بنانے کی ترکیب: کسی بیکار پڑے ڈیزل پمپ کو لیں۔ پھر، کباڑ میں پھینکے جا چکے ٹریکٹر کے چار پرزے اور گزشتہ عالمی جنگ کے دوران خراب ہو چکی جیپ کے دو پرزے شامل کر لیں۔ اس کے بعد کسی بیل گاڑی سے دو چار لکڑی کے تختے لے کر اس میں فٹ کر دیں۔ اس کو مزید خوبصورت بنانا ہو تو بانس کے ٹکڑے، کچھ رسی اور ایک بڑا کینوس کا کپڑا بھی اس میں شامل کر سکتے ہیں۔ اب، اس میں پہیہ جوڑ دیں۔ کوئی بھی چار پہیہ چلے گا، بھلے ہی اس کا سائز الگ الگ کیوں نہ ہو۔ اگر آپ کی خواہش ہو تو، مفت میں دستیاب کوئی دوسرا سامان بھی اس میں جوڑا جا سکتا ہے۔ اب اسے ایک گاڑی کی شکل دینے کے لیے ’جگاڑ‘ لگائیں یا انہیں فٹ کریں یا سب کو آپس میں باندھ دیں۔ یہ گاڑی کسی بھی شکل کی ہو سکتی ہے۔

اب آپ دوڑنے کے لیے تیار ہیں۔ بھینڈ، مورینا (مدھیہ پردیش) میں۔ بندیل کھنڈ میں۔ راجستھان کے کچھ حصوں میں بھی، لیکن ہریانہ میں نہیں۔

یہ ہندوستان کے تکنیکی ذہن کی بہترین مثال ہے۔ آپ کو یقین نہیں ہوگا کہ یہ دوڑ بھی سکتی ہے۔ جی ہاں، یہ دوڑتی ہے۔ میں نے جُگاڑ کو استعمال کیا ہے اور اس سے میرا کام چل گیا۔ جس طرح یہ اور بھی نہ جانے کتنے ہندوستانیوں کے کام آتا ہے۔ بیکار پڑی چیزوں کو ری سائیکل کرنے کا یہ ایک عجوبہ ہے۔ ’ڈیزل انجن‘ کسی زمانے میں سینچائی کا پمپ چلانے کے کام آتا تھا۔ اسے بنانے کی لاگت کافی کم ہے، صرف کچھ ہزار روپے۔ بعض دفعہ یہ ۲۰ ہزار روپے میں بھی بن جاتا ہے۔ میں نے لوگوں کی زبانی اس سے بھی کم قیمت سنی ہے۔ اس کی رفتار ویسے تو کم ہے، لیکن کام چل جاتا ہے۔ کسان اس میں اپنی فصل لاد کر بازار لے جاتے ہیں۔ وہاں سے اپنے گھر کا سامان بھی اسی میں لاتے ہیں۔ دور دراز گاؤوں میں رہنے والے لوگ اپنے سب سے قریب شہر جانے کے لیے اس کا استعمال کرتے ہیں۔ اسکول کے بچے اسے بس کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مورینا میں (جہاں یہ تصویر کھینچی گئی تھی) یہ پبلک ٹرانسپورٹ کی ایک شکل ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس میں لگے پہیے کسی ایئر فورس اسٹیشن کے کباڑ سے لائے گئے ہیں۔

The jugaad is a miracle of waste recycling
PHOTO • P. Sainath

بیکار پڑی چیزوں کو ری سائیکل کرنے کا یہ ایک عجوبہ ہے

اس قسم کی مشین کی ایجاد بعض دفعہ کسی ناخواندہ یا نیم خواندہ کسان کی جانب سے دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان کی تکنیکی جدت طرازی کی صلاحیت کو بڑے پیمانے پر کم تر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ جُگاڑ کمیونٹی کے لیے کافی مفید ہے۔ حالانکہ، اس کی رفتار فی گھنٹہ ۲۰ میل سے زیادہ نہیں ہے۔

اس جُگاڑ کی وجہ سے سرکاری اہلکار کافی پریشان رہتے ہیں۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ آٹو موبائل لابی کے دباؤ میں آ کر ہریانہ میں اس پر پابندی لگا دی گئی کیوں کہ اس معمولی سے جگاڑ کی وجہ سے انہیں خطرہ محسوس ہو رہا تھا۔ حالانکہ، اس بات کا کوئی بھی ثبوت نہیں ہے کہ سڑک پر اس سے کسی قسم کا خطرہ لاحق ہو، کیوں کہ یہ شاید سب سے دھیمی رفتار سے چلنے والا ’آٹو موبائل‘ ہے۔ دوسری جگہوں پر، اسے موٹر گاڑی کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔

جُگاڑ کے مالکوں نے اس کے جواب میں، آٹو ٹیکس دینے سے منع کر دیا ہے۔ (’’وہ کہتے ہیں کہ یہ گاڑی نہیں ہے، ہے نا؟‘‘) لیکن پولیس بھی جوابی کارروائی کر رہی ہے۔ اگر یہ مشین سڑک پر چل رہے کسی آدمی کو چھو بھی جائے، تو جُگاڑ کے مالک کو لاپروائی سے گاڑی چلانے کے الزام میں نہیں، بلکہ قتل کی کوشش کے الزام میں پکڑ لیا جائے گا۔ پولیس کہتی ہے، ’’اس سے حادثہ کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ گاڑی نہیں ہے، یاد آیا؟‘‘

’جگاڑ‘ کا صحیح ترجمہ کرنا ناممکن ہے۔ یہاں پر، اس سے مراد میکینکل کاریگری، چھوٹے موٹے پرزوں کو ایک ساتھ جوڑنا ہے۔ کچھ پہلے سے تیار اور کچھ کو دوبارہ بنایا گیا۔ ایک ایسی کوشش جو جمالیات سے متعلق نہ ہو کر اصلی کام چلانے کے لیے ہو۔ مطلب جو بھی ہو، میں اس کے حق میں ہوں۔

You wouldn't believe they could make this run, but it does!
PHOTO • P. Sainath

آپ کو یقین نہیں ہوگا کہ یہ دوڑ بھی سکتی ہے۔ جی ہاں، یہ دوڑتی ہے!

مترجم: محمد قمر تبریز

P. Sainath
psainath@gmail.com

P. Sainath is Founder Editor, People's Archive of Rural India. He has been a rural reporter for decades and is the author of 'Everybody Loves a Good Drought'.

Other stories by P. Sainath
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez