہ مزدوری پاتے ہیں۔ کپاس کی کٹائی کے موسم میں، جو دسمبر سے فروری تک چلتا ہے، کچھ لوگ کام کی دستیابی کی بنیاد پر، تقریباً ایک مہینہ تک ۷۰۰-۸۰۰ روپے روزانہ کماتے ہیں۔

اس سال، کووڈ- ۱۹ لاک ڈاؤن نے ٹوکریاں بیچنے سے ہونے والی ان کی کمائی پر بریک لگا دی ہے۔ ’’جن کے پاس پیسہ ہے وہ کھا رہے ہیں۔ لیکن ہم نہیں کھا پا رہے ہیں۔ اسی لیے ہم باہر نکلے [تاکہ پتّے دار ٹہنیاں جمع کر سکیں]۔ ورنہ ہم کیوں نکلتے؟‘‘ تقریباً ۷۰ سال کی رامولمّا کہتی ہیں۔

The baskets Ramulamma (left), Ramulu (right) and others make are mainly used at large gatherings like weddings to keep cooked rice and other edible items. From March 15, the Telangana government imposed a ban on such events
PHOTO • Harinath Rao Nagulavancha
The baskets Ramulamma (left), Ramulu (right) and others make are mainly used at large gatherings like weddings to keep cooked rice and other edible items. From March 15, the Telangana government imposed a ban on such events
PHOTO • Harinath Rao Nagulavancha

رامولمّا (بائیں)، رامولو (دائیں) اور دیگر لوگ جو ٹوکریاں بناتے ہیں، ان کا استعمال  بنیادی طور سے شادی جیسی بڑی تقریبات میں پکائے گئے چاول اور دیگر غذائی اشیاء کو رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ تلنگانہ حکومت نے ۱۵ مارچ سے اس قسم کی تقریبات پر پابندی لگا دی تھی

رامولمّا کے چھ رکنی گروپ کو ۳۰-۳۵ ٹوکریاں بنانے کے لیے ۲-۳ دنوں تک ۵-۶ گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔ فیملی کے رکن عام طور پر ایک ساتھ کام کرتے ہیں – اور رامولمّا کا اندازہ ہے کہ کانگل میں کم از کم ۱۰ ایسے گروپ ہیں۔ نالگونڈہ ضلع کے کانگل منڈل کے اس گاؤں کی آبادی تقریباً ۷۰۰۰ ہے، جن میں سے ۲۰۰ لوگ ایس ٹی برادری کے ہیں۔

’’ہمیں سب سے پہلے پتّوں سے کانٹے صاف کرنے پڑتے ہیں۔ اس کے بعد ہم انہیں بھگوتے ہیں، سکھاتے ہیں اور انہیں پتلے اور لچکدار ٹکڑوں میں پھاڑتے ہیں۔ اور پھر ٹوکریاں [اور دیگر سامان] بُنتے ہیں،‘‘ رامولمّا بتاتی ہیں۔ ’’اور یہ سب کرنے کے بعد، اب ہم انہیں [لاک ڈاؤن کے سبب] فروخت نہیں کر پا رہے ہیں۔‘‘

حیدرآباد کا ایک تاجر ہر ۷ سے ۱۰ دنوں میں ٹوکریاں لینے کے لیے آتا ہے۔ بُنائی کرنے والے ہر ایک ٹوکری ۵۰ روپے میں بیچتے ہیں – اور مارچ سے مئی تک روزانہ تقریباً ۱۰۰-۱۵۰ روپے کماتے ہیں۔ لیکن، ۲۸ سالہ نیلی گُندھ راشی سومتی کہتی ہیں، ’’ہم اس نقدی کو تبھی دیکھ پاتے ہیں جب ہم بیچتے ہیں۔‘‘

تلنگانہ میں ۲۳ مارچ کو لاک ڈاؤن نافذ کیے جانے کے بعد، تاجروں نے کانگل آنا بند کر دیا ہے۔ ’’ایک یا دو ہفتے میں ایک بار، وہ ہم سے اور [آس پاس کے مختلف گاؤوں کے] کئی دیگر لوگوں سے ٹوکریوں سے بھرا ایک ٹرک خریدتا ہے،‘‘ ۴۰ سالہ نیلی گُندھ راشی رامولو، لاک ڈاؤن سے پہلے کی صورتحال کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں۔

رامولو اور دیگر لوگ جو ٹوکریاں بناتے ہیں، ان کا استعمال بنیادی طور سے شادی جیسی بڑی تقریبات میں اُبلے ہوئے چاول کو سکھانے، تلی ہوئی غذائی اشیاء سے تیل چھاننے کے لیے رکھنے میں کیا جاتا ہے۔ تلنگانہ حکومت نے ۱۵ مارچ سے اس قسم کی تقریبات پر پابندی لگا دی تھی۔

مقامی تاجروں کے پاس اب ٹوکریوں کا وہ اسٹاک بچا ہوا ہے، جسے انہوں نے ۲۵ مارچ کو منایا جانے والا تیلگو نیا سال، اُگادی سے پہلے منگوایا تھا۔ اس لیے لاک ڈاؤن میں بھلے ہی نرمی برتی جائے یا اسے اٹھا لیا جائے، تاجر کانگل کا اگلا سفر تبھی کریں گے جب فنکشن ہال اور اس قسم کے دیگر مقامات پر تقریبات دوبارہ منعقد ہوں۔

Clearing thorns from the silver date palm fronds: Neligundharashi Ramulamma (top left); Neligundharashi Yadamma (top right); Neligundharashi Sumathi  (bottom left), and Ramulu (bottom right)
PHOTO • Harinath Rao Nagulavancha

کھجور کے پتّوں سے کانٹوں کی صفائی: نیلی گُندھ راشی رامولمّا (اوپر بائیں)؛ نیلی گُندھ راشی یدمّا (اوپر دائیں)؛ نیلی گُندھ راشی سومتی (نیچے بائیں)، اور رامولو (نیچے دائیں)

’’اس نے ہمیں [فون پر] یقین دلایا تھا کہ وہ (لاک ڈاؤن کے بعد) ہم سے ساری ٹوکریاں خرید لے گا،‘‘ سومتی کہتی ہیں۔ یہ ٹوکریاں چونکہ خراب نہیں ہوتی ہیں، اس لیے وہ اور دیگر بُنکر پر امید ہیں کہ کچھ بھی بیکار نہیں جائے گا۔ لیکن کانگل میں ہر بنکر کے گھر پر ٹوکریوں کا انبار لگا ہوا ہے، اس لیے یہ صاف نہیں ہے کہ لاک ڈاؤن کے ختم ہونے پر ہر ایک ٹوکری کی قیمت گھٹے گی۔

لاک ڈاؤن شروع ہونے سے پہلے، یعنی اُگادی سے ایک ہفتہ پہلے تک تاجر کے ذریعے اٹھائی گئی ٹوکریوں سے انہوں نے جو پیسے کمائے تھے، ان سے رامولو کی بیوی نیلی گُندھ راشی یدمّا نے بازار سے ۱۰ دنوں کا سامان خریدا تھا۔ ٹوکری بنانے والے عام طور پر مقامی بازار سے اور پی ڈی ایس (پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم) کی دکان سے باقاعدگی کے ساتھ اور محدود مقدار میں چاول، دال، چینی، مرچ پاؤڈر اور تیل جیسی ضروری اشیاء خریدتے ہیں۔ ۴ اپریل کو جب میں یدمّا سے ملا، تو بازار سے خریدا گیا ان کا چاول ختم ہو گیا تھا اور وہ پچھلے مہینے کے بچے ہوئے راشن – ’کنٹرول بِیّم‘ یا پی ڈی ایس کے چاول سے کھانا بنا رہی تھیں۔ تلنگانہ میں، فیملی کا ہر شخص ۱ روپیہ فی کلو کے حساب سے چھ کلوگرام پی ڈی ایس چاول کا حقدار ہے۔ یہاں کے بازار میں چاول کی قیمت تقریباً ۴۰ روپے کلو ہے۔

حالانکہ، لاک ڈاؤن سے بہت پہلے، یدمّا اور دیگر لوگ دیکھ چکے تھے کہ کانگل میں پی ڈی ایس کی دکان سے انہوں نے جو چاول اٹھایا تھا، وہ کھانے لائق نہیں ہے – اسے جب پکایا جاتا ہے، تو یہ چپچپا ہو جاتا ہے یا خراب بدبو آتی ہے۔ ’’یہ کمّاٹی بِیّم [مزیدار چاول] تھا،‘‘ یدمّا مذاق اڑاتے ہوئے کہتی ہیں۔ ’’کھاتے رہو، کھاتے رہو اور مرتے رہو،‘‘ وہ کہتی ہیں۔

پھر بھی، وہ پی ڈی ایس کا چاول باقاعدگی سے گھر لے آئے، اس ڈر سے کہ اگر وہ اسے باقاعدگی سے نہیں اٹھائیں گے، تو اپنا راشن کارڈ کھو دیں گے۔ یدمّا اس چاول کو پیس لیتی ہیں تاکہ اپنے لیے، اپنے شوہر اور اپنے دو بچوں کے رات کے کھانے کے لیے روٹیاں بنا سکیں۔ لاک ڈاؤن سے پہلے، ان کا صبح کا اور دوپہر کا کھانا بازار سے خریدے گئے زیادہ مہنگے سَنّا بِیّم (بہترین چاول) سے پکایا جاتا تھا اور ساتھ میں سبزیاں بھی ہوتی تھیں۔ یہ چاول، سبزیاں اور دیگر ضروری چیزوں کو خریدنے کے لیے، ٹوکری بننے والوں کو لگاتار کمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ’’ ای چِنّا جاتھیکی [اس کمزور ذات کے لیے] یہ سارے مسائل ہیں،‘‘ رامولمّا کہتی ہیں۔

ریاستی حکومت فوڈ کارپوریشن آف انڈیا (ایف سی آئی) کے ذریعے سپلائی کیے گئے گودام کے اسٹاک سے غذائی اجناس تقسیم کرتی ہے۔ ایف سی آئی کے مینوئل آف کوالٹی کنٹرول میں کہا گیا ہے کہ کبوتروں کی بیٹ، گوریا کے پر، چوہوں کے پیشاب، اور کیڑے، دیمک یا جھینگور کے انفیکشن سے اناج خراب ہو سکتے ہیں۔ اس لیے کئی بار میتھائل برومائڈ اور فاسفین جیسی کیمیا کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے، جس میں سڑے ہوئے لہسن کی بدبو آتی ہے۔ یہی کچھ اسباب ہیں جن کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ کانگل کے لوگوں کو پی ڈی ایس پر ملنے والے چاول کا معیار خراب دکھائی دیتا ہو۔ ’’ہمارے بچے اس چاول کو نہیں کھاتے ہیں،‘‘ ٹوکری بنانے والی ایک دوسری خاتون، نیلی گندھ راشی وینکٹمّا کہتی ہیں۔

'Some are eating relief rice mixed with rice bought in the market', says Ramulu; while with unsold baskets piling, it is not clear if their prices will remain the same
PHOTO • Harinath Rao Nagulavancha
'Some are eating relief rice mixed with rice bought in the market', says Ramulu; while with unsold baskets piling, it is not clear if their prices will remain the same
PHOTO • Harinath Rao Nagulavancha

’کچھ لوگ راحت اشیاء کے طور پر ملے چاول کو بازار سے خریدے گئے چاول کے ساتھ کھا رہے ہیں‘، رامولو بتاتے ہیں؛ جو ٹوکریاں ابھی تک فروخت نہیں ہوئی ہیں ان کا انبار لگا ہوا ہے، جس سے یہ صاف نہیں ہے کہ ان کی قیمتیں اتنی ہی رہیں گی

حالانکہ ابھی کے لیے، معیار کا مسئلہ کچھ حد تک ٹھیک ہو گیا ہے۔ رامولو اور ان کی فیملی کو، اور کانگل کے دیگر باشندوں کو ریاستی حکومت کے کووڈ- ۱۹ راحت پیکیج کے تحت فی کنبہ ۱۲ کلو چاول اور ۱۵۰۰ روپے فی کس ملے ہیں – انہیں یہ اشیاء اپریل اور مئی کے مہینوں کے لیے، اب تک دو بار مل چکی ہیں۔ رامولو کہتے ہیں کہ اس چاول کا معیار پی ڈی ایس سے ملنے والے چاول سے بہتر ہے۔ لیکن، انہوں نے مجھے ۶ مئی کو فون پر بتایا، ’’یہ سب [راحت پیکیج کا چاول] اچھا نہیں ہے۔ اس میں سے کچھ اچھا ہے اور کچھ خراب۔ فی الحال ہم اسے کھا رہے ہیں۔ کچھ لوگ راحت اشیاء کے طور پر ملے چاول کو بازار سے خریدے گئے چاول کے ساتھ ملا کر کھا رہے ہیں۔‘‘

جب میں ۱۵ اپریل کو رامولو سے ملا تھا، تو انہیں کانگل کے ایک سرکاری دھان خرید مرکز میں یومیہ مزدوری کا کام مل گیا تھا – یہ کام عام طور پر اپریل اور مئی میں دستیاب ہوتا ہے۔ لیکن وہ صرف متبادل دنوں میں کام کر رہے تھے، کیوں کہ یہاں پر بہت سے لوگ یکساں نوکری کی تلاش میں رہتے ہیں، اور ۵۰۰ روپے یومیہ کماتے ہیں۔ یہ کام مئی کے تیسرے ہفتہ تک چلے گا، جب دھان کی خرید مکمل ہو جاتی ہے۔

رامولمّا، یدمّا اور گروپ کی دیگر عورتیں بھی کبھی کبھی ۲۰۰-۳۰۰ روپے یومیہ کے حساب سے کام کرتی ہیں۔ ’’ہم کپاس کی فصل کے باقیات [ڈنٹھل، ٹہنیاں اور فصل کے دیگر بقیہ جات] کو اکٹھا کرنے کے لیے نکل رہے ہیں،‘‘ یدمّا نے ۱۲ مئی کی صبح مجھے فون پر بتایا۔

آنے والے مہینوں میں وہ اور کانگل کے دیگر کنبے کیا کھائیں گے، یہ پی ڈی ایس سے یا راحت پیکیج میں ملنے والے چاول کے معیار پر، اور کیا وہ ٹوکریاں بیچ سکتے ہیں اور مستحکم زرعی کام حاصل کر سکتے ہیں، اس پر منحصر رہے گا۔

دریں اثنا، لاک ڈاؤن کے لیے ۱ مئی کو جاری کی گئی وزارتِ داخلہ کی تازہ ہدایتوں میں کہا گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ ۵۰ لوگ شادی سے متعلق پروگراموں میں شامل ہو سکتے ہیں – اگر تلنگانہ میں ایسا ہوتا ہے، تو ٹوکریوں کی سپلائی کا سلسلہ بحال ہو جائے گا۔ فی الحال، رامولو کہتے ہیں، ’’ہمیں ابھی تک ان کے پاس [ٹوکری کے تاجر] سے کوئی کال نہیں آیا ہے۔ ہم انتظار کر رہے ہیں۔‘‘

’’کم از کم ۵-۶ مہینے تک ٹوکریاں خراب نہیں ہوں گی،‘‘ رامولمّا کہتی ہیں۔ ’’لیکن اس نے [خریدار نے] ہمیں ابھی تک کال نہیں کیا ہے۔ کورونا ختم نہیں ہوا ہے۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Harinath Rao Nagulavancha

Harinath Rao Nagulavancha is a citrus farmer and an independent journalist based in Nalgonda, Telangana.

Other stories by Harinath Rao Nagulavancha
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez