جوان کھمری اونٹ، حراست کے صدمہ سے ابھی تک باہر نہیں نکل پایا ہے۔

کمّا بھائی لکھا بھائی رباری کہتے ہیں، ’’اسے پہلے کی طرح صحت مند ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔‘‘

گلہ بان کمّا بھائی اپنے ایک جوان نر اونٹ کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔

جنوری ۲۰۲۲ میں رونما ہونے والے غیر معمولی واقعات کے اس دور کو جانتے ہوئے، جب مہاراشٹر کے امراوتی میں مقامی پولیس نے ۵۸ اونٹوں کو حراست میں لے لیا تھا، کمّا بھائی کی اس امید افزا بات کو سمجھا جا سکتا ہے۔ حالانکہ، ایک مہینہ بعد فروری میں ان اونٹوں کو رہا کر دیا گیا تھا، لیکن اُس وقت تک تقریباً سبھی اونٹوں کی صحت بگڑ چکی تھی۔

گلہ بانوں کا کہنا ہے کہ حراست کے دوران جانوروں کو ان کی معمول کی خوراک نہیں ملی۔ حراست کے دوران جس گئو رکشن کیندر میں انہیں رکھا گیا تھا، وہ ایک گئوشالہ تھی جس میں صرف گائے کا چارہ موجود تھا۔ کمّا بھائی کہتے ہیں، ’’وہ کھلے میں چرنے والے جانور ہیں اور بڑے درختوں کی پتیاں کھاتے ہیں۔ وہ عام طور پر وہ چارہ نہیں کھاتے جو دیگر مویشی کھاتے ہیں۔‘‘

Left: The camels were detained and lodged in a confined space at the Gaurakshan Sanstha in Amravati district. Right: Kammabhai with Khamri, a young male camel who has not yet recovered from the shock of detention
PHOTO • Akshay Nagapure
Left: The camels were detained and lodged in a confined space at the Gaurakshan Sanstha in Amravati district. Right: Kammabhai with Khamri, a young male camel who has not yet recovered from the shock of detention
PHOTO • Jaideep Hardikar

بائیں: امراوتی ضلع میں اونٹوں کو حراست میں لے کر گئو رکشن سنستھا کے اس میدان میں رکھا گیا تھا جس کے چاروں طرف باڑ لگی ہوئی ہے۔ دائیں: کمّا بھائی کے ساتھ کھڑا ایک جوان کھمری اونٹ، جو ابھی تک حراست کے صدمہ سے باہر نہیں نکل پایا ہے

ایک مہینہ سے زیادہ وقت تک انہیں سویابین اور دیگر فصلوں کا چارہ زبردستی کھلایا گیا، جس کی وجہ سے ان کی صحت گرنے لگی تھی۔ فروری ۲۰۲۲ کے وسط میں جب انہیں رہا کرکے ان کے پانچوں فکرمند مالکوں کو سونپا گیا، تو اس کے بعد اچانک اونٹوں کی موت ہونے لگی۔ جولائی تک ۲۴ اونٹوں کی موت ہو چکی تھی۔

مالکوں کا کہنا ہے کہ اونٹوں کو ان سے اچانک الگ کر دینے اور پھر حراست میں رکھنے کا صدمہ برداشت نہ کر پانے کی وجہ سے ان کی موت ہوئی ہے۔ کمّا بھائی سمیت چار اونٹ مالکوں کا تعلق رباری کمیونٹی سے ہے؛ اور ایک فقیرانی جاٹ ہیں۔ یہ سبھی بنیادی طور پر گجرات کے کچھّ-بھُج ضلع میں اونٹوں کے روایتی گلہ بان ہیں۔

اس حادثہ کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان گلہ بانوں کو کیندر کے ذریعے اونٹوں کو دیے جا رہے غیر مناسب یومیہ چارہ کے لیے ہر اونٹ کے حساب سے ۳۵۰ روپے ادا کرنے پڑے تھے۔ گئو رکشن سنستھا کے مطابق، یہ بل ۴ لاکھ روپے کا تھا۔ گئوشالہ خود کو رضاکارانہ تنظیم بتاتا ہے، لیکن اس نے اونٹوں کی دیکھ بھال اور رکھ رکھاؤ کے لیے رباریوں سے پیسے وصول کیے۔

جکارا رباری بتاتے ہیں، ’’ودربھ میں رہنے والے اپنی برادری کے لوگوں سے اتنے پیسے جمع کرنے میں ہمیں دو دن لگے تھے۔‘‘ جکارا رباری ایک تجربہ کار چرواہا ہیں، جو سامان ڈھونے کے لیے اونٹوں کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ ناگپور ضلع کے سرسی گاؤں میں آباد ایک ڈیرہ میں رہتے ہیں، اور ان ۲۰ کنبوں میں شامل تھے جنہیں وسطی ہندوستان سے ہوکر لائے جا رہے اونٹوں کے اس ریوڑ سے کچھ اونٹ ملنے والے تھے۔

Left: Activists from an Amravati-based animal rescue organization tend to a camel that sustained injuries to its leg due to infighting at the kendra. Right: Rabari owners helping veterinarians from the Government Veterinary College and Hospital, Amravati, tag the camels in line with the court directives
PHOTO • Rohit Nikhore
Left: Activists from an Amravati-based animal rescue organization tend to a camel that sustained injuries to its leg due to infighting at the kendra. Right: Rabari owners helping veterinarians from the Government Veterinary College and Hospital, Amravati, tag the camels in line with the court directives
PHOTO • Rohit Nikhore

بائیں: مویشیوں کو بچانے والی امراوتی کی ایک تنظیم کے کارکن ایک اونٹ کا علاج کر رہے ہیں، جس کی ایک ٹانگ کیندر کے اندر ہوئی لڑائی میں زخمی ہو گئی تھی۔ دائیں: عدالت کی ہدایت کے مطابق، اونٹوں پر ٹیگ لگانے میں امراوتی کے سرکاری ویٹرینری (مویشیوں کے) کالج اور ہسپتال کے ڈاکٹروں کی مدد کرتے رباری مالکان

*****

ایک سال پہلے حیدر آباد کے مویشیوں کے حقوق کی لڑائی لڑنے والے ایک خودساز کارکن نے پانچوں گلہ بانوں کے خلاف تلیگاؤں دشاسر پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی تھی۔ ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ ان اونٹوں کو حیدرآباد کے ذبیحہ خانوں میں لے جا رہے تھے۔ اس وقت یہ رباری ودربھ کے علاقے میں اپنا ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے۔ امراوتی ضلع پولیس کے دائرہ اختیار میں آنے والے نمگوہان گاؤں سے پولیس نے اونٹ کے ان پانچوں گلہ بانوں کو گرفتار کر لیا تھا۔ ان پر جانوروں پر ظلم و ستم کی روک تھام کے قانون،۱۹۶۰ کی دفعہ ۱۱ (۱) (ڈی) کے تحت معاملہ درج کیا گیا تھا، اور اونٹوں کو حراست میں لے کر امراوتی کے ایک گئو رکشن کیندر میں بھیج دیا گیا تھا۔ (پڑھیں: پولیس کی حراست میں: کچھّ کے ریگستانی جہاز

حالانکہ، مقامی عدالت نے اونٹ کے مالکوں کو فوراً ضمانت دے دی تھی، لیکن ان کے جانوروں کے لیے لڑائی لمبی کھنچتی چلی گئی اور معاملہ ضلع عدالت (ڈسٹرکٹ کورٹ) تک پہنچا۔ ۲۵ جنوری، ۲۰۲۲ کو امراوتی میں مجسٹریٹ نے گئو رکشن سنستھا سمیت مویشیوں کے حقوق کی لڑائی لڑنے والی تین تنظیموں کی اونٹوں کی تحویل سے متعلق حقوق کی عرضی کو سیدھے سیدھے خارج کر دیا۔ عدالت نے کچھ شرطوں کو پورا کرنے کے عوض رباری گلہ بانوں کی درخواست کو قبول کر لیا۔

اونٹ مالکوں سے کہا گیا کہ وہ مویشیوں کے رکھ رکھاؤ اور دیکھ بھال کے لیے، گئو رکشن سنستھا کے ذریعے طے کی گئی ’مناسب فیس‘ کی ادائیگی کریں۔ فروری ۲۰۲۲ میں، امراوتی میں ایک ڈسٹرکٹ اور سیشن کورٹ نے ہر اونٹ کے لیے یومیہ فیس ۲۰۰ روپے طے کی۔

رباریوں کے لیے یہ راحت کی بات تھی، کیوں کہ انہوں نے پہلے ہی زیادہ فیس کی ادائیگی کر دی تھی، تو اب انہیں کوئی اضافی رقم نہیں دینی تھی۔

A herder from the Rabari community takes care of a camel who collapsed on the outskirts of Amravati town within hours of its release
PHOTO • Akshay Nagapure

رباری کمیونٹی کے ایک گلہ بان اپنے اونٹ کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ حراست سے رہا کیے جانے کے بعد کچھ گھنٹے بعد ہی یہ اونٹ امراوتی شہر کے مضافات میں بیہوش ہو کر گر گیا تھا

جکارا رباری بتاتے ہیں، ’’ہم نے عدالتی خرچ، وکیل کی فیس، اور پانچوں ملزم گلہ بانوں کی دیکھ بھال میں تقریباً ۱۰ لاکھ روپے خرچ کیے۔‘‘

فروری ۲۰۲۲ کے وسط میں اونٹوں کو آخرکار ان کے مالکوں کو سونپ دیا گیا۔ مالکوں نے پایا کہ ان کے اونٹ بیمار اور کم غذائیت کے شکار ہو گئے تھے۔ حراست سے چھوڑے جانے کے کچھ گھنٹوں کے اندر ہی، امراوتی شہر کے مضافات میں ان میں سے دو اونٹوں کی موت ہو گئی۔

اگلے ۴-۳ مہینوں میں کئی اور اونٹوں کی بھی موت ہوئی۔ چھتیس گڑھ کے بلودہ بازار ضلع میں، اپنے ڈیرہ سے فون پر پاری سے بات کرتے ہوئے ساجن رباری نے بتایا، ’’اونٹوں کی خراب حالت کی وجہ سے مارچ سے اپریل تک ہم لمبی دوری کا سفر نہیں کر سکے۔ گرمیوں میں انہیں راستے میں سبز پتے نہیں ملے اور جب مانسون آیا، تو وہ اتنے کمزور ہو چکے تھے کہ بیمار پڑ گئے اور ایک ایک کرکے مرنے لگے۔‘‘ اس جھنڈ سے ساجن رباری کو جو چار اونٹ ملے تھے، ان میں سے دو کی موت ہو گئی۔

چھتیس گڑھ اور آندھرا پردیش میں رہنے والی رباری برادریوں کو اس جھنڈ میں سے جو اونٹ ملنے تھے ان میں سے زیادہ تر یا تو راستے میں ہی مر گئے یا ان کے ڈیرہ پر پہنچنے کے ٹھیک بعد ان کی موت ہو گئی۔

ان میں سے جو ۳۴ اونٹ بچ گئے ہیں، وہ ابھی تک حراست کے صدمہ سے باہر نہیں نکل پائے ہیں۔

Left: The Rabari herders say their animals turned sickly at the kendra. Right: The caravan walking towards their settlement camp in Wardha district after gaining custody over their animals. 'What did the complainants gain from troubling us?'
PHOTO • Akshay Nagapure
Left: The Rabari herders say their animals turned sickly at the kendra. Right: The caravan walking towards their settlement camp in Wardha district after gaining custody over their animals. 'What did the complainants gain from troubling us?'
PHOTO • Akshay Nagapure

بائیں: رباری چرواہوں کا کہنا ہے کہ کیندر میں حراست میں رکھے گئے ان کے اونٹ بیمار پڑ گئے تھے۔ دائیں: اپنے اونٹ واپس حاصل کر لینے کے بعد، چرواہوں کا قافلہ وردھا ضلع میں اپنے ڈیرہ کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ’ہم کو پریشان کرکے ان کو کیا ملا؟‘

*****

کھمری خوش قسمت ہے کہ ابھی تک زندہ ہے۔

کمّا بھائی کہتے ہیں کہ جب تک ان کا دو سال کی عمر کا یہ اونٹ پوری طرح ٹھیک نہیں ہو جاتا، تب تک وہ اسے سامان ڈھونے کے لیے استعمال نہیں کریں گے۔

دیگر اونٹوں کے ساتھ، وہ ایک درخت سے کچھ ہی دوری پر بندھا ہوا ہے، جہاں سے کمّا بھائی نے جنوری ۲۰۲۳ میں کپاس کے کھیت کے ایک خالی حصہ میں اپنا کیمپ لگایا تھا۔ کھمری کو بیر کے پتے بہت اچھے لگتے ہیں؛ ساتھ ہی اسے اس موسم میں پھلنے والے جامن بھی بہت پسند ہیں۔

رباری چرواہے اور ان کے جانور مہاراشٹر کے وردھا ضلع کے ہنگن گھاٹ شہر سے تقریباً ۱۰ کلومیٹر دور ناگپور- عادل آباد قومی شاہراہ پر ایک چھوٹے سے گاؤں، وانی کے پاس ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔ یہ برادری اپنی بکریوں، بھیڑ اور اونٹوں کے ریوڑ کے ساتھ مغربی اور وسطی ہندوستان کے درمیان پیدل سفر کرتی رہی ہے۔

Kammabhai’s goats (left), sheep and camels (right) at their dera near Wani, a small hamlet about 10 km from Hinganghat town in Wardha district
PHOTO • Jaideep Hardikar
Kammabhai’s goats (left), sheep and camels (right) at their dera near Wani, a small hamlet about 10 km from Hinganghat town in Wardha district
PHOTO • Jaideep Hardikar

وردھا ضلع کے ہنگن گھاٹ شہر سے تقریباً ۱۰ کلومیٹر دور، وانی کے پاس واقع ڈیرہ میں کمّا بھائی کی بکریاں (بائیں)، بھیڑ اور اونٹ (دائیں)

سال ۲۰۲۲ کے اس ناخوشگوار تجربہ کے بعد اب اونٹوں کے یہ مالک اپنے جانوروں کی لگاتار نگرانی کر رہے ہیں اور ان کا اچھی طرح خیال رکھتے ہیں۔ کمّا بھائی کو امید ہے کہ یہ اونٹ شاید زندہ رہیں گے اور ۱۸ سال یا اس سے زیادہ کی اپنی حیات کی مدت کو پورا کریں گے۔

ودربھ میں رباریوں کے سربراہ اور برادری کی طرف سے قانونی لڑائی لڑنے والے، کمّا کے بڑے بھائی مشرو رباری کہتے ہیں، ’’اس حادثہ سے ہمیں کافی تکلیف پہنچی ہے۔ ہم کو پریشان کرکے ان کو کیا ملا؟‘‘

مشرو رباری بتاتے ہیں کہ وہ اب بھی اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ کیا انہیں ہائی کورٹ میں کیس لڑنا چاہیے اور معاوضہ کے لیے دعویٰ پیش کرنا چاہیے۔

پولیس نے اس درمیان امراوتی میں سیشن کورٹ کے سامنے اپنی چارج شیٹ داخل کر دی ہے، لیکن معاملے کی سماعت ابھی تک شروع نہیں ہوئی ہے۔ مشرو رباری کہتے ہیں، ’’ہم یہ کیس لڑیں گے۔‘‘

’’ہمارا وقار داؤ پر لگا ہے۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Jaideep Hardikar

Jaideep Hardikar is a Nagpur-based journalist and writer, and a PARI core team member.

Other stories by Jaideep Hardikar
Editor : Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. A journalist and teacher, she also heads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum, and with young people to document the issues of our times.

Other stories by Priti David
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez