محل کے اوپر شاہی پرچم نئے سلطان کے دل کی طرح پھڑپھڑا رہا تھا، جو اس دوپہر کو اپنے عالیشان بستر پر آرام کرنے کے لیے لیٹا ہوا تھا۔ اقتدار میں آنے کے بعد اس نے تمام بغاوتوں کو ایک ایک کرکے کچل دیا، اور اس طرح ایک شاہی گھرانے کی بے لگام حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا۔ اسے اپنی شجاعت پر پورا بھروسہ تھا، اسی لیے میدان جنگ میں بغیر ڈھال کے جاتا، اپنے برہنہ سینے کو پیٹتا ہوا، اور شکاری جانوروں کی تمام افواج کو تقریباً تنہا ہی موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اس نے سوچا کہ یہ تو صرف کیڑے ہیں، لیکن اس کی سوچ کے برعکس ان پر قابو پانا بہت مشکل تھا۔ اس کا دماغ واقعی بہت تیز تھا، جس نے ہر بار ان کے خطرے کو کچلنے میں اس کی مدد کی تھی۔ لیکن دسمبر کی ہوائیں ظالم تھیں۔

اس وقت جس چیز کی ضرورت تھی، وہ میٹاریزیم اینی سوپلی کا وسیع ذخیرہ تھا۔ یہ حشرہ کش پھپھوندی دنیا بھر کی مٹی میں قدرتی طور پر اُگتی ہے اور کیڑوں کو ختم کر دیتی ہے۔ سرکردہ ماہرین کی ایک کمیٹی نے اعلان کر دیا کہ ان کیڑوں کو مارنے کے لیے، جو انہیں اندر سے کھا رہے ہیں، یہ حشرہ کش پھپھوندی سستی، زیادہ مؤثر اور طویل عرصے تک چلنے والی ہوگی۔ ذخیرہ کا انتظام پہلے سے ہی امیر ساتھیوں کے ذریعہ کر دیا گیا تھا۔ اب صرف ایک چیلنج تھا کہ نوجوانوں کی ایک ٹیم تلاش کی جائے اور ان حشرہ کش پھپھوندی سے ان کیڑوں پر زوردار حملہ کیا جائے۔

شام ہو چکی تھی، اور وہ تھک گیا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کا دماغ بس آرام کرے، دوڑنا بند کر دے۔ یہ صرف احتجاج کرنے والی ٹڈیوں کا مسلسل شور ہی نہیں تھا جو ہوا پر قبضہ کرنے اور چیزوں کو اتنا ناقابل برداشت بنانے کے لیے آیا تھا۔ کچھ اور بھی تھا، جو اسے اندر سے پریشان کر رہا تھا۔ کیا یہ اس کی انا تھی؟ کیا وہ واقعی میں ڈر گیا تھا؟ یا وہ اس بارے میں فکرمند تھا کہ رات میں کیا ہو سکتا ہے؟ کیا اسے یہ احساس ہونے لگا تھا کہ اس کی طاقتیں کمزور ہونے والی ہیں؟ خود سے یہ سوال تکلیف دہ تھا۔ اپنے دماغ کو اس سے نجات دینے کے لیے اس نے لاپرائی سے کھڑکی کے باہر دیکھا۔ سیاہ افق پر غروب ہوتا سورج نا مبارک لگ رہا تھا۔

سدھنوا دیش پانڈے کی آواز میں یہ نظم سنیں

llustration: Labani Jangi, originally from a small town of West Bengal's Nadia district, is working towards a PhD degree on Bengali labour migration at the Centre for Studies in Social Sciences, Kolkata. She is a self-taught painter and loves to travel.
PHOTO • Labani Jangi

خاکہ نگاری: لبنی جنگی بنیادی طور پر مغربی بنگال کے نادیا ضلع کے ایک چھوٹے سے قصبہ کی رہنے والی ہیں، اور فی الحال کولکاتا کے سینٹر فار اسٹڈیز اِن سوشل سائنسز سے بنگالی مزدوروں کی مہاجرت پر پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ وہ خود سے سیکھی ہوئی ایک مصور ہیں اور سفر کرنا پسند کرتی ہیں

ٹڈیوں کا جھنڈ

یہ کون سی ٹڈیا ہیں؟
کتنا بڑا ہے یہ جھن
آسمان کو گندم جیسا سنہرا بناتیں،
سلطنت کے اوپر،
امید کی لمبی سڑکوں پر مارچ کرتیں!
جو اڑتی ہیں
کانٹے دار تاروں کے جال سے ہوکر
جن کے چھوٹے چھوٹے سونڈ
توڑ دیتے ہیں بیریکیڈوں کو
جو کود جاتی ہیں خندوقوں کو
پھنسانے اور دفنانے کے لیے کھودی گئی۔

ان کے نازک سینے
کرتے ہیں سامنا
پانی کی بوچھار کا
انتظار کر رہی ہیں وہ
ٹھنڈی سرد لہر میں
دھند والی سردی کی شاموں کو
کھٹی ہو چکی شبنم کی بوندوں کی وہ مہک
انتظار کر رہی ہیں وہ
صبح کے اجالے کا
انقلابی انگارے
چمک رہے ہیں جن کی آنکھوں میں۔

نہ تو ڈھول کی آواز، نہ ہی پٹاخے
نہ ہی نیم کی پتیوں کا دھواں
کر سکتا ہے خوفزدہ یا گمراہ
ٹڈیوں کے اس بھاری جھنڈ کو۔
لمبی رات میں
مخالفت کے تیز ہوتے گیت
ان کے پروں کے نیچے
ہوا کو جوش دلاتے
بناتے ہیں چھوٹے سوراخ
ترپال کی چادروں میں
جو بچھائی گئی ہے سڑکوں پر
اور محل کی چھتوں پر
ٹڈیوں کے جھنڈ کے ذریعے
سلطنت پر حملہ کرنے سے پہلے۔

آڈیو: سدھنوا دیش پانڈے جن ناٹیہ منچ کے ایک اداکار اور ڈائرکٹر، اور لیفٹ ورڈ بکس کے ایڈیٹر ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Illustration : Labani Jangi

Labani Jangi is a 2020 PARI Fellow, and a self-taught painter based in West Bengal's Nadia district. She is working towards a PhD on labour migrations at the Centre for Studies in Social Sciences, Kolkata.

Other stories by Labani Jangi
Pratishtha Pandya

Pratishtha Pandya is a poet and a translator who works across Gujarati and English. She also writes and translates for PARI.

Other stories by Pratishtha Pandya
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez