وجے واڑہ جنکشن ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر ۱۰ پر، تقریباً ۱۰ مزدور سنگھ مترا ایکسپریس کا انتظار کر رہے ہیں جو بنگلورو سے چلتی ہے اور پٹنہ تک جاتی ہے۔ آندھرا پردیش کی نئی راجدھانی امراوتی میں کئی مہینوں سے تعمیراتی کام کرنے والے ان مزدوروں کو، یہ ٹرین بہار کے ان کے گاؤں، بیل گاچھی لے جائے گی۔

’’پچھلے آدھے گھنٹہ میں مختلف ٹکٹ ایگزامنرس (ٹی ای) کے ذریعہ تین بار ہمیں ٹکٹ دکھانے کے لیے کہا گیا،‘‘ ۲۴ سالہ محمد عالم کہتے ہیں۔ پلیٹ فارم پر کئی ٹی ای ہیں۔ ’’یہ ’مزدور لوگ‘ ٹکٹ نہیں خریدتے ہیں،‘‘ ان میں سے ایک مجھے بتاتا ہے۔ ’’اس لیے کچھ ٹرینوں کے لیے ہم زیادہ ٹی ای تعینات کرتے ہیں اور شمال اور شمال مشرق کی طرف جانے والوں کے بارے میں زیادہ محتاط رہتے ہیں۔‘‘

پورنیہ ضلع کے ڈگروا بلاک کے اپنے گاؤں لوٹ رہے یہ مزدور، لارسن اینڈ ٹربو (ایل اینڈ ٹی) اور شاپورجی پالونجی پرائیویٹ لمٹیڈ جیسی بڑی کنسٹرکشن کمپنیوں کے لیے کام کر چکے ہیں۔ یہ اور دیگر کمپنیاں امراوتی میں مختلف کامپلیکسز کے ساتھ ساتھ وہاں ’جسٹس سٹی‘ (ہائی کورٹ کیمپس)، ممبرانِ اسمبلی کے لیے مکان، اور آئی اے ایس افسروں کی ایک کالونی بنا رہے ہیں۔

People cramped in train
PHOTO • Rahul Maganti
men sitting and hanging in the train.
PHOTO • Rahul Maganti
Men sleeping in train.
PHOTO • Rahul Maganti

امراوتی کے تعمیراتی مقامات پر مہینوں کام کرنے کے بعد، بہار کے یہ تھکے ہوئے مزدور استطاعت سے زیادہ بھری ہوئی سنگھ مترا ایکسپریس سے اپنے گھر واپس جا رہے ہیں

مسافروں سے پوری طرح بھری یہ ٹرین جیسے ہی وہاں پہنچتی ہے، ٹی ای جنرل ڈبوں میں گھس جاتے ہیں، کنارے لٹک رہے مزدوروں کو پکڑتے ہیں اور انھیں ٹکٹ دکھانے کو کہتے ہیں۔ دریں اثنا، عالم اور ان کے دوست استطاعت سے زیادہ بھری ہوئی بوگیوں میں گھسنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

’’بھیڑ بہت زیادہ ہے۔ یہاں آنے والی سبھی ٹرینوں کی یہی حالت ہوتی ہے کیوں کہ وہ حیدرآباد یا بنگلورو یا چنئی سے چلتی ہیں،‘‘ عالم کہتے ہیں، جن سے میں پہلی بار گنٹور ضلع کے تھلور منڈل کے نیلا پاڈو گاؤں میں ایک تعمیراتی مقام پر ملا تھا۔

مسافروں کی تعداد گننے کے لیے میں ڈبہ میں چڑھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ تقریباً ۲۰۰ مہاجر مزدور، ۵۰ مسافروں کی استطاعت والے ڈبے میں سفر کر رہے ہیں۔ ان میں سے کئی لوگ کھڑے ہیں یا فرش پر بیٹھے ہیں، اور پیٹھ سے ٹیک لگائے آرام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دیگر لوگ سیٹوں پر ایک دوسرے سے چپک کر بیٹھے ہوئے ہیں۔

’’پٹنہ پہنچنے کے لیے ہمیں ۴۰ گھنٹے تک اسی طرح سفر کرنا ہوگا۔ وہاں سے اپنے گاؤں تک، ہمیں بس سے ۱۰ گھنٹے اور سفر کرنا ہوگا،‘‘ عالم کے بھائی، ۱۹ سالہ محمد رضوان کہتے ہیں۔ انھوں نے اپنے لیے ایک عارضی بستر بنایا ہے – ایک کمبل کو جھولے کی طرح دو چھڑوں سے باندھ کر۔ ’’ہمارے گاؤں سے ۲۲ لوگ امراوتی میں کام کرتے ہں، سبھی ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔

Workers routine
PHOTO • Rahul Maganti

تعمیراتی مقامات کے پاس نم، کم ہوادار عارضی رہائش کے ہر ایک چھوٹے کمروں میں تقریباً ۱۵-۲۰ مہاجر مزدور رہتے ہیں

ان مزدوروں کو ایک ٹھیکہ دار، محمد زبیر امراوتی لے کر آئے تھے۔ ’’میرے لیے تقریباً ۱۰۰ لوگ کام کرتے ہیں۔ میں ایل اینڈ ٹی کے کنسٹرکشن پروجیکٹس کے لیے چنئی، حیدرآباد، بنگلورو اور یہاں تک کہ نیپال تک میں مزدور سپلائی کرتا ہوں،‘‘ زبیر بتاتے ہیں۔ وہ بھی پورنیہ ضلع سے ہیں۔

عالم اور رضوان پہلی بار جنوری ۲۰۱۸ میں امراوتی آئے تھے۔ ’’ہماری فیملی کے پاس سات ایکڑ زمین ہے، جس پر ہم دھان اور گیہوں کی کھیتی کرتے ہیں۔ ہم چار بھائی ہیں۔ میرے دو بھائی سال کے زیادہ تر وقت میری ماں اور والد کے ساتھ کھیت کی دیکھ بھال کرتے ہیں،‘‘ رضوان کہتے ہیں۔ ’’چار مہینے تک تعمیراتی مقامات پر کام کرنے کے بعد، ہم فصل کی کٹائی کے موسم میں [گاؤں] واپس جاتے ہیں اور دوسری فصل کی بوائی کرتے ہیں [ان کاموں کے لیے فیملی کے زیادہ ممبران کی ضرورت پڑتی ہے]۔ تقریباً ایک مہینہ کے بعد ہم ٹرین سے جنوب کی طرف جاتے ہیں اور ٹھیکہ دار جہاں جانے کو کہتا ہے، وہاں جاتے ہیں۔‘‘

’’اتنا لمبا سفر اور گاؤں سے دور رہنا مشکل ہو رہا ہے،‘‘ عالم کہتے ہیں۔ وہ گزشتہ چھ سال سے یہ مزدوری کر رہے ہیں اور امراوتی کے تعمیراتی مقام پر ۱۲ گھنٹے کی شفٹ میں کام کرتے ہوئے روزانہ ۳۵۰ روپے کماتے ہیں۔ ’’یہ شفٹ صبح ۸ بجے سے رات ۸ بجے تک کی ہوتی ہے یا پھر رات ۸ بجے سے صبح ۸ بجے تک کی،‘‘ عالم بتاتے ہیں۔ سیزن بھر کی ان کی اور رضوان کی کل آمدنی ان کے کام کرنے کے دنوں کی تعداد پر منحصر ہے۔

کامگاروں کا اندازہ ہے کہ امراوتی میں ایل اینڈ ٹی اور شاپورجی پالونجی کے تعمیراتی مقامات پر تقریباً ۱۰ ہزار لوگ کام کرتے ہیں، یہ سبھی بہار، مغربی بنگال، جھارکھنڈ، اوڈیشہ اور آسام سے ہیں۔

Workers going to their job.
PHOTO • Rahul Maganti
Boards of development on construction site
PHOTO • Rahul Maganti

مہاجروں کا اندازہ ہے کہ ان میں سے کئی ہزار لوگ ’جسٹس سٹی‘ سمیت امراوتی کے کامپلیکسز کی تعمیر کے لیے دو شفٹوں میں کام کر رہے ہیں

کئی کامگار تعمیراتی مقامات کے قریب مزدوروں کی عارضی کالونیوں میں، سیمنٹ اور ایسبیسٹس سے بنے شیڈ میں رہتے ہیں۔ ’’ہم میں سے ۱۵-۲۰ لوگ ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتے ہیں۔ ہم کھانا بناتے ہیں، کھاتے ہیں اور وہیں سوتے ہیں۔ جب بارش ہوتی ہے، تو پوری کالونی دلدل بن جاتی ہے،‘‘ عالم بتاتے ہیں۔

کچھ مزدور قریب کے تمباکو کے گوداموں میں رہنا پسند کرتے ہیں، جہاں تمباکو کے پتے سکھائے اور ٹھیک کیے جاتے ہیں۔ اس جگہ کے لیے انھیں فی کس ہر مہینہ ۱۰۰۰ روپے دینے پڑتے ہیں۔ ’’گودام میں ہوا پاس ہونے کی کوئی جگہ نہیں ہے، جس کی وجہ سے یہ بہت گرم ہوتا ہے کیوں کہ یہ اسی طرح سے بنایا گیا ہے۔ لیکن مزدوروں کی کالونیاں اس سے بھی بدتر ہیں۔ اور ہم مناسب مکان نہیں لے سکتے،‘‘ ۲۴ سالہ وویک سِلّ کہتے ہیں، جو مغربی بنگال کے ہُگلی ضلع کے تارکیشور بلاک کے تارکیشور گاؤں سے یہاں آئے ہیں۔ امراوتی میں ’جسٹس سٹی‘ کی تعمیراتی جگہ پر آنے سے پہلے، وہ نومبر ۲۰۱۷ تک حیدرآباد میٹرو ریل لمٹیڈ کے لیے ایک تعمیراتی مزدور کے طور پر کام کرتے تھے۔ ’’حیدرآباد میں کام کرنا ان گاؤوں کو شہر میں بدلنے والے کام سے بہتر تھا۔ ہم ہفتہ کے آخر میں چار مینار، حسین ساغر اور پارکوں میں جایا کرتے تھے۔ یہاں پر ویسا کچھ بھی نہیں ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

تعمیراتی مقامات پر برسوں تک کام کرنے کے باوجود، سل ابھی بھی ٹھیکہ مزدور ہیں۔ ’’مجھے نہ تو ملازمین کا ریاستی بیمہ ملتا ہے اور نہ ہی پروویڈنٹ فنڈ، اوورٹائم کے لیے اضافی پیسے کی تو بات ہی مت کیجئے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ تعمیراتی مقام پر دیگر مزدوروں کی طرح ہی، سل بھی روزانہ ۱۲ گھنٹے کی شفٹ میں کام کرتے ہیں، ہفتہ میں ساتوں دن، اور اگر کسی دن کام پر نہیں آئے تو اس دن کی مزدوری کٹ جاتی ہے۔

PHOTO • Rahul Maganti
PHOTO • Rahul Maganti

وویک سل (بائیں سے دوسرے) اور کچھ دیگر لوگ گرم تمباکو والے گودام میں رہنا پسند کرتے ہیں، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ ہاؤسنگ کالونیوں سے بہتر ہیں

مغربی بنگال کے دیگر مہاجر امراوتی میں سبزی یا دوا کی دکان چلاتے ہیں۔ وہ پہلے کاروباری ہیں جو راجدھانی کے اس ناتجربہ کار شہر میں آئے – نہ کہ سنگاپور اور جاپان کے انٹرنیشنل کارپوریٹ اور کاروباری، جن کے بارے میں وزیر اعلیٰ چندرابابو نائیڈو نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ وہ امراوتی میں دفاتر بنائیں گے۔

سُبھنکر داس (۴۲) نے ایک تعمیراتی مقام کے قریب ۳۰۰۰ روپے ماہانہ کرایے پر ایک پلاٹ لے رکھا ہے، جس پر وہ دوا کی ایک چھوٹی دکان چلاتے ہیں۔ ’’ٹھیکہ داروں نے ہمیں یہاں بلایا ہے کیوں کہ مزدور مقامی زبان نہیں سمجھتے ہیں،‘‘ داس نے بتایا، جو بہار کے مزدوروں سے ہندی میں بات کرتے ہیں۔

رفیق الاسلام صدر نے بھی کچھ مہینے پہلے ایک تعمیراتی مقام کے قریب سبزی کی دکان کھولی تھی۔ ’’میں ایک دن میں ۶۰۰-۷۰۰ روپے کماتا ہوں۔ میں [کولکاتا سے] یہاں تب آیا تھا، جب میرے ایک جاننے والے نے مجھے بتایا کہ بنگالی لوگ یہاں کام کرتے ہیں،‘‘ ۴۸ سال کے صدر کہتے ہیں۔

PHOTO • Rahul Maganti
PHOTO • Rahul Maganti

سُبھنکر داس نے نیلا پاڈو کے باہری علاقے میں دوا کی ایک ’دکان‘ (بائیں) کھولی ہے، جب کہ رفیق الاسلام صدر ایک تعمیراتی مقام کے پاس سبزیاں بیچتے ہیں

سنگاپور کی کنسٹرکشن کمپنیوں کے ایک کنسورٹیم کے ذریعہ تیار کردہ امراوتی سسٹین ایبل کیپٹل سٹی ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کے ماسٹر پلان میں، ۲۰۳۵ تک ۶ء۳۳ لاکھ نوکریاں اور ۲۰۵۰ تک ۵ء۵۶ لاکھ نوکریاں پیدا کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ چندرا بابو نائیڈو نے ۲۰۱۴ کے انتخابات کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ ’’ریاست میں ہر فیملی کو ایک نوکری دیں گے۔‘‘ لیکن، نئی راجدھانی میں ابھی تک صرف تعمیراتی شعبہ میں ہی مستقل کام دستیاب ہے۔

’’تھوڑا بہت جو بھی کام دستیاب ہے، وہ ٹھیکہ والا ہے۔ یہ باقاعدہ روزگار نہیں ہے جہاں مزدوروں کو لیبر قوانین کے تحت حقوق اور سہولیات ملتی ہوں۔ یہ ایک تبدیلی ہو سکتی ہے، لیکن ریاستی حکومت جو تعداد [نوکریوں کی] بتا رہی ہے، وہ یقینی طور پر مبالغہ آرائی ہے،‘‘ ایرک لیکلرک کہتے ہیں، جو فرانس کی للے یونیورسٹی میں جغرافیہ اور پلاننگ کے پروفیسر ہیں، اور امراوتی سمیت متعدد شہروں اور پلاننگ پر تحقیق کر رہے ہیں۔

لیکن مزدوروں کے پاس کچھ اور متبادل ہیں، اور وہ عارضی کام اور موسمی ہجرت کو جارے رکھے ہوئے ہیں، فصل کی کٹائی اور بوائی کے موسم میں ٹرین پکڑ کر کبھی گھر واپس آ جاتے ہیں۔ وجے واڑہ سے وشاکھاپٹنم تک کارومنڈل ایکسپریس کے جنرل ڈبے میں سفر کر رہا امراوتی میں کام کرنے والے مہاجر مزدوروں کا ایک اور گروپ، سنگھ مترا ایکسپریس میں عالم کے گروپ جیسے تجربات کی بات کرتا ہے۔ ’’شمال مشرق، بنگال اور بہار جانے والی سبھی ٹرینوں میں اسی طرح کی بھیڑ ہوتی ہے،‘‘ بہار کے کٹیہار ضلع کے ۳۰ سالہ وجے کمار کہتے ہیں۔ وہ ایک بے زمین دلت فیملی سے ہیں اور جون ۲۰۱۷ سے امراوتی میں کام کر رہے ہیں؛ ان کی بیوی اور تین سال کی بیٹی اور ایک سال کا بیٹا گاؤں میں ہیں۔ ’’میں بہار سے باہر پہلی بار ۲۰۰۹ میں ایک تعمیراتی مزدور کے طور پر کام کرنے بنگلورو گیا تھا۔ میں نے حیدرآباد، کرنول، کوچی اور کئی دیگر مقامات پر کام کیا ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔

PHOTO • Rahul Maganti
PHOTO • Rahul Maganti

مزدوروں کی عارضی رہائشی کالونی کے باہر چائے کی دکان، سیلون اور کیرانے کی دکان جیسے دیگر کاروباروں کی بھرمار ہے

’’مجھے بھیڑ میں سفر کرنا پسند نہیں ہے۔ لیکن میں اپنی فیملی کو دیکھے بغیر کب تک رہ سکتا ہوں؟‘‘ وہ سوال کرتے ہیں۔ تقریباً ۳۵ گھنٹے کے سفر میں ان کے ساتھی ہیں ۲۵ سالہ منوج کمار، یہ بھی جون ۲۰۱۷ سے امراوتی میں کام کر رہے تھے۔ وہ سامان رکھنے والے حصہ کے پاس ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوئے تاش کھیلنا شروع کر دیتے ہیں، تولیہ کا استعمال ’میز‘ کے طور پر کرتے ہوئے۔

جلد ہی، پاس میں ہاتھاپائی شروع ہو جاتی ہے۔ ایک مسافر وہاں لیٹے ہوئے ایک نوجوان پر چیختا ہے، اور کہتا ہے کہ وہ اٹھ کر بیٹھ جائے اور جگہ بنائے۔ ’’آپ جو چاہیں کر لیں۔ میں ہلنے والا نہیں ہوں،‘‘ تھکا ہوا نوجوان جواب دیتا ہے۔ وجے مداخلت کرتے ہیں: ’’بھائی، ہمیں ایک ساتھ ۳۰ گھنٹے کا سفر کرنا ہے۔ ہمیں ایڈجسٹ کرنا چاہیے۔ انھیں تھوڑی جگہ دے دو۔ جب تمہیں اس کی ضرورت ہوگی، تو لوگ تمہیں بھی دے دیں گے۔‘‘ وہ نوجوان اٹھ کر بیٹھتا ہے، جس سے دو اور لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ بن جاتی ہے۔

میں چھ گھنٹے بعد وشاکھاپٹنم میں ٹرین سے اتر جاتا ہوں، تکان اور اینٹھن کے سبب سفر جاری رکھنے لائق نہیں ہوں۔ لیکن وجے، عالم، اور دیگر لوگوں کو گھر پہنچنے کے لیے ۲۴ گھنٹے سے زیادہ وقت تک انتظار کرنا ہوگا، تب جا کر انھیں کچھ آرام ملے گا۔

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Rahul Maganti

Rahul Maganti is an independent journalist and 2017 PARI Fellow based in Vijayawada, Andhra Pradesh.

Other stories by Rahul Maganti
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez