وہ فٹ پاتھ پر خالی ہاتھ کھڑی تھی، گویا وہ کسی غم کے مزار پر کھڑی ہو۔ وہ ان کے قبضے سے کچھ بھی چھڑانے کی کوشش کرنا چھوڑ چکی تھی۔ اس کے دماغ نے اپنے نقصانات کا شمار کرنا بند کر دیا تھا، کیوں کہ اب سب کچھ اس سے دور ہو گیا تھا۔ عدم اعتماد، خوف، غصہ، نا امیدی، اور حیرانی
– کچھ ہی منٹوں میں اس کا من ان تمام جذبات سے ہوکر گزرا۔ اب وہ گلی کے دونوں سروں پر کھڑے باقی لوگوں کی طرح خاموش تماشہ دیکھ رہی تھی۔ آنکھوں میں آنسو برف کی طرح جم گئے تھے اور حلق درد سے خشک ہو چکا تھا۔ اس کی زندگی کو ایک بلڈوزر نے مسمار کر دیا۔ حالانکہ، فسادات نے اسے جو زخم پہنچایا تھا، وہ ابھی تک بھرے نہیں تھے۔

نجمہ کو معلوم تھا کہ اب وقت بدل رہا ہے۔ یہ محض اس کی پڑوسن رشمی کی بدلتی نگاہوں تک محدود نہیں تھا، جسے اس نے تب محسوس کیا تھا جب وہ دہی کے لیے جورن مانگنے گئی تھی۔ نہ ہی یہ اس کے برے خوابوں جیسا تھا، جسے وہ تب سے دیکھ رہی تھی جب سے وہ شاہین باغ کی عورتوں کی تحریک سے جڑی تھی، جس میں وہ خود کو گہرے خندق سے گھری زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر اکیلا کھڑا دیکھتی تھی۔ کچھ اس کے اندر بھی ٹوٹ گیا تھا، جس نے اسے چیزوں کے، خود کے، اپنی بچیوں کے، اس ملک کے بارے میں اس کے احساس کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ اسے ڈر لگ رہا تھا۔

یہ الگ بات ہے کہ اپنی چیز کے چھین لیے جانے کا احساس اس کی فیملی کے لیے نیا نہیں تھا۔ اسے یقین تھا کہ اس کی دادی بھی اس تکلیف کو جانتی تھیں، جو فرقہ وارانہ فساد برپا کرنے والوں کے ذریعے پھیلائی گئی نفرت سے پیدا ہوئی تھی۔ ایک چھوٹی سے انگلی اس کے دامن کو چھو کر گزری۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو ایک بیچاری سی مسکان لیے کوئی اس کا خیر مقدم کر رہا تھا۔ تبھی ایک بار پھر سے اس کے من میں امید کے پھول کھلنے لگے…

پرتشٹھا پانڈیہ کی آواز میں انگریزی کی یہ نظم سنیں

جنگلی پھول

موٹے دھاردار، بے رحم بلیڈ
ڈھا رہے ساری عمارتیں
مٹا رہے پرانے سارے قصے
مسجدوں، میناروں کو توڑ رہے۔
وہ پرانے برگد کو بھی اکھاڑ پھینک سکتے ہیں
پرندوں کے آشیانوں کو بھی،
باقی ماندہ ہر گھاس پھوس کو نوچ ڈالتے ہیں۔
تاریخ کے پرزوں کو ہٹا کر
تیار کرتے ایک نیا راستہ،
جس پر دوڑے گی ایک بُلیٹ ٹرین۔
جنگ کے میدانوں کو صاف کر
جگہ جگہ سپاہیوں کو
ان کی توپوں کے ساتھ تعینات کرتے۔
وہ اپنے آہنی پنجوں سے
گھنے میدانوں کی ہر رکاوٹ کو پار کر جائیں گے۔
وہ احتجاجوں کو کچلنا، مخالفت کو دبانا، اور ہر آواز کو مٹانا
اچھی طرح جانتے ہیں۔

لیکن دیکھنا، جب سارا کام تمام ہو جائے گا
تمہیں بھونروں، جھینگروں، اور تتلیوں سے نمٹنا ہوگا
ایسے محبتی، ملائم، طاقتور اور شیطان ننھے حشرات
کتابوں سے نکل کر
زبان پر ٹھہر جائیں گے۔
ایسے قصوں کو مٹانا
ایسی زبان کو خاموش کرانا تو بہت آسان ہے
اس کے لیے کسی بلڈوزر کی ضرورت کہاں؟

لیکن تم اُن کا کیا کروگے
جو ہواؤں پر بیٹھ کر،
پرندوں اور شہد کی مکھیوں کے پروں پر بیٹھ کر
ندیوں کی موجوں پر سوار ہو کر،
اور ایک نظم کے اشعار میں چھپ کر
بغیر رکے، بغیر تھمے
یہاں، وہاں، ہر جگہ پہنچ رہے ہیں؟

غبار کے ساتھ اڑتے ہوئے
یہ ہلکے، زرد، خشک، ضدی زرگل
کھیتوں، پودوں، پھولوں کے ساتھ ساتھ
ہمارے تمہارے من میں اپنی جگہ بنا رہے ہیں
ہماری زبان سے پھسل رہے ہیں۔
دیکھو، ان کی پیداوار کو!
اس سنہرے جنگلی پھولوں سے
پوری زمین مہک رہی ہے۔
بلوائیوں کی تلواروں کو چکمہ دے کر
تمہارے بُلڈوزر کے پہیوں کے نیچے
امید کی رفتار سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
دیکھو انہیں، یہ کیسے چاروں طرف پھیل رہے ہیں!

مترجم: محمد قمر تبریز

Poem and Text : Pratishtha Pandya

Pratishtha Pandya is a poet and a translator who works across Gujarati and English. She also writes and translates for PARI.

Other stories by Pratishtha Pandya
Illustration : Labani Jangi

Labani Jangi is a 2020 PARI Fellow, and a self-taught painter based in West Bengal's Nadia district. She is working towards a PhD on labour migrations at the Centre for Studies in Social Sciences, Kolkata.

Other stories by Labani Jangi
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez