اس کا سائز انگلی کے ناخن سے بڑا نہیں ہے۔ پیلے اور سفید رنگ کی ہر کلی انتہائی خوبصورت ہے۔ یہاں وہاں کچھ پھول پوری طرح سے کھل چکے ہیں، جن سے کھیت چمک رہا ہے۔ چاروں طرف پھیلی ان کی تیز خوشبو دماغ کو معطر کر رہی ہے۔ چنبیلی کا پھول گرد آلود زمین، مضبوط پودوں، اور بادلوں سے بھرے ہوئے آسمان کا ایک تحفہ ہے۔
لیکن یہاں کام کرنے والے مزدوروں کے پاس خوشبو پر دھیان دینے کا وقت نہیں ہے۔ انہیں مَلّی (چنبیلی) کو پوری طرح کھلنے سے پہلے ہی پوکڈائی (پھولوں کے بازار) تک پہنچانا ہے۔ بھگوان گنیش جینتی، یعنی ونائک چترتھی میں ابھی چار دن باقی ہیں۔ یہی وہ موقع ہوتا ہے، جب وہ اس کی اچھی قیمت ملنے کی امید کر سکتے ہیں۔
مرد اور عورت اپنے انگوٹھے اور شہادت کی انگلیوں کا استعمال کرتے ہوئے، کلیوں کو تیزی سے توڑتے ہیں۔ مٹھی بھر جانے پر وہ انہیں اپنی ساڑیوں یا دھوتی کو موڑ کر بنائے گئے پاؤچ (تھیلی) میں ڈالتے رہتے ہیں اور پھر اسے بوریوں میں لے جا کر انڈیل دیتے ہیں۔ یہ کام مخصوص طریقے سے کیا جاتا ہے: شاخ کو پکڑ کر اپنے پاس لائیں، کلیوں کو توڑیں، پھر اگلے پودے کی طرف بڑھ جائیں، جو تین سال کے بچے جتنا لمبا ہوتا ہے، مزید پھول توڑیں، اور آپس میں باتیں کرتے رہیں۔ ساتھ ہی، ریڈیو پر مشہور تمل گانے سنیں، جب کہ سورج مشرق کی طرف سے دھیرے دھیرے آسمان پر چمکنا شروع ہو جاتا ہے…
جلد ہی یہ پھول مدورئی شہر کے مٹّوتَوَنی بازار میں پہنچا دیے جائیں گے، جہاں سے انہیں تمل ناڈو کے دوسرے شہروں میں بھیجا جائے گا۔ اور بعض دفعہ، انہیں سمندر کے راستے دوسروں ممالک میں بھی بھیجا جاتا ہے۔
پاری نے سال ۲۰۲۱، ۲۰۲۲ اور ۲۰۲۳ میں مدورئی ضلع کے تیرومنگلم اور اوسیلم پٹّی تعلقہ کا دورہ کیا۔ چنبیلی کے یہ کھیت میناکشی مندر اور پھولوں کی بڑی منڈی کے لیے مشہور مدورئی شہر سے ایک گھنٹہ سے بھی کم کی مسافت پر واقع ہیں، جہاں مٹھیوں اور بوریوں کے حساب سے مَلّی فروخت کی جاتی ہے۔
تیرومنگلم تعلقہ کی میلا اُپّیلی گُنڈی بستی میں رہنے والے ۵۱ سالہ پی گنپتی مجھے ان پھولوں کے بارے میں بتاتے ہیں، جس کی وجہ سے مدورئی خطہ جانا جاتا ہے۔ ’’یہ علاقہ اپنی خوشبودار مَلّی کی وجہ سے مشہور ہے۔ کیوں، آپ بس آدھا کلو چنبیلی اپنے گھر کے اندر رکھ لیں، اس کی خوشبو ہفتے بھر آتی رہے گی!‘‘
سفید رنگ کی شرٹ پہنے – جس کی جیب سے کچھ روپے کے نوٹ صاف دکھائی دے رہے ہیں – گنپتی آرام سے مسکراتے ہیں، اور تیزی سے مدورئی تمل میں بات کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’ایک سال کا ہونے تک، یہ پودے کسی بچے کی طرح ہوتے ہیں، اور ان کی نگرانی بڑے احتیاط سے کرنی پڑتی ہے۔‘‘ ان کے پاس ڈھائی ایکڑ زمین ہے، جس کے ایک ٹکڑے پر وہ چنبیلی اُگاتے ہیں۔
پودے میں تقریباً چھ مہینے میں پھول آنا شروع ہوتا ہے، لیکن اس کی رفتار ایک جیسی نہیں ہوتی۔ ایک کلو چنبیلی کی قیمت کی طرح، یہ بھی گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ بعض دفعہ، گنپتی کو ایک ایکڑ زمین سے بمشکل ایک کلو پھول مل پاتا ہے۔ کچھ ہفتوں کے بعد، یہ ۵۰ کلو بھی ہو سکتا ہے۔ ’’شادی اور تہواروں کے سیزن میں، قیمت بہت اچھی ملتی ہے: ایک ہزار، دو ہزار، تین ہزار روپے…وہ بھی ایک کلو چنبیلی کے۔ لیکن جب ہر کسی کے پودے پھولوں سے بھر جاتے ہیں – بھلے ہی وہ پیک سیزن کیوں نہ ہو – تب قیمت گھٹ جاتی ہے۔‘‘ کھیتی باڑی میں کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ صرف ایک چیز کی گارنٹی ہے کہ آپ کو پیسے خرچ کرنے ہی پڑیں گے۔
اور، ظاہر ہے، اس میں محنت بھی شامل ہے۔ کسی کسی صبح، وہ اور ان کی بیوی ویتوکرمّا (گنپتی اپنی بیوی پیچائی یمّا کو اسی نام سے بلاتے ہیں) آٹھ کلو تک پھول چُن لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’کمر میں بہت درد ہونے لگتا ہے۔‘‘ لیکن اس سے بھی کہیں زیادہ تکلیف انہیں کھاد اور حشرہ کش، مزدوروں کی اجرت، اور ایندھن کی قیمت بڑھنے سے ہوتی ہے۔ ’’ہمیں معقول منافع کیسے ملے گا؟‘‘ یہ ستمبر ۲۰۲۱ کی بات ہے۔
ہر گلی کونے میں عام، تمل ثقافت کی علامت؛ مَلّی ، جو کہ ایک شہر کا مترادف، ایک قسم کی اڈلی، چاول کی ایک قسم ہے؛ چنبیلی، جو ہر مندر، شادی بیاہ اور بازار کو خوشبو دیتی ہے، ہر ہجوم، بس اور بیڈ روم میں جس خوشبو کو لوگ جانتے پہچانتے ہیں – اُس کے پھول کو اُگانا آسان نہیں ہے…
*****
اگست ۲۰۲۲ میں جب ہم دوسری بار وہاں گئے، تب گنپتی نے ایک ایکڑ میں چنبیلی کے نئے پودے لگا رکھے تھے: سات مہینے کے ہو چکے ۹۰۰۰ پودے۔ رام ناتھ پورم ضلع میں رامیشورم کے قریب تنگاچی مادام کی نرسریوں میں ایسا ہر ایک پودا چار روپے میں ملتا ہے – اس کی لمبائی بتانے کے لیے گن پتی انگلی سے اپنی کہنی کو چھوتے ہیں۔ اور وہ خود ہی ان کا انتخاب کرتے ہیں، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ پودا مضبوط ہے، اور آگے چل کر اچھے پھول دے گا۔ اگر مٹی اچھی ہے – یعنی بھرپور، چکنی، سرخ ہے، تو ’’آپ انہیں چار فٹ کی دوری پر لگا سکتے ہیں۔ پودا بڑا ہو جائے گا،‘‘ گنپتی اپنے ہاتھوں سے ایک بڑا دائرہ بنا کر مجھے بتاتے ہیں۔ ’’لیکن یہاں، ایسی مٹی پائی جاتی ہے جو چیمبر کی اینٹوں کے لیے زیادہ موزوں ہے۔‘‘ یعنی، چکنی مٹی۔
مَلّی کی کاشت کے لیے ایک ایکڑ کھیت کو تیار کرنے میں گنپتی ۵۰ ہزار روپے خرچ کرتے ہیں۔ ’’اسے صحیح طریقے سے کرنے میں پیسے خرچ ہوتے ہیں۔‘‘ گرمیوں میں ان کے کھیت پھولوں سے چمکنے لگتے ہیں۔ وہ تمل میں کہتے ہیں: پلی چِنّو پوکُم۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ایک دن انہوں نے ۱۰ کلو پھول توڑے تھے – کچھ پودوں سے ۱۰۰ گرام، کچھ سے ۲۰۰ گرام پھول ملے تھے – ان کی آنکھوں اور آواز میں کافی جوش ہے، اور ان کی مسکراہٹ بتا رہی ہے وہ دوبارہ ایسے نتائج کی امید کر رہے ہیں۔ جلد ہی۔
گنپتی کا کام کا دن صبح کے وقت شروع ہوتا ہے۔ پہلے یہ ایک یا دو گھنٹے پہلے شروع ہوتا تھا، لیکن اب ’’مزدور تاخیر سے آتے ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ کلیاں توڑنے کے لیے وہ مزدوروں کو کام پر لگاتے ہیں۔ اور ایک گھنٹہ کام کرنے کے عوض انہیں ۵۰ روپے دیتے ہیں، یا ایک ’’ڈبہ‘‘ (جس میں ایک کلو پھول آتا ہے) کے لیے ۳۵ سے ۵۰ روپے تک ادا کرتے ہیں۔
پاری کے آخری دورہ کے بعد سے، ان ۱۲ مہینوں میں پھول کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ پھول کی قیمت ’عطر‘ کے کارخانے طے کرتے ہیں۔ یہ دراصل پروسیسنگ اکائیاں ہیں جو چنبیلی کی زیادہ پیداوار ہونے پر بڑی مقدار میں پھول خریدتی ہیں، اور ایک کلو کے ۱۲۰ سے ۲۲۰ روپے دیتی ہیں۔ گنپتی کہتے ہیں کہ تقریباً دو سو روپے کلو کے حساب سے بیچنے پر انہیں کوئی نقصان نہیں ہوتا۔
جب مانگ زیادہ ہوتی ہے – اور پیداوار کم – تو ایک کلو چنبیلی کی کلی کی قیمت اس سے کئی گنا زیادہ ملتی ہے۔ تہواروں کے دوران تو ایک کلو کی قیمت ۱۰۰۰ روپے سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ تب، پودے کیلنڈر کے حساب سے نہیں چلتے۔ نہ ہی وہ ’موہورت نال‘ اور ’کری نال‘ کو بھی نہیں مانتے – جنہیں بالترتیب مبارک اور نامبارک دن تصور کیا جاتا ہے۔
وہ صرف فطرت کے حساب سے چلتے ہیں۔ جب دھوپ اور بارش اچھی ہوتی ہے، تو زمین پھولوں سے بھر جاتی ہے۔ ’’آپ جدھر بھی نظر دوڑائیں، آپ کو صرف چنبیلی دکھائی دے گی۔ پودوں کو پھول دینے سے کوئی نہیں روک سکتا، کیا آپ ایسا کر سکتی ہیں؟‘‘ گنپتی مسکراتے ہوئے مجھ سے پوچھتے ہیں۔
مدورئی کے بازار میں پھولوں کی بارش ہونے لگتی ہے۔ ’’کئی ٹن چنبیلی یہاں پہنچتی ہے۔ پانچ ٹن، چھ ٹن، سات ٹن، کیوں، ایک دن تو ہم دس ٹن بھی لے کر آئے تھے!‘‘ ان میں سے زیادہ تر پھول عطر کی فیکٹری میں گیا تھا، وہ بتاتے ہیں۔
مالا بنانے اور رسیوں میں گوندھنے کے لیے، پھولوں کو ۳۰۰ روپے فی کلو کے حساب سے بیچا اور خریدا جاتا ہے۔ ’’لیکن پھولوں کا پیک سیزن ختم ہونے کے بعد، ہم مشکل سے ایک کلو چُنتے ہیں، اور سپلائی کم ہونے کی وجہ سے قیمت بڑھنے لگتی ہے۔ اگر مانگ بہت زیادہ ہے اور میرے پاس صرف ۱۰ کلو پھول ہیں، تب میں ایک دن میں ۱۵ ہزار روپے کما سکتا ہوں۔ ہے نہ یہ بہت بڑی رقم؟‘‘ وہ چمکتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’کیوں، تب میں آرام سے کرسی پر بیٹھوں گا، اچھے لنچ کا انتظام کروں گا، اور یہاں بیٹھ کر آپ کو انٹرویو دوں گا!‘‘
حالانکہ، سچائی یہ ہے کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ نہ ہی ان کی بیوی ایسا کر سکتی ہیں۔ انہیں کافی کام کرنا ہوتا ہے۔ خوشبو والی یہ فصل پیدا کرنے کے لیے انہیں زیادہ تر وقت مٹی کو کھودنے اور اسے ہموار کرنے میں لگانا پڑتا ہے۔ اپنی زمین کے بقیہ ڈیڑھ ایکڑ حصے میں گنپتی امرود اُگاتے ہیں۔ ’’آج صبح، میں ۵۰ کلو پھل بازار لے گیا تھا۔ وہ اسے صرف ۲۰ روپے فی کلو کے حساب سے خریدتے ہیں۔ ایندھن پر خرچ کرنے کے بعد، مجھے تقریباً ۸۰۰ روپے ملتے ہیں۔ اس علاقے میں جب امرود عام طور سے نہیں ملتا تھا، تو خریدار میرے کھیت پر آ کر اسے توڑتے تھے اور ایک کلو کے ۲۵ روپے دیتے تھے۔ اب وہ دن نہیں رہے…‘‘
گنپتی اپنے ایک ایکڑ کھیت کو تیار کرنے اور اس میں چنبیلی کے پودے لگانے پر تقریباً ایک لاکھ روپے خرچ کرتے ہیں۔ ان پودوں سے انہیں کم از کم ۱۰ سالوں تک پھول ملتے ہیں۔ ہر سال، مَلّی کا سیزن آٹھ مہینے تک رہتا ہے، عام طور سے مارچ اور نومبر کے درمیان۔ اور، وہ بتاتے ہیں کہ اس دوران کچھ دن تو بہت ہی اچھے ہوتے ہیں، لیکن ایسے دن بھی آتے ہیں جب ہمیں ایک بھی کلی نہیں ملتی۔ پھولوں کے سیزن میں انہیں ایک ایکڑ کھیت سے اوسطاً ہر مہینے ۳۰ ہزار روپے کا منافع ہوتا ہے۔
یہ انہیں مضبوط بناتا ہے، وہ جیسے دکھائی دے رہے ہیں اس سے بھی کہیں زیادہ خوشحال۔ زیادہ تر کسانوں کی طرح وہ بھی اپنی اور اپنی بیوی کی بغیر اجرت والی مزدوری کو کاشت کی لاگت میں نہیں جوڑتے۔ اگر وہ اسے جوڑتے تو ان کی اجرت کتنی ہوتی؟ اس کا جواب دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’میں روزانہ جتنی محنت کرتا ہوں اس کے ۵۰۰ روپے، اور میری بیوی کے ۳۰۰ روپے ہوتے۔‘‘ اگر وہ اپنی فیملی کی اس اجرت کو بھی اس میں جوڑتے، تو ان کا ۳۰ ہزار روپے کا منافع گھٹ کر تقریباً ۶۰۰۰ روپے ہو جاتا۔
اس کے لیے بھی، ’’آپ کو خوش قسمت ہونا پڑے گا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ جیسا کہ ہمیں جلد ہی ان کی موٹر شیڈ کے اندر جا کر پتہ چلتا ہے، یہ نصیب ہے – اور ساتھ ہی کچھ کیمیکل۔
*****
موٹر شیڈ ایک چھوٹا سا کمرہ ہے جہاں گنپتی کا کتا دوپہر کو سوتا ہے۔ ایک کونے میں مرغیوں کا جھنڈ بھی ہے – اور وہاں پر ہم نے جو چیز سب سے پہلے دیکھی وہ ایک انڈا تھا – جسے دیکھ کر گنپتی کافی خوش ہو گئے اور احتیاط سے اپنے ہاتھوں میں اٹھا لیا۔ فرش پر حشرہ کش دواؤں کے چھوٹے ڈبے اور بوتلیں چاروں طرف بکھری ہوئی ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے گویا استعمال شدہ کیمکلز کا کوئی شو روم ہو۔ گنپتی بتاتے ہیں کہ پودوں میں ’’پلیچو‘‘ (یعنی چنبیلی کی مضبوط، بھاری کلی، جس کی شاخ اچھی ہو) کھلنے کے لیے یہ تمام کیمکلز ضروری ہیں۔
گنپتی ان میں سے کچھ ڈبوں کو اٹھا کر مجھ سے پوچھتے ہیں، ’’اس پر انگریزی میں کیا لکھا ہے؟‘‘ میں ایک ایک کر کے ان کے نام پڑھتی ہوں۔ پھر وہ بتانا شروع کرتے ہیں، ’’یہ سرخ جوئیں مارتا ہے، وہ کینچوے کے لیے ہے۔ اور یہ والا، تمام کیڑوں کو مار دیتا ہے۔‘‘
گنپتی اپنے بیٹے سے صلاح لیتے ہیں۔ ’’وہ حشرہ کش دواؤں کی دکان، ’مروندھو کڈئی‘ پر کام کرتا ہے،‘‘ گنپتی سفید چنبیلی کے پھولوں جیسی تیز دھوپ میں باہر نکلتے ہوئے کہتے ہیں۔ کتے کا ایک بچہ گیلی زمین پر لوٹ رہا ہے، جس کی وجہ سے اس کے سفید بال دھیرے دھیرے لال ہوتے جا رہے ہیں۔ شیڈ کے قریب ایک بھورے رنگ کا کتا گھوم رہا ہے۔ میں ان سے پوچھتی ہوں، ’’انہیں کیا کہتے ہیں۔‘‘ اور وہ جواب دیتے ہیں، ’’میں انہیں ’کروپّو‘ کہہ کر بلاتا ہوں، تو وہ دوڑتے ہوئے چلے آتے ہیں۔‘‘ تمل میں سیاہ یا کالے رنگ کو ’کروپو‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن کتوں کا رنگ ایسا نہیں ہے، میں گنپتی سے کہتی ہوں۔
’’جو بھی ہو، وہ میرے پاس آ جاتے ہیں،‘‘ گنپتی ہنستے ہوئے کہتے ہیں اور پھر بڑے سائز کے ایک دوسرے شیڈ میں داخل ہوتے ہیں۔ یہاں پر ناریل کے انبار لگے ہیں، ایک بالٹی میں زیادہ پکے ہوئے امرود رکھے ہیں۔ ’’میری گائے اسے کھائے گی۔ ابھی وہ کھیت میں چر رہی ہے،‘‘ کچھ دیسی مرغیوں کے ساتھ، جو ادھر ادھر دوڑ رہی ہیں، دانے چُگ رہی ہیں۔
اس کے بعد، وہ مجھے کھاد دکھاتے ہیں – اسٹور سے ۸۰۰ روپے میں ایک بڑی، سفید رنگ کی دیغچی میں خریدا گیا ’سوائل کنڈیشنر‘ – ساتھ میں سفلر کے گرینیولز اور کچھ نامیاتی کھاد بھی ہے۔ ’’ کارتیگائی ماسم میں [۱۵ نومبر سے ۱۵ دسمبر تک] مجھے اچھی فصل چاہیے۔ تب بہت اچھی قیمت ملے گی، بشرطیکہ وہ شادیوں کا موسم ہو۔‘‘ اور گھر کے باہر والی شیڈ میں گرینائٹ کے کھمبے کے ساتھ کھڑے ہوئے، وہ مسکراتے ہیں اور مجھے اچھی کاشتکاری کے راز بتانے لگتے ہیں۔ ’’آپ کو پودوں کی عزت کرنی پڑتی ہے۔ اگر آپ ایسا کریں گی، تو وہ بھی آپ کی عزت کریں گے۔‘‘
گنپتی بہت ہی اچھے داستان گو ہیں۔ ان کے لیے کھیت، تھیٹر جیسے ہیں جہاں ہر روز کچھ نہ کچھ ڈرامہ ہوتا ہے۔ ’’کل، رات میں تقریباً ۹ بج کر ۴۵ منٹ پر اُس طرف سے چار سور آ گئے۔ کروپو یہیں پر تھا، اس نے سوروں کو دیکھا، وہ پکے ہوئے امرود کی خوشبو سے یہاں کھنچے چلے آئے تھے، اس نے ان میں سے تین کو دوڑا کر بھگایا، ایک اُس طرف بھاگا تھا،‘‘ وہ اپنے ہاتھوں سے مرکزی سڑک، اُس پار کے مندر، اور آس پاس کے کھلے میدانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں۔ ’’آپ کیا کر سکتے ہیں؟ کافی پہلے، یہاں شکاری ہوا کرتے تھے (ان کا اشارہ لومڑیوں کی طرف ہے)۔ اب کوئی نہیں ہے۔‘‘
جس طرح سور انہیں پریشان کرتے ہیں، ویسے ہی کیڑے بھی ان کی پریشانی کا باعث ہیں۔ چنبیلی کے کھیتوں میں گھومتے ہوئے، گنپتی بتاتے ہیں کہ یہ کیڑے نئے کھلے ہوئے پھولوں پر کتنی تیزی سے حملہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد، وہ ہوا میں مستطیل اور دائرہ کار شکل بناتے ہوئے شجرکاری کی باریکیاں بیان کرتے ہیں اور موتی جیسے کچھ پھول مجھے توڑ کر دیتے ہیں۔ سونگھنے اور خوش ہونے کے لیے۔ پھر کہتے ہیں، ’’مدورئی کی ملّی میں سب سے زیادہ خوشبو ہوتی ہے۔‘‘
میں ان کی باتوں سے متفق ہوں۔ بہت تیز خوشبو آ رہی ہے، اور یہ کسی اعزاز سے کم نہیں ہے کہ میں ان کے کنویں کے ارد گرد، سرخی مائل زمین پر ان کے ساتھ گھوم رہی ہوں، اور وہ کاشتکاری کے بارے میں پوری جانکاری کے ساتھ بول رہے ہیں، اپنی بیوی پیچائی یمّا کے بارے میں بڑے احترام سے بتا رہے ہیں۔ ’’ہم کوئی بڑے زمیندار نہیں ہیں، ہم چِنّا سمساری [چھوٹے کسان] ہیں، اور ہماری اتنی حیثیت نہیں ہے کہ ہم ایک جگہ بیٹھ کر لوگوں کو حکم دیں۔ میری بیوی ہمارے مزدوروں کے ساتھ ہی کام کرتی ہے، اور ہم اپنی زندگی اسی طرح گزار رہے ہیں۔‘‘
*****
چنبیلی اس سرزمین پر کم از کم ۲۰۰۰ سالوں سے موجود ہے اور اس کی ایک شاندار تاریخ رہی ہے۔ اس کی شکل اور خوشبو تمل کے ماضی سے اسی خوبصورتی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، جس طرح اس پھول کو دھاگے میں پرو کر مالا تیار کی جاتی ہے۔ ہوائی میں مقیم سنگم تمل اسکالر اور مترجم، ویدیہی ہربرٹ کا کہنا ہے کہ سنگم ادب میں پھول کی دیگر انواع کے علاوہ مُلّئی کا تذکرہ ۱۰۰ بار سے زیادہ ملتا ہے – تب چنبیلی کے پھول کو اسی نام (مُلّئی) سے پکارا جاتا تھا۔ ویدیہی نے سنگم دور کی سبھی ۱۸ کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے، جنہیں ۳۰۰ قبل مسیح سے ۲۵۰ عیسوی کے درمیان لکھا گیا تھا۔ ان کے یہ سبھی ترجمے مفت آن لائن دستیاب ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ ملّیگئی کے لیے اصل لفظ مُلّئی تھا، جسے اب ہم مَلّی کے نام سے جانتے ہیں۔ سنگم دور کی شاعری میں پانچ اندرونی مناظر – ’اکم تِنّئی‘ – میں سے ایک کا نام مُلّئی ہے، جو جنگلات اور اس سے ملحقہ زمینوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ دیگر چار مناظر – ان کے نام بھی پھولوں یا درختوں کے نام پر رکھے گئے ہیں – کے نام ہیں: کورِنجی (پہاڑ)، مروتھم (کھیت)، نیتھل (سمندری ساحل) اور پالئی (خشک بیابان)۔
ویدیہی اپنے بلاگ میں لکھتی ہیں کہ سنگم دور کے قلم کاروں نے ’’شاعرانہ انداز حاصل کرنے کے لیے اکم ۔۔۔۔ تھینئی کا استعمال کیا ہے۔‘‘ وہ بتاتی ہیں کہ تشبیہات اور استعارے ’’خاص منظرنامہ کے عناصر پر مبنی ہیں۔ نباتات، حیوانات اور خود اس منظرنامہ کا استعمال نظموں میں موجود کرداروں کی جسمانی خصلتوں اور جذبات کے اظہار کے لیے کیا گیا ہے۔ ’’ ملئی کے منظرنامہ میں کہے گئے گئے ان اشعار کا موضوع ہے ’’صبر کے ساتھ انتظار کرنا۔‘‘ یعنی ہیروئن اپنے آدمی کا سفر سے واپسی کا انتظار کرتی ہے۔
اس اینکورونورو نظم میں، جو کہ ۲۰۰۰ سال سے زیادہ پرانی ہے، آدمی اپنی عورت کی عمدہ خصوصیات کی خواہش کرتا ہے۔
جیسے ہی کوئی مور ناچتا
ہے تمہاری طرح،
جیسے ہی چنبیلی کا
پھول مہکنے لگتا ہے
تمہاری پیشانی کی
خوشبو کی طرح،
جیسے ہی کوئی ہرنی
دیکھتی ہے تمہاری طرح،
میں بھاگا چلا آتا
ہوں گھر تمہارے بارے میں سوچتا ہوا،
اے میری محبوبہ،
مانسون کے بادل کی طرح
سنگم دور کی نظموں کے مترجم، چینتل ناتھن، جو OldTamilPoetry.com چلاتے ہیں، میرے لیے ایک اور نظم تلاش کرتے ہیں۔ یہ چیف پاری کی یاد میں ہے، جو سنگم دور کی شاعری میں مذکور سات بڑے سرپرستوں میں سے ایک ہیں۔ چینتل بتاتے ہیں کہ یہ نظم کافی طویل ہے، لیکن یہ چار لائنیں خوبصورت ہیں۔ اور متعلقہ ہیں۔
…پاری، جن کی شہرت ہے چاروں طرف،
چھوڑ دیا گھنٹیوں سے
سجے اپنے شاہی رتھ کو
پھول سے لدی اور ہوا
میں جھولتی چنبیلی کی بیلوں کے لیے
حالانکہ وہ کبھی بھی
ان کی تعریف میں کچھ گا نہیں پائیں گی…
پورنانورو ۲۰۰،
سطریں ۱۲-۹
آج تمل ناڈو میں بڑے پیمانے پر کاشت کی جانے والی مَلّی کا سائنسی نام ہے ’جیسمنم سامبک‘ ۔ توڑے جانے پھولوں (کاٹے جانے پھولوں کے برعکس) کی کاشت کے معاملے میں یہ ریاست ملک میں سب سے آگے ہے۔ اور چنبیلی کی پیداوار کرنے والی سب سے بڑی ریاست ہے۔ ہندوستان میں چنبیلی کی کل ۲۴۰۰۰۰ ٹن پیداوار میں سے ۱۸۰۰۰۰ ٹن تمل ناڈو سے آتی ہے۔
مدورئی مَلّی – جس کے نام کے ساتھ جی آئی ( جغرافیائی نشان ) لگا ہوا ہے – میں کئی قسم کی خصوصیات پائی جاتی ہیں، جن میں سے کچھ یوں ہیں: ’تیز خوشبو، موٹی پنکھڑیاں، سب سے لمبی پنکھڑیاں، کلیوں کا دیر سے کھلنا، پنکھڑی کا دیر سے بے رنگ ہوگا اور لمبے وقت تک رکھنے لائق۔‘
چنبیلی کی دوسری قسموں کے نام بھی بڑے دلچسپ ہیں۔ مدورئی مَلّی کے علاوہ انہیں گُنڈو مَلّی، نمّا اورو مَلّی، امبو مَلّی، رام بنم، مدھن بنم، ایروواچھی، ایروواچھِپّو، کستوری مَلّی، اوسی مَلّی اور سنگل موگرا ۔
لیکن، مدورئی مَلّی صرف مدورئی تک محدود نہیں ہے، بلکہ اسے ویرودھو نگر، تینی دندیگل اور شیو گنگئی جیسے دوسرے ضلعوں میں بھی اگایا جاتا ہے۔ اگر تمام پھولوں کو ایک ساتھ جمع کیا جائے، تو تمل ناڈو میں ۸ء۲ فیصد زرعی زمین پر ان کی کھیتی ہوتی ہے، جب کہ اس رقبے میں سے ۴۰ فیصد حصہ پر چنیبلی کی مختلف انواع کاشت کی جاتی ہے۔ چنبیلی کا ہر چھٹا کھیت – یعنی ریاست کے کل ۱۳۷۱۹ ہیکٹیئرز میں سے ۱۶۶۶۶ – مدورئی خطہ میں ہے۔
یوں تو کاغذ پر یہ اعداد و شمار خوبصورت نظر آتے ہیں، لیکن حقیقت میں قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کسانوں کو پست کر دیتا ہے۔ ایک طرح سے، یہ ایک پاگل پن ہے۔ نیلکّوٹّئی بازار میں ’عطر‘ کے لیے اس کی بنیادی قیمت ۱۲۰ روپے فی کلو تھی، جب کہ (ستمبر ۲۰۲۲ اور دسمبر ۲۰۲۱ میں) مٹّوتاونی کے پھولوں کے بازار میں اسے ۳۰۰۰ سے لے کر ۴۰۰۰ روپے کلو کے حساب سے بیچا جا رہا تھا – ایسی آسمانی قیمتیں جو مضحکہ خیز اور ناپائیدار دونوں معلوم ہوتی ہیں۔
*****
پھولوں کی کھیتی کرنا جوئے کی مانند ہے، جس میں سب کچھ وقت پر منحصر ہے۔ ’’اگر آپ کا پودا تہواروں کے موسم میں پھول دینے لگتا ہے، تو آپ کو منافع ہوگا۔ ورنہ، آپ کے بچے اس پیشہ کو اپنانے سے پہلے دو بار سوچیں گے، ہے کہ نہیں؟ وہ والدین کو صرف تکلیف میں ہی دیکھتے ہیں، ہے نا؟ گنپتی جواب ملنے کا انتظار نہیں کرتے۔ وہ اپنی بات جاری رکھتے ہیں: ’’چھوٹا کسان بڑے کسان سے مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اگر کسی کو لمبے چوڑے کھیت سے ۵۰ کلو پھول توڑنے کے لیے مزدوروں کی ضرورت ہے، تو وہ اسے ۱۰ روپے زیادہ دیں گے اور انہیں گاڑی میں بیٹھا کر لے جائیں گے، انہیں کھانا پانی دیں گے۔ کیا ہم ایسا کر سکتے ہیں؟‘‘
دیگر چھوٹے کسانوں کی طرح، گنپتی بھی بڑے تاجروں کا سہارا، ’’ادائی کلم‘‘ ، لیتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’پھول کھلنے کا موسم جب اپنے عروج پر ہوتا ہے، تو میں پھولوں سے بھری بوریوں کے ساتھ کئی بار – صبح، دوپہر، شام – بازار جاتا ہوں۔ اپنی پیداوار بیچنے کے لیے مجھے تاجروں کی مدد چاہیے ہوتی ہے۔‘‘ چنبیلی کی فروخت سے ملنے والے ہر ایک روپیہ کے عوض انہیں تاجر کو بطور کمیشن ۱۰ پیسے دینے پڑتے ہیں۔
پانچ سال پہلے، گنپتی نے مدورئی پھول بازار کے ایک بڑے تاجر اور مدورئی پھول بازار ایسوسی ایشن کے صدر، پوکڈئی رام چندرن سے کچھ لاکھ روپے قرض لیے تھے۔ انہیں پھول بیچ کر گنپتی نے قرض کی یہ رقم چکائی تھی۔ اس قسم کی لین دین میں، کمیشن کی رقم ۱۰ سے بڑھ کر ساڑھے ۱۲ فیصد ہو جاتی ہے۔
چھوٹے کسان دیگر اِن پُٹ کے علاوہ حشرہ کش دوائیں خریدنے کے لیے قلیل مدتی قرض بھی لیتے ہیں۔ پھر بھی، پودے اور کیڑے کے درمیان لڑائی لگاتار جاری رہتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جب فصل پوری طرح تیار ہو جاتی ہے، تو بہت بڑے جانور – جیسے کہ ہاتھی – اس پر حملہ کر سکتے ہیں۔ راگی کے معاملے میں ایسا اکثر دیکھا گیا ہے۔ کسان اپنے راگی کے کھیتوں کو بچانے کے لیے کوئی حل تلاش کرنے کی لگاتار کوشش کرتے ہیں۔ لیکن کامیابی ہمیشہ ہاتھ نہیں لگتی، اس لیے کئی کسانوں نے راگی چھوڑ کر پھولوں کی کھیتی کرنا شروع کر دیا ہے۔ مدورئی کے جن علاقوں میں پھولوں کی کھیتی ہوتی ہے، وہاں کے کسانوں کو چھوٹی مخلوقات سے لڑنا پڑتا ہے – جیسے کلیوں پر لگنے والے کیڑے، پھولوں کو کھانے والے کیڑے، پتیوں کو چاٹنے والے کیڑے اور مائٹس – ان کی وجہ سے پھول بے رنگ ہو جاتے ہیں، پودے مرجھا جاتے ہیں، اور کسان تباہ ہو جاتا ہے۔
تیرومل گاؤں میں، گنپتی کے گھر سے تھوڑی ہی دوری پر ہمیں ایک کھیت نظر آتا ہے جو پوری طرح تباہ ہو چکا ہے۔ اس نے سارے خوابوں کو چکناچور کر دیا ہے۔ یہ مَلّی توٹّم (چنبیلی کا کھیت) ۵۰ سالہ چِنّما اور ان کے شوہر رامار کا ہے۔ دو سال کے یہ پودے چنبیلی کے سفید پھولوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ سبھی ’’دوسرے درجے کے پھول ہیں، جن کی بہت کم قیمت ملے گی،‘‘ وہ انتہائی افسوس کے ساتھ کہتی ہیں۔ انہیں بیماری لگ چکی ہے۔ وہ اپنا سر ہلاتے ہوئے کہتی ہیں، ’’پھول نہ تو کھلیں گے اور نہ ہی بڑے ہوں گے۔‘‘
مگر، اس میں بہت زیادہ محنت لگتی ہے۔ بڑی عورتیں، چھوٹے بچے، کالج جانے والی لڑکیاں – سبھی مل کر اسے توڑتے ہیں۔ چنّما ہم سے باتیں کر رہی ہیں اور ساتھ ہی دھیرے دھیرے شاخوں کے درمیان جاتی ہیں، کلیاں تلاش کرتیہیں، انہیں توڑتی ہیں، پھر کنڈانگی اسٹائل میں لپیٹی ہوئی اپنی ساڑیوں میں انہیں ڈالتی ہیں۔ ان کے شوہر رامار نے کھیت میں کئی حشرہ کش دواؤں کا چھڑکاؤ کیا۔ ’’انہوں نے کئی ’طاقتور دوائیں‘ استعمال کیں، وہ معمولی دوائیں نہیں تھی۔ ان کی قیمت ۴۵۰ روپے فی لیٹر تھی۔ لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا! حالت یہ ہو گئی کہ ایک دن دکاندار نے انہیں مزید پیسے ضائع نہ کرنے کا مشورہ دیا۔‘‘ اس کے بعد رامار نے چنّما سے کہا، ’’پودوں کو اکھاڑ دو۔ ہمارا ڈیڑھ لاکھ روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔‘‘
اسی لیے ان کے شوہر کھیت میں نہیں تھے، چنّما نے ہمیں وجہ بتاتے ہوئے کہا۔ وہ کہتی ہیں، ’’وائیتیریچا آئی‘‘ – یہ ایک تمل لفظ ہے جس کا لغوی معنوی ہے جلتا ہوا پیٹ، جو کڑواہٹ اور حسد کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ’’دوسروں کو جب ایک کلو چنبیلی کے ۶۰۰ روپے ملیں گے، تب ہمیں صرف ۱۰۰ ملے گا۔‘‘ لیکن ان کا یہ غصہ یا تلخی پودوں کی طرف نہیں ہے۔ وہ نرمی سے اس کی شاخوں کو پکڑتی ہیں، پھر ہلکا سا جھکا کر کلیوں تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ’’اگر فصل اچھی ہوتی، تو بڑے پودے سے پھول توڑنے میں ہمیں کئی منٹ لگتے۔ لیکن اب…‘‘ اور پھر تیزی سے اگلے پودے کی طرف بڑھ جاتی ہیں۔
پیداوار کا انحصار کئی چیزوں پر ہے، گنپتی اپنے کندھے پر تولیہ ڈالتے ہوئے، اور چنّما کے پودوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’یہ مٹی، پودوں کے بڑھنے، کسان کی مہارت کے حساب سے الگ الگ ہوتی ہے۔ آپ اسے ایک بچے کی طرح پالتے ہیں،‘‘ وہ دوبارہ کہتے ہیں۔ ’’بچہ آپ سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے یہ چاہیے، مجھے وہ چاہیے، ہے نا؟ بلکہ آپ کو خود ہی اندازہ لگانا پڑتا ہے اور پھر اس کے حساب سے ردعمل دینا پڑتا ہے۔ بچے رونا شروع کر دیتے ہیں، پودا ایسا نہیں کر سکتا۔ لیکن اگر آپ کے پاس تجربہ ہے، تو آپ جان جائیں گے…کہ وہ کمزور ہے، بیمار ہے، یا مرجھانے والا ہے۔‘‘
ان میں سے کئی چیزوں کا ’علاج‘ کیمکلز کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ میں ان سے نامیاتی طریقے سے چنبیلی اگانے کے بارے میں پوچھتی ہوں۔ میں ان سے نامیاتی طریقے سے چنبیلی اُگانے کے بارے میں پوچھتی ہوں۔ ان کے جواب میں چھوٹے کسان کا مخمصہ شامل ہے۔ ’’آپ ایسا کر سکتے ہیں، لیکن اس میں زیادہ خطرات لاحق ہیں۔ میں نے نامیاتی کاشتکاری کی تربیت میں شرکت کی ہے،‘‘ گنپتی کہتے ہیں۔ ’’لیکن اس کی بہتر قیمت کون ادا کرے گا،‘‘ وہ تیزی سے پوچھتے ہیں۔
’’کیمیائی کھاد سے اچھی پیداوار ہوتی ہے۔ نامیاتی طریقہ بیکار اور بے ترتیب ہے – اس میں آپ سب سے پہلے تمام اجزاء کو ٹب میں بھگوتے ہیں اور اسے پوری احتیاط سے چھڑکتے ہیں اور اس کے بعد جب آپ اسے بازار لے جاتے ہیں، تو آپ کو کوئی الگ قیمت نہیں ملتی! جو کہ افسوس کی بات ہے کیوں کہ نامیاتی چنبیلی بڑی اور چمکدار ہوتی ہے۔ جب تک کہ اس کی بہتر قیمت نہ ملے – مان لیجئے، دوگنی قیمت – تب تک اس پر خرچ ہونے والا وقت اور محنت وصول نہیں ہوگی۔‘‘
اپنے گھر کے لیے، وہ نامیاتی سبزیاں اُگاتے ہیں۔ ’’صرف اپنے لیے اور اپنی شادہ شدہ بیٹی کے لیے جو اگلے گاؤں میں رہتی ہے۔ میں بھی کیمکلز سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہوں۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس کا سائڈ افیکٹ بہت زیادہ ہے۔ اتنے سارے حشرہ کش کا استعمال کرنے سے صحت پر اثر تو پڑتا ہی ہے۔ لیکن متبادل کیا ہے؟‘‘
*****
گنپتی کی بیوی، پیچائی یمّا کے لیے بھی اس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ وہ دن بھر کام کرتی ہیں۔ ہر روز۔ وہ ہمیشہ مسکراتی رہتی ہیں۔ اس میں کبھی بھی کوئی کمی نہیں آتی۔ اگست ۲۰۲۲ کے آخری دن چل رہے ہیں اور ان کے گھر کا پاری کا یہ دوسرا دورہ ہے۔ صحن میں نیم کی ٹھنڈی چھاؤں میں ایک چارپائی پر بیٹھی ہوئی وہ اپنے کام کے دن کے بارے میں بتا رہی ہیں۔
آڈا پاکا، ماڈا پاکا، ملّیگاپا توٹّم پاکا، پووا پاریکا، سمائیکا، پُلئیگل انّو پیویڈا… [بکریوں اور گائے اور چنبیلی کے کھیتوں کی رکھوالی کرنا؛ مَلّی توڑنا؛ کھانا پکانا، بچوں کو اسکول بھیجنا…]۔‘‘ یہ ایک لمبی لسٹ ہے۔
پیچائی یمّا (۴۵) کہتی ہیں کہ یہ ساری دوڑ دھوپ بچوں کے لیے ہے۔ ’’میرا بیٹا اور بیٹی دونوں نے اچھی تعلیم حاصل کی ہے اور ڈگری ہولڈر ہیں۔‘‘ وہ خود کبھی اسکول نہیں گئیں اور بچپن سے ہی اپنے والدین کے کھیت میں کام کرنا شروع کر دیا تھا، اور اب اپنے کھیت میں کر رہی ہیں۔ ان کے کان اور ناک میں کچھ زیورات ہیں؛ گلے میں تلی (منگل سوتر) کے ساتھ ہلدی والا ایک دھاگہ لٹک رہا ہے۔
جس دن ہم ان سے ملے، اس دن وہ اپنے چنبیلی کے کھیتوں میں گھاس پھوس نکالنے کا کام کر رہی تھیں۔ یہ انتہائی تکلیف دہ کام ہے – ان کی کمر ہمیشہ جھکی رہتی ہے، اور وہ چھوٹے چھوٹے قدم لیتے ہوئے چلچلاتی دھوپ میں مزدوری کرتی ہیں۔ لیکن فی الحال، انہیں صرف ہماری فکر ہے، جو ان کے مہمان ہیں۔ ’’کچھ کھائیے تو سہی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ گنپتی ہمارے لیے پکے ہوئے، خوشبودار امرود توڑ کر لاتے ہیں اور ناریل پانی پلاتے ہیں۔ اس دوران وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ تعلیم یافتہ اور نوجوان لوگ گاؤں سے شہر چلے گئے۔ یہاں پر زمین کی قیمت ۱۰ لاکھ روپے فی ایکڑ سے کم نہیں ہے۔ اگر کوئی زمین مین روڈ کے قریب ہے، تو اس کی قیمت چار گنا زیادہ ہے۔ ’’تب اسے مکانوں کے لیے ’پلاٹ‘ کی شکل میں بیچا جاتا ہے۔‘‘
جن لوگوں کے پاس اپنی زمین ہے، ان کے لیے بھی منافع کی گارنٹی تبھی ہے جب گھر کے لوگ خود بھی ’مفت‘ مزدوری کریں۔ گنپتی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ عورتیں زیادہ محنت کرتی ہیں۔ میں نے پیچائی یمّا سے پوچھا کہ اگر وہ یہی کام دوسروں کے کھیتوں پر کرتیں، تو انہیں کتنی مزدوری ملتی۔ ’’۳۰۰ روپے،‘‘ وہ جواب دیتی ہیں۔ اور اس میں نہ تو ان کا گھریلو کام شامل ہے، نہ ہی مویشیوں کی دیکھ بھال کے لیے ان کی طرف سے کی جانے والی محنت شامل ہے۔
میں ان سے پوچھتی ہوں، ’’کیا یہ کہنا صحیح ہوگا کہ آپ اپنی فیملی کے کم از کم ۱۵۰۰۰ روپے بچاتی ہیں؟‘‘ وہ اس کا جواب ’ہاں‘ میں دیتی ہیں، اور گنپتی بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ میں مذاقیہ لہجے میں کہتی ہوں کہ انہیں یہ رقم ضرور ملنی چاہیے۔ یہ سن کر سبھی ہنسنے لگتے ہیں، پیچائی یمّا دیر تک ہنستی ہیں۔
پھر، وہ ہلکی سی مسکراہٹ اور چبھتی ہوئی آنکھوں سے میری بیٹی کے بارے میں پوچھتی ہیں کہ مجھے اس کی شادی پر کتنا سونا دینا پڑے گا۔ ’’یہاں پر ہم لوگ ۵۰ سونے کے سکے دیتے ہیں۔ پھر، اگر وہ پوتی ہے، تو ہم اسے سونے کی ایک چین اور چاندی کی پازیب دیتے ہیں؛ کان چھیدنے کے وقت ایک بکرا کاٹ کر لوگوں کو کھلانا پڑتا ہے؛ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ یہ سب ہماری کمائی سے ہوتا ہے۔ آپ ہی بتائے، کیا میں تنخواہ لے سکتی ہوں؟‘‘
*****
اُس دن شام کو مجھے چنبیلی کے ایک نوجوان کسان سے پتہ چلا کہ وہ تنخواہ زراعت کے لیے ایک اچھا – اور ضروری – تکملہ (سپلیمنٹ) ہے۔ یہ ایک اہم سہارا، مستحکم آمدنی ہے، بھلے ہی اس کا مطلب کام کا دوگنا بوجھ ہی کیوں نہ ہو۔ چھ سال پہلے، میں نے یہی دلیل مدورئی ضلع کے اوسیلم پٹّی تعلقہ کی نادومودلئی کولم بستی میں دھان کے دو کسانوں جیابل اور پودھومنی سے سنی تھی۔ اگست ۲۰۲۲ کے اس دورہ میں، جیابل میری ملاقات اپنے بچپن کے ایک دوست اور چنبیلی کے کسان ایم پانڈی سے کراتے ہیں، جن کے پاس اکنامکس میں پوسٹ گریجویٹ کی ڈگری ہے اور وہ تمل ناڈو اسٹیٹ مارکیٹنگ کارپوریشن لمٹیڈ (ٹی اے ایس ایم اے سی) میں کل وقتی نوکری کرتے ہیں۔ اس کمپنی کو ریاست کے اندر ہندوستان میں بنی غیر ملکی شراب (آئی ایم ایف ایل) کو بیچنے کے خصوصی حقوق حاصل ہیں۔
پانڈی (۴۰) ہمیشہ سے کسان نہیں تھے۔ وہ اپنے کھیتوں کی طرف جاتے ہوئے ہمیں اپنی کہانی سناتے ہیں۔ ان کے یہ کھیت گاؤں سے ۱۰ منٹ کی مسافت پر واقع ہیں۔ ہم ہریالی سے گھرے ہوئے ہیں – چاروں طرف پہاڑیاں، آبی ذخائر، اور چمکتی ہوئی سفید رنگ کی چنبیلی کی کلیاں دکھائی دے رہی ہیں۔
’’میں نے ۱۸ سال پہلے، اپنی تعلیم کے فوراً بعد، ٹی اے ایس ایم اے سی کی نوکری شروع کی تھی۔ وہاں میں اب بھی کام کرتا ہوں اور صبح میں اپنے چنبیلی کے کھیتوں کی دیکھ بھال کرتا ہوں۔‘‘ سال ۲۰۱۶ میں، اُس وقت کے نو منتخب وزیر اعلیٰ اور اے آئی اے ڈی ایم کے کی سربراہ جے جیہ للتا نے ٹی اے ایس ایم اے سی میں کام کے گھنٹے ۱۲ سے گھٹا کر ۱۰ گھنٹے کر دیے تھے۔ پانڈی جب بھی جیہ للتا کی بات کرتے ہیں، تو انہیں ’منبومیگو پوراچھی تلائیوی امّا ایورگل‘ (محترم انقلابی رہنما، امّا) کہتے ہیں، یہ لقب قابل احترام اور رسمی دونوں ہے۔ ان کے اس فیصلہ کی وجہ سے پانڈی کو صبح میں خالی وقت ملنے لگا کیوں کہ اب انہیں (صبح ۱۰ بجے کی بجائے) دوپہر میں ۱۲ بجے کام پر لگنا پڑتا تھا۔ تب سے انہوں نے بچے ہوئے ان دو گھنٹوں کو اپنی زمین پر لگانا شروع کیا۔
چنبیلی اپنے کھیتوں میں حشرہ کش دوائیں چھڑک رہے ہیں، اور ساتھ میں اپنے ان دونوں پیشوں کے بارے میں پوری وضاحت اور یقین کے ساتھ بتا رہے ہیں۔ ’’دیکھئے، میں ایک ملازم ہوں اور اپنے کھیت پر ۱۰ مزدوروں کو کام کے لیے رکھتا بھی ہوں۔ ان کی آواز میں خود اعتمادی ہے۔ لیکن حقیقت کا سایہ بھی ہے۔ ’’پھر بھی، اب آپ تبھی کھیتی کر سکتے ہیں جب آپ کے پاس اپنی زمین ہو۔ حشرہ کش دوائیں سینکڑوں روپے میں آتی ہیں، بعض کی قیمت ہزاروں میں ہے۔ چونکہ مجھے تنخواہ ملتی ہے، اس لیے میں اس کا انتظام کر پاتا ہوں۔ ورنہ، کھیتی کرنا بہت ہی مشکل ہے۔‘‘
چنبیلی کی کھیتی تو اور بھی مشکل ہے، وہ بتاتے ہیں۔ اس کے علاوہ، آپ کو اپنی زندگی انہی پودوں کے حساب سے ترتیب دینی پڑے گی۔ ’’آپ کہیں جا نہیں سکتے؛ آپ کی صبحیں پھول توڑنے اور انہیں بازار پہنچانے میں چلی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ، آج شاید آپ کو ایک کلو مل جائے۔ اگلے ہفتے، یہ ۵۰ بھی ہو سکتا ہے۔ آپ کو ہر چیز کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے!‘‘
پانڈی جس ایک ایکڑ کھیت میں چینبلی اُگاتے ہیں، اس میں انہوں نے تھوڑے تھوڑے کر کے اس کے پودے لگائے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کسان کو چینبلی کے پودوں پر کئی گھنٹے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ ’’میں اپنے کام سے تقریباً آدھی رات کو لوٹتا ہوں۔ صبح ۵ بجے سو کر اٹھتا ہوں اور پھر اپنے کھیت پر آ جاتا ہوں۔ میری بیوی ہمارے دو بچوں کو اسکول بھیجنے کے بعد یہاں آتی ہے۔ اگر میں سستی دکھاؤں اور دیر تک سوتا رہوں، تو کیا میں کامیاب ہو سکتا ہوں؟ اور کیا میں مزید ۱۰ لوگوں کو کام پر رکھ سکتا ہوں؟‘‘
اگر یہ ایک ایکڑ زمین پھولوں سے پوری طرح بھر جائے – پانڈی پھولوں کی مقدار پر زور دینے کے لیے اپنے ہاتھوں کا استعمال کرتے ہیں – ’’تب آپ کو ۳۰-۲۰ مزدوروں کی ضرورت پڑے گی۔‘‘ ان میں سے ہر ایک کو چار گھنٹے (صبح ۶ بجے سے ۱۰ بجے تک) کام کرنے کے لیے ۱۵۰ روپے دینے پڑیں گے۔ پھول مرجھا جانے کی وجہ سے اگر صرف ایک کلو ہی بچا، تو پانڈی اور ان کی بیوی شیوگامی اور ان کے دو بچے ساتھ مل کر اسے توڑتے ہیں۔ ’’دیگر علاقوں میں شاید قیمتیں کم ہوں، لیکن یہ زرخیز علاقہ ہے، جہاں دھان کے کئی کھیت ہیں۔ یہاں مزدوروں کی مانگ بہت زیادہ ہوتی ہے۔ انہیں اچھی مزدوری دینی پڑتی ہے، ساتھ ہی چائے اور وڈئی بھی دینا پڑتا ہے…‘‘
گرمیوں کے مہینوں (اپریل اور مئی) میں پھولوں کی بھرمار رہتی ہے۔ ’’تقریباً ۵۰-۴۰ کلو مل جاتا ہے۔ قیمت بہت ہی کم ہوا کرتی تھی، بعض دفعہ تو ایک کلو کے صرف ۷۰ روپے ہی ملتے تھے۔ اب، بھگوان کی کرپا سے ’عطر‘ کی کمپنیوں نے قیمتیں بڑھا دی ہیں اور وہ ایک کلو چنبیلی ۲۲۰ روپے میں لے جاتے ہیں۔‘‘ بازار میں جب کئی ٹن پھول ہوں، تب کسانوں کو بہتر قیمت مل سکتی ہے۔ اور اس قیمت سے نفع اور نقصان برابر ہو جاتا ہے، پانڈی بتاتے ہیں۔
وہ اپنے پھولوں کو نیلکّوٹّئی بازار لے جاتے ہیں، جو کہ ان کے گھر سے تقریباً ۳۰ کلومیٹر دور، پڑوس کے دندیگل ضلع میں ہے۔ ’’مُٹوتونی میں – اچھی بات ہے، آپ مجھے غلط نہ سمجھیں – آپ اسے کلو کے حساب سے بیچتے ہیں۔ نیلکّوٹّئی میں، آپ کو اسے بوری میں بیچنا پڑتا ہے۔ اور، تاجر بغل میں بیٹھتا ہے۔ وہ نظر رکھتا ہے، اور آپ کو غیر متوقع اخراجات، تہواروں، اور بعض دفعہ پھولوں پر چھڑکنے کے لیے کیمیکل خریدنے کی خاطر پیشگی رقم دے گا۔‘‘
چھڑکاؤ کرنا کلیدی چیز ہے، پانڈی اپنی جھونپڑی میں ہاف پینٹ اور دھاری دار ٹی شرٹ تبدیل کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ چنبیلی کے کئی مداح ہیں۔ اور یہ بہت سے کیڑوں کو متوجہ کرتا ہے۔ گنپتی کے برعکس (جن کے پاس بیٹے کی شکل میں ایک ماہر موجود ہے)، پانڈی کو خود ہی دکان پر جا کر مخصوص کیمیکل لانا پڑتا ہے۔ وہ زمین پر پڑے استعمال شدہ ڈبوں اور بوتلوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں، اور اپنی جھونپڑی کے اندر جا کر ٹینک اور اسپریئر لاتے ہیں، اور روگور (ایک حشرہ کش) اور استھا (ایک کھاد) کو پانی میں گھولتے ہیں۔ ایک ایکڑ میں اس کا چھڑکاؤ ایک بار کرنے پر انہیں ۵۰۰ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں اور یہ کام وہ ہر چار یا پانچ دنوں میں کرتے ہیں۔ آپ کو یہ کام (چھڑکاؤ) ہر سیزن میں کرنا پڑے گا۔ کوئی چارہ نہیں ہے…‘‘
اپنی ناک پر صرف کپڑے کا ایک ماسک پہنے، وہ تقریباً ۲۵ منٹ تک پودوں پر حشرہ کش اور کھاد سے ملا ہوا پانی چھڑکتے ہیں۔ اپنی پیٹھ پر اس گھول کا ایک بڑا سا ڈبہ باندھے، وہ موٹی جھاڑیوں کے درمیان چلتے ہیں اور طاقتور اسپریئر سے ہر ایک پتی اور پودے اور پھول اور کلی پر اچھی طرح چھڑکاؤ کرتے ہیں۔ پودوں کی لمبائی ان کی کمر کے برابر ہے؛ اس لیے فوارہ کی بوندیں ان کے چہرے تک پہنچ جاتی ہیں۔ مشین سے کافی شور ہو رہا ہے، اور کیمیکل کی دھند ہوا میں پھیل گئی ہے۔ پانڈی چھڑکاؤ کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں، اور جب ڈبہ خالی ہو جاتا صرف تبھی اسے بھرنے کے لیے رکتے ہیں، اور پھر سے چھڑکنا شروع کر دیتے ہیں۔
بعد میں، جب وہ غسل کرنے کے بعد دوبارہ اپنی سفید شرٹ اور نیلے رنگ کی لنگی پہن لیتے ہیں، تب میں ان سے کیمیکلز کے رابطہ میں آنے کے بارے میں پوچھتی ہوں۔ وہ بڑے اطمینان سے جواب دیتے ہیں: ’’اگر آپ نے چنبیلی کی کھیتی کو اپنا پیشہ بنا لیا ہے، تو آپ کو یہ سب کرنا ہی پڑے گا۔ اگر آپ [چھڑکاؤ] نہیں کرنا چاہتے، تو گھر بیٹھنا پڑے گا۔‘‘ بولتے وقت وہ اپنی دونوں ہتھیلوں کو اس طرح دباتے ہیں، جیسے کہ پرارتھنا (عبادت) کر رہے ہوں۔
ہمارے وہاں سے روانہ ہوتے وقت، گنپتی بھی یہی بات کہتے ہیں۔ وہ میرے ہینڈ بیگ میں امرود بھر دیتے ہیں، سفر کے لیے نیک خواہشات پیش کرتے ہیں اور دوبارہ آنے کے لیے کہتے ہیں۔ ’’اگلی بار، یہ گھر تیار ہو جائے گا،‘‘ وہ اپنے پیچھے اینٹ سے بنے مکان کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس پر ابھی پلاسٹر کا کام نہیں ہوا ہے۔ ’’اور یہاں بیٹھ کر ہم اچھا کھانا کھائیں گے۔‘‘
پانڈی اور گنپتی نے، چنبیلی کے ہزاروں کسانوں کی طرح، اپنی امیدیں اور خواب اس چھوٹے سے سفید رنگ کے پھول، جس کی خوشبو بہت تیز اور ماضی بہت طویل ہے، اور ان بازاروں سے جوڑ رکھے ہیں جہاں کاروبار زور شور سے جاری ہے، اور پانچ منٹ میں ہزاروں روپے – اور کئی کلو مدورئی مَلّی – ہاتھ بدلتے رہتے ہیں۔
لیکن یہ اسٹوری پھر کسی اور دن۔
اس تحقیقی مطالعہ کو بنگلورو کی عظیم پریم جی یونیورسٹی کے ریسرچ فنڈنگ پروگرام ۲۰۲۰ کے تحت مالی تعاون حاصل ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز