سشما مالی، ۲۲، کو اپنے گھر، احمد نگر ضلع کے آدھل گاؤں میں اپنے کسان شوہر اور تین سال کی بیٹی سے ملے ہوئے آٹھ مہینے ہو چکے ہیں۔ لیکن، اس سے پہلے کہ وہ مئی سے اگست تک اپنی سالانہ چھٹی منانے گھر لوٹ سکیں، جس تماشہ منڈلی کے لیے وہ بطور رقاصہ کام کرتی ہیں، اس کی مالکن کے ساتھ سشما کو اپنے پیسوں کا حساب کرنا ہے۔

حساب کتاب کرنے کے لیے، پھڑ (منڈلی) کی مالکن منگلا بنسوڈے، جنہیں لوگ ’ممی‘ کہہ کر پکارتے ہیں، ستارا ضلع کے کَروڈی گاؤں میں بنے اپنے گھر کے لِوِنگ روم میں ایک کرسی پر بیٹھی ہیں۔ نیچے زمین پر کچھ مرد ہاتھوں میں بہی کھاتہ لیے بیٹھے ہوئے ہیں۔ فنکاروں، مزدوروں، وائر مین، منیجروں اور باورچیوں پر مشتمل اس 170 ممبران والی منڈلی میں سے ہر فرد ایک ایک کرکے کمرہ کے اندر داخل ہوتا ہے اور اپنے پیچھے دروازہ کو بند کر دیتا ہے۔

Kiran Bade (centre) cracks a joke during a performance with Nitin Bansode, Mummy’s younger son
PHOTO • Shatakshi Gawade ,  Vinaya Kurtkoti

نتن بنسوڈے (بائیں) اور کرن بڈے (بیچ میں) پرفارمنس کے دوران ایک لطیفہ سنا رہے ہیں۔ نتن، منگلا بنسوڈے کے سب سے چھوٹے بیٹے اور پھڑ کے مشترکہ مالک ہیں

تماشہ کی مشہور و معروف فنکار وِٹھا بائی نارائن گاؤنکر کی بیٹی، منگلا تائی اَب 66 سال کی ہو چکی ہیں۔ انھوں نے اپنی ماں کے پھڑ میں تبھی سے کام کرنا شروع کر دیا تھا، جب وہ سات سال کی تھیں۔ بعد میں وہاں ان کی ملاقات اپنے شوہر رام چندر بنسوڈے سے ہوئی، جن کے ساتھ مل کر انھوں نے 1983 میں ایک نیا پھڑ شروع کیا۔ (رام چندر ایک ڈائرکٹر، پروڈیوسر، رائٹر اور ایکٹر تھے، لیکن صحت کی خرابی کے سبب اب کام نہیں کرتے)۔ اب ان کے پھڑ کا نام ہے ’منگلا بنسوڈے اور نتن کمار تماشہ منڈل‘ (نتن اُن کے چھوٹے بیٹے کا نام ہے)۔

تماشہ ممبران میں سے اب اس کمرہ میں داخل ہو رہے ہیں کرن بڈے؛ وہ 50 ہزار روپے اُچل (ایڈوانس) کے ساتھ رخصت ہو رہے ہیں۔ پھڑ کی چار مہینے کی چھٹی کے دوران، احمد نگر ضلع کے پاتھرڈی قصبہ میں سات ممبران پر مشتمل اپنی فیملی کو چلانے میں کرن کو اس اُچل سے مدد ملے گی۔ ان کے والد اور بھائی ایک دوسری تماشہ منڈلی میں کام کرتے ہیں۔

لوگ اُچل اس لیے لیتے ہیں، تاکہ یہ بیماریوں کے علاج اور شادی بیاہ وغیرہ میں کام آ سکے۔ ’’لیکن،‘‘ کرن کہتے ہیں، ’’مالک/مالکن ہمیں اپنے ساتھ باندھے رکھنے کے لیے اُچل دیتے/دیتی ہیں۔‘‘

کرن کے اس ایڈوانس کی بھرپائی 2018-2017 کے سیزن میں انھیں 15000 روپے ماہانہ جو تنخواہ ملتی ہے، اس میں سے کچھ حصہ کاٹ کر کی جائے گی۔ اگلے سیزن کی مشق ستمبر میں شروع ہوگی اور پرفارمنس کا سلسلہ مئی میں ختم ہوگا۔ ’’میں جتنا کام کرتا ہوں، اس کا بدل مجھے اس سے زیادہ ملنا چاہیے!‘‘ 24 سالہ کرن کہتے ہیں، جن کے ہنر میں شامل ہے گانا، ناچنا اور ایکٹنگ کرنا۔

لیکن جب ان کی بیوی نے تماشہ چھوڑ کر انھیں کوئی اور کام کرنے کے لیے کہا، تو انھوں نے انکار کر دیا، کیوں کہ تماشہ سے ان کو بے حد لگاؤ ہے۔ ’’میں نے اس سے کہا کہ میں دوسری بیوی لے آؤں گا، لیکن پھڑ نہیں چھوڑوں گا۔ تماشہ ایک جیل کی طرح ہے، لیکن یہ وہ جیل ہے جس کے اندر میں رہنا چاہتا ہوں۔‘‘

سیزن جب شروع ہوتا ہے، تو کرن کو 50 روپے شِدھا (روزانہ بھتہ) کے طور پر ملتے ہیں۔ وہ اضافی آمدنی کے لیے الیکٹریشین اور ڈرائیور کا بھی کام کرتے ہیں، جس میں سے ہر ایک کام کے انھیں روزانہ تقریباً 200 روپے ملتے ہیں۔ ان کی کمائی کا کل پیسہ جوڑ کر انھیں سیزن کے اخیر میں دیا جائے گا، اور اس پیسے میں سے روزانہ کا بھتہ کاٹ لیا جائے گا۔

PHOTO • Shatakshi Gawade ,  Vinaya Kurtkoti

منگلا تائی، 66 اور ان کا سب سے بڑا بیٹا، انل، کراڈ ضلع کے ساولَج گاؤں میں پرفارمنس کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں۔ مہاراشٹر کے اندر ان کی یہ تماشہ منڈلی سب سے بڑی ہے

تماشہ کے زیادہ تر فنکاروں کا حساب کتاب یوں چلتا ہے: اُچل لیجیے، اسے چکانے کے لیے کام کیجیے، اگلے سال کے لیے ایڈوانس دوبارہ لیجیے۔ ایک تحریری معاہدہ کے تحت وہ پھڑ کے ساتھ 210 روزہ سیزن کے لیے بندھ جاتے ہیں۔ منڈلی کے سبھی ممبران کو تنخواہ کے علاوہ روزانہ دو وقت کا کھانا اور پوشاک ملتی ہے، لیکن اپنے میک اَپ کا سامان انھیں خود خریدنا پڑتا ہے۔

پھڑ کی سالانہ چھٹی کے چار مہینوں کے دوران، یہ فنکار اور مزدور یا تو اپنے کھیتوں پر کام کرتے ہیں یا پھر ڈرائیور اور گھریلو خدمت گزار کے طور پر۔ تماشہ سے ہونے والی بچت انھیں اس مدت کے دوران اپنا خرچ چلانے میں مدد کرتی ہے۔

Woman dancing in tamasha
PHOTO • Shatakshi Gawade ,  Vinaya Kurtkoti

سشما مالی نے اپنی ماں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے، 12 سال کی عمر میں رقص کو اپنا پیشہ بنا لیا تھا

منگلا تائی کے بڑے بیٹے اور پھڑ کے منیجر، 45 سالہ انل بنسوڈے کے مطابق، تماشہ منڈلی میں سب سے زیادہ پیسے رقص کرنے والی خواتین کو ملتے ہیں۔ ان کی منڈلی میں ایسی تقریباً 16 خواتین ہیں۔ ’’رواں سیزن 17-2016 میں، خواتین ڈانسر کی سب سے زیادہ تنخواہ 30 ہزار روپے ہے،‘‘ انھوں نے بتایا۔ ان کی وجہ سے بھاری بھیڑ جمع ہوتی ہے اور سامعین کی طرف سے سب سے زیادہ واہ واہی بھی انہی کو ملتی ہے۔ لیکن، انل یہ بھی بتاتے ہیں کہ ایسی رقاصاؤں کو تلاش کرنا آسان نہیں ہے، جو آٹھ مہینے تک سفر میں رہنے کے لیے تیار ہوں۔ ’’اونچی تنخواہیں ہی انھیں حاصل کرنے کا واحد راستہ ہے۔‘‘

اس سیزن میں، سشما مالی سر فہرست رقاصہ تھیں جنہوں نے کئی گانوں پر رقص کیا۔ انھوں نے تماشہ میں اپنے کریئر کی شروعات 13-12 سال کی عمر میں کی، اور پھڑ میں اپنی ماں کو رقص کرتے ہوئے دیکھ کر بڑی ہوئیں۔ سشما نے جب تماشہ آرٹسٹ بننے کا فیصلہ کیا، تو شروع میں ان کی ماں ناراض ہوئیں، کیوں کہ وہ اپنی بیٹی کو اتنی محنت کرتی نہیں دیکھنا چاہتی تھیں۔ لیکن سشما اپنی ضد پر اس لیے اَڑی رہیں، کیوں کہ وہ مالی اعتبار سے آزاد ہونا چاہتی تھیں۔ ’’میرے شوہر (ایک کسان) بھی نہیں چاہتے کہ میں پھڑ میں کام کروں، لیکن مجھے اپنے آٹھ سال کے بھائی اور تین سال کی بیٹی کی پرورش کرنی ہے،‘‘ انھوں نے بتایا۔ سشما بھی نہیں چاہتیں کہ کل کو ان کی بیٹی اس پیشہ میں آئے، اسی لیے انھوں نے آج تک اسے یہ نہیں بتایا کہ وہ ایک تماشہ ڈانسر ہیں۔

بہت سے لوگ اپنے والدین اور بھائی بہنوں کو منڈلی میں کام کرتے ہوئے دیکھ کر تماشہ میں شامل ہوجاتے ہیں۔ زرعی مزدوری کے مقابلے اسے زیادہ مستحکم ذریعۂ معاش تصور کیا جاتا ہے۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ پھڑ میں کام کرنے سے ایک فنکار کے طور پر انھیں پہچان ملے گی اور سماج میں ان کا رتبہ بھی بڑھے گا۔

تماشہ کئی کنبوں کے لیے گھر بھی ہے، جیسے کہ سانگلی ضلع کے دوبل دھلگاؤں کی شاردا کھاڈے کی فیملی کے لیے۔ شاردا ایک رقاصہ ہیں اور وَگ ناٹیہ (فوک ڈرامہ) میں کام کرتی ہیں۔ ایک بیٹا ڈھول وغیرہ بجاتا ہے، جب کہ دوسرا وائر مین ہے، اور ان کے شوہر ایک ایکٹر ہیں۔ تماشہ کاروبار ہی ان کے لیے بہترین پیشہ ہے۔ ان کے رشتہ دار زرعی مزدور ہیں، لیکن انھیں دن بھر کی مزدوری 200 روپے مشکل سے ہی مل پاتی ہے اور یہ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ روزانہ انھیں کام مل ہی جائے گا۔

لیکن تماشہ سے لگاتار ہونے والی آمدنی کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ ہر دن ایک نئے گاؤں میں خیمہ گاڑنا کوئی آسان کام نہیں ہے، شاردا کہتی ہیں۔ اس کے بعد اُلٹے سیدھے شیڈول، دیر رات تک کام کرنا، بے وقت کھانا، اور اکثر خراب حالات میں زندگی گزارنا۔

Sharda gets ready for the last performance of the season. Her husband Nagesh Khade (centre) is an actor in the vag natya and her son Sagar Khade is a percussionist
PHOTO • Shatakshi Gawade ,  Vinaya Kurtkoti

شاردا کھاڈے سیزن کے آخری پرفارمنس کے لیے تیار ہو رہی ہیں۔ ان کے شوہر، ناگیش (بیچ میں) ایک ایکٹر ہیں اور ان کا بیٹا، ساگر (بائیں) ساز بجاتا ہے

تماشہ سے لگاتار ہونے والی آمدنی کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ ہر دن ایک نئے گاؤں میں خیمہ گاڑنا، اُلٹے سیدھے شیڈول، بے وقت کھانا، خراب حالات میں زندگی گزارنا – اور اکثر، بھدے تبصرے سننا

اور کئی دفعہ، مرد سامعین بری نظر سے دیکھتے یا بھدّے تبصرے کرتے ہیں۔ کئی بار شاردا کو جھنجھلا کر ان سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ کیا اُن کے گھر میں مائیں اور بہنیں نہیں ہیں؟ اس پر وہ جواب دیتے ہیں: ’’لیکن ہماری عورتیں تم تماشہ عورتوں کی طرح برتاؤ نہیں کرتیں!‘‘ اور ان سے پوچھتے ہیں کہ وہ کوئی ایسی نوکری کیوں نہیں کرتیں، جس میں انھیں مردوں کے سامنے ناچنا نہ پڑے۔ ’’لیکن یہ بھی تو ایک نوکری ہے!‘‘ وہ جواب میں کہتی ہیں۔

تماشہ میں کام کرنے والے مردوں کو بھی چبھنے والی باتیں سننی پڑتی ہیں۔ انل بتاتے ہیں کہ جب وہ چھوٹے تھے، تو ان کے گاؤں میں لوگ انھیں اور ان کے بھائی بہنوں کو ’’نچنیا (ناچنے والی عورت) کے بچے‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔

* * *

Mohit in the rahuti [tent] in Narayangaon
PHOTO • Shatakshi Gawade ,  Vinaya Kurtkoti

منڈلی مالک موہت نارائن گاؤنکر چاہتے ہیں کہ ان کے پھڑ کو لوگ یاد رکھیں

تقریباً پوری تماشہ انڈسٹری نقد لین دین پر چلتی ہے۔ خود منڈلی کے مالک/مالکن ساہوکاروں سے 5-4 فیصد ماہانہ سود پر پیسے قرض لیتے/لیتی ہیں۔ ’’بینک ہمیں لون نہیں دیتے۔ ہم ساہوکاروں سے پیسے قرض لیتے ہیں اور اگلے آٹھ مہینوں تک، پھڑ سیزن کے دوران، ان کے پیسے چُکاتے ہیں،‘‘ موہت نارائن گاؤنکر نے بتایا، جو ایک دوسرے تماشہ کے مالک اور منگلا تائی کے بھائی کیلاش کے بیٹے ہیں۔

تاہم، منگلا تائی کی منڈلی کو بینکوں سے لون ملا ہے، کیوں کہ بینکوں کو ان پر اعتبار ہے۔ ان کی منڈلی اُن چند منڈلیوں میں سے ایک ہے، جن کے پاس اپنے آلات ہیں اور ان کے اوپر کسی کا زیادہ قرض بھی نہیں ہے۔ یہ اپنے ممبران کی تعداد اور کمائی کے معاملے میں دیہی مہاراشٹر میں کاروبار کرنے والی سب سے بڑی منڈلیوں میں سے ایک ہے۔ منگلا کا پھڑ ہر سال، تقریباً ایک کروڑ روپے کا لین دینا کرتا ہے۔ پُنے میں مقیم ایک فوٹو جرنلسٹ، سندیش بھنڈارے، جنہوں نے تماشہ برادری کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے، بتاتے ہیں کہ مغربی مہاراشٹر میں 150-70 ممبران والی ایسی 40-30 منڈلیاں ہیں اور 22-20 ممبران والے تقریباً 200 پھڑ ہیں، لیکن ان میں سے سبھی سیزن بھر کام نہیں کرتے۔

پھڑ ستمبر سے مئی تک چلنے والے سیزن کے دوران دو طریقوں سے پیسے کماتے ہیں۔ ’ٹکٹ والے شو‘ کی شروعات دشہرہ کے بعد ہوتی ہے۔ ایک ٹکٹ کی قیمت عام طور سے 60 روپے ہوتی ہے۔ ٹکٹ والے شو گُڑی پڑوا تک چلتے ہیں، عام طور سے مارچ/اپریل میں۔

The audience stayed on till the end of the show in Gogolwadi village, Pune district
PHOTO • Shatakshi Gawade ,  Vinaya Kurtkoti

تماشہ عام طور سے کھلے میدان میں ہوتا ہے، جس کے لیے دو گھنٹے میں عارضی اسٹیج تیار کر دیا جاتا ہے

ٹکٹ والے شو کو کم از کم 1000 خریداروں کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ تمام اخراجات کو پورا کیا جا سکے۔ سامعین – جن میں تقریباً 90 فیصد مرد ہوتے ہیں – عام طور سے اس گاؤں اور آس پاس کے گاؤوں کے باشندے ہوتے ہیں۔ شو عام طور سے 6-5 گھنٹے چلتا ہے، لیکن یہ رات میں 11 بجے کے بعد یا نصف شب میں شروع ہوتا ہے، اور صبح کے 2 یا 3 بجے تک جاری رہ سکتا ہے۔

تماشہ کسی میدان میں کھلے میں ہوتا ہے؛ مزدور اس کے لیے دو گھنٹے میں اسٹیج  تیار کر دیتے ہیں۔ ہر منڈلی روزانہ الگ الگ مقامات پر شو کرتی ہے۔ بعض گاؤوں میں، منڈلی سے صبح میں تھوڑی دیر کے لیے شو کرایا جاتا ہے، جسے ’سکالچی ہجیری‘ کہتے ہیں، یہ 3-2 گھنٹے تک چلتا ہے۔

پیسہ کمانے کا دوسرا طریقہ وہ ہے، جب منڈلیوں کو سالانہ جترا (گاؤں کا میلہ) کے دوران پرفارم کرنے کے لیے جترا کمیٹیوں (ہر گاؤں کی اپنی الگ کمیٹی ہوتی ہے) کے ذریعے بلایا جاتا ہے۔ بڑی منڈلیوں کو ہر ایک شو کے لیے کم از کم ایک لاکھ روپے سُپاری (ایڈوانس بکنگ کا پیسہ) دی جاتی ہے۔

پہلے سے بُک کیے گئے ’ سپاری شو‘ کے دوران، ٹکٹ کی کوئی کھڑکی نہیں ہوتی؛ یہاں کوئی بھی آکر اسے دیکھ سکتا ہے۔ ’’مئی 2017 میں جو سیزن ختم ہوا، اس میں ہم نے 60 لاکھ روپے کا منافع کمایا، لیکن ہمیں اسے اُچل پر خرچ کرنا پڑا۔ ہم اس سے بھاگ نہیں سکتے، کیوں کہ ویسا کرنے پر یہ فنکار دوسری منڈلی میں شامل ہو سکتے ہیں،‘‘ موہت نے بتایا۔

تاہم، قحط والے سال میں ٹکٹ والے اور اوپن، دونوں ہی شو کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ تب لوگوں کے پاس خرچ کرنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے۔ ’’لیکن فنکاروں کو پیسے دینے پڑتے ہیں، اور وہ ہر سال اپنی تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ بھی کرتے رہتے ہیں،‘‘ موہت نے بتایا۔ ’’یہ نقصان مالک کو اٹھانا پڑتا ہے۔‘‘

Babaso Nyanu Mane (centre) is going to apply for a pension this year. He tried setting up his own phad, but had to return to his life as just an actor when his phad failed
PHOTO • Shatakshi Gawade ,  Vinaya Kurtkoti

بابا صاحب گیانو مانے (بیچ میں) منگلا تائی کی منڈلی میں کام کرتے ہیں؛ ان کا ارادہ اس سال سرکاری پنشن کے لیے اپلائی کرنے کا ہے

لیکن منافع ہی سب کچھ نہیں ہے، اس بات پر منگلا اور موہت دونوں کا اتفاق ہے۔ ’’اصل مقصد یہ ہے کہ لوگ ہمارے پھڑ کو یاد رکھیں،‘‘ موہت کا کہنا ہے۔ ’’تماشہ کا فن برقرار رہنا چاہیے۔‘‘ منگلا تائی کا بھی یہی کہنا ہے کہ وہ اس کاروبار کو اس لیے جاری رکھنا چاہتی ہیں، تاکہ ان کی فیملی کا نام باقی رہے۔ ’’ہم جو بھی پیسہ کماتے ہیں اسے فنکاروں اور مزدوروں کے درمیان تقسیم کر دیتے ہیں۔ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں بچتا،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔

رِٹائرمنٹ کے بعد کیا ہوتا ہے؟ ’’ہمیں (حکومت سے) بطور پنشن 3000 روپے ماہانہ ملنا چاہیے (حالانکہ، یہ یقینی نہیں ہے کہ ملے گا ہی)۔ لیکن اتنے کم پیسے سے کیسے کام چلے گا؟ جب تک میرا جسم ساتھ دے رہا ہے، میں اس کام کو جاری رکھنا چاہتی ہوں۔ اس کے بعد، مجھے کھانے کے لیے اپنے بچوں پر منحصر رہنا پڑے گا،‘‘ تقریباً 48 سال کی شاردا بتاتی ہیں۔


اشاعت کے بعد کی تحریر (پی ایس): اس منڈلی کے 2017 کے سیزن کی شروعات 17 ستمبر کو بیڈ ضلع کے وَلوَڈ گاؤں میں ایک پرفارمنس سے ہوئی۔ منگلا بنسوڈے کو وزارتِ سماجی انصاف و تفویض اختیارات کے محکمہ سماجی انصاف و تفویض اختیارات نے 9 اکتوبر کو، تخلیقی فنون کے زمرہ میں، ویوشریشٹھ سمان (قومی ایوارڈ) 2017 سے سرفراز کیا۔

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Shatakshi Gawade

Shatakshi Gawade is an independent journalist based in Pune. She writes about the environment, rights and culture.

Other stories by Shatakshi Gawade
Vinaya Kurtkoti

Vinaya Kurtkoti is a copy editor and independent journalist from Pune. She writes about arts and culture.

Other stories by Vinaya Kurtkoti
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez