ایک دن جب وہ دیگر آدیواسی عورتوں کے ساتھ کھیتوں میں کام کر رہی تھیں، تبھی ان کے گاؤں سالیہا سے ایک نوجوان دوڑتا ہوا ان کے پاس آیا اور چیختا ہوا بولا: ’’انہوں نے گاؤں پر دھاوا بول دیا ہے، انھوں نے تمہارے والد پر حملہ کر دیا ہے۔ وہ ہمارے گھروں میں آگ لگا رہے ہیں۔‘‘

’’وہ‘‘ مسلح برطانوی پولیس تھی، جنہوں نے راج (برطانوی حکومت) کی بات کو ماننے سے انکار کرنے پر ایک گاؤں میں کارروائی شروع کر دی تھی۔ بہت سے دوسرے گاؤوں کو تباہ کر دیا گیا، نذرِ آتش کر دیا گیا، لوگوں کے اناج کو لوٹ لیا گیا۔ باغیوں کو سبق سکھایا گیا تھا۔

سبر قبیلہ کی ایک آدیواسی دیمتی دیئی سبر، ۴۰ دیگر نوجوان لڑکیوں کے ساتھ کھیت کا کام چھوڑ کر سالیہا کی جانب دوڑیں۔ بزرگ خاتون مجاہد آزادی نے بتایا، ’’میرے والد زمین پر پڑے تھے اور ان کے جسم سے خون بہہ رہا تھا۔ ان کی ٹانگ میں گولی لگی تھی۔‘‘

اُن کی یادداشت اب کام نہیں کرتی، لیکن اس واقعہ کے زخم ان کے ذہن پر اب بھی تازہ ہے۔ ’’میں قابو سے باہر ہو گئی تھی اور بندوق بردار افسر پر میں نے حملہ کر دیا۔ اُن دنوں، کھیت یا جنگل میں جاتے وقت ہم لاٹھی ساتھ رکھتے تھے، اگر جنگلی جانور حملہ کر دیں تو اس سے بچنے کے لیے ساتھ میں کچھ تو رکھنا ہی پڑتا تھا۔‘‘

انہوں نے جیسے ہی اُس افسر پر حملہ کیا، ان کے ساتھ ۴۰ دیگر عورتوں نے بھی بقیہ حملہ آور دستے کو لاٹھیوں سے پیٹنا شروع کر دیا۔ غصے میں، لیکن بے ساختہ ہنسی کے ساتھ وہ بتاتی ہیں، ’’میں نے اُن بدمعاشوں کو دور سڑک کے کنارے تک کھدیڑا، وہ اتنا حیران تھا کہ کچھ بھی نہیں کر پایا۔ وہ بھاگتا ہی چلا گیا۔‘‘ انہوں نے اسے پورے گاؤں میں دوڑا دوڑا کر پیٹا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے والد کو اٹھایا اور اس جگہ سے دور لے گئیں۔ حالانکہ، بعد میں انہیں دوسرے احتجاج کی قیادت کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ اس علاقے میں برطانوی حکومت کے خلاف مہم کو منظم کرنے میں کارتک سبر کا اہم رول تھا۔

Talk of the British shooting her father and Salihan’s memory comes alive with anger

آپ اگر ان سے یہ بات کریں گے کہ انگریزوں نے ان کے والد کو گولی کیسے ماری تھی، تو سالیہان کی یادداشت غصے کے ساتھ تازہ ہو جاتی ہے

دیمتی دیئی سبر اپنے گاؤں کے نام کی وجہ سے ’سالیہان‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ نُواپاڑہ ضلع کے اسی گاؤں میں ان کی پیدائش ہوئی تھی۔ اوڈیشہ کی اس مجاہد آزادی کو لوگ اس لیے یاد کرتے ہیں، کیوں کہ انہوں نے ایک مسلح برطانوی افسر کا مقابلہ لاٹھی سے کیا تھا۔ وہ اب بھی اتنی ہی بے خوف ہیں۔ حالانکہ وہ یہ نہیں مانتیں کہ انہوں نے کچھ انوکھا کیا تھا۔ وہ اسے بڑھا چڑھا کر بیان نہیں کرتیں۔ ’’انہوں نے ہمارے گھروں، ہماری فصلوں کو تباہ کر دیا تھا۔ اور انہوں نے میرے والد پر حملہ کیا تھا۔ ظاہر ہے، مجھے ان سے لڑنا ہی تھا۔‘‘

یہ سال ۱۹۳۰ کی بات ہے، جب وہ ۱۶ سال کی تھیں۔ باغی علاقوں میں برطانوی راج مخالف اور آزادی کی حمایت میں ہونے والی میٹنگوں پر انگریزی حکومت کارروائی کر رہی تھی۔ برطانوی حکومت اور اس کی پولیس کے خلاف دیمتی نے جو لڑائی لڑی، اسے سالیہا کی بغاوت اور فائرنگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

دیمتی سے جب میں ملا تھا، تو وہ ۹۰ سال کی ہونے والی تھیں۔ ان کے چہرے پر تب بھی خود اعتمادی اور خوبصورتی تھی۔ وہ بہت کمزور ہو چکی تھیں اور ان کی آنکھوں کی روشنی تیزی سے ختم ہو رہی تھی، لیکن اپنی نوجوانی میں وہ شاید بہت خوبصورت، لمبی اور مضبوط رہی ہوں گی۔ ان کے لمبے ہاتھ، ان میں چھپی طاقت اور لاٹھی چلانے میں مہارت رکھنے کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ اُس برطانوی افسر پر یہ ضرور بھاری پڑی ہوں گی اور اس نے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی ہوگی۔

انہیں اس بے مثال ہمت کا انعام اب بھی نہیں ملا ہے اور ان کے گاؤں کے باہر کے زیادہ تر لوگوں نے انہیں بھُلا دیا ہے۔ جب میں ’سالیہان‘ سے ملا، تو وہ بارگڑھ ضلع میں بہت غریبی کی حالت میں زندگی بسر کر رہی تھیں۔ ان کے پاس مختلف رنگوں والا صرف ایک سرکاری سرٹیفکیٹ تھا، جس میں ان کی بہادری کو تسلیم کیا گیا تھا۔ اس میں بھی ’سالیہان‘سے زیادہ ان کے والد کے بارے میں لکھا ہے، اور اس میں اس جوابی کارروائی کا ذکر تک نہیں ہے، جس کی انہوں نے قیادت کی تھی۔ انہیں نہ تو کوئی پنشن مل رہی تھی، نہ ہی مرکز یا اوڈیشہ کی ریاستی حکومت سے کوئی مدد۔

وہ اپنی یادداشت کھو رہی تھیں۔ صرف ایک بات ان کی آنکھوں میں چمک پیدا کرتی، اور وہ تھی ان کے والد کارتک سبر کو گولی لگنے کا واقعہ۔ آپ اس بارے میں ان سے بات کریں، تو وہ بہت غصے میں اس واقعہ کو یاد کرتی ہیں اور لگتا ہے جیسے وہ ابھی یہیں ان کی آنکھوں کے سامنے رونما ہو رہا ہو۔

Talk of the British shooting her father and Salihan’s memory comes alive with anger

انہوں نے بتایا، ’’میری بڑی بہن بھان دیئی اور سبر برادری کی دو دیگر آدیواسی خواتین – گنگا تالین اور ساکھا تورین کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔ وہ سبھی اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ پِتا جی نے رائے پور جیل میں دو سال گزارے۔‘‘

آج ان کے علاقے میں جاگیرداروں کا بول بالا ہے، جنہوں نے انگریزوں کا ساتھ دیا تھا۔ جس آزادی کے لیے سالیہان لڑیں، اس سے ان جاگیرداروں کو ہی فائدہ ہوا۔ یہاں غریبی کے سمندر میں خوشحالی کے جزیرے نظر آتے ہیں۔

وہ ہمیں دیکھ کر مسکرائیں، لیکن تھکی لگ رہی تھیں۔ اپنے تین بیٹوں – برشنو بھوئی، انکُر بھوئی اور آکورا بھوئی کا نام یاد کرنے میں بھی انہیں دماغ پر زور دینا پڑتا ہے۔ ہم نے جب ان سے رخصتی لی، تو انہوں نے ہمیں ہاتھ ہلا کر وداع کیا۔ دیمتی دیئی سبر ’سالیہان‘ پھر بھی مسکرا رہی ہیں۔

سال ۲۰۰۲ میں، ملاقات کے ایک سال بعد ’سالیہان‘ کا انتقال ہو گیا۔

دیمتی دیئی ’سالیہان کے لیے

وہ تمہاری کہانی نہیں سنائیں گے، سالیہان
اور میں تمہیں پیج۔۳ بنتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا
یہ تو رنگین چیزوں کے لیے ہے،
موٹاپے کی سرجری کرانے والے لوگوں کے لیے،
باقی صنعت کے مالکوں کے لیے ہے
پرائم ٹائم تمہارے لیے نہیں ہے، سالیہان
یہ ہے، اور یہ مذاق نہیں ہے،
ان لوگوں کے لیے جو قتل اور زخمی کرتے ہیں
جو جلاتے ہیں اور الزام لگاتے ہیں
اور پھر متانت سے بولتے ہیں، ہم آہنگی کے بارے میں
انگریزوں نے تمہارے گاؤں کو آگ لگائی، سالیہان
کئی آدمی بندوق لائے
وہ ٹرین سے آئے
دہشت اور درد لائے
خود کا شعور تک تباہ کر دیا تھا
انہوں نے وہاں جو کچھ بھی تھا اسے جلا دیا، سالیہان
نقدی اور اناج کو لوٹنے کے بعد
برطانوی راج کے غنڈے
انہوں نے پر تشدد حملہ کیا
لیکن تم نے پوری طاقت کے ساتھ ان کا سامنا کیا
تم نے انہیں سڑک کے کنارے تک کھدیڑا
تم نے بندوق والے اُس آدمی کا مقابلہ کیا
سالیہا میں لوگ ابھی بھی وہ کہانی سناتے ہیں
جو لڑائی تم نے لڑی تھی
اور جو تم نے جیتی تھی
آپ کا عزیز زمین پر زخمی پڑا تھا، بہتے ہوئے خون کے ساتھ
تمہارے والد، ان کی ٹانگ میں گولی لگی
اس کے باوجود تم ڈٹی رہی
تم نے ان انگریزوں کو بھگاکر دم لیا
کیوں کہ تم وہاں لڑنے گئی تھی، بھیک مانگنے نہیں
تم نے اُس افسر کو پیٹا، سالیہان
اور اس سے پہلے کہ وہ بھاگ پاتا، تم نے اسے گھسیٹا
آخرکار، جب وہ بھاگا
تو لنگڑاتا ہوا اور چھپ گیا
تم جیسی ۱۶ سال کی لڑکی سے بچنے کے لیے
برطانوی راج کے خلاف ۴۰ خواتین، سالیہان
اور طاقتور اور خوبصورت بھی
اب تم بوڑھی ہو چکی ہو اور پیلی پڑ چکی ہو
تمہارا جسم کمزور ہو گیا ہے
لیکن تمہاری آنکھوں میں ابھی بھی وہ لو موجود ہے، جو تم تھیں
جن لوگوں نے برطانوی راج کا ساتھ دیا، سالیہان
آج وہ تمہارے غریب گاؤں میں حکومت کر رہے ہیں
اور پتھر کے مندر بنا رہے ہیں
لیکن وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے
ہماری آزادی کو ہم سے چھیننے میں
تم اسی طرح مری جیسی زندہ تھی، سالیہان
بھوک، کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں
تاریخ کے رنگ میں
تمہاری یادداشت، جو پھیکی پڑ رہی ہے،
جیسے رائے پور جیل کی روسٹر شیٹ
میں نے تمہارا دل دیکھا، سالیہان
اس کے بعد کون سی کامیابی نہ دیکھوں
حالانکہ وہ لڑائی خود
تمہارے اپنے لیے نہیں تھی
لیکن وہ تھی کہ دوسرے بھی آزاد ہو سکیں
ہمارے بچوں کو تمہارے بارے میں پتہ ہونا چاہیے، سالیہان
لیکن مشہور ہونے کا تم نے دعویٰ کیا ہے؟
تم ایک ریمپ پر نہیں چلی
تم نے فخر سے کوئی تاج نہیں پہنا
نہ ہی کسی پیپسی اور کوک کے ساتھ اپنا نام جوڑا
مجھ سے بات کرو، سالیہان
’نہ ختم ہونے والے ایک گھنٹہ کے لیے’ جیسی تمہاری مرضی
یہ گھومنے والا آدمی، جب ہم جدا ہیں،
تمہارے دل کے بارے میں لکھنا چاہتا ہے
ہندوستان کے لیڈروں کے رومانس پر نہیں

P. Sainath
psainath@gmail.com

P. Sainath is Founder Editor, People's Archive of Rural India. He has been a rural reporter for decades and is the author of 'Everybody Loves a Good Drought'.

Other stories by P. Sainath
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez