مشروبھائی کہتے ہیں، ’’ہم رباریوں نے ستاروں کے جو نام رکھے ہیں، وہ تم لوگوں سے الگ ہیں۔ تمہارا دھرو تارا (قطب ستارہ)، ہمارا پروڈیا ۔‘‘

ہم لوگ ان کے ڈیرہ میں بیٹھے ہوئے ہیں، جو کہ وردھا ضلع کے دینوڈا گاؤں میں ایک عارضی قیام گاہ ہے۔ یہ ناگپور سے ۶۰ کلومیٹر دور ہے، اور جس کچّھ کو وہ اپنا گھر کہتے ہیں وہاں سے ۱۳۰۰ کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔

رباریوں کے اس ڈیرہ میں دن ڈھلنے لگا ہے۔ مارچ کے ابتدائی دن ہیں، جب سردی ختم ہوتی ہے اور گرمیوں کا موسم شروع ہونے لگتا ہے، اور شام کے وقت آسمان میں نارنجی رنگ کی روشنی دیر تک پھیلی رہتی ہے۔ جنگل میں چاروں طرف کھلے پلاس (ڈھاک) کے پھولوں سے پوری زمین زعفرانی رنگ میں ڈوب گئی ہے۔ رنگوں کا تہوار ہولی بھی قریب ہے۔

میں اور مشرو ماما (جیسا کہ ان کی برادری کے لوگ انہیں پیار سے بلاتے ہیں)، ودربھ خطہ میں شام کے وقت صاف آسمان کو دیکھ رہے ہیں۔ ہم لوگ کپاس کے ایک کھیت کے بیچ میں لگی ان کی چارپائی پر بیٹھے کھلے آسمان کے نیچے مختلف موضوعات پر باتیں کر رہے ہیں: ستارے، ستاروں کا جھرمٹ، بدلتا ہوا موسم اور ماحولیات، ان کی برادری اور مویشیوں کے الگ الگ مزاج، محنت و مشقت کے ساتھ ہمیشہ سفر میں رہنے والے خانہ بدوشوں کی زندگی، ماضی کی فوک کہانیاں جو وہ جانتے ہیں، اور اس طرح کے دیگر کئی موضوعات۔

رباریوں کے درمیان ستاروں کی کافی اہمیت ہے کیوں کہ سفر کے دوران، خاص کر رات میں وہ انہی ستاروں سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’سات ستاروں کا مجموعہ، سپترشی ہمارے لیے ہرن ہے۔‘‘ پھر وہ فلسفیانہ انداز میں کہتے ہیں، ’’دن کے اجالے میں یہ ساتوں ستارے غائب ہو جاتے ہیں، لیکن رات کے اندھیرے میں وہ ایک نیا سویرا، نئے چیلنجز، اور بہت سی نئی امیدوں کی آمد کا اعلان کرتے ہیں۔‘‘

PHOTO • Jaideep Hardikar
PHOTO • Jaideep Hardikar

وردھا ضلع کے دینوڈا گاؤں میں عارضی طور پر بنائے گئے اپنے ڈیرہ میں مشرو بھائی (بائیں) اور رباری کمیونٹی کے دیگر لوگ۔ ان کی سالانہ مہاجرت والے راستے میں یہ ڈیرے ناگپور، وردھا، چندرا پور اور یوتمال ضلعوں کے ارد گرد اور پڑوسی علاقوں میں گھومتے رہتے ہیں

عمر کی ۶۰ویں دہائی میں چل رہے اور گھنی مونچھ، بھورے بال، چوڑی ہتھیلیوں، اور بڑے دل والے مشرو ماما ڈیرہ کے سب سے بزرگ رکن ہیں۔ ان کے ساتھ دیگر پانچ کنبوں پر مشتمل یہ ڈیرہ کچھ دنوں پہلے یہاں آیا تھا۔ وہ مجھے بتاتے ہیں، ’’آج ہم یہاں ہیں اور ۱۵ دن کے بعد ناگپور ضلع میں ہوں گے۔ بارش شروع ہونے کے وقت آپ ہمیں یوتمال کے پانڈھر کَوڈا میں پائیں گے۔ ہم سال بھر جانی پہچانی جگہوں کا سفر کرتے رہتے ہیں اور کھیتوں میں رکتے ہیں۔‘‘

سال بھر ان کا گھر آسمان کے نیچے کھلا کھیت ہی ہوتا ہے۔

*****

رباری ایک نیم خانہ بدوش برادری ہے، جس کا تعلق بنیادی طور پر گجرات کے کچّھ سے ہے۔ مشرو ماما جیسے اس کمیونٹی کے کئی لوگوں نے گزشتہ کئی نسلوں سے وسطی ہندوستان کے ودربھ کو اپنا مسکن بنا لیا ہے۔ وہ بڑی تعداد میں بکریاں، بھیڑ اور اونٹ پالتے ہیں۔ کچّھ میں رہنے والے زیادہ تر رباری اپنے کھیتوں پر کام کرتے ہیں؛ جب کہ مشرو ماما جیسے دوسرے رباری ہمیشہ سفر میں رہتے ہیں اور کیمپوں میں زندگی بسر کرتے ہیں۔

مشرو ماما کا اندازہ ہے کہ پورے ودربھ اور پڑوسی ریاست چھتیس گڑھ میں ایسے ۳۰۰۰ سے زیادہ ڈیرے ہیں۔ ہر ایک کی مہاجرت کا طریقہ ایک جیسا ہوگا، لیکن ان کے ٹھہرنے کی جگہ کبھی متعین نہیں ہوتی ہے۔

وہ کئی ضلعوں سے ہوکر گزرتے ہیں اور مہاجرت والے راستے میں کچھ دنوں کے وقفے پر الگ الگ جگہ اپنے کیمپ لگاتے ہیں۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ راستے میں وہ کتنی بار کیمپ لگاتے ہیں، لیکن ایک سیزن میں آپ انہیں الگ الگ ۵۰ سے ۷۵ جگہوں پر گھومتا ہوا پائیں گے۔ ایک دن وہ وردھا ضلع کے کسی گاؤں میں ہوں گے، تو دوسرے دن یوتمال ضلع کے وانی کے قریب پہنچ جائیں گے۔ ان کے ہر جگہ رکنے کی میعاد الگ الگ ہوتی ہے۔ وہ ایک جگہ پر دو چار دن سے لے کر پندرہ دن تک بھی رک سکتے ہیں، جو کہ موسم اور مقامی کسانوں کے ساتھ ان کے رشتے پر منحصر ہے۔

PHOTO • Jaideep Hardikar
PHOTO • Jaideep Hardikar

بائیں: نوجوان راما مویشیوں کی دیکھ بھال کرنے اور رکنے کی اگلی جگہ تلاش کرنے میں مدد کرتا ہے۔ دائیں: مشرو ماما بڑی تعداد میں بکریاں، بھیڑ اور اونٹ پالتے ہیں

کسانوں اور رباریوں کے درمیان زیست پر مبنی ایک مشترکہ رشتہ ہوتا ہے۔ یہ کسان ان مویشیوں کو اپنے کھیت میں چرنے کی پوری آزادی دیتے ہیں، تاکہ وہ گھاس پھوس یا فصلوں کی اُن پتیوں کو کھا سکیں جن کی کسانوں کے لیے زیادہ اہمیت نہیں ہے۔ بدلے میں یہ رباری ان کے کھیتوں کو زیادہ زرخیز بنا دیتے ہیں، کیوں کہ بھیڑ بکریوں کے فضلے (گوبر وغیرہ) سے زمین کو کھاد مل جاتی ہے۔

کسان بعض دفعہ ان رباریوں کو اچھی خاصی رقم دے کر بلاتے ہیں اور اپریل سے جولائی تک بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کو اپنے کھیتوں پر لا کر ٹھہرانے کی گزارش بھی کرتے ہیں۔ انہیں دی جانے والی رقم مویشیوں کی تعداد سے متعین ہوتی ہے، لیکن بعض تخمینوں کے مطابق یہ رقم سالانہ ۲ سے ۳ لاکھ روپے ہوتی ہے، جیسا کہ ناگپور کے سینٹر فار پیپلز کلیکٹو کے ذریعے غیر شائع شدہ ایک تحقیقی مطالعہ میں کہا گیا ہے۔ مویشیوں کے وہاں ٹھہرنے کے بعد ان کھیتوں کی پیداوار کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔

مشرو ماما کے پاس ایک ہزار سے زیادہ مویشی ہیں – جو ان کے لیے ٹرمپ کارڈ کے طور پر کام کرتا ہے۔

ان کے پاس کچھّی نسل کے تین اونٹ بھی ہیں (جو تیرنے والے کھرائی اونٹوں سے الگ ہیں)، جو پاس کے جھاڑی دار جنگلوں سے ابھی ابھی لوٹے ہیں۔ انہیں مشرو ماما کا ایک بھروسہ مند لڑکا، راما چرانے لے گیا تھا۔ مویشیوں کو چرانے کے علاوہ، وہ ٹھہرنے کی اگلی جگہ تلاش کرنے میں بھی مدد کرتا ہے۔ ہم لوگ جہاں بیٹھ کر باتیں کر رہے ہیں، وہاں سے ان اونٹوں کو دیکھ پانا مشکل ہے، لیکن قریب کے ایک درخت کے پاس سے ہمیں ان کی آوازیں صاف سنائی دے رہی ہیں، جہاں دن کی ڈھلتی ہوئی روشنی میں ان کا سایہ بھی غائب ہو چکا ہے۔

کپاس کے کھیت میں بنے ان کے ڈیرہ کے سامنے، موجودہ کیمپ سے ایک ڈھیلہ کی دوری پر، ان کی بھیڑ بکریاں نئے اگے ہوئے ہرے پتوں کو کھا رہی ہیں۔ ڈیرہ پر آپ کو ہمیشہ ایک کتا ملے گا اور یہاں، ماما کا کتا، جس کا نام موتی ہے، ہماری چارپائی کے قریب مستی سے کھیل رہا ہے۔ چارپائی پر رباری عورتوں کے ذریعے بنایا گیا ملائم جوہڑ (دری) بچھا ہوا ہے۔

PHOTO • Jaideep Hardikar

مشرو ماما کے پاس ایک ہزار سے زیادہ مویشی ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’سردی اور بارش سے یہ نرم ہو جاتے ہیں، اور گرمیوں میں لو (گرم ہواؤں) سے سخت ہو جاتے ہیں‘

*****

مہاراشٹر کے مشرقی حصے میں چھوٹے کسانوں کے بارش کے پانی پر منحصر کئی ایک فصلی کھیت ابھی خالی پڑے ہیں۔ کپاس کی فصل پوری طرح سے کاٹی جا چکی ہے۔ سردیوں کی فصلیں – مونگ، تھوڑے بہت گندم اور جوار – اب تیار ہونے والی ہیں، جنہیں پندرہ دنوں کے اندر کاٹ لیا جائے گا۔ مشرو ماما کچھ ہی دنوں میں نئے کھیت کی طرف روانہ ہو جائیں گے، کیوں کہ اس کھیت پر اگے سبھی ہرے پتوں کو ان کی بھیڑ بکریاں چٹ کر چکی ہیں۔

مشرو ماما کہتے ہیں، ’’میرے پاس یہاں کا پتہ نہیں ہے۔‘‘ بارش ہونے پر، ڈیرہ میں رہنے والے مرد و عورت، جو تقریباً ۱۵ سے ۲۰ قریبی رشتہ دار ہیں، چارپائی کو ترپال سے ڈھانپ کر اس کے نیچے پناہ لیتے ہیں۔ ان کے اونٹ، بھیڑ اور بکریوں کو بارش میں بھیگنا پڑتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’سردیوں اور بارش میں یہ ملائم ہو جاتے ہیں، اور گرمیوں میں لو چلنے سے سخت ہو جاتے ہیں۔ رباری، موسم کی رکھوالی کرنے والے اصلی لوگ ہیں۔‘‘

وہ ہنستے ہوئے آگے کہتے ہیں، ’’ہماری زندگی میں ہمیشہ رہنے والی چیز بے یقینی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔‘‘ ان کا ڈیرہ ناگپور، وردھا، چندرا پور اور یوتمال ضلعوں اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں گھومتا رہتا ہے۔ ’’مانسون بدل رہا ہے۔ جنگل ختم ہو چکے ہیں۔ کھیتوں پر پہلے جو درخت ہوا کرتے تھے، وہ اب نہیں بچے ہیں۔‘‘ مشرو ماما نے زرعی بحران اور کاشتکاروں کی خستہ حالت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک طرف جہاں بڑے پیمانے پر اقتصادی تبدیلیاں ہو رہی ہیں، وہیں دوسری طرف پیچیدہ ماحولیاتی اور موسمی عوامل نے بھی بڑا رول ادا کیا ہے۔

مشرو ماما کے مطابق، بدلتی ہوئی آب و ہوا ایک برا شگون ہے، جس سے کھیت، پانی، جنگل اور مویشی تباہ ہو رہے ہیں۔ ان کے کچھ پرانے مقامات اب بحران کے شکار ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ تقریباً ۳۰ سال پہلے اس علاقے میں جتنے سبز پودے اور گھاس ہوتے تھے اتنے اب دکھائی نہیں دیتے۔ اس سے ان کے ریوڑ پر اثر پڑ رہا ہے۔ بزرگ خانہ بدوش کہتے ہیں، ’’دیکھئے، پرکرتی (قدرت) میں پرابلم ہوا تو آدمی کو پتہ بھی نہیں چلے گا کہ اب کیا کرنا ہے۔‘‘

PHOTO • Jaideep Hardikar
PHOTO • Jaideep Hardikar

بائیں: مشرو ماما۔ دائیں: شام ڈھلتے وقت، اونٹ قریب کے جھاڑی دار جنگل سے چرنے کے بعد ڈیرہ کی طرف واپس لوٹ رہے ہیں

ایک حالیہ واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے، جب کچھ رباری چرواہوں پر اپنے اونٹوں کو اسمگلنگ کے ذریعے حیدر آباد کے ذبیحہ خانوں میں بھیجنے کا الزام لگایا گیا تھا، وہ کہتے ہیں، ’’جو لوگ ہمیں جانتے نہیں ہیں وہ اونٹوں کے ساتھ ہمارے رشتے کو سمجھ نہیں پائیں گے۔‘‘ (پڑھیں: پولیس کی حراست میں: کچھّ کے ریگستانی جہاز

وہ کہتے ہیں، ’’اونٹ ہمارے جہاز ہیں، ہمارے بھگوان ہیں۔ ہر ڈیرہ میں تین چار اونٹ ہوتے ہیں، تاکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے وقت سامان اور بچوں کو ان پر لاد کر لے جایا جا سکے۔‘‘

وسطی ہندوستان کے رباریوں پر بہت کم تحقیق ہوئی ہے؛ سرکاری حلقوں میں بھی اس بات کو تسلیم نہیں کیا جاتا کہ وہ اس خطے میں رہ رہے ہیں۔ مشرو ماما کی پیدائش وردھا ضلع کے ایک کھیت میں ہوئی تھی۔ انہوں نے ودربھ کے انہی کھیتوں میں شادی کی اور اپنے بال بچوں کی پرورش بھی کی۔ باوجود اس کے، کوئی بھی اپنے درمیان ان کی موجودگی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

وہ ودربھ کے مغربی حصے میں بولی جانے والی مراٹھی کی ایک بولی، ورہدی میں بھی اسی آسانی سے بات کرتے ہیں جتنی آسانی سے وہ گجراتی بولتے ہیں۔ مشرو ماما کہتے ہیں، ’’ایک طرح سے میں ورہدی ہوں۔‘‘ سفید رنگ کی رباری پوشاک (اچکن یا انگرکھا، دھوتی، اور ایک سفید پگڑی) میں دیکھ کر لوگ انہیں شاید باہر کا آدمی سمجھیں۔ لیکن وہ مقامی ثقافت سے جڑے ہوئے ہیں اور علاقے کے رسم و رواج کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر وہ مقامی زبان میں گالی گلوج اور فقرے بازی بھی کر سکتے ہیں!

حالانکہ رباری لوگ کچھّ میں موجود اپنی جڑوں سے کافی دور رہتے ہیں، لیکن اس قبیلہ نے اپنی روایات و ثقافت کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ کچّھ کے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات آج بھی برقرار ہیں۔ مشرو ماما کی بیوی فی الحال کچھّ ضلع کے انجار بلاک میں واقع بھدروئی گاؤں گئی ہوئی ہیں۔ ان کی دو بڑی بیٹیوں کی شادی وہاں رہنے والے انہی کے قبیلہ کے مردوں کے ساتھ ہوئی ہے۔

PHOTO • Jaideep Hardikar
PHOTO • Jaideep Hardikar

مشرو ماما کا گھر سال بھر آسمان کے نیچے کھلا کھیت ہی ہوتا ہے۔ جب کوئی مہمان آتا ہے تو ڈیرہ میں رہنے والی عورتیں اچھا کھانا پکاتی ہیں اور کنبوں کے تمام لوگ ساتھ مل کر کھاتے ہیں

وہ کہتے ہیں، ’’نئی پیڑھی (نسل) یہاں نہیں رہنا چاہتی۔‘‘ ڈیرہ کے بچوں کو فیملی کے دیگر ممبران کے ساتھ رہنے کے لیے واپس بھیج دیا گیا ہے، تاکہ وہ اسکول جا سکیں، تعلیم حاصل کریں اور نوکریاں تلاش کریں۔ مشرو ماما کہتے ہیں، ’’لوگ محنت بھی نہیں کر رہے؛ دوڑ لگی ہے۔‘‘ ان کا اپنا بیٹا بھرت ممبئی میں ہے، اور ڈپلومہ انجینئرنگ کرنے کے بعد کوئی اچھی نوکری تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

سب سے چھوٹی بیٹی ان کے ساتھ ہی رہتی ہے۔ اس نے ڈیرہ کی پانچ دیگر عورتوں کے ساتھ رات کا کھانا پکانے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ جانوروں اور پرندوں کی آوازوں کے درمیان ان کی گپ شپ بھی جاری ہے۔ چولہا جل گیا ہے، آگ سے نکلنے والی سنہری روشنی ارد گرد بیٹھی عورتوں کے چہروں پر چمک رہی ہے۔ سبھی عورتیں سیاہ رنگ کے کپڑوں میں ملبوس ہیں۔

عورتوں کے لیے سیاہ اور مردوں کے لیے سفید کیوں؟

مشرو ماما اس سوال کے جواب میں اپنی برادری کے اوپر راج کرنے والی دیوی، ستی ماں اور صدیوں پہلے ایک خوبصورت رباری شہزادی کو لے کر ان کے اور ایک جارح بادشاہ کے درمیان ہونے والی لڑائی کا قصہ بیان کرتے ہیں۔ بادشاہ اس پر فریفتہ تھا اور اس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ لیکن قبیلہ نے انکار کر دیا، اور جیسلمیر میں لڑائی شروع ہو گئی۔ اس کے نتیجہ میں بہت زیادہ خونریزی ہوئی۔ اس کا خاتمہ تب ہوا جب شہزادی نے دیرپا امن کی خاطر مادر زمین کی گود میں خود کو دفن کر لیا۔ مشرو ماما کہتے ہیں، ’’ہم اسی [شہزادی] کا ماتم کر رہے ہیں۔ ہم اب بھی کرتے ہیں۔‘‘

پوری طرح اندھیرا ہو چکا ہے؛ رات کا کھانا تیار ہے۔ ڈیرہ میں رہنے والے پانچ چھ کنبوں کے لوگ عموماً اپنا کھانا الگ الگ بناتے ہیں۔ لیکن جب کوئی مہمان آتا ہے (جیسا کہ آج ہم ہیں)، تو یہ لوگ اچھا کھانا پکاتے ہیں اور سب ساتھ مل کر کھاتے ہیں۔ آج کے اسپیشل کھانے میں بھیڑ کے دودھ سے بنی چاول کی کھیر، بھیڑ کے دودھ سے نکالے گئے مکھن سے تیار گھی کے ساتھ گُڑ، چپاتی، مسالہ دار دال، چاول اور چھاچھ شامل ہیں۔

ہم موبائل فون کے ٹارچ کی روشنی میں کھانا کھانے کے لیے بیٹھ جاتے ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Jaideep Hardikar

Jaideep Hardikar is a Nagpur-based journalist and writer, and a PARI core team member.

Other stories by Jaideep Hardikar
Editor : Pratishtha Pandya

Pratishtha Pandya is a poet and a translator who works across Gujarati and English. She also writes and translates for PARI.

Other stories by Pratishtha Pandya
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez