چترنجن رے بہتر مزدوری کی تلاش میں، ۲۸ ساءل کی عمر میں، بنگال کے گدنگ گاؤں سے ۲۰۱۵ میں دور دراز کیرالہ گئے تھے۔ انہوں نے ریاست بھر کے تعمیراتی مقامات پر راج مستری کے طور پر کام کیا، کچھ پیسے بچائے اور پٹّہ کی آٹھ بیگھہ زمین پر کھیتی کرنے کے لیے واپس آ گئے۔ فیملی کے کھیت پر پہلے بھی کام کر چکے تھے، اور اپنے دَم پر آلو کی کھیتی میں قسمت آزمانا چاہتے تھے۔

’’اس زمین پر پہلی بار کھیتی کی جا رہی تھی، اس لیے اس پر زیادہ محنت اور اعلیٰ سرمایہ کاری کی ضرورت تھی،‘‘ اپنی عمر کی ۵۰ویں دہائی میں چل رہے ان کے کسان چچا، اُتّم رے کہتے ہیں۔ اس امید میں کہ اچھی فصل سے انہیں منافع ہوگا، چترنجن نے مقامی ساہوکاروں اور بینک سے قرض لیا – وقت کے ساتھ، کل ۵ لاکھ روپے – ’’بہت زیادہ شرحِ سود پر،‘‘ اتم کہتے ہیں۔ لیکن، ۲۰۱۷ میں، بھاری بارش کے بعد کھیت میں پانی بھر گیا۔ فصل خراب ہو گئی۔ نقصان کا سامنا کرنے میں نااہل، ۳۰ سالہ چترنجن نے اسی سال ۳۱ جولائی کو اپنے گھر میں پھانسی لگا لی۔

’’ان کے والدین ان کی شادی کرنے کے لیے پرجوش تھے،‘‘ جلپائی گُڑی ضلع کے دھُپ گُری بلاک کے اسی گاؤں کے ایک کسان، چنتا موہن رائے کہتے ہیں، جو پانچ بیگھہ کھیت (۱ بیگھہ ۰ء۳۳ ایکڑ کے برابر ہوتا ہے) پر آلو، دھان اور جوٹ کی کھیتی کرتے ہیں۔ ’’وہ چونکہ بینک سے قرض لینے کے لیے اہل نہیں تھے، اس لیے ان کے والد نے اپنی طرف سے قرض لے لیا۔‘‘ اب جب کہ ان کا بیٹا اس دنیا سے جا چکا ہے، ۶۰ سالہ والد قرض چکانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، متوفی کی والدہ بیمار ہیں۔

چنتاموہن نے بھی حال ہی میں اپنی فیملی میں خودکشی دیکھی ہے۔ ’’میرا بھائی ایک عام آدمی تھا، وہ دباؤ نہیں جھیل سکتا تھا اس لیے ۲۳ جون، ۲۰۱۹ کو حشرہ کش دوا کھا کر خودکشی کر لی،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ان کے بھائی، گنگادھر ۵۱ سال کے تھے۔

’’وہ اپنی پانچ بیگھہ زمین پر آلو کی کھیتی کر رہے تھے،‘‘ ۵۴ سالہ چنتاموہن آگے کہتے ہیں۔ ’’انہوں نے [بینکوں، ساہوکاروں اور کھاد بیج بیچنے والوں سے بھی] قرض لیا۔ پچھلے کچھ سیزن سے بار بار نقصان ہونے کے سبب، حالات کچھ ایسے ہو گئے تھے کہ وہ خود کو قابو میں نہیں کر سکے...‘‘

گنگادھر کی زمین کا ایک بڑا حصہ ساہوکاروں کے پاس گروی ہے۔ ان کا کل قرض تقریباً ۵ لاکھ روپے تھا۔ ان کی بیوہ ایک خاتونِ خانہ ہیں، جن کے پاس تین بیٹیاں ہیں، سب سے بڑی کالج میں ہے۔ ’’ہم سبھی بھائی اور گنگادھر کے سسرال والے کسی طرح ان کی گاڑی چلانے کی کوشش کر رہے ہیں،‘‘ چنتاموہن کہتے ہیں۔

Uttam Roy at the rally
PHOTO • Smita Khator
Chintamohan Roy at the rally
PHOTO • Smita Khator

بائیں: اتم رے کے بھتیجے نے جولائی ۲۰۱۷ میں خود کو پھانسی لگا لی تھی۔ دائیں: چنتاموہن رائے کے بھائی نے جون ۲۰۱۹ میں حشرہ کش دوا کھا کر جان دے دی تھی۔ دونوں ہی آلو کی کھیتی کرتے تھے

میں چنتاموہن اور اتم سے ۳۱ اگست کو وسط کولکاتا کے رانی راشمونی روڈ پر تپتی دوپہر میں ملی تھی، جہاں وہ اکھل بھارتیہ کسان سبھا اور آل انڈیا زرعی مزدور یونین کے ذریعے منعقد ایک ریلی میں حصہ لینے آئے تھے۔ وہ ان ۴۳ لوگوں کی ٹکڑی میں شامل تھے، جنہوں نے اپنی فیملی میں زرعی بحران کے سبب خودکشی دیکھی تھی۔ وہ بنیادی طور سے جلپائی گُڑی، مالدہ، مشرقی بردھمان، مغربی بردھمان، مغربی میدنی پور اور مشرقی میدنی پور ضلع سے آئے تھے۔ اس ریلی میں تقریباً ۲۰ ہزار لوگوں نے شرکت کی تھی۔

ان کے مطالبات میں شامل تھا: زرعی خودکشی کے لیے معاوضہ، ترمیم شدہ مزدوری، مناسب کم از کم امدادی قیمت، اور بزرگ زرعی مزدوروں کے لیے پنشن۔

دو دن قبل ایک پریس کانفرنس میں، اکھل بھارتیہ کسان سبھا نے (اپنے خود کے زمینی سروے کی بنیاد پر) کہا تھا کہ ۲۰۱۱ سے مغربی بنگال میں ۲۱۷ خودکشی ہوئی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر آلو کے کسانوں کے ذریعے کی گئی ہے۔ بزنیس اسٹینڈرڈ کی ۲۰۱۵ کی ایک رپورٹ میں، دیگر چیزوں کے علاوہ مغربی بنگال میں آلو کے کسانوں کے ذریعے خودکشی کی بات بھی کہی گئی ہے۔ حالانکہ، مختلف میڈیا رپورٹوں میں وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ مغربی بنگال میں زراعت سے متعلق خودکشی نہیں ہوئی ہے۔ ریاست نے ۲۰۱۱ کے بعد نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو (این سی آر بی) کو زراعت سے متعلق خودکشیوں کے اعداد و شمار فراہم کرنا بند کر دیا، اس سے پہلے ہی این سی آر بی نے ۲۰۱۵ میں خود ان اعداد و شمار کو درج کرنا بند کر دیا تھا۔

لیکن، ۳۱ اگست کی ریلی نے یہ واضح کر دیا کہ مغربی بنگال میں آلو کے کسان گہرے مسائل سے دوچار ہیں – یا تو خراب فصل سے یا، زیادہ واضح طور پر، بازار میں حد سے زیادہ پیداوار کے ساتھ ہی گرتی قیمتوں کے سبب۔ اترپردیش کے بعد یہ سب سے زیادہ آلو پیدا کرنے والی ہندوستان کی دوسری ریاست ہے۔ مرکزی حکومت کی وزارتِ زراعت کے باغبانی شماریات شعبہ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مغربی بنگال میں آلو کی پانچ سال کی اوسط پیداوار (۲۰۱۳-۱۴ سے ۲۰۱۷-۱۸ تک) ۱۰ء۶ ملین ٹن تھی – یا ملک کے کل آلو کا تقریباً ۲۳ فیصد۔ سال ۲۰۱۸-۱۹ میں، ریاست میں اندازاً ۱۲ء۷۸ ملین ٹن آلو کی پیداوار ہوئی ہوگی – یعنی ہندوستان میں آلو کی کل پیداوار کا ۲۴ء۳۱ فیصد۔ اس کا تقریباً آدھا حصہ دوسری ریاستوں میں فروخت کیے جانے کے لیے بھیجے جانے (اور باقی کی کھپت مغربی بنگال کے اندر ہی کی جاتی ہے) کے بعد بھی، پیداوار کبھی کبھی مانگ سے زیادہ ہوتی ہے۔

حکومت مغربی بنگال کے زرعی مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ کے ذریعے ۲۷ فروری، ۲۰۱۹ کو جاری نوٹس میں کہا گیا ہے، ’’اس سال ہماری ریاست میں آلو کی بمپر پیداوار اور آلو پیدا کرنے والی دیگر ریاستوں میں بھی اچھی فصل کی رپورٹ کے سبب، بازار میں آلو کی بہتات ہے، جس کے نتیجہ میں کھیت سے سیدھے پہنچنے والے آلو کی قیمتوں میں بھاری گراوٹ آئی ہے۔ کھیت پر ملنے والی زرعی پیداواروں کی موجودہ قیمتیں پیداوار کی لاگت سے بھی کم بتائی گئی ہے اور خدشہ ہے کہ مارچ میں اس فصل کی ایک ساتھ کٹائی کے بعد، کھیت پر ملنے والی قیمتوں میں مزید گراوٹ آ سکتی ہے، جس سے کسانوں کو سنگین بحران کا شکار ہونا پڑ سکتا ہے۔‘‘

PHOTO • Smita Khator

وسط کولکاتا کی رانی راشمونی روڈ پر ۳۱ اگست کو نکالی گئی ریلی میں، پوسٹروں پر لکھی کچھ مانگیں یوں ہیں: ’ہم کسانوں کی خود کشی سے متاثر کنبوں کے لیے ۱۰ لاکھ روپے کے معاوضے کی مانگ کرتے ہیں؛ ’ہم گاؤوں میں ۲۰۰ دنوں کے کام اور ۳۷۵ روپے کی کم از کم اجرت کی مانگ کرتے ہیں۔‘

اس حالت سے نمٹنٹے کے لیے، ریاست نے اسی نوٹس میں، ۱ مارچ ۲۰۱۹ سے ’’اعلان شدہ کم از کم خرید قیمت‘‘ [۵۵۰ روپے فی کوئنٹل] پر کسانوں سے آلو کی سیدھی خرید کا اعلان کیا۔ نوٹس میں کہا گیا کہ یہ ’’کسانوں سے کولڈ اسٹوریج میں رکھنے کے لیے تیار قیمت پر آلو کے لیے‘‘ قیمت ہوگی۔

حالانکہ، مغربی بنگال میں اُگائے گئے لاکھوں آلو کے لیے وہاں وافر تعداد میں کولڈ اسٹوریج کی سہولت نہیں ہے۔ قومی باغبانی بورڈ (زرعی محکمہ کے تحت) کے ذریعے کرائے گئے ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ ریاست میں (دسمبر ۲۰۱۷ تک) کل ۵ء۹ ملین میٹرک ٹن کے لیے (تمام غذائی اشیاء کے لیے) کولڈ اسٹوریج کی سہولت تھی۔ اور ۲۰۱۷-۱۸ میں، مغربی بنگال نے ۱۲ء۷ ملین ٹن آلو کی پیداوار کی۔

’’مارچ کے مہینے میں جب آلو کی فصل تیار ہو جاتی ہے، تو بہت سارے کولڈ اسٹوریج اس تاریخ اور مقدار کا اشتہار دیتے ہیں، جسے فی آدمی کے ذریعے وہاں رکھا جا سکتا ہے،‘‘ چنتاموہن کہتے ہیں۔ ’’ہمیں پیشگی ادائیگی کرنی ہوتی ہے۔ جب شرحوں میں اضافہ ہو جاتا ہے، تبھی ہم آلو کو بازار میں بیچتے ہیں۔ باقی آلو کھیت میں سڑ جاتے ہیں۔‘‘

گزشتہ برسوں میں بھی، کسانوں کو اسی طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے، جیسا کہ کولکاتا کی ریلی میں کچھ لوگوں نے کہا، جو ابھی بھی فیملی کے ایک رکن کی خودکشی سے پریشان ہیں۔ ’’میرے والد [دلیپ] کو فی بوری صرف ۲۰۰ روپے ملے [اُس سال، یعنی سال ۲۰۱۵ میں پیداوار کی لاگت کا تخمینہ ۵۵۰-۵۹۰ روپے فی کوئنٹل لگایا گیا تھا]۔ انہوں نے آلو کی کھیتی کرنے کے لیے تین ایکڑ زمین پٹّہ پر لی تھی،‘‘ مغربی میدنی پور کے گاربیٹا۔I بلاک کے آمکوپا گاؤں کی جیوتسنا مونڈل کا کہنا ہے۔ ’’ان کے پاس دیگر قرض بھی تھے۔ ساہوکاروں، زمیندار، بجلی سپلائی کرنے والے محکمہ اور بینک کی طرف سے دباؤ لگاتار بنا ہوا تھا۔ ۴ اپریل ۲۰۱۵ کو، جس دن ساہوکار نے ان کی بے عزتی کی تھی، انہوں نے اسی دن کھیت پر موجود جس جھونپڑی میں ہم آلو جمع کرکے رکھتے تھے، اس کے اندر خود کو پھانسی لگا لی تھی۔‘‘

Jyotsna Mondal at the rally
PHOTO • Smita Khator
Family members of farmers and farm labourers that committed suicide at the rally
PHOTO • Smita Khator

بائیں: سال ۲۰۱۵ میں جیوتسنا مونڈل کے شوہر نے کھیت پر موجود جھونپڑی کے اندر پھانسی لگا لی، جہاں فیملی نے آلو کا ذخیرہ کیا تھا۔ دائیں: مغربی بنگال میں خودکشی کرنے والے کسانوں اور زرعی مزدوروں کی فیملی کے رکن

بیج کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں، چنتا موہن کہتے ہیں۔ ’’گزشتہ دو برسوں سے ہم [آلو کے] بیج ۵۰ روپے فی کلوگرام خرید رہے ہیں۔ اس سے پہلے، ہم انہیں ۳۵ روپے فی کلو خریدتے تھے۔ سرکار ان معاملوں میں مداخلت نہیں کرتی ہے، کم از کم ہمارے علاقے میں نہیں۔‘‘

اور ’کم از کم خرید قیمت‘ کے اعلان کے باوجود، چنتا موہن کہتے ہیں، ’’زمین سے ایک بھی آلو آگے نہیں جا رہا ہے۔‘‘ ان کا ماننا ہے کہ ’’یہ سیزن بھی الگ نہیں ہوگا، ہمیں بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا۔ نہ تو کسان اور نہ ہی تاجر کوئی پیسہ حاصل کر پائیں گے۔‘‘

لیکن جب زیادہ پیداوار کا خطرہ ہو تو آلو کی کھیتی کیوں کرنا؟ وہ کہتے ہیں، ’’میں دھان اور جوٹ کی بھی کھیتی کرتا ہوں۔ جوٹ ایک مشکل فصل ہے، بہت محنت مانگتی ہے؛ آلو نسبتاً آسان اور لچیلا ہے – بوائی کر دینے کے بعد، ہفتہ میں دو بار تھوڑی سینچائی اور حشرہ کش ادویات کے چھڑکاؤ سے فصل تیار ہو جاتی ہے۔‘‘

کولکاتا کی ریلی میں آئی فیملی کے زیادہ تر ممبران نے ان ایشوز اور دیگر ایشوز پر مسلسل یکسانیت کے ساتھ بات کی – کسی بھی موت کو زرعی بحران سے متعلق خودکشی کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔ کسی کو بیوہ پنشن نہیں ملی تھی۔ خود کشیوں کو ثابت کرنے کے لیے زیادہ تر لوگ کاغذی کارروائی میں الجھے ہوئے تھے۔ کسی کو فصل بیمہ نہیں ملا تھا۔

’’مجھے سرکار سے ایک بھی کوڑی [پیسہ] نہیں ملی ہے، انہوں نے اس بات کو بھی قبول نہیں کیا کہ میرے شوہر نے خود کشی کی تھی!‘‘ جیوتسنا کہتی ہیں، ’’مجھے بیوہ پنشن نہیں ملتی۔ میرے شوہر کا زرعی قرض ابھی تک معاف نہیں کیا گیا ہے۔ میں ان کا قرض چکا رہی ہوں۔ انہیں [قرض دینے والوں کو] چُکانے کے لیے مجھے بندھن بینک سے [۸۰ ہزار روپے] قرض لینا پڑا۔ اب میں ہر ہفتے ۱۰۰۰ روپے چُکا رہی ہوں۔‘‘ ان کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگتے ہیں۔ ’’ہمارا کوئی نہیں ہے۔ براہِ کرم آئیے اور دیکھئے کہ ہمارے جیسے لوگ کیسے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ میرا [چھوٹا] بیٹا اور میں ۱۵۰ روپے کے لیے کھیتوں میں صبح ۸ بجے سے دوپہر کے ۳ بجے تک کام کرتے ہیں۔ ہم کیسے زندہ رہیں گے اور ان قرضوں کو چکائیں گے؟‘‘

کور فوٹو: شیامل مجومدار

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Smita Khator
smita.khator@gmail.com

Smita Khator, originally from Murshidabad district of West Bengal, is now based in Kolkata, and is Translations Editor at the People’s Archive of Rural India, as well as a Bengali translator.

Other stories by Smita Khator
Editor : Sharmila Joshi

Sharmila Joshi is former Executive Editor, People's Archive of Rural India, and a writer and occasional teacher.

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez