ستیہ جیت مورانگ اپنی بھینسوں کے لیے گھاس کے میدان تلاش کرتے ہوئے، آسام میں برہم پتر ندی کے ذریعے بنائے گئے جزیروں پر جاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’ایک ہاتھی جتنا چارہ کھاتا ہے تقریباً اتنا ہی بھینس بھی کھا سکتی ہے!‘‘ اسی لیے، چراگاہوں کی تلاش میں ان کے جیسے چرواہے اپنے مویشیوں کے ساتھ ہمیشہ گھومتے رہتے ہیں۔

مویشیوں کے ساتھ اس سفر میں وہ موسیقی کو ہمیشہ اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں۔

’’میں بھینس چرانے کیوں جاتا ہوں، میرے یار۔

میں اگر تمہیں دیکھ نہ پاؤں تو؟‘‘

روایتی اوئی نی ٹ م موسیقی کے انداز میں گاتے ہوئے، وہ خود ایک ایسا نغمہ تیار کرتے ہیں جو کرینگ سپوری گاؤں میں واقع اپنے گھر اور فیملی سے دور رہنے کے دوران پیار و محبت کی تصویر پیش کرتا ہے۔ اس ویڈیو میں وہ کہتے ہیں، ’’ہم یقین سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ گھاس کہاں ملے گی، اسی لیے ہم اپنی بھینسوں کو لے کر ہمیشہ آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ اگر ہم سو بھینسوں کو ۱۰ دنوں تک یہیں چرنے کے لیے چھوڑ دیں، تو ۱۰ دنوں کے بعد ان کے لیے یہاں پر ایک بھی گھاس نہیں بچے گی۔ اور پھر ہم سبھی کو کسی نئے چراگاہ کی تلاش میں دوبارہ آگے بڑھنا ہوگا۔‘‘

اوئی نی ٹ م فوک میوزک کی ایک شکل ہے، جو میسنگ کمیونٹی (آسام کا ایک قبیلہ) کی طرف سے وجود میں آئی ہے۔ میسنگ کو درج فہرست قبیلہ کا درجہ حاصل ہے اور ریاستی دستاویزات میں اس کا ذکر ’میری‘ کے نام سے ملتا ہے – کمیونٹی کے بہت سے لوگوں کی شکایت ہے کہ یہ ایک ہتک آمیز نام ہے۔

ستیہ جیت کا گاؤں آسام کے جورہاٹ ضلع کے شمال مغربی جورہاٹ بلاک میں پڑتا ہے۔ وہ بچپن سے ہی بھینسوں کو چرانے کا کام کرتے چلے آ رہے ہیں۔ وہ ان مویشیوں کو چرانے کے لیے مختلف ریتیلے میدانوں اور جزیروں پر جاتے ہیں، جو اس علاقے میں دریائے برہم پتر اور اس کی کئی ذیلی ندیوں کے ذریعے ۱۹۴۴۱۳ مربع کلومیٹر کے رقبہ میں بنتے اور غائب ہوتے رہتے ہیں۔

اس ویڈیو میں وہ گیت گاتے ہوئے اپنی زندگی کے بارے میں بتا رہے ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Himanshu Chutia Saikia

Himanshu Chutia Saikia is an independent documentary filmmaker, music producer, photographer and student activist based in Jorhat, Assam. He is a 2021 PARI Fellow.

Other stories by Himanshu Chutia Saikia
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez