چمپت نارائن جنگلے کی جس جگہ موت ہوئی تھی، وہ کپاس کے لہلہاتے کھیت کا ایک پتھریلا، بے آب و گیاہ حصہ ہے۔
مہاراشٹر کے ان علاقوں میں، اسے ہلکی زمین کہا جاتا ہے۔ ارد گرد کی سرسبز پہاڑی آندھ قبیلہ سے جڑی زمینوں کے کینوس کو ایک خوبصورت منظرنامہ فراہم کرتی ہے، جو گاؤں سے دور کھیت کا ایک الگ تھلگ پڑا حصہ ہے۔
جنگلی سوروں سے اپنے کھیت کو بچانے کے لیے چمپت کئی دن اور رات وہیں کھیت میں گزارتے تھے اور پھوس کی بنی جھونپڑی انہیں تیز دھوپ اور بارش سے محفوظ رکھتی تھی۔ وہ جھونپڑی اب بھی اسی جگہ پر شہتیروں کے سہارے کھڑی ہے۔ ان کے پڑوسی یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وہ ہمیشہ یہیں رہا کرتے تھے۔
آندھ آدیواسی قبیلہ سے تعلق رکھنے والے تقریباً ۴۵ سالہ کسان، چمپت کو اس جھونپڑی سے اپنا پورا کھیت نظر آتا ہوگا اور ساتھ ہی انہیں بنا پھلّی والے تباہ شدہ پودے، گھٹنے تک کی اونچائی کے ارہر کے پودے، اور لا متناہی نظر آتا نقصان بھی دکھائی دیتا رہا ہوگا۔
انہیں معلوم ہوگا کہ دو مہینے بعد، جب فصل کی کٹائی شروع ہوگی تو کوئی پیداوار حاصل نہیں ہوگی۔ انہیں قرض بھی ادا کرنے تھے اور اپنی فیملی کے روزمرہ کے خرچ بھی چلانے تھے۔ لیکن، ان کے پاس پیسے نہیں تھے۔
گزشتہ ۲۹ اگست، ۲۰۲۲ کی ایک دوپہر، جب ان کی بیوی دھروپدا بچوں کے ساتھ وہاں سے ۵۰ کلومیٹر دور اپنے والد سے ملنے گئی تھیں، چمپت نے مونوسل، جو کہ ایک خطرناک حشرہ کش ہے، پی لیا۔ انہوں نے ایک دن پہلے ہی اسے اُدھار پر خریدا تھا۔
اس کے بعد، انہوں نے دوسرے کھیت میں کام کر رہے اپنے چچیرے بھائی کو زور سے آواز دی، اور مونوسل کے خالی ڈبے کو اس طرح ہلاتے ہوئے زمین پر گر پڑے، گویا انہیں الوداع کہنا چاہ رہے ہوں۔ زمین پر گرتے ہی ان کی موت ہو گئی۔
چمپت کے ۷۰ سالہ چچا، رام داس جنگلے پاس میں ہی ایک بنجر پتھریلے کھیت میں کام کر رہے تھے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں سب کچھ چھوڑ کر اس کی طرف دوڑا۔‘‘ آناً فاناً میں رشتہ داروں اور گاؤں کے دوسرے لوگوں نے انہیں گاؤں سے ۳۰ کلومیٹر دور واقع ایک دیہی اسپتال لے جانے کے لیے گاڑی کا انتظام کیا۔ لیکن، اسپتال پہنچنے پر ڈاکٹروں نے انہیں مردہ قرار دے دیا۔ ان کے مطابق، ان کی موت پہلے ہی ہو چکی تھی۔
*****
مہاراشٹر کے مغربی ودربھ علاقہ کے یوتمال کی امرکھیڑی تحصیل کے دور افتادہ گاؤں، ننگنور میں زیادہ تر چھوٹے یا غریب آندھ آدیواسی کسان رہتے ہیں، اور یہاں کی زمین اُتھلی ہے۔ یہی چمپت کی بھی زندگی اور موت کی جگہ ہے۔
ودربھ میں، گزشتہ دو مہینوں (جولائی اور وسط اگست) میں لگاتار ہوئی بھاری بارش کے ساتھ ساتھ خشک سالی کے حالات کی وجہ سے کسانوں کی خودکشی کے واقعات میں بے پناہ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
رام داس کہتے ہیں، ’’تقریباً تین ہفتوں تک ہم نے سورج نہیں دیکھا۔‘‘ سب سے پہلے، بھاری بارش نے بوائی کو برباد کر دیا۔ اس کے بعد، جو پودے بارش سے بچ گئے ان پر خشکی کی مار پڑی۔ وہ آگے بتاتے ہیں، ’’جب ہم کھاد ڈالنا چاہتے تھے، تو بارش رک نہیں رہی تھی۔ اب جب بارش کی ضرورت ہے، تو بارش نہیں ہو رہی ہے۔‘‘
مغربی ودربھ کا کپاس کا علاقہ جو دہائیوں سے بھی زیادہ وقت سے، کھیتی میں تیزی سے بڑھتے مالی بحران اور ایکولوجی سے جڑے مسائل کے سبب کسانوں کی خودکشی کے واقعات کی وجہ سے سرخیوں میں رہا ہے۔
آئی ایم ڈی کی ضلع وار بارش کے اعداد و شمار کے مطابق، ودربھ اور مراٹھواڑہ کے مشترکہ طور پر ۱۹ ضلعوں میں، حالیہ مانسون کے دوران اوسط سے ۳۰ فیصد زیادہ بارش ہوئی ہے۔ سب سے زیادہ بارش جولائی میں ہوئی تھی۔ ابھی مانسون کے ختم ہونے میں تقریباً ایک مہینہ کا وقت ہے، اور اس علاقے میں جون اور ۱۰ ستمبر، ۲۰۲۲ کے درمیان ۱۱۰۰ ملی میٹر سے زیادہ بارش ہو چکی ہے (گزشتہ برسوں میں، اس مدت کے دوران ۸۰۰ ملی میٹر بارش ہوئی تھی)۔ یہ سال غیر معمولی بارش والا سال بنتا جا رہا ہے۔
لیکن یہ ڈیٹا تنوع اور اتار چڑھاؤ کی عکاسی نہیں کرتا۔ جون میں تقریباً نہیں کے برابر بارش ہوئی تھی۔ جولائی کی شروعات میں بارش شروع ہوئی اور کچھ ہی دنوں میں اس نے جون کی کمی کو پورا کر دیا۔ جولائی کے وسط تک مہاراشٹر کے کئی حصوں سے اچانک سیلاب آنے کی اطلاع ملی تھی۔ ہندوستانی محکمہ موسمیات (آئی ایم ڈی) نے مراٹھواڑہ اور ودربھ میں جولائی کے پہلے پندرہ دنوں کے دوران، کئی جگہوں پر بھاری بارش (۲۴ گھنٹے میں ۶۵ ملی میٹر سے زیادہ) کی اطلاع دی۔
اگست کی شروعات میں بارش بند ہو گئی اور یوتمال سمیت کئی ضلعوں میں ستمبر کی شروعات تک سوکھا دیکھا گیا۔ لیکن اس کے بعد ایک بار پھر سے پورے مہاراشٹر میں بارش نے دستک دی۔
ننگنور کے کسانوں کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں بہت زیادہ بارش کے بعد، لمبے عرصے تک خشکی رہنے کا ایک چلن بنتا جا رہا ہے۔ یہ چلن ان کے لیے مشکلیں پیدا کر رہا ہے۔ ان کے لیے یہ طے کرنا مشکل ہے کہ کون سی فصلیں اُگائیں، کون سا طریقہ اپنائیں، اور پانی اور مٹی کی نمی کا انتظام کیسے کریں۔ اس وجہ سے خطرناک صورتحال پیدا ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے چمپت نے اپنی جان دے دی۔
زرعی بحران کو کم کرنے کے لیے، سرکار کے ذریعے تشکیل کردہ ٹاسک فورس ’وسنت راؤ نائک شیتکری سواولمبن مشن‘ کے سربراہ کشور تیواری کہتے ہیں کہ حالیہ وقت میں کسانوں کی خودکشی میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اکیلے ودربھ میں ۲۵ اگست سے ۱۰ ستمبر کے درمیان ۳۰ کسانوں نے خودکشی کر لی۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت زیادہ بارش اور مالی بحران کے سبب، جنوری ۲۰۲۲ سے اب تک ۱۰۰۰ سے زیادہ کسانوں نے خودکشی کی ہے۔
خودکشی کرنے والوں میں یوتمال کے ایک گاؤں کے دو بھائی بھی شامل ہیں، جنہوں نے ایک مہینہ کے وقفہ میں خودکشی کر لی۔
تیواری کہتے ہیں، ’’کوئی بھی امدادی رقم ان کی مدد نہیں کر سکتی ہے؛ اس سال بہت زیادہ بربادی ہوئی ہے۔‘‘
*****
ان کے کھیتوں میں پانی بھر گیا اور فصلیں برباد ہو گئیں، اور اب مہاراشٹر میں چھوٹے کسانوں کی ایک بڑی آبادی بحران کے اگلے دور کی آہٹ محسوس کر رہی ہے۔
مہاراشٹر کے زرعی کمیشن کے دفتر کا اندازہ ہے کہ ودربھ، مراٹھواڑہ اور شمالی مہاراشٹر میں تقریباً ۲۰ لاکھ ہیکٹیئر زرعی زمین اس موسم کی بارش اور خشکی سے برباد ہو گئی ہے۔ پورے علاقے کے کسانوں کا کہنا ہے کہ خریف کی تمام فصلیں برباد ہو گئی ہیں۔ سویابین، کپاس، ارہر جیسی ہر بڑی فصل کو نقصان پہنچا ہے۔ خشک زمین والے علاقوں میں، جہاں عام طور پر خریف اگائی جاتی ہے، اس سال کی بارش سے ہوئی تباہی خطرناک رہی ہے۔
ندیوں اور نالوں کے کنارے بسے گاؤوں – جیسے ناندیڑ کی اردھ پور تحصیل میں واقع شیلگاؤں – کو اچانک آئے سیلاب کا سامنا کرنا پڑا۔ شیلگاؤں کے سرپنچ پنجاب راجیگورے کہتے ہیں، ’’ہم ایک ہفتہ کے لیے باہری دنیا سے کٹ گئے تھے۔ گاؤں کے پاس بہنے والی اوما ندی کے قہر کے سبب، ہمارے گھر اور کھیت پانی میں ڈوب گئے تھے۔‘‘ اوما ندی گاؤں سے کچھ میل کی دوری پر آسنا ندی سے ملتی ہے، اور اس کے بعد آگے چل کر دونوں ندیاں ناندیڑ کے پاس واقع گوداوری سے ملتی ہیں۔ بھاری بارش کے دوران یہ سبھی ندیاں پانی سے لبالب بھری ہوئی تھیں۔
وہ آگے بتاتے ہیں، پورے جولائی میں اتنی بارش ہوئی کہ ہمارے لیے کھیتوں میں کام کرنا مشکل تھا۔‘‘ اس کے واضح اشارے کٹ گئی مٹی اور تباہ شدہ فصلوں سے ملتے ہیں۔ کچھ کسان اپنی تباہ شدہ فصلوں میں سے جو کچھ بچا ہے اسے صاف کر رہے ہیں، تاکہ اکتوبر میں ربیع کی جلد بوائی کی تیاری کر سکیں۔
سات دنوں سے زیادہ وقت تک ہوئی لگاتار بارش اور یشودا ندی میں آئی طغیانی نے جولائی میں وردھا ضلع کے چاندکی گاؤں کو غرقاب کردیا، اور یہاں کی تقریباً ۱۲۰۰ ہیکٹیئر زرعی زمین آج بھی پانی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ سیلاب میں پھنسے لوگوں کو نکالنے کے لیے، نیشنل ڈیزاسٹر رسپانس فورس (این ڈی آر ایف) کو بلانا پڑا تھا۔
پچاس سالہ دیپک وارفڑے کہتے ہیں، ’’تیرہ گھر ٹوٹ گئے، جن میں میرا گھر بھی شامل ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اب ہمارے پاس کوئی زرعی کام نہیں ہے؛ پہلی بار ایسا ہوا ہے جب میرے پاس کوئی کام نہیں ہے۔‘‘ سیلاب میں گھر ٹوٹ جانے کے بعد سے دیپک گاؤں میں کرایے کے ایک مکان میں رہ رہے ہیں۔
دیپک کہتے ہیں، ’’ہم نے ایک مہینہ میں سات بار سیلاب دیکھا ہے۔ ساتویں بار تو یہ زوردار جھٹکے کی طرح آیا؛ ہم خوش قسمت تھے کہ این ڈی آر ایف کی ٹیمیں وقت پر ہمارے پاس پہنچ گئیں، ورنہ میں یہاں نہیں ہوتا۔‘‘
خریف سیزن کے نکل جانے کے بعد، چاندکی کے باشندے اب پریشان ہیں کہ آگے کیا ہونے والا ہے؟
۶۴ سالہ بابا راؤ پاٹل اپنے کھیت پر کھڑے ہیں۔ کپاس کے نامکمل پودے اور مسطح ہو گئے کھیت تباہی کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ ایسے میں، بابا راؤ اپنے کھیت جو بھی باقی رہ گیا ہے اسے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ’’مجھے نہیں معلوم کہ اس سال کچھ حاصل ہوگا یا نہیں۔ میں گھر پر بیکار بیٹھنے کی بجائے، ان میں سے کچھ پودوں کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ مالی بحران مزید بڑھتا جا رہا ہے اور مشکلیں تو ابھی شروع ہی ہوئی ہیں۔
مہاراشٹر میں میلوں میل دور تک پھیلے کھیتوں کی حالت بابا راؤ کے کھیت جیسی ہی ہے؛ کہیں بھی فصل صحت مند نظر نہیں آتی، نہ ہی کھڑی دکھائی دیتی ہے۔
عالمی بینک کے سابق صلاح کار اور وردھا کے علاقائی ترقیاتی ماہر شری کانت بارہاتے کہتے ہیں، ’’اگلے ۱۶ مہینوں میں یہ بحران مزید بڑھے گا۔ تب جا کر اگلی فصل کٹائی کے لیے تیار ہو پائے گی۔‘‘ سوال یہ ہے کہ کسان ۱۶ مہینے تک کیسے گزارہ کریں گے؟
چاندکی کے پاس واقع بارہاتے کے اپنے گاؤں روہن کھیڑ کو بھی کافی نقصان پہنچا ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’دو چیزیں ہو رہی ہیں۔ ایک طرف لوگ سونا یا دیگر جائیداد گروی رکھ رہے ہیں یا گھریلو ضروریات کے لیے ذاتی طور پر پیسے قرض لے رہے ہیں، اور وہیں دوسری طرف نوجوان کام کی تلاش میں ہجرت کرنے پر غور کر رہے ہیں۔‘‘
بارہاتے کہتے ہیں کہ سال ختم ہونے پر بینکوں کو فصلی قرض واپس ادا نہ کرنے کے بے شمار معاملے دیکھنے کو ملیں گے۔
اکیلے چاندکی میں کپاس کی فصل کا نقصان ۲۰ کروڑ روپے کے قریب ہے – یعنی اس سال ناموافق حالات میں کپاس سے صرف اس گاؤں میں ہی اتنی کمائی ہوئی ہوتی۔ یہ تخمینہ، اس علاقے میں کپاس کی فی ایکڑ اوسط پیداوار پر مبنی ہے۔
۴۷ سالہ نام دیو بھویار کہتے ہیں، ’’ہم نے نہ صرف فصلیں گنوائی ہیں، بلکہ اب ہم بوائی اور دیگر کاموں پر خرچ کیے گئے پیسے کی وصولی بھی نہیں کر پائیں گے۔‘‘
وہ متنبہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’اور یہ ایک بار کا نقصان نہیں ہے۔ مٹی کا کٹاؤ ایک طویل مدتی (ایکولوجیکل) مسئلہ ہے۔‘‘
جب مہاراشٹر کے لاکھوں کسان جولائی سے اگست تک بھاری بارش کی چپیٹ میں تھے، اس وقت شیو سینا میں اندرونی انتشار کے سبب مہا وکاس اگھاڑی حکومت گر گئی اور ریاست میں کوئی کارگزار حکومت نہیں تھی۔
ستمبر کی شروعات میں، ایکناتھ شندے کی نئی حکومت نے ریاست کے لیے ۳۵۰۰ کروڑ روپے کی مالی مدد کا اعلان کیا۔ یہ ایک جزوی مدد ہے، جو فصل اور عام زندگی کو ہوئے حقیقی نقصان کی تلافی نہیں کر پائے گی۔ اس کے علاوہ، سروے کے ذریعے مستفیدین کی شناخت کرنے کے بعد، لوگوں کو بینک اکاؤنٹ میں پیسے ملنے میں کم از کم ایک سال لگ سکتے ہیں، جب کہ انہیں اس مدد کی آج ہی ضرورت ہے۔
*****
چمپت کی بیوی دھروپدا پوچھتی ہیں، ’’کیا آپ نے میرا کھیت دیکھا؟ آپ ایسی زمین پر کیا اگائیں گے؟‘‘ وہ کمزور اور پریشان دکھائی دیتی ہیں۔ ان کے تین بچوں – پونم (۸ سال)، پوجا (۶ سال)، اور کرشنا (۳ سال) – نے انہیں گھیرا ہوا ہے۔ اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے، چمپت اور دھروپدا زرعی مزدور کے طور پر کام کرتے تھے۔
پچھلے سال، اس جوڑے نے اپنی سب سے بڑی بیٹی تاجولی کی شادی کر دی تھی۔ کہنے کو تو وہ ۱۶ سال کی ہے، لیکن ۱۵ سال سے زیادہ کی نہیں لگتی؛ اس کا تین مہینے کا ایک بچہ ہے۔ اپنی بیٹی کی شادی سے چڑھے قرض کو چکانے کے لیے، چمپت اور دھروپدا نے اپنا کھیت ایک رشتہ دار کو پٹہ پر دے دیا اور پچھلے سال گنے کی کٹائی کا کام کرنے کے لیے کولہاپور چلے گئے تھے۔
جنگلے فیملی جھونپڑی میں رہتی ہے، جس میں بجلی نہیں ہے۔ فی الحال، فیملی کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے؛ ان کے پڑوسی – جو اتنے ہی غریب اور بارش کی وجہ سے بدحال ہیں – ان کی مدد کر رہے ہیں۔
چمپت کی خودکشی کی سب سے پہلے رپورٹنگ کرنے والے مقامی صحافی-اسٹرنگر اور کسان معین الدین سوداگر کہتے ہیں، ’’یہ ملک غریبوں کو بیوقوف بنانا جانتا ہے۔‘‘ انہوں نے بی جے پی کے مقامی ایم ایل اے کے ذریعے دھروپدا کو ۲۰۰۰ روپے کی معمولی مدد دینے پر ایک تنقیدی مضمون لکھا تھا اور اسے بے عزتی بتائی تھی۔
معین الدین کہتے ہیں، ’’پہلے ہم انہیں ایسی اُتھلی، پتھریلی اور بنجر زمین دیتے ہیں جس پر کوئی بھی کھیتی نہیں کرنا چاہے گا۔ اور پھر ہم انہیں مدد دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔‘‘ چمپت کو ان کے والد سے وراثت میں ملی زمین دوسرے درجے کی زمین ہے، جو لینڈ سیلنگ ایکٹ کے تحت زمین کی تقسیم کے ایک پروگرام کے دوران ملی تھی۔
معین الدین کہتے ہیں، ’’دہائیوں سے، ان مردوں اور عورتوں نے انہیں زرخیز بنانے کے لیے، اپنے لیے کچھ اگانے کے لیے خون پسینہ ایک کر دیا ہے۔‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ ننگنور گاؤں اس علاقے کے سب سے غریب گاؤوں میں سے ایک ہے، جہاں زیادہ تر آندھ آدیواسی خاندان اور گونڈ آدیواسی رہتے ہیں۔
معین الدین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر آندھ آدیواسی کسان اتنے غریب ہیں کہ وہ ماحولیاتی تبدیلی سے جڑی مشکلات کا سامنا نہیں کر پائیں گے؛ جیسا اس سال ہوا۔ معین الدین آگے کہتے ہیں کہ بھوک، پریشانی اور حد سے زیادہ غریبی اب آندھ آدیواسیوں کا مقدر بن گئی ہے۔
دھروپدا نے کافی اصرار کرنے پر بتایا کہ موت کے وقت، چمپت پر رسمی اور غیر رسمی دونوں طرح کے قرض بقایا تھے۔ ان پر تقریباً ۴ لاکھ روپے کا قرض تھا۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہم نے بیٹی کی شادی کے لیے پچھلے سال قرض لیا تھا۔ اس سال، ہم نے اپنے رشتہ داروں سے کھیتی کے لیے اور اپنی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پیسے اُدھا لیے تھے۔ ہم فی الحال قرض چکانے کی حالت میں نہیں ہیں۔‘‘
اپنی فیملی کے غیر یقینی مستقبل کے ساتھ ساتھ، وہ حال ہی میں اپنے ایک بیل کے بیمار پڑ جانے سے بھی فکرمند ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’جب سے ان کے مالک نے دنیا چھوڑی ہے، تب سے میرے بیل نے بھی کھانا چھوڑ دیا ہے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز