نہیں، کشن جی لاری کے پچھلے دروازے (اسے جو بھی کہا جاتا ہو) کی سوراخ سے جھانکنے کی کوشش نہیں کر رہے تھے۔ لاری ویسے بھی خالی تھی، اور تھوڑی دیر پہلے ہی اس نے لاری میں بھرا ہوا سامان اتر پردیش کے مراد آباد شہر کے ٹھیک باہر، اس چھوٹی سی بستی کے کسی گودام میں اتار دیا تھا۔

کشن جی، جن کی عمر ۷۰ سال کے آس پاس ہے، اپنے چھوٹے سے ٹھیلے پر مونگ پھلی، اور گھر میں بنائے گئے کچھ کھانے کے سامان فروخت کرتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں بتایا، ’’میں کچھ بھول گیا تھا، جسے لینے کے لیے گھر گیا ہوا تھا۔ اور جب واپس لوٹا، تو دیکھا کہ اتنی بڑی لاری میرے آدھے ٹھیلہ پر بیٹھی ہوئی تھے۔‘‘

ہوا یہ تھا کہ لاری کے ڈرائیور نے اپنی گاڑی یہاں پارک کر دی تھی، اور اپنی گاڑی کو پیچھے کرتے وقت اس نے کشن جی کی قیمتی جگہ پر قبضہ کر لیا۔ ایسا کرتے وقت اس نے یہ چیک کرنا بھی گوارہ نہیں کیا کہ وہ چھوٹے سے ٹھیلہ کے کافی قریب پہنچ گئی ہے۔ اور پھر وہ ڈرائیور اور اس کا معاون، دونوں وہاں سے غائب ہو گئے، اپنے دوستوں سے ملنے – یا شاید دوپہر کا کھانا کھانے۔ لاری کے پچھلے دروازہ کا اوپری حصہ اس میں پھنس گیا تھا، بلکہ ان کے ٹھیلے کے اوپر چڑھ گیا تھا اور وہ اسے کسی طرح اس میں سے نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ کشن جی کی نظر تھوڑی کمزور تھی، لیکن وہ لاری کے اندر جھانک کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ آخر وہ ٹھیلے میں کس جگہ پھنسی ہوئی ہے۔

ہم حیران تھے کہ پتہ نہیں ڈرائیور اور اس کا معاون کہاں چلے گئے۔ کشن جی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں ہیں اور کون ہیں، لیکن انہیں لعن طعن کرنا آتا تھا، جس کا وہ کھل کر اظہار کر رہے تھے۔ اتنی عمر کا ہونے کے باوجود، وہ ان رنگین الفاظ کو بھولے نہیں تھے۔

کشن جی اُن بے شمار چھوٹے سامان فروشوں میں سے ایک تھے، جو اپنا سامان ٹھیلے پر رکھ کر فروخت کرتے ہیں۔ اس بات کا کوئی مستند تخمینہ موجود نہیں ہے کہ اس ملک میں ایسے کتنے کشن جی موجود ہیں۔ خاص کر ۱۹۹۸ تک ایسی کوئی تعداد موجود نہیں تھی، جب میں نے یہ تصویر کھینچی تھی۔ انہوں نے بتایا، ’’میں اس حالت میں نہیں ہوں کہ اس ٹھیلے کو دھکا دیتے ہوئے بہت دور تک پیدل چل سکوں، اسی لیے میں ۳-۴ بستیوں میں ہی جا کر اپنا سامان فروخت کرتا ہوں۔‘‘ انہیں لگا کہ ’’اگر آج میں ۸۰ روپے کما لیتا ہوں، تو میرے لیے یہ ایک اچھا دن ہوگا۔‘‘

ہم نے ان کے پھنسے ہوئے ٹھیلے کو نکالنے میں ان کی مدد کی۔ اور انہیں اسے دھکا دے کر دور لے جاتے ہوئے دیکھتے رہے، اس امید کے ساتھ کہ آج ان کی ۸۰ روپے کی کمائی ضرور ہوگی اور ان کا دن اچھا رہے گا۔

مترجم: محمد قمر تبریز

P. Sainath
psainath@gmail.com

P. Sainath is Founder Editor, People's Archive of Rural India. He has been a rural reporter for decades and is the author of 'Everybody Loves a Good Drought'.

Other stories by P. Sainath
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez