یشونت گووند خوش ہیں کہ ان کی ۱۰ سالہ بیٹی، ساتیکا اسکول جاتی ہے۔ ’’وہ پڑھنے جاتی ہے اور اس کے دوپہر کے کھانے کا خیال رکھا جاتا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں، ایک گاہک کے ذریعے آرڈر کیے گئے فرنیچر کے لیے لکڑی کو چیرتے ہوئے۔ ’’ساتیکا صرف ایک کپ چائے سے اپنے دن کی شروعات کرتی ہے، وہ مزید بتاتے ہیں۔ اسکول میں مڈ ڈے میل کے بعد، وہ صرف رات کا کھانا کھاتی ہے – جسے عام طور پر اُس اناج سے تیار کیا جاتا ہے، جو اس فیملی کو راشن کی دکان سے ملتا ہے۔ وہ درمیان میں کچھ بھی نہیں کھاتی۔

’’راشن کی دکان سے ہمیں صرف ۲۵ کلو چاول، ۱۰ کلو گیہوں اور ۲ کلو چینی ملتی ہے،‘‘ گھوسلی گاؤں کے رہنے والے ۴۷ سالہ گووند کہتے ہیں۔ بات کرتے وقت وہ اپنے کام پر سے توجہ بالکل بھی نہیں ہٹاتے؛ وہ ایک موسمی بڑھئی ہیں یا تعمیراتی مقامات پر کام کرتے ہیں۔ گووند، اور مہاراشٹر کے پالگھر ضلع کے موکھاڈا تعلقہ کے ان کے گاؤں کے زیادہ تر لوگ ٹھاکَر آدیواسی برادری سے ہیں۔ ’’ہماری فیملی میں سات لوگ ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’اناج ۱۵ دنوں میں ختم ہو جاتا ہے۔‘‘ اور چھٹیوں میں یا گرمی کی چھٹی کے دوران، جب اسکول جانے والے بچے بھی گھر پر ہی دوپہر کا کھانا کھاتے ہیں، تب راشن اور بھی تیزی سے ختم ہو سکتا ہے۔

گووِند کی طرح، پالگھر ضلع کے گاؤوں میں رہنے والے کئی والدین کے لیے دوپہر کا کھانا، ہفتہ میں چھ دن، اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کا باعث ہے۔ ضلع کے تقریباً ۳ ملین لوگوں میں سےٹ ۱ء۱ ملین سے زیادہ آدیواسی برادری سے ہیں (۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق)۔ یہاں کے بہت سے کنبے، عوامی تقسیم کے نظام کے تحت خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والے کنبوں کو فراہم کیے جانے والے رعایتی راشن پر منحصر ہیں۔ ’’کم از کم میری بیٹی کو دن میں ایک بار پیٹ بھر کھانا مل جاتا ہے،‘‘ گووند کہتے ہیں۔

Yashwant Govind doing carpentry work
PHOTO • Parth M.N.
Meal being served to students at the school
PHOTO • Parth M.N.

یشونت گووند مطمئن ہیں کہ ان کی بیٹی ساتیکا اسکول میں دوپہر کا کھانا کھا سکتی ہے؛ گھر پر صبح میں صرف ایک کپ چائے کے بعد یہ اس کا پہلا مکمل کھانا ہوتا ہے

ساتیکا گاؤں کے ضلع پریشد اسکول میں ۵ویں کلاس میں پڑھتی ہے۔ سال ۲۰۱۷-۱۸ میں، تقریباً ۴ء۶ ملین طالب علم مہاراشٹر کے ۶۱۶۵۹ ضلع پریشد اسکول میں پڑھ رہے تھے (۲۰۰۷-۰۸ کے تقریباً ۶ ملین سے کم؛ یہ اس سوال کے جواب میں حاصل اعداد ہیں جو میں نے جون ۲۰۱۸ میں حق اطلاع قانون کے تحت پوچھا تھا)۔ دیہی ضلع پریشد اسکولو میں زیادہ تر طالب علم کسانوں، زرعی مزدوروں اور دیگر لوگوں کے کنبوں سے ہیں جو پرائیویٹ اسکولی نظام کا خرچ نہیں اٹھا سکتے۔

یہ اسکول ابتدائی تعلیم کے لیے قومی غذائیت پروگرام کی مڈ ڈے میل اسکیم کے تحت طالب علموں کو روزانہ دوپہر کا کھانا فراہم کرتے ہیں۔ ’’پانچویں کلاس تک کے طالب علموں کو ۱۰۰ گرام چاول اور ۲۰ گرام دال مل سکتی ہے۔ ۶ٹھویں اور ۸ویں جماعت کے طالب علموں کو روزانہ ۱۵۰ گرام چاول اور ۳۰ گرام دال کھانے کی اجازت ہے،‘‘ رام داس ساکورے کہتے ہیں، تبھی اسکول میں دوپہر کے کھانے کی گھنٹی بجتی ہے۔ ساکورے، گھوسلی سے ۱۴ کلومیٹر دور، کولی مہادیو آدیواسیوں کے غلبہ والے گاؤں، دھونڈماریا چیمیٹ میں ضلع پریشد اسکول کے ایک ٹیچر ہیں۔

گھنٹی کی آواز سن کر، ۶ سے ۱۳ سال کے طالب علم اسٹیل کی پلیٹ اٹھاتے ہیں، انہیں باہر رکھے پانی کے ڈرم میں دھوتے ہیں، اور دوپہر کے کھانے کے لیے اسکول سے ملحق دائیں طرف، گاؤں کے ہنومان مندر میں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ دن کے تقریباً ڈیڑھ بجے وہ سیدھی قطار میں زمین پر بیٹھتے ہیں اور چاول اور دال کے اپنے حصے کا انتظار کرتے ہیں۔ ’’پانچویں کلاس تک کے ایک طالب علم کے لیے ایندھن اور سبزیوں کا بجٹ [ریاستی حکومت کے ذریعے منظور شدہ] ۱ء۵۱ روپے یومیہ ہے۔ ۶ٹھویں سے ۸ویں کلاس تک کے طالب علموں کے لیے یہ بجٹ ۲ء۱۷ روپے ہے۔ ریاست چاول، غذائی تیل، نمک اور مسالے فراہم کرتی ہے،‘‘ ساکورے کہتے ہیں۔

The students at the Dhondmaryachimet ZP school wash their plates before eating their mid-day meal of rice and dal
PHOTO • Parth M.N.
The students at the Dhondmaryachimet ZP school wash their plates before eating their mid-day meal of rice and dal
PHOTO • Parth M.N.

دھونڈماریاچیمیٹ ضلع پریشد اسکول کے طالب علم چاول اور دال کا اپنا مڈ ڈے میل کھانے سے پہلے اپنی پلیٹیں دھو رہے ہیں

کئی والدین کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کھانا میں کیا شامل ہے، بلکہ ان کے بچے کو کھانا مل رہا ہے یہی ان کے لیے زیادہ اہم ہے۔ حالانکہ، اس کھانے سے بھلے ہی پیٹ بھر رہا ہو لیکن یہ غذائیت سے بھرپور نہیں ہے، پونہ واقع ایک حقِ غذائیت پروگرام، ساتھی سے جڑے صحت عامہ سے وابستہ ایک ڈاکٹر، ابھے شکلا کہتے ہیں۔ ’’بڑے ہو رہے بچوں کے لیے، دوپہر کے کھانے میں اصولی طور پر ۵۰۰ کیلوری ہونی چاہیے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’لیکن ۱۰۰ گرام کچا چاول پکنے کے بعد ۳۵۰ گرام کیلوری دیتا ہے۔ کاربوہائڈریڈ، پروٹین، چربی، معدنیات، وٹامن ایک مکمل غذا کے پانچ بنیادی عناصر ہیں، جو ضلع پریشد اسکولوں میں نہیں آتے ہیں۔ ۱ء۵۱ روپے میں آپ کو کیا مل سکتا ہے؟ یہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔ اس میں وہ ایندھن بھی شامل ہے جو اب سستا نہیں ہے۔ ٹیچر کبھی کبھی سبزیاں دیتے ہیں [اور اکثر، صرف آلو]، ہفتہ میں صرف تین یا چار دن، کیوں کہ انہیں ناکافی بجٹ سے کسی طرح کام چلانا پڑتا ہے۔ بچے کم غذائیت کے شکار رہتے ہیں۔‘‘

اس کے علاوہ، انتظامیہ کے ذریعے دیے گئے چاول اور مسالے کبھی کبھی ملاوٹی ہوتے ہیں، احمد نگر ضلع کے اکولا تعلقہ کے ویر گاؤں کے ضلع پریشد اسکول کے کارکن اور ٹیچر بھاؤ چسکر کہتے ہیں۔ ’’مسالے بھی کم معیار کے ہوتے ہیں۔ کئی اسکولوں میں اناج رکھنے یا کھانا پکانے کے لیے شیڈ بھی نہیں ہے،‘‘ وہ آگے کہتے ہیں۔ ’’بنیادی ڈھانچہ کی کمی کا مطلب ہے کہ کھانا کھلی جگہ پکایا جاتا ہے، جس سے اس کے آلودہ ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ یہ پروگرام تو ضروری ہے، لیکن اس کے بہتر نفاذ کی ضرورت ہے۔‘‘

ہندوستان ٹائمز کی دسمبر ۲۰۱۷ کی ایک رپورٹ کے مطابق، جس میں حق اطلاع قانون کے توسط سے ایک کارکن کے ذریعے حاصل کی گئی معلومات کا حوالہ دیا گیا تھا، مہاراشٹر میں ۵۰۴ طالب علموں کو پانچ سالوں میں  مڈ ڈے میل کے سبب زہر آلود کھانے سے ہونے والی بیماری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ویر گاؤں ضلع پریشد اسکول کے ۴۴ سالہ ٹیچر، رام واک چورے کہتے ہیں کہ وہ کبھی کبھی اچھے کسانوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اسکول کو کچی سبزیاں دیں۔ ’’جب ان کے بس میں ہوتا ہے، تو وہ دیتے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’لیکن جن علاقوں میں زمین بنجر ہے، وہاں پر تعینات ٹیچر ایسا نہیں کر سکتے۔‘‘

Lakshmi Digha cooking outside her house
PHOTO • Parth M.N.
Mangala Burange with her son Sagar seated outside their house
PHOTO • Parth M.N.

بائیں: لکشمی دیگھا گھوسلی ضلع پریشد اسکول میں کھانا بناتی اور صفائی کرتی ہیں، اور کہتی ہیں کہ وہ خود کبھی کبھی اپنی فیملی کا راشن اسکول کی سپلائی میں ملا دیتی ہیں۔ دائیں: اس موسم میں فصل خراب ہونے کے سبب، منگلا بُرنگے مڈ ڈے میل اسکیم کو اپنے بیٹے ساگر کے لیے ’بونس‘ کے طور پر دیکھتی ہیں

اس لیے لکشمی دیگھا کبھی کبھی گھوسلی کے جس ضلع پریشد اسکول میں ۱۰۳ طالب علموں کے لیے کھانا بناتی ہیں، اس کے مڈ ڈے میل میں عوامی تقسیم کے نظام سے حاصل کردہ خود اپنی فیملی کے چاول کا استعمال کرتی ہیں۔ ’’ہم ’ایڈجسٹ‘ کر لیتے ہیں۔ لیکن یہ تب واحد متبادل ہوتا ہے جب ہمیں وقت پر چاول نہیں ملتا،‘‘ وہ کہتی ہیں، اسکول کے پاس ایک شیڈ میں، ایک بڑے برتن میں کھچڑی کو ہلاتے ہوئے۔ ’’ہم بچوں کو بھوکا نہیں رکھ سکتے۔ وہ ہمارے اپنے بچوں کی طرح ہی ہیں۔‘‘ ضلع پریشد ہر ماہ کے پہلے ہفتہ میں اسکول کی اناج کی سپلائی کرتا ہے، لیکن اس میں کبھی کبھی دیر ہو جاتی ہے۔

لکشمی دیگھا کا دن صبح چھ بجے شروع ہوتا ہے، اور شام ساڑھے چار بجے اسکول بند ہونے کے ساتھ ختم ہوتا ہے ’’طالب علموں کے آنے سے پہلے میں اسکول کے احاطہ میں جھاڑو لگاتی ہوں، پھر [پاس کے بورویل سے] پانی بھرتی ہوں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’میں موکھاڈا [ان کے گاؤں سے چار کلومیٹر دور] سے سبزیاں خریدتی ہوں، انہیں کاٹتی ہوں، اور کھانا تیار کرتی ہوں۔ میں دوپہر کے کھانے کے بعد صفائی کرتی ہوں... ان تمام کاموں میں پورا دن لگ جاتا ہے۔‘‘

سبھی کام کسی معاون کے بغیر کرنے کے سبب، لکشمی دیگھا، جن کے شوہر ایک یومیہ مزدور ہیں، ماہانہ ۱۵۰۰ روپے کماتے ہیں۔ مہاراشٹر کے ضلع پریشد اسکول میں باورچی کی تنخواہ ۱۰۰۰ روپے ہے – تو مہینہ میں ۲۰ کام کے دن، جن میں سے ہر ایک ۱۰ گھنٹے کا ہوتا ہے، کھانا پکانے والا/والی ایک دن میں ۵۰ روپے کماتا/تی ہے۔ یہ رقم، فروری ۲۰۱۹ سے بڑھاکر ۱۵۰۰ روپے ہونے والی ہے۔ ’’مجھے جنوری میں ۱۲ ہزار روپے ملے تھے،‘‘ لکشمی مسکراتے ہوئے کہتی ہیں۔ ’’میری آٹھ مہینے کی تنخواہ لٹکی ہوئی تھی۔‘‘

پالگھر ضلع میں، جہاں کھیت سوکھے اور کم پیداوار والے ہیں، اور یہاں کے باشندے غیر زرعی کاموں پر منحصر ہیں، ضلع پریشد اسکولوں میں باورچیوں کو برقرار رکھنا مشکل نہیں ہے۔ حالانکہ، زرعی سرگرمیوں والے علاقوں میں، باورچیوں کو برقرار رکھنا ٹیچروں کے لیے ایک چیلنج ہے۔

Alka Gore cooking at the ZP school
PHOTO • Parth M.N.
The children at the Ghosali school, as in all ZP schools, await the mid-day meal
PHOTO • Parth M.N.

بائیں: الکا گورے ایک زرعی مزدور کے طور پر زیادہ پیسے کما سکتی تھیں، لیکن خشک سالی کے سبب چونکہ کھیتوں کا کام بچا نہیں اس لیے وہ اسکولوں میں کھانا بناتی ہیں۔ دائیں: ضلع پریشد کے سبھی اسکولوں کی طرح، گھوسلی اسکول کے بچے بھی مڈ ڈے میل کا انتظار کرتے ہیں

احمد نگر ضلع کے شیل ویہرے گاؤں کے ضلع پریشد اسکول کے پرنسپل، انل موہتے نے جولائی ۲۰۱۸ میں کچھ ہفتوں تک طالب علموں کے لیے کھانا پکایا تھا۔ ’’باورچی نے بغیر کسی اطلاع کے نوکری چھوڑ دی تھی،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’کسی دوسرے کو ڈھونڈ پانے تک، میں ہی باورچی خانہ کا منتظم تھا۔ اس مدت کے دوران، میں بچوں کو صرف بیچ بیچ میں ہی پڑھا سکتا تھا۔ میں ان کے کھانے پر ان کی تعلیم کو ترجیح نہیں سکتا ہوں۔‘‘

ویر گاؤں کے ضلع پریشد اسکول میں – جو شیل ویہرے سے ۳۵ کلومیٹر دور ہے – خود ٹیچر اپنی طرف سے ۱۰۰۰ روپے جمع کرکے دونوں باورچیوں میں سے ہر ایک کو ۵۰۰ روپے تنخواہ دیتے ہیں۔ باورچیوں میں سے ایک، الکا گورے کا کہنا ہے کہ وہ زرعی مزدور کے طور پر یومیہ ۱۵۰-۲۰۰ روپے کما سکتی ہیں۔ ’’اگر مجھے ہفتہ میں تین بار بھی کام ملا، تو میں [اسکول میں] اپنی تنخواہ سے زیادہ کما لوں گی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ لیکن خشک سالی کے سبب کھیتوں پر کام دستیاب نہیں ہے، جس کی وجہ سے وہ اسکول میں کام کرنے پر مجبور ہیں، وہ کہتی ہیں۔ ’’ٹیچروں نے جب عارضی طور پر میری تنخواہ بڑھا دی، تو میں رک گئی۔ لیکن مانسون آنے پر اور بوائی کا موسم شروع ہوتے ہی، مجھے دوبارہ سوچنا ہوگا۔ میں اپنا پورا دن اسکول میں گزارتی ہوں، جس کے بعد مجھے کھیت پر کوئی کام نہیں مل سکتا مجھے اپنی تین بیٹیوں کی پرورش کرنی ہے۔‘‘

دوسری طرف، طالب علم اور ان کے سرپرست مڈ ڈے میل پر اتنے منحصر ہیں کہ وہ اس کی شکایت بھی نہیں کر سکتے۔ ’’ہمارے پاس ایک ایکڑ بھی کھیت نہیں ہے،‘‘ منگلا بُرنگے کہتی ہیں، جن کا ۱۳ سالہ بیٹا سورج دھونڈماریاچیمیٹ کے ضلع پریشد اسکول میں پڑھتا ہے۔ ’’ہم اپنے استعمال کے لیے چاول کی کھیتی کرتے ہیں۔ لیکن فصل کا کوئی بھروسہ نہیں رہتا۔ اس سال [۲۰۱۸] کے سوکھے کے سبب ہمیں صرف دو کوئنٹل ہی فصل ملی۔ ایسی حالت میں، ہمیں [مڈ ڈے میل میں] جو بھی ملتا ہے وہ ایک بونس ہے۔‘‘

ساتیکا کی طرح، سورج بھی اپنے دن کی شروعات صبح میں ایک کپ چائے سے کرتا ہے۔ ’’وہ اور رات کا کھانا ہی میں عام طور پر اپنے گھر پر کھاتا ہوں،‘‘ وہ کہتا ہے۔ ’’رات کے کھانے میں ہمیں یہ ذہن میں رکھنا پڑتا ہے کہ اناج جہاں تک ممکن ہو سکے لمبے وقت تک چلنا چاہیے، خاص طور پر جب فصل کم ہوئی ہو۔ اس لیے، میں اسکول میں دوپہر کے کھانے کا انتظار کرتا ہوں۔‘‘

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Parth M.N.

Parth M.N. is a 2017 PARI Fellow and an independent journalist reporting for various news websites. He loves cricket and travelling.

Other stories by Parth M.N.
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez