اریتی واسو (۳۳) کے خلاف جرائم کے ۲۳ معاملے درج ہیں۔ ان کی ماں، اے ستیہ وتی (۵۵) کے خلاف ایسے آٹھ معاملے ہیں۔ واسو کو ان کے گاؤں، آندھرا پردیش کے ٹنڈورو میں لالچ دی گئی، ڈرایا دھمکایا گیا، اور تین بار سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا۔ ستمبر ۲۰۱۶ سے اب تک، وہ جیل کے اندر ۶۷ دن گزار چکے ہیں، جب کہ ان کی والدہ کو ۴۵ دنوں تک جیل میں رکھا جا چکا ہے۔

’’میرا قصور صرف اتنا تھا کہ میں نے ایک آر ٹی آئی ڈالی تھی،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔

اس کا نتیجہ بڑا خطرناک نکلا۔ پولس کے چھاپے، دھمکی، لوگوں کو گھسیٹتے ہوئے ان کے گھروں سے باہر نکالنا اور احتیاطاً حراست میں رکھنا، اب یہ ساری چیزیں ٹنڈورو میں عام ہیں۔ یہی حال پڑوس کے دو گاؤوں، بھیماورم منڈل کے جونالگاروو اور نرساپور منڈل کے کے بیتھاپوڈی کا ہے۔ یہ تینوں ہی گاؤوں گوداوری ضلع میں پڑتے ہیں۔

ان گاؤوں میں رہنے والے لوگ – جو بیشتر کسان، ماہی گیر اور مزدور ہیں – گوداوری میگا ایکوا فوڈ پارک پرائیویٹ لمیٹڈ (جی ایم اے ایف پی) بنانے کے خلاف اجتحاج کر رہے ہیں۔ انھیں ایسا لگتا ہے کہ یہ پروجیکٹ ان کے خطہ میں ہوا اور پانی کو آلودہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ذریعہ معاش کو بھی برباد کر دے گا۔ اس فوڈ پارک کا مقصد ہوگا مچھلی، جھینگے اور کیکڑے کی پروسیسنگ، جنہیں پیک کرکے یوروپی یونین اور امریکہ کے بازاروں میں بھیجا جائے گا۔ جی ایم اے ایف پی کے خلاف احتجاج کے لیے یہاں بنائی گئی کمیٹی کا کہنا ہے کہ اس پروسیس میں ’’روزانہ کم از کم ڈیڑھ لاکھ لیٹر پانی استعمال کیا جائے گا۔‘‘ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سے ’’روزانہ تقریباً ۵۰ ہزار لیٹر آلودہ پانی کی نکاسی ہوگی۔‘‘ اس گندے پانی کو گونٹیرو نالے میں چھوڑا جائے گا، جو اس ضلع سے جاکر سمندر میں گرتا ہے۔

A man and a woman standing in a doorway
PHOTO • Sahith M.
A woman holding out her hand to show the injuries on her palm.
PHOTO • Sahith M.

ٹنڈورو گاؤں میں، اریتی واسو اور ان کی ماں ستیہ وتی کے خلاف کل ۳۱ معاملے درج ہیں۔ دائیں: ایک احتجاج کے دوران ستیہ وتی کا ہاتھ زخمی ہو گیا تھا

دراصل، ۳۰ اکتوبر، ۲۰۱۷ کے ایک سرکاری آرڈر میں کہا گیا ہے کہ ایک پائپ لائن بنائی جائے گی، جو ’’جی ایم اے ایف پی کے ایفلوینٹ ٹریٹمینٹ پلانٹ سے روزانہ استعمال کیے گئے ۳ لاکھ لیٹر پانی کو، سمندری ساحل چنگولاپالم پر‘‘ چھوڑ سکتا ہے۔ لیکن ایسی کوئی پائپ لائن یا ٹریٹمینٹ پلانٹ نظر نہیں آ رہا ہے، احتجاجی کمیٹی کا کہنا ہے۔ مقامی میڈیا نے بھی اس مسئلہ کو لے کر رپورٹنگ کی ہے کہ آنے والے دنوں میں بڑی مقدار میں آلودہ پانی گونٹیرو نالے میں ڈالا جائے گا۔

اس پروجیکٹ کے لیے پرائیویٹ طریقہ سے تحویل میں لی گئی تقریباً ۵۷ ایکڑ زمین پر، سال ۲۰۱۵ میں کام شروع ہو گیا تھا۔ اس سال اسے مکمل ہو جانا تھا۔ کمپنی کے ’وژن اسٹیٹ منٹ‘ میں لکھا ہے کہ اس کا مقصد ’’ہماری ماحولیات میں موجود کاربن کی مقدار کو جہاں تک ممکن ہو سکے، کم کرنا ہے۔ ہم توانائی کے متبادل ذرائع کو استعمال کرنے کی کوشش کریں گے، جیسے ہوا، شمسی اور ہائڈرو، تاکہ روایتی بجلی پر ہمارا انحصار کم ہو سکے۔‘‘

گاؤں والے اس وژن کو محض ایک دھوکہ کہتے ہیں۔ اریتی واسو نے جب آر ٹی آئی درخواست (حق اطلاع قانون کے تحت) لگا کر پروجیکٹ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی، تو یہ ٹکراؤ مزید بڑھ گیا۔ واسو اپنے گاؤں میں ’می سیوا کیندر‘ (’آپ کی خدمت میں‘) مرکز چلاتے ہیں۔ یہ بل کی ادائیگی اور عوام کو سرکاری خدمات جیسی متعدد سہولیات مہیا کرانے کے لیے ریاست کے ذریعہ شروع کی گئی پہل ہے۔

واسو کو جب پہلی بار جیل میں ڈالا گیا، تو ان کی ماں نے لوگوں کو ایکوا فوڈ پارک کے خلاف بیدار کرنا شروع کر دیا۔ جلد ہی ستیہ وتی کا نام بھی ان کے بیٹے کے خلاف دائر کی گئی چارج شیٹ کے ’’دیگر‘‘ کالم میں جوڑ دیا گیا۔

Coconut trees
PHOTO • Sahith M.
Cans of drinking water stored underneath a table in a house
PHOTO • Sahith M.

میگا ایکوا فوڈ پارک کی جگہ، گوداوری ڈیلٹا کو مزید متاثر کرے گی، یہاں لوگ پینے کے پانی کے لیے پہلے سے ہی پلاسٹک کی بوتلوں پر منحصر ہیں

پولس کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف قانون اور نظم و نسق کی حالت کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن یہاں پر جو ایف آئی آر (پہلی اطلاعاتی رپورٹ) درج کی گئی ہے، جس کی نقل اس رپورٹر کے پاس موجود ہے، اس میں بڑے بڑے چارج لگائے گئے ہیں۔ ’’پچھلے ۳۵ سال میں میرا پولس سے کوئی لینا دینا نہیں رہا ہے،‘‘ ستیہ وتی کہتی ہیں۔ ’’پھر بھی، انھوں نے مجھے کل ۹ مقدموں میں گھسیٹ لیا ہے۔‘‘ اس میں قتل کی کوشش کا بھی الزام شامل ہے۔ یہ صرف ستیہ وتی کے ساتھ ہی نہیں ہوا ہے۔ گاؤں کے کئی لوگوں کو عدالتوں اور پولس اسٹیشنوں کے چکر لگانے پر مجبور کر دیا گیا ہے، بعض دفعہ ہفتہ میں دو بار۔

اس علاقہ میں کام کرنے والی ماہی گیر برادری کے لیڈر، برّے ناگ راجو کا کہنا ہے کہ اس پروجیکٹ کی وجہ سے کھیتی تو برباد ہوگی ہی، گونٹیرو نالے میں آلودہ پانی گرنے سے ماہی گیری پر منحصر آس پاس کے ۱۸ گاؤوں بھی تباہ ہو جائیں گے۔ ’’یہ فیکٹری ہم میں سے تقریباً ۴۰ ہزار لوگوں پر برا اثر ڈالے گی،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

زیر زمین پانی کی حد سے زیادہ نکاسی اور متعدد پروجیکٹوں کی طرف پانی کے رخ کو موڑنے سے یہاں پہلے سے ہی بحران کی کیفیت ہے۔ گوداوری ڈیلٹا میں کبھی پانی کی کمی نہیں تھی، لیکن گزشتہ چند برسوں سے یہاں کے گاؤوں میں رہنے والوں کو پینے کے پانی کے لیے اب پلاسٹک کی بڑی بوتلوں پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ پانی کی ان بوتلوں کو بیچنے کا کاروبار اب بڑی تیزی سے پھل پھول رہا ہے۔ لوگوں کو ڈر ہے کہ جی ایم اے ایف پی کی وجہ سے یہ صورتحال مزید خراب ہوگی۔

ایکوا فوڈ پارک سے سٹے جونا لگاروو گاؤں کے زرعی مزدور، کویا مہیش کہتے ہیں، ’’یہ فیکٹری گاؤں کی زرخیز زمینوں کو برباد کر دے گی، جس سے زرعی مزدوروں کا ذریعہ معاش چھن جائے گا۔‘‘ ان کے گاؤں کے لوگ، جو زیادہ تر دلت ہیں، اس پروجیکٹ کے خلاف لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ان کی شکایت ہے کہ اس سے گونٹیرو نالا آلودہ ہو جائے گا، ان کے پاس تازہ پانی کی سب سے بڑی جھیل صرف یہی ہے۔ اس کے علاوہ، فیکٹری سے نکلنے والی بدبو بھی گاؤں والوں کا جینا دوبھر کر سکتی ہے۔

A man sitting on a chair outdoors
PHOTO • Sahith M.
Portrait of a man outdoors with his hands folded across his chest
PHOTO • Sahith M.
Portrait of a man sitting on a chair
PHOTO • Sahith M.

کویا مہیش (بائیں) اور سمُدرالا وینکٹیشور راؤ (دائیں) کے خلاف بھی کئی معاملے درج ہیں۔ برّے ناگ راجو (بیچ میں)، جو ماہی گیروں کے لیڈر ہیں، کہتے ہیں کہ یہ پروجیکٹ ان کی برادری کے ۴۰ ہزار لوگوں پر برا اثر ڈالے گا

صرف ۷۰ گھروں پر مشتمل جونالگاروو کی دلت بستی کے ۲۰ سے زیادہ لوگوں کے خلاف متعدد مقدمے درج کیے گئے ہیں۔ مہیش کے خلاف ۹ کیس ہے، جس میں ایک مقدمہ قتل کا بھی ہے۔ ان کو پہلے ۵۳ دنوں کے لیے جیل میں ڈالا گیا، پھر بعد میں چھ دن کی جیل دوبارہ ہوئی۔ ان کی بیوی کیرتھن کے خلاف اس وقت معاملہ درج ہوا، جب انھوں نے ایکوا پارک کے خلاف ہونے والی میٹنگ میں شرکت کی۔ ’’ڈرانا دھمکانا اب ایک عام بات ہو چکی ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ وجے واڑہ میں بین الاقوامی یومِ خواتین کے موقع پر ایک واقعہ کو یاد کرتے ہوئے وہ بتاتی ہیں، ’’ایک حاملہ عورت کو پولس کی گاڑی میں اس طرح ٹھونس دیا گیا، جیسے سبزیوں کی بوری ہو۔‘‘

یہاں پر عمر کا کوئی لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ گاؤں میں ہر سال جو کبڈی میچ ہوتا ہے، وہاں سے بھی بچوں کو اٹھا کر پولس اسٹیشن لے جایا گیا، صرف اس لیے کہ انھوں نے پروگرام کے لیے پہلے سے اجازت نہیں لی تھی۔ پہلے کے برسوں میں، یہ میچ بغیر کسی رکاوٹ اور پریشانی کے ہوا کرتا تھا، لیکن جب سے گاؤں والوں نے احتجاجوں میں حصہ لینا شروع کیا، پورا معاملہ ہی بدل گیا۔

A bunch of women standing outside a house
PHOTO • Sahith M.

’۔۔۔ آج ہم سڑکوں پر اتر رہے ہیں اور جیل جا رہے ہیں،‘ سمدرا ستیہ وتی کہتی ہیں

اس رپورٹر نے جب پورے حالات پر جی ایم اے ایف پی کا موقف جاننے کے لیے اسے ای میل کیا، تو اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ تاہم، پارک کے ایگزیکٹو ڈائرکٹر ریکارڈ پر آکر کہہ چکے ہیں کہ اس پروجیکٹ کو لے کر ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے، کیوں کہ یہاں سے کچھ بھی باہر نہیں نکلے گا۔ پانی اور یہاں سے بہنے والی تمام چیزوں کو صاف کرکے دوبارہ استعمال کیا جائے گا (دی ہندو بزنس لائن، ۱۷ اکتوبر، ۲۰۱۶) ۔

وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائڈو نے اس پروجیکٹ کی تعریف کی ہے۔ ’’کچھ لوگ ایکوا فوڈ پارک کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس فیکٹری کی وجہ سے کوئی نقصان نہیں ہے،‘‘ انھوں نے یہ بات ۲۵ فروری، ۲۰۱۶ کو ایلورو میں ایک عام جلسہ کے دوران کہی تھی۔ ’’یہاں سے نکلنے والے آلودہ مادّے اور فضلے کو چھانا جائے گا اور پھر ایک پائپ لائن کے ذریعہ سمندر میں بہا دیا جائے گا۔ یہ فیکٹری اسی جگہ پر بنے گی۔‘‘

اس ایکوا پارک کو سب سے پہلے منظوری تب ملی تھی، جب آندھرا پردیش میں کانگریس پارٹی کی حکومت تھی۔ لیکن ۲۰۱۴ میں اقتدار میں آنے کے بعد تلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) نے اس پر پوری گرمجوشی سے عمل کیا ہے۔ پچھلے دو سالوں میں ۳۰۰ سے زیادہ گاؤوں والوں کے خلاف مقدمے درج کیے گئے ہیں۔ ٹی ڈی پی کے ترجمان، وائی وی بی راجندر پرساد کا دعویٰ ہے کہ یہ میگا ایکوا فوڈ پارک ’’آلودگی سے پاک‘‘ ہے۔

لیکن مقامی باشندوں کو دوسری حقیقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اور ان کی ناراضگی بڑھتی جا رہی ہے۔ پڑوسی گاؤں کے بیتھا پوڈی کے ایک کسان، سمدرالا وینکٹیشور راؤ کہتے ہیں، ’’یہاں فیکٹری بننے سے پہلے، میں پولس اسٹیشن کبھی نہیں گیا تھا۔‘‘ راؤ کے خلاف اب ۱۷ معاملے درج ہیں، جس میں قتل کی کوشش اور مجرمانہ سازش کے کیس بھی شامل ہیں۔ اس کی شروعات ان کے سڑک پر احتجاجاً بیٹھنے سے ہوئی۔ ’’بعد میں اس رات کو پولس نے مجھے اٹھا لیا اور ۵۳ دنوں کے لیے جیل میں ڈال دیا۔‘‘

اسی گاؤں کی رہنے والی سمدر ستیہ وتی کہتی ہیں، ’’پہلے، یہاں رہنے والی زیادہ تر عورتیں اپنے گھروں سے باہر تبھی نکلتی تھیں، جب انھیں زمین پر مُگّو (سجاوٹ کے لیے سفید یا رنگین پیٹرن) بنانا ہوتا تھا۔ لیکن آج ہم سڑکوں پر اتر رہے ہیں اور جیل جا رہے ہیں۔ ایک فیکٹری کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کو کیوں پریشان کیا جا رہا ہے؟‘‘ چار سال تک پرامن احتجاج کرنے کے بعد، یہاں موجود دیگر عورتیں سوال کرتی ہیں: ’’کیا یہ کارروائی صحیح ہے کہ ہمیں گھسیٹا جائے، پیٹا جائے اور رات میں حراست میں لیا جائے صرف اس لیے کہ اگلے دن فیکٹری کے لیے مشینری آنے والی ہے؟ ہم اس پلانٹ کو شروع نہیں ہونے دیں گے، بھلے ہی اس میں ہماری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔‘‘

اور کے بیٹھا پوڈی میں، جے ستیہ نارائن اس بات کو لے کر حیران ہیں کہ اتنے بڑے پیمانے پر عوام کی مخالفت کے باوجود، آخر سرکار ایک پرائیویٹ فیکٹری کی حمایت کیوں کر رہی ہے۔ ’’آج بھی، پولس کی حفاظت کے بغیر فیکٹری میں ایک اینٹ تک نہیں بچھائی جا سکتی،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Sahith M.

Sahith M. is working towards an M.Phil degree in Political Science from Hyderabad Central University.

Other stories by Sahith M.
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez