مینا میہر دن بھر مصروف رہتی ہیں۔ صبح چار بجے، وہ کشتی کے مالکوں کی خاطر مچھلیوں کی نیلامی کرنے کے لیے اپنے گاؤں ستپتی کے تھوک بازار پہنچتی ہیں۔ صبح ۹ بجے کے قریب واپس پہنچ کر وہ مچھلیوں کو نمک کے ذریعے محفوظ کرکے انہیں خشک کرنے کے لیے، تھرموکول باکس میں بند کرکے اپنے گھر کے پچھلے حصے میں رکھ دیتی ہیں، تاکہ اُن خشک کردہ مچھلیوں کو ایک یا دو ہفتے بعد فروخت کیا جا سکے۔ شام کے وقت، وہ اپنی مچھلیوں کو فروخت کرنے کے لیے بس یا آٹو رکشہ سے پالگھر کے خوردہ بازار پہنچتی ہیں، جو ان کے گھر سے ۱۲ کلومیٹر دور ہے۔ اگر ان کے پاس مچھلیاں بچی رہ جاتی ہیں، تو وہ انہیں ستپتی کے خوردہ بازار میں فروخت کر دیتی ہیں۔

لیکن وہ جن کشتیوں کے لیے نیلامی کرتی ہیں، وہ کم ہوتی جا رہی ہیں؛ اس کے ساتھ ہی ان کی خشک کردہ مچھلیوں کی تعداد بھی کم ہو رہی ہے۔ ۵۸ سالہ مینا پوچھتی ہیں، ’’کوئی مچھلی نہیں ہے۔ اب میں کیا بیچوں گی؟‘‘ مینا، کولی برادری سے تعلق رکھتی ہیں، جو ایک او بی سی برادری ہے۔ انہوں نے اپنے کام کے طریقے میں تبدیلی کی ہے۔ مانسون کے بعد، وہ کشتی کے مالکوں یا ستپتی کے تھوک بازار میں تاجروں سے تازہ مچھلیاں خرید کر اور اسے فروخت کرکے معقول کمائی کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ (حالانکہ، انہوں نے ہمیں اپنی آمدنی کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں دی۔)

اپنی فیملی کی آمدنی میں ہوئی کمی کو پورا کرنے کے لیے ان کے شوہر، ۶۳ سالہ اُلہاس میہر بھی پہلے سے زیادہ کام کر رہے ہیں۔ وہ اب بھی کبھی کبھی او این جی سی کی سروے کرنے والی کشتیوں پر سیمپل جمع کرنے والے اور مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی ممبئی میں مچھلی پکڑنے والی بڑی کشتیوں پر انہوں نے سال کے ۲ مہینے کے اپنے کام کو بڑھا کر ۴ سے ۶ مہینے کر دیا ہے۔

مہاراشٹر کے پالگھر ضلع میں واقع ان کے ساحلی گاؤں ستپتی کو ’گولڈن بیلٹ‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی سمندری سطح کو ماہی پروری اور مشہور بومبل (بامبے ڈاک) مچھلی کے لیے جانا جاتا ہے۔ لیکن بومبل مچھلیوں کی پیداوار کم ہوتی جا رہی ہے – سال ۱۹۷۹ میں ستپتی- دہانوعلاقے میں ۴۰۰۶۵ ٹن کی ریکارڈ پیداوار سے گھٹ کر، ۲۰۱۸ میں محض ۱۶۵۷۶ ٹن بومبل مچھلیوں کی پیداوار ہوئی۔

With fewer boats (left) setting sail from Satpati jetty, the Bombay duck catch, dried on these structures (right) has also reduced
PHOTO • Ishita Patil
With fewer boats (left) setting sail from Satpati jetty, the Bombay duck catch, dried on these structures (right) has also reduced
PHOTO • Ishita Patil

بائیں: ۱۹۴۴ میں قائم کردہ ستپتی مچھی مار وودھ کاریہ کرتا سہکاری سنستھا کے احاطہ میں تعمیر کردہ ستپتی کی پہلی میکنائزڈ کشتی۔ دائیں: ماہی پروری کے لیے مشہور ’گولڈن بیلٹ‘ میں اب بہت کم کشتیاں نظر آتی ہیں

اس کے کئی اسباب ہیں: صنعتی آلودگی میں اضافہ، جہازوں اور سین فشنگ (لمبے جالوں کے استعمال سے ایک ساتھ ڈھیر ساری مچھلیوں کو پکڑنا، جس میں چھوٹی مچھلیاں بھی شامل ہیں، جو ان کی افزودگی میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں) کے ذریعے مچھلی پکڑنے کی سرگرمیوں میں حد سے زیادہ اضافہ۔

مینا کہتی ہیں، ’’ان جہازوں کا ہمارے سمندر میں آنا ممنوع ہے، لیکن انہیں روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ مچھلی پکڑنا ایک مجموعی کاروبار تھا، لیکن اب تو کوئی بھی کشتی خرید سکتا ہے۔ یہ بڑے جہاز انڈوں اور چھوٹی مچھلیوں کو مار دیتے ہیں، جس سے ہمارے لیے وہاں کچھ بھی نہیں بچتا۔‘‘

طویل عرصے سے، مینا اور مچھلیوں کی نیلامی کرنے والے دوسرے ماہی گیروں کو مقامی کشتی مالکوں کے ذریعے مچھلیاں فروخت کرنے کے لیے بلایا جاتا رہا ہے، لیکن اب پہلے کی طرح اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ بومبل، سلور پومفریٹ کے ساتھ ساتھ مُشی، وام وغیرہ جیسی چھوٹی مچھلیوں سے بھر کر ہی کشتیاں واپس آئیں گی۔ مینا اب صرف دو کشتیوں کے لیے نیلامی کرتی ہیں، جب کہ ایک دہائی پہلے تک وہ تقریباً آٹھ کشتیوں کے لیے مچھلی فروخت کیا کرتی تھیں۔ کئی ملاحوں نے مچھلی پکڑنا بند کر دیا ہے۔

’نیشنل فش ورکرز فورم‘ کے چیئرمین اور ’ستپتی فشر مین سروودیہ کوآپریٹو سوسائٹی‘ کے سابق صدر، نریندر پاٹل کہتے ہیں، ’’اسّی کی دہائی میں تقریباً ۳۰ سے ۳۵ کشتیاں ستپتی میں [بومبل کے لیے] آیا کرتی تھیں، لیکن [۲۰۱۹ کے وسط تک] ان کی تعداد گھٹ کر محض ۱۲ رہ گئی ہے۔‘‘

At the cooperative society ice factory (left) buying ice to pack and store the fish (right): Satpati’s fisherwomen say the only support they receive from the co-ops is ice and cold storage space at nominal rates
PHOTO • Ishita Patil
At the cooperative society ice factory (left) buying ice to pack and store the fish (right): Satpati’s fisherwomen say the only support they receive from the co-ops is ice and cold storage space at nominal rates
PHOTO • Ishita Patil

کوآپریٹو سوسائٹی کی فیکٹری (بائیں) میں مچھلیوں کو پیک اور اسٹور کرنے کے لیے برف خریدی جا رہی ہے۔ دائیں: ستپتی کی ماہی گیر عورتیں کہتی ہیں کہ یہی وہ واحد مدد ہے جو انہیں کوآپریٹو سے ملتی ہے

ستپتی میں رہنے والی ماہی گیر برادری کی یہی کہانی ہے، سبھی پر اس کساد بازاری کا اثر پڑا ہے۔ گرام پنچایت اور کوآپریٹو سوسائٹیز کے ایک اندازہ کے مطابق، یہاں کی آبادی بڑھ کر ۳۵ ہزار ہو گئی ہے (مردم شماری ۲۰۱۱ کے مطابق یہاں کی آبادی ۱۷۰۳۲ ہے)۔ ریاستی حکومت کے ذریعے ۱۹۵۰ میں قائم کردہ ایک ماہی گیری پرائمری اسکول (ایک باضابطہ تعلیمی نصاب کے ساتھ)، جسے سال ۲۰۰۲ میں ضلع پریشد کو منتقل کر دیا گیا تھا، وہ بھی زوال آمادہ ہے۔ ٹھیک اسی طرح، ۱۹۵۴ میں قائم کردہ سمندری ماہی گیری تربیتی مرکز، جہاں خصوصی نصاب کے مطابق ٹریننگ دی جاتی تھی، پر اب تالا لگ چکا ہے۔ اب صرف دو ماہی گیری کوآپریٹو سوسائٹیز رہ گئی ہیں، اور کشتی مالکوں اور مچھلی کے برآمدکاروں کے درمیان ثالث کے طور پر کام کرتی ہیں۔ یہ سوسائٹیز انہیں قرض دینے کے علاوہ ڈیزل اور دیگر سہولیات کے لیے سبسڈی فراہم کرتی ہیں۔

لیکن ستپتی کی ماہی گیر عورتوں کا کہنا ہے کہ انہیں نہ تو حکومت سے کوئی مدد ملتی ہے اور نہ ہی کوآپریٹو سوسائٹیز سے؛ جو انہیں معمولی قیمتوں پر صرف برف اور کولڈ اسٹوریج کی جگہ فراہم کرتے ہیں۔

۵۰ سالہ انامیکا پاٹل کہتی ہیں، ’’حکومت کو ابھی ماہی گیر عورتوں کو ان کے کاروبار کے لیے کم از کم دس ہزار روپے دینے چاہئیں۔ ہمارے پاس بیچنے کے لیے مچھلیاں خریدنے کے پیسے نہیں ہیں۔‘‘ ماضی میں، یہاں کی عورتیں عام طور پر اپنے اہل خانہ کے ذریعے پکڑی گئی مچھلیاں فروخت کیا کرتی تھیں، لیکن اب ان میں سے کئی عورتوں کو کاروباریوں کے ذریعے پکڑی گئی مچھلیاں خریدنی پڑتی ہیں۔ اور اس کے لیے پیسوں یا سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے، جو ان کے پاس نہیں ہے۔

ان میں سے کچھ عورتوں نے پرائیویٹ ساہوکاروں سے ۲۰ سے ۳۰ ہزار روپے کا قرض لیا ہوا ہے۔ ادارہ جاتی قرض ملنے کا ان کے سامنے کوئی وسیلہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے انامیکا کہتی ہیں، ’’کیوں کہ اس کے لیے ہمیں اپنے زیورات، گھر، یا زمین گروی رکھنی پڑے گی۔‘‘ انامیکا نے ایک کشتی مالک سے ۵۰ ہزار روپے کا قرض لیا ہے۔

Left: Negotiating wages with a worker to help her pack the fish stock. Right: Vendors buying wam (eels) and mushi (shark) from boat owners and traders
PHOTO • Ishita Patil
Left: Negotiating wages with a worker to help her pack the fish stock. Right: Vendors buying wam (eels) and mushi (shark) from boat owners and traders
PHOTO • Ishita Patil

بائیں: ایک ملازم سے مچھلیوں کو پیک کرنے کی مزدوری طے کرتے ہوئے۔ دائیں: بامبے ڈک کو انہی ڈھانچوں پر خشک کیا جاتا ہے، حالانکہ ان کا اسٹاک دھیرے دھیرے کم ہو رہا ہے

دیگر ماہی گیر عورتیں اس پیشہ کو یا تو پوری طرح چھوڑ چکی ہیں یا پھر ان کے دن کا بہت چھوٹا سا حصہ ان کاموں میں خرچ ہوتا ہے۔ ستپتی ماہی گیر سروودیہ کوآپریٹو سوسائٹی کے چیئرمین، کیتن پاٹل کہتے ہیں، ’’مچھلیوں کے ذخیرہ کے کم ہونے کے سبب بامبے ڈک کو سُکھانے کے کام میں لگی ہوئی عورتوں کو دوسرے شعبوں میں کام ڈھونڈنا پڑا ہے۔ وہ اب نوکریوں کے لیے پالگھر جاتی ہیں یا پھر ایم آئی ڈی سی [مہاراشٹر انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کارپوریشن] کے احاطہ میں کوئی کام ڈھونڈتی ہیں۔‘‘

اسمیتا تارے پالگھر کی ایک فارماسیوٹیکل کمپنی میں پیکنگ کا کام گزشتہ ۱۵ برسوں سے کر رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’ستپتی بومبل مچھلیوں سے بھرا رہتا تھا، ہم گھروں کے باہر سویا کرتے تھے، کیوں کہ ہمارا پورا گھر مال سے بھرا ہوتا تھا۔ مچھلیاں پکڑنے میں گراوٹ آنے کے سبب اب [معقول پیسہ] کمانا بہت مشکل ہو گیا ہے، اسی کی وجہ سے ہمیں اب دوسری نوکریاں کرنی پڑ رہی ہیں۔‘‘ ہفتہ میں ۶ دن اور دن بھر میں دس گھنٹے کام کرنے کے بعد وہ ایک مہینے میں ۸ ہزار روپے کماتی ہیں۔ ان کے شوہر بھی اس کاروبار کو چھوڑ چکے ہیں، لیکن پالگھر اور دوسری جگہوں پر شادیوں اور دیگر تقریبات میں ایک بینڈ میں ڈرم بجاتے ہیں۔

پالگھر وہاں سے ۱۵ کلومیٹر دور ہے۔ ابھی صبح کے وقت، پاس کے بس اسٹاپ پر عورتیں کام پر جانے کے لیے کھڑی ہیں۔

مینا کی بہو، ۳۲ سالہ شبھانگی نے بھی پچھلے سال فروری سے پالگھر ایپلائنسز یونٹ میں کام کرنا شروع کر دیا ہے، جہاں وہ کولر، مکسر، اور دوسرے سامانوں کی پیکیجنگ کرتی ہیں۔ دس گھنٹے کی شفٹ میں انہیں ۲۴۰ روپے اور ۱۲ گھنٹے کام کرنے پر ۳۲۰ روپے ملتے ہیں۔ ہفتہ میں ایک دن، جمعہ کو انہیں چھٹی ملتی ہے۔ (شبھانگی کے ۳۴ سالہ شوہر پرجیوت، مچھلی سُکھانے میں مینا کی مدد کرتے ہیں اور فشریز کوآپریٹو سوسائٹی میں کام کرتے ہیں۔ مستقل نوکری ہونے کے باوجود انہیں اس نوکری کو کھو دینے کا ڈر ہے، کیوں کہ کوآپریٹو سوسائٹیز بھی مصیبتوں کا سامنا کر رہی ہیں۔)

Left: The Satpati fish market was shifted from a crowded location to this open space near the jetty during the pandemic to maintain distancing. Right: In many families here, the women have taken up making jewellery on a piece-rate basis to supplement falling incomes
PHOTO • Chand Meher
Left: The Satpati fish market was shifted from a crowded location to this open space near the jetty during the pandemic to maintain distancing. Right: In many families here, the women have taken up making jewellery on a piece-rate basis to supplement falling incomes
PHOTO • Ishita Patil

بائیں: ستپتی کی کئی عورتیں مچھلیوں کے کاروبار سے الگ ہو چکی ہیں؛ وہیں کچھ عورتیں پالگھر کے ملوں میں مزدوری کرتی ہیں، تو دیگر عورتیں زیورات بنانے کا کام کرتی ہیں۔ بائیں: دن بھر باریک کام کرنے کی وجہ سے مینا کی آنکھوں میں درد ہونے لگتا ہے

مینا چشمہ پہن کر اب روزانہ ۲ سے ۳ گھنٹے سفید موتیوں، سنہرے دھات کی تاروں، ایک بڑی چھلنی، اور ایک نیل کٹر کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ وہ تاروں میں موتیاں پروکر ان میں ہُک لگاتی ہیں۔ گاؤں کی ایک عورت نے انہیں یہ کام دلوایا تھا، جس میں ۲۵۰ گرام کی تیار مالاؤں کے انہیں ۲۰۰ سے ۲۵۰ روپے ملتے ہیں۔ انہیں تیار کرنے میں ایک ہفتہ تک لگ جاتے ہیں۔ ان پیسوں میں سے وہ پھر سے سو روپے کا خام مال خریدتی ہیں۔

۴۳ سالہ بھارتی میہر نے ۲۰۱۹ میں ایک کاسمیٹک کمپنی میں کام کرنا شروع کیا تھا۔ ان کی فیملی ایک کشتی کی مالک ہے۔ مچھلیوں کے کاروبار میں گراوٹ کے سبب ہی انہوں نے کاسمیٹک کمپنی میں کام کرنا شروع کیا۔ اس سے پہلے تک بھارتی اور ان کی ساس، مینا کی ہی طرح مچھلیوں کی نیلامی اور فروخت کے علاوہ مصنوعی زیورات بنانے کا کام کرتی تھیں۔

حالانکہ، ستپتی کے کئی لوگ دوسرے کاموں میں لگ چکے ہیں، لیکن ان کی باتوں میں ابھی بھی گزرے ہوئے وقت کی یادیں بسی ہوئی ہیں۔ چندرکانت نائک کہتے ہیں، ’’کچھ سالوں بعد، ہم اپنے بچوں کو تصاویر کے ذریعے پومفریٹ یا بومبل مچھلیوں کے بارے میں بتائیں گے، کیوں کہ تب تک یہ مچھلیاں نہیں رہیں گی۔‘‘ چندرکانت ’بامبے الیکٹرک سپلائی اینڈ ٹرانسپورٹ‘ کے ایک ریٹائرڈ ڈرائیور ہیں، جو اب اپنے بھتیجے کی چھوٹی سی کشتی پر مچھلیاں پکڑنے جاتے ہیں۔

پھر بھی، زیادہ تر لوگ یہ سمجھ چکے ہیں کہ پرانی یادوں کے سہارے اس پیشہ میں مستقل طور پر بنے نہیں رہا جا سکتا ہے۔ ۵۱ سالہ جتیندر تمورے کہتے ہیں، ’’میں اپنے بچوں کو کشتی میں نہیں آنے دیتا۔ [مچھلی پکڑنے کے] چھوٹے موٹے کاموں تک تو ٹھیک ہے، لیکن میں انہیں کشتی پر نہیں لے جاتا ہوں۔‘‘ جتیندر کو اپنے والد سے وراثت میں ایک بڑی کشتی ملی تھی۔ ان کی فیملی کے پاس ستپتی میں مچھلی پکڑنے کے جالوں کی ایک دکان ہے، جس سے ان کے گھر کا خرچ چلتا ہے۔ ان کی بیوی، ۴۹ سالہ جوہی تمورے کہتی ہیں، ’’ہم اپنے بیٹوں [عمر ۲۰ اور ۱۷ سال] کو جال کے کاروبار کی وجہ سے ہی پڑھا سکے تھے۔ لیکن، جس طرح ہماری زندگی چل رہی ہے، ہم نہیں چاہتے ہیں کہ وہ کسی بھی قیمت پر اس پیشہ میں آئیں۔‘‘

اس اسٹوری میں شامل کچھ انٹرویو سال ۲۰۱۹ میں کیے گئے تھے۔

کور فوٹو: ہولی کے تہوار کے دوران (۹ مارچ، ۲۰۲۰) ستپتی کی عورتیں، خوشحالی اور سلامتی کے لیے سمندر کے دیوتا کی پوجا کر رہی ہیں، تاکہ ان کے شوہر جب مچھلیاں پکڑنے سمندر میں جائیں، تو محفوظ واپس لوٹیں۔ کشتیوں کو سجایا گیا ہے، اور تہوار میں ان کی بھی پوجا کی جا رہی ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Ishita Patil

Ishita Patil is a Research Associate at the National Institute of Advanced Studies, Bengaluru.

Other stories by Ishita Patil
Nitya Rao

Nitya Rao is Professor, Gender and Development, University of East Anglia, Norwich, UK. She has worked extensively as a researcher, teacher and advocate in the field of women’s rights, employment and education for over three decades.

Other stories by Nitya Rao
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez