امفن طوفان کی تیز ہوا اور موسلا دھار بارش نے ۲۰ مئی کو چاروں طرف تباہی مچا رکھی تھی، لیکن سبیتا سردار کو اس کا کوئی خوف نہیں تھا۔ ’’ہمیں خراب موسم کا سامنا کرنے کی عادت ہے۔ مجھے ڈر نہیں لگ رہا تھا۔ بلکہ، جو لوگ کنکریٹ کے گھروں میں رہتے ہیں، وہ زیادہ ڈرے ہوئے تھے،‘‘ انہوں نے کہا۔

سبیتا گزشتہ ۴۰ سالوں سے، جنوبی کولکاتا کے ایک مشہور بازار، گریا ہاٹ کی سڑکوں پر رہ رہی ہیں۔

اس دن، جب سمندری طوفان امفن مغربی بنگال کی راجدھانی سے گزرا، تو سبیتا اور کچھ دیگر بے گھر عورتیں گریا ہاٹ فلائی اوور کے نیچے اپنے ٹھیلے پر بھروسہ کرکے ایک ساتھ بیٹھ گئیں۔ انہوں نے جیسے تیسے رات گزاری۔ ’’ہم وہیں بیٹھے رہے، جب کہ شیشے کے ٹکڑے ہوا میں اڑتے رہے اور درخت گرتے رہے۔ ہواؤں کے جھونکے سے بارش کی چھینٹیں ہماری طرف آنے لگیں، جس نے ہمیں بھگو دیا۔ ہمیں دھوم دھڑام کی تیز آوازیں سنائی دے رہی تھیں،‘‘ سبیتا یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں۔

وہ فلائی اوور کے نیچے اپنے مقام پر پچھلے ہی دن لوٹی تھیں۔ ’’میں امفن سے ایک دن پہلے اپنے بیٹے کے گھر سے گریا ہاٹ واپس آ گئی تھی۔ میرے برتن اور کپڑے بکھرے پڑے تھے، جیسے کسی نے انہیں الٹ پلٹ دیا ہو،‘‘ سبیتا نے کہا، جو تقریباً ۴۷ سال کی ہیں۔ وہ اپنے بیٹے، ۲۷ سالہ راجو سردار کے گھر سے چار کلومیٹر دور پیدل چل کر یہاں آئی تھیں۔ راجو ٹالی گنج کی جھالدر مٹھ جھگی بستی میں اپنی ۲۵ سالہ بیوی روپا، اپنے چھوٹے بچوں، اور روپا کی چھوٹی بہن کے ساتھ کرایے کے ایک کمرے میں رہتے ہیں۔

لاک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد، جب کولکاتا پولس ۲۵ مارچ کو گریا ہاٹ کے فٹ پاتھ پر رہنے والوں کو ہٹانے کے لیے وہاں پہنچی، تو وہ یہاں سے جھالدر مٹھ چلی گئی تھیں۔ ’’انہوں نے کہا کہ ہم [کورونا] وائرس کے سبب سڑکوں پر نہیں رہ سکتے، اور ہمیں ابھی راحت کیمپ میں جانا ہوگا،‘‘ سبیتا نے بتایا۔ انہیں کولکاتا میونسپل کارپوریشن کے وارڈ نمبر ۸۵ کے ایک کمیونٹی ہال میں لے جایا گیا۔

When Cyclone Amphan hit Kolkata on May 20, Sabita (on the left in the right image) huddled under the flyover with her daughter Mampi and grandson
PHOTO • Puja Bhattacharjee
When Cyclone Amphan hit Kolkata on May 20, Sabita (on the left in the right image) huddled under the flyover with her daughter Mampi and grandson
PHOTO • Puja Bhattacharjee

۲۰ مئی کو جب امفن طوفان کولکاتا پہنچا، تو سبیتا (لال ساڑی میں) فلائی اوور کے نیچے چھپ گئیں۔ بعد میں (دائیں)، اپنی بیٹی ممپی اور اس کے چھوٹے بیٹے کے ساتھ

امفن سے ایک مہینہ پہلے، ۲۰ اپریل کو، میں نے دیکھا کہ سبیتا گریا ہاٹ میں ایک سنسان فٹ پاتھ پر لکڑی کی ایک بینچ پر بیٹھی ہیں۔ انہوں نے ۱۵ اپریل کو راحت کیمپ چھوڑ دیا تھا اور اپنے بیٹے کے ساتھ رہ رہی تھیں، لیکن اپنا سامان دیکھنے کے لیے آئی تھیں۔ عارضی دکانیں جہاں پھیری والے عام طور پر اپنا سامان بیچتے ہیں، لاک ڈاؤن کے دوران بند پڑی تھیں۔ فٹ پاتھ پر رہنے والے کچھ ہی لوگ وہاں موجود تھے۔ ’’میں اپنے کپڑے اور برتن دیکھنے آئی تھی۔ مجھے ڈر تھا کہ وہ چوری نہ ہو جائیں، لیکن یہ دیکھ کر راحت ملی کہ سب کچھ موجود تھا،‘‘ انہوں نے کہا۔

’’راحت کیمپ میں ہماری حالت اچھی نہیں تھی،‘‘ سبیتا نے کہا۔ کمیونٹی ہال میں، جہاں تقریباً ۱۰۰ لوگوں کو عارضی طور پر رکھا گیا تھا، انہوں نے بتایا، ’’اگر کسی کو دوسرے سے زیادہ کھانا ملتا، تو جھگڑا ہونے لگتا۔ ایسا روز ہوتا تھا۔ تھوڑے سے چاول کو لیکر بھی لوگ ہاتھا پائی کرنے لگتے تھے۔‘‘ اور، انہوں نے بتایا کہ خراب کھانا ملنے لگا تھا۔ ’’مصالحے والا کھانا کھانے سے میرا گلا جلنے لگا۔ کھانے میں ہمیں دن رات پوڑی اور آلو دیا جاتا تھا۔‘‘ وہاں کا ماحول معاندانہ تھا – کھانے کے لیے تو جھگڑا ہوتا ہی تھا، گارڈ بھی گالی دیتے تھے، اور وہاں رہنے والے لوگوں کو پینے کے لیے وافر پانی یا دھونے کے لیے صابن نہیں دیا جاتا تھا۔

گریا ہاٹ کا فٹ پاتھ سات سال کی عمر سے ہی سبیتا کا گھر تھا، جب وہ اپنی ماں، کنون ہلدر اور تین بہنوں اور تین بھائیوں کے ساتھ شہر آئی تھیں۔ ’’میرے ماں تعمیراتی مقامات پر یومیہ مزدور کے طور پر کام کرتی تھیں۔ اب وہ بوڑھی ہو چکی ہیں، اس لیے پیسے کے لیے یا تو کوڑے چنتی ہیں یا بھیک مانگتی ہیں،‘‘ سبیتا نے بتایا۔

سبیتا نے بھی نوجوانی نے اپنی فیملی کی مدد کرنے کے لیے کوڑے چننا (انہیں کباڑ کے تاجروں کو بیچنے کے لیے) شروع کر دیا تھا۔ نوجوانی کے آخری دنوں میں، انہوں نے شیبو سردار سے شادی کر لی، وہ بھی سڑک کے کنارے ہی رہتے تھے۔ راجو سمیت ان کے پانچ بچے ہوئے۔ شیبو گریا ہاٹ بازار میں دکانوں کے لیے اناج کی ڈھلائی کرنے اور مچھلی کاٹنے کا کام کرتے تھے۔ تپ دق کے سبب ۲۰۱۹ میں ان کا انتقال ہو گیا۔ اب ان کی دو چھوٹی بیٹیاں اور ایک بیٹا شہر میں ایک این جی او کے ذریعے چلائے جا رہے رہائشی اسکولوں میں رہتے ہیں۔ ان کی بڑی بیٹی، ۲۰ سالہ ممپی اور اس کا چھوٹا بیٹا زیادہ تر سبیتا کے ساتھ ہی رہتے ہیں، کیوں کہ ممپی کا شوہر اس کے ساتھ بدسلوکی کرتا ہے۔

سال ۲۰۰۲ میں جب گریا ہاٹ فلائی اوور بنایا گیا تھا، تو سبیتا اور ان کی توسیعی فیملی – ماں کنون، ایک بھائی، ایک بہن، ان کے بچے اور میاں بیوی – سمیت کئی لوگ کھلے فٹ پاتھ سے فلائی اوور کے نیچے آکر بس گئے تھے۔ وبائی بیماری کووڈ-۱۹ کے آنے سے پہلے تک وہ سبھی وہیں رہ رہے تھے۔

PHOTO • Puja Bhattacharjee

۲۵ مارچ کو، کولکاتا پولس نے گریا ہاٹ کے فٹ پاتھوں پر رہنے والوں کو ہٹا دیا تھا – جس میں سبیتا اور ان کی سہیلی اوشا ڈولئی (نیچے بائیں) بھی شامل ہیں۔ سبیتا امفن طوفان آنے سے ایک دن پہلے، ۱۹ مئی کو اپنے بیٹے راجو (نیچے دائیں) کے گھر سے گریا ہاٹ لوٹ آئی تھیں

۲۵ مارچ کو سبیتا، کنون، ممپی اور اس کا بیٹا، سبیتا کے بھائی، بھابھی پنکی ہلدر اور ان کی کشور بیٹیوں کو راحت کیمپ میں لے جایا گیا۔ کچھ دنوں بعد، پنکی اور ان کی بیٹیوں کو ان کے آجر کی درخواست پر رہا کر دیا گیا۔ پنکی گریا ہاٹ کے قریب ایکڈلیا میں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتی تھیں۔ ان کی ایک بزرگ مالکن کو گھریلو کام نمٹانے میں مشکل ہو رہی تھی۔ ’’انہوں نے گریا ہاٹ پولس تھانے میں ایک درخواست دی، اور جب انہوں نے [آجر نے] پولس کو ایک تحریری ضمانت دی کہ وہ ہماری ذمہ داری لیں گی اور ہماری دیکھ بھال کریں گی، تو انہوں نے ہمیں رہا کر دیا،‘‘ پنکی نے کہا۔

پنکی اپنی ساس، کنون، کو دیکھنے کے لیے ۱۵ اپریل کو راحت کیمپ سے واپس لوٹیں۔ ’’وہ اس ناموافق جگہ پر رہنا نہیں چاہتی تھیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ لیکن جب وہ راحت کیمپ میں پہنچیں، تو دروازے پر تعینات چوکیدار کے ساتھ پنکی کا جھگڑا ہو گیا، جو ضد کرنے لگا کہ پولس اسٹیشن سے اجازت لیکر آؤ۔ ’’میں نے اس سے صرف یہی کہا تھا کہ کیا وہ ہر کسی کے لیے دستخط شدہ اجازت نامہ دیکھنا چاہتا ہے۔ اس سے وہ ناراض ہو گیا اور پولس کو فون کر دیا۔ میں جس وقت اپنی ساس کا انتظار کر رہی تھی، ایک پولس والا وہاں پہنچا اور مجھے اپنی چھڑی سے پیٹنے لگا،‘‘ انہوں نے الزام لگایا۔

کنون اور سبیتا نے اس دن راحت کیمپ کو چھوڑ دیا۔ سبیتا گریا ہاٹ فلائی اوور کے نیچے اپنے مقام پر لوٹ آئیں، اور ان کی ماں کو تقریباً ۴۰ کلومیٹر دور، جنوبی ۲۴ پرگنہ کے ملّک پور شہر میں سبیتا کی بہن کے ساتھ رہنے کے لیے بھیج دیا گیا۔

لاک ڈاؤن سے پہلے، سبیتا ہر ہفتے ۲۵۰-۳۰۰ روپے کماتی تھیں، لیکن راحت کیمپ چھوڑنے کے بعد کوڑا جمع کرنے کے اپنے کام پر واپس نہیں جا سکیں، کیوں کہ انہیں خریدنے والی کباڑ کی دکانیں کھلی نہیں تھیں۔ اور راحت کیمپ چھوڑنے والوں کو پولس اور ان کی لاٹھیوں سے بچنے کے لیے چھپنا پڑا۔ اس لیے سبیتا اپنے بیٹے کی فیملی کے ساتھ رہنے جھالدر مٹھ چلی گئیں۔

گریا ہاٹ میں کوڑے چننے والی ایک اور عورت، اوشا ڈولوئی نے کہا، ’’میں پولس سے بچتی رہی ہوں۔ میں مار کھانا نہیں چاہتی اور وائرس سے محفوظ رہنا چاہتی ہوں۔ اگر کھانا کے معیار کو ٹھیک کیا جاتا، تو میں راحت کیمپ لوٹ جاتی۔‘‘ اوشا، جو کہ ایک بیوہ ہیں، غیر سرکاری تنظیموں اور شہریوں کے ذریعے تقسیم کیا جا رہا کھانا اور راشن لینے کے لیے راحت کیمپ سے باہر آئی تھیں، تاکہ اپنے نوجوان بیٹے اور بیٹی کو کھلا سکیں، جنہیں وہ کمیونٹی ہال میں چھوڑ گئی تھیں۔

PHOTO • Puja Bhattacharjee

سبیتا (اوپر بائیں اور نیچے دائیں) اپنی فیملی کو مشکل سے کھانا کھلا سکتی ہیں۔ اوپر دائیں: اوشا ڈولوئی پولس سے بچنے کے لیے فلائی اوور کے نیچے رہ رہی ہیں۔ نیچے بائیں: سبیتا کی رشتہ دار پنکی ہلدر (بائیں)، گریا ہاٹ میں ایک گھریلو ملازمہ ہیں

۳ جون کو جب سبھی لوگوں کو راحت کیمپ سے چلے جانے کے لیے کہا گیا تھا، تو وہاں گریا ہاٹ کے فٹ پاتھوں پر رہنے والے صرف ۱۷ لوگ بچ گئے تھے۔ کمیونٹی ہال کے ایک صفائی ملازم نے مجھے بتایا کہ پاس کے ایک ٹیوب ویل سے پینے کا پانی لانے کے بہانے زیادہ تر لوگ یہاں سے بھاگ گئے۔

اوشا بھی گریا ہاٹ پولس اسٹیشن کی سڑک کے اس پار، فلائی اوور کے نیچے اپنے بنیادی مقام پر چلی گئی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ایک پولس والا وہاں دو بار آیا اور کھانا پکانے کے دوران ان کے برتنوں کو اٹھا کر پھینک دیا۔ اس نے کچھ لوگوں کے ذریعے تقسیم کیے جانے والے خشک راشن کو ضبط کر لیا۔ وہ ان کے ٹھیلے بھی اٹھا لے گیا، جس پر انہوں نے اپنے کپڑے اور بستر رکھے ہوئے تھے۔ ’’اس نے ہم سے کہا کہ ہم اپنے گھروں کو لوٹ جائیں، جہاں سے ہم وہاں آئے تھے۔ ہم نے ان سے کہا کہ اگر ہمارے پاس گھر ہوتے، تو ہم سڑکوں پر کیوں رہ رہے ہوتے،‘‘ اوشا نے بتایا۔

سبیتا امفن طوفان سے پہلے گریا ہاٹ اس لیے لوٹ آئی تھیں کیوں کہ ان کا بیٹا راجو اپنی فیملی کے چھ ممبران کو کھلانے کے لیے جدوجہد کر رہا تھا۔ وہ گریا ہاٹ میں ایک جوتے کی دکان پر سیلز مین کے طور پر کام کرتا تھا، جہاں اسے ایک دن کے ۲۰۰ روپے ملتے تھے۔ لاک ڈاؤن کے بعد اس نے پیسے بچانے کے لیے کڑی محنت کی ہے۔ وہ سستی قیمتوں پر سبزیاں خریدنے کے لیے سات کلومیٹر دور، سائیکل سے بازار جاتا ہے۔ ’’ہمیں میرے بیٹے کے اسکول سے [ٹیچروں کے تعاون سے] کچھ راشن ملے تھے اور اب کئی دنوں سے ہم ابلے ہوئے چاول اور آلو کھا رہے ہیں،‘‘ راجو نے کہا۔ ’’ہمیں بسکٹ، چائے، دودھ، کھانا پکانے کا تیل، مصالحے اور دو سال کے بیٹے کے لیے ڈائپر کی ضرورت ہے۔ مجھے تشویش ہے کہ اگر مجھے اچانک کچھ خریدنے کی ضرورت پڑی، تو میں کیا کروں گا؟ میرے پاس اب پیسے نہیں بچے ہیں،‘‘ انہوں نے کہا۔

سبیتا نے اپنا ٹھیلہ ایک پھل فروش کو کرایے پر دے رکھا ہے، جو انہیں ۷۰ روپے روزانہ دینے والا تھا، لیکن صرف ۵۰ روپے دیتا ہے۔ ’’ہمیں کھانا چاہیے،‘‘ انہوں نے کہا۔ ممپی اور اس کا آٹھ مہینے کا بیٹا ان دنوں سبیتا کے ساتھ ہیں۔ یہ پیسہ ان سبھی کو کھلانے کے لیے ناکافی ہے، اور انہیں قریب کے سلبھ شوچالیہ (باتھ روم) کا استعمال کرنے کے لیے اس میں سے کچھ پیسے کی ضرورت پڑتی ہے۔

پچھلے کچھ دنوں سے، سبیتا نے ردّی کاغذ جمع کرنا شروع کر دیا ہے کیوں کہ کچھ دکانیں اب اسے خرید رہی ہیں۔ تین بوریوں کے انہیں ۱۰۰-۱۵۰ روپے ملتے ہیں۔

ان تمام خطرات اور جوکھموں کے ساتھ سڑکوں پر رہنے سے سبیتا وبائی بیماری اور سمندری طوفان سے بے خوف ہو گئی ہیں۔ ’’لوگ کبھی بھی مر سکتے ہیں – یہاں تک کہ سڑکوں پر چلتے وقت بھی وہ کار کی چپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ فلائی اوور نے ہمیں بچا لیا ہے،‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’طوفان کی اگلی صبح، میں نے پنتا بھات [باسی چاول] کھایا۔ طوفان ختم ہوتے ہی حالات معمول پر آ گئے۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Puja Bhattacharjee

Puja Bhattacharjee is a freelance journalist based in Kolkata. She reports on politics, public policy, health, science, art and culture.

Other stories by Puja Bhattacharjee
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez