’’میں ہوں… میں ہوں…‘‘ دوسرے بچوں کے مقابلے امن محمد میرے سوال کا جواب فوراً دیتے ہوئے کہتا ہے۔ وہاں موجود تقریباً ۱۲ بچوں کے گروپ سے میں نے جب پوچھا تھا کہ اس سال ونائک چویتھی کا پنڈال لگانے میں سب سے بڑا رول کس کا تھا۔ بچوں کے اس گروپ میں سب سے بڑی عمر کی ٹی راگنی نے بتایا کہ ’’اس نے ۲۰۰۰ روپے اکیلے جمع کیے تھے۔‘‘ اس لیے امن کے دعوی پر اعتراض کرنے والا وہاں کوئی نہیں تھا۔

اس سال سب سے زیادہ چندہ اسی نے جمع کیا تھا: پنڈال لگانے والے اس گروپ نے کل ۳۰۰۰ روپے جمع کیے تھے، جس میں سے دو تہائی امن کی محنت سے آئے تھے۔ ان بچوں نے چندہ کی یہ رقم آندھرا پردیش کے اننت پور شہر میں واقع اپنی بستی، سائیں نگر سے گزرنے والی گاڑیوں سے مانگ کر جمع کیے تھے۔

امن نے مجھے بتایا کہ یہ اس کا سب سے پسندیدہ تہوار ہے۔ یہ سن کر مجھے کوئی حیرانی نہیں ہوئی۔

سال ۲۰۱۸ میں ایک اتوار کے دن، سائیں نگر میں ونائک چویتھی کی تقریبات ختم ہونے کے کچھ ہفتوں بعد، میں نے چار بچوں کو یہ کھیل کھیلتے ہوئے دیکھا تھا۔ تب میں نے ان کی تصویریں بھی کھینچی تھیں۔ یہ بچوں کے سب سے پسندیدہ کھیل ’اوّا اپّاچی‘ کی ایک بدلی ہوئی شکل تھی۔ اس میں ایک لڑکا ’گنیش‘ بنا تھا – جو کہ ہندوؤں کے بھگوان ہیں اور ونائک چویتھی کے دن ان کا یوم پیدائش منایا جاتا ہے۔ اس لڑکے کو دو دیگر بچے اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے چل رہے تھے، اور بعد میں اسے اتار کر زمین پر رکھ دیا۔ سبھی بچے دراصل سے گنیش نیمرجنم ، یعنی بھگوان کی مورتی کو غرقاب کرنے کی نقالی کر رہے تھے۔

گنیش کا رول نبھانے والا وہ چھوٹا لڑکا امن محمد تھا۔ سب سے اوپر کور فوٹو میں، وہاں موجود ۱۱ بچوں میں وہ آگے کی قطار میں کھڑا (بالکل بائیں) ہے۔

اس سال اگست میں ونائک چویتھی کی تقریبات کے لیے، امن اور اس کے دوستوں نے  بھگوان کی مورتی نصب کرنے کے لیے ۲ بائی ۲ فٹ کا پنڈال لگایا تھا – جو کہ اننت پور کا شاید سب سے چھوٹا پنڈال تھا۔ میرے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی یہ پنڈال ہٹا دیا گیا تھا، اس لیے میں اس کی تصویر نہیں لے سکا۔ بچوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے ۱۰۰۰ روپے میں مورتی خریدی تھی؛ باقی ۲۰۰۰ روپے پنڈال کو کھڑا کرنے اور اسے سجانے پر خرچ کیے گئے تھے۔ اس پنڈال کو سائیں نگر کے تیسرے موڑ کے قریب واقع درگاہ کے ٹھیک بغل میں کھڑا کیا گیا تھا۔

Aman Mohammed being carried in a make-believe Ganesh Nimarjanam
PHOTO • Rahul M.
The kids were enacting the ritual on a Sunday after Vinayaka Chavithi in 2018
PHOTO • Rahul M.

بائیں: ’گنیش نیمر جنم‘ کا کھیل کھیلتے ہوئے بچوں کے کندھوں پر سوار  امن محمد۔ دائیں: یہ بچے سال ۲۰۱۸ میں ونائک چویتھی کے بعد اس تہوار میں ادا کی جانے والی رسم کی نقل کر رہے تھے

محنت و مزدوری کرنے والوں کی اس بستی کے بچے یہ تہوار کتنے سالوں سے منا رہے ہیں کہ انہیں یاد بھی نہیں ہے۔ ان کے ماں باپ – جن میں سے زیادہ تر دہاڑی مزدور یا گھریلو ملازم ہیں یا شہر میں مزدوری کرتے ہیں – بچوں کی ونائک چویتھی میں ان کی کھل کر مدد کرتے ہیں۔ پنڈال لگانے والے بچوں میں سب سے بڑے کی عمر ۱۴ سال اور سب سے چھوٹے کی ۵ سال ہے۔

۱۴ سال کی راگنی بتاتی ہیں، ’’ہم ونائک چویتھی اور پیرلا پانڈوگا [رائل سیما خطہ میں منایا جانے والا محرم] دونوں تہواروں کو مناتے ہیں۔‘‘ بچوں کا ماننا ہے کہ محرم اور ونائک چویتھی ایک دوسرے سے کافی ملتے جلتے تہوار ہیں۔ دونوں ہی تہواروں میں پنڈال کی مرکزی حیثیت ہے، اور بچوں کو اس کے لیے چندہ جمع کرنے کی اجازت رہتی ہے۔ وہ اپنے ذریعے جمع کیے گئے چندے سے ہی پورا ڈھانچہ کھڑا کرتے ہیں۔ ۱۱ سال کی ایس ثنا نے بتایا، ’’ہم نے یو ٹیوب پر جا کر دیکھا کہ گھر کیسے بنائے جاتے ہیں۔ میں نے مٹی لانے میں ان کی مدد کی۔ ہم نے چھڑی اور ٹوائن پوری [جوٹ کی رسی] سے پنڈال بنایا۔ اس کے اوپر ایک چادر پھیلا دی، اور اس کے بعد اپنے ونائکوڈو [مورتی] کو اس کے اندر بیٹھا دیا۔‘‘

راگنی اور عمران (وہ بھی ۱۴ سال کا ہے)، جو گروپ میں سب سے بڑے ہیں، باری باری سے پنڈال کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ سات سال کا ایس چاند باشا کہتا ہے، ’’میں بھی اس کی دیکھ کرتا ہوں۔ میں باقاعدگی سے اسکول نہیں جاتا ہوں۔ کسی دن جاتا ہوں، کسی دن نہیں جاتا ہوں۔ اسی لیے، اس [ونائک کی مورتی] کی دیکھ بھال کرتا ہوں۔‘‘ یہ بچے پوجا بھی کرتے ہیں اور پنڈال میں آنے والوں کو پرسادم بھی بانٹتے ہیں۔ کسی ایک بچے کی ماں پرسادم پکاتی ہیں – جو کھٹی املی کے ساتھ پکا ہوا چاول ہوتا ہے۔

اننت پور میں ونائک چویتھی چونکہ محنت کشوں کی کئی بستیوں میں منایا جانے والا ایک مشہور تہوار ہے، اس لیے اس کا جشن آگے بھی کئی ہفتوں تک چلتا رہتا ہے۔ بچے مٹی کی مورتی اور لکڑی اور بانس کی مدد سے چھوٹے چھوٹے پنڈال بناتے ہیں؛ اپنے گھروں سے چادر اور دیگر بیکار پڑے سامان وغیرہ لاتے ہیں۔ اور اس کے بعد اپنے اس پسندیدہ تہوار کی دوبارہ نقل کرتے ہیں، خاص کر چویتھی کے بعد پڑنے والی اسکول کی چھٹیوں کے دوران۔

گنیش کی نقالی کرنے کا کھیل شہر کی غریب بستیوں میں زیادہ مقبول ہے، جہاں بچے اپنا دماغ لگا کر اس میں لگنے والے سامان کی کمی کو پورا کرتے ہیں۔ ایک بار میں نے ایک بچہ کو چھڑی سے ’ریل گیٹ‘ (ریلوے پھاٹک) کا کھیل کھیلتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک لمبی چھڑی تھی، جسے وہ کسی گاڑی کے گزرنے کے وقت اوپر اٹھا دیتا تھا۔ ونائک چویتھی کے بعد، بچے ان میں سے کچھ کھیلوں میں گنیش بھگوان کو بھی شامل کر لیتے ہیں۔

Children in another neighbourhood of Anantapur continue the festivities after Vinayaka Chavithi in 2019
PHOTO • Rahul M.
Children in another neighbourhood of Anantapur continue the festivities after Vinayaka Chavithi in 2019
PHOTO • Rahul M.
Playing 'railway gate'
PHOTO • Rahul M.

بائیں اور درمیان میں: سال ۲۰۱۹ میں ونائک چویتھی کے بعد اننت پور کی ایک دوسری بستی کے بچے جشن منانے میں مصروف ہیں۔ دائیں: ’ریلوے پھاٹک‘ کا کھیل کھیلتا ہوا ایک بچہ

مترجم: محمد قمر تبریز

Photos and Text : Rahul M.

Rahul M. is an independent journalist based in Andhra Pradesh, and a 2017 PARI Fellow.

Other stories by Rahul M.
Editor : Vinutha Mallya

Vinutha Mallya is Consulting Editor at People’s Archive of Rural India. She was formerly Editorial Chief and Senior Editor at PARI.

Other stories by Vinutha Mallya
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez