نو سال کی شیلابتی مُرمو، چاچن پور گاؤں میں روزانہ دو اسکولوں میں جاتی ہے – ایک سرکار کے ذریعے چلایا جا رہا پرائمری اسکول اور دوسرا، تقریباً ۵۰۰ میٹر کی دوری پر واقع، ریبا مُرمو کے ذریعے چلایا جا رہا ’متبادل‘ اسکول ہے۔

سنتال کسان کنبوں کے ۳ سے ۱۲ سال کی عمر کے تقریباً ۴۰ دیگر بچوں کے ساتھ، شیلابتی گرمیوں میں صبح ۶ بجے اور سردیوں میں آدھے گھنٹے بعد ریبا کے اسکول میں آتی ہے۔ بڑے طلبہ فرش پر جھاڑو لگاتے ہیں، دعا کے لیے ٹیگور کے گیت گاتے ہیں – جو موٹے طور پر کہتا ہے ’آگ ایک فلسفی کا پتھر ہے، مجھے اسے چھو کر خود کو پاک بنانے دو‘ – اور اس کے بعد اُس دن کا سبق شروع کرتے ہیں۔ اس اسکول کا ایک حصہ کریچ بھی ہے جہاں چھوٹے بچے کھیلنے اور سونے کے لیے آ سکتے ہیں۔

ریباڈی – جیسا کہ سبھی لوگ انھیں مخاطب کرتے ہیں – نے ۲۰۱۰ میں اپنی فیملی کی ملکیت والی ایک مٹی کی جھونپڑی میں اس اسکول کی شروعات کی۔ انھیں وراثت میں تقریباً تین ایکڑ زمین ملی ہے، جو ۱۹۷۰ کی دہائی میں ریاستی حکومت کے زمین کی دوبارہ تقسیم کے پروگرام کے تحت ان کی فیملی کو منتقل کی گئی تھی۔ لیکن یہاں کی زمین زیادہ زرخیز نہیں ہے۔ اس لیے ریبا نے اپنی زمین کا ایک حصہ کولکاتا واقع ایک کسان گروپ کو پٹّہ پر دے دیا، اور اس پیسے سے ایک اسکول شروع کیا۔ اب وہ زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر سبزیاں اور پھل – گوبھی، آلو، پپیتا – اُگاتی ہیں اور انھیں مقامی بازار میں بیچتی ہیں۔

اپنی فیملی کی معمولی آمدنی کے باوجود، ۵۳ سالہ ریبا، جو خود بھی ایک سنتال ہیں، تقریباً ۱۵ کلومیٹر دور چھتنا ٹاؤن کے ایک کالج سے، جہاں وہ سائیکل سے جاتی تھیں، بی اے کی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ ان کے دو بھائی اور ایک بہن – اپنے کنبوں کے ساتھ – سبھی مغربی بنگال کے بانکورا ضلع کے اس گاؤں میں ایک ساتھ رہتے ہیں، اور ان کے اسکول کی مدد کرتے ہیں۔ اس کا نام ان کی ماں کے نام پر رکھا گیا ہے – لکشمی مُرمو پرائمری اسکول۔

تقریباً چار سال پہلے، چاچن پور سے تقریباً ۱۸۵ کلومیٹر دور واقع، کولکاتا شہر کی دو تنظیموں نے کچھ پیسے بطور عطیہ دیے اور تین کھلی کلاسوں – ایسبیسٹس کی ایک چھت کے ساتھ کنکریٹ کے چھ ستون بنانے میں ریباڈی کی مدد کی۔ ان تنظیموں میں سے ایک کی مدد سے ان کے ذریعے رکھے گئے دو ٹیچر، طلبہ کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور انھیں ریاضی، بنگالی، تاریخ، جغرافیہ اور دیگر مضامین پڑھاتے ہیں۔ دریں اثنا، ریباڈی بچوں کے لیے صبح اور شام کا ناشتہ بناتی ہیں – گڑ کے ساتھ چاول، یا روٹی اور شوربہ کے ساتھ اُبلا ہوا سفید مٹر – مینو بدلتا رہتا ہے۔

صبح ساڑھے ۹ بجے وہ گھر بھاگتے ہیں اور سرکاری اسکول جانے کی تیاری کرتے ہیں، جو کہ ایک بوسیدہ جھونپڑی میں تھی، لیکن اب چار کمروں والا ایک پختہ (مستقل) ڈھانچہ میں ہے۔ یہاں، صرف ایک بزرگ ٹیچر، اننتو بابو، سبھی طالب علموں کو ان کے تمام سبق پڑھانے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ سرکاری اسکول میں پروسا جانے والا مڈ ڈے میل بچوں کے لیے زیادہ دلکش ہے، ساتھ ہی کتابیں بھی مفت میں دی جاتی ہیں۔

یہ بچے شام ۴ بجے تک مُرمو کے اسکول لوٹ آتے ہیں۔ وہ اندھیرا ہونے تک کھیلتے ہیں۔ پھر انھیں شام کا ناشتہ ملتا ہے اور وہ پڑھائی کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ رات ۹ بجے وہ اپنے گھر آ جاتے ہیں۔

اسکول کے علاوہ، ریبا مُرمو نے ۲۰۰۸ میں اپنے گاؤں کی خواتین کو ایک ساتھ لانے کے لیے، چاچن پور آدیواسی مہیلا بِکاش سوسائٹی کی بھی شروعات کی تھی۔ دیگر سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ، سوسائٹی نے کولکاتا کی ایک دیگر تنظیم کے ساتھ مل کر خواتین کو اپنے چھوٹے کھیتوں سے کچھ بہتر حاصل کرنے کی ٹریننگ دی۔

ریبا کو وہ وقت یاد ہے جب ان کی چاچی، جو خود ایک سبزی فروش ہیں، ایک روپیہ کے سکہ اور ۴۰ پیسے کے سکہ میں فرق نہیں بتا سکتی تھیں۔ اس سے گھر میں پڑھنے لکھنے کی اہمیت بڑھی۔ ’’ہم جانتے ہیں کہ سرکار کے پاس ہمیں [درج فہرست قبائل کو] نوکری دینے کے لیے التزامات ہیں، لیکن کسے نوکری دی جائے [اگر وہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں]؟‘‘ وہ سوال کرتی ہیں۔ اگر صرف ایک نسل کی صحیح طریقے سے رہنمائی کی جائے، تو بہتر دن اپنے آپ شروع ہو جائیں گے، وہ کہتی ہیں۔

Shilabati Murmu, 9, sits in class with her friends. All of them come to this second school before and after they attend the government-run primary school nearby
PHOTO • Joydip Mitra

۹ سال کی شیلابتی مُرمو اپنے دوستوں کے ساتھ کلاس میں۔ وہ سبھی قریب کے ایک سرکاری پرائمری اسکول جانے سے پہلے اور بعد میں اس دوسرے اسکول میں آتے ہیں

Shilabati draws a national flag towering over her bare hut
PHOTO • Joydip Mitra

شیلابتی اپنی جھونپڑی کے سامنے لہراتا قومی پرچم بنا رہی ہے

Reba Murmu, with the short hair, thinking about how to assess the drawing abilities of her students, who stand in queue in the background to collect breakfast
PHOTO • Joydip Mitra

ریبا مُرمو (کھڑی) سوچ رہی ہیں کہ دن کا ناشتہ لینے کے لیے انتظار کر رہے اپنے طالب علموں (بیک گراؤنڈ میں) کی ڈرائنگ صلاحیتوں کی جانچ کیسے کی جائے

The kids invent their own games – a favourite is diving on a stack of dry straw from high up – in a school space that gives them the freedom to grow
PHOTO • Joydip Mitra

بچے اسکول کے ماحول میں جہاں انھیں آگے بڑھنے کی آزادی ملتی ہے، اپنے خود کے کھیلوں کی ایجاد کرتے ہیں – ان میں سے ایک پسندیدہ کھیل ہے اونچائی سے سوکھے پوال کے ڈھیر پر کودنا

Anjali Mandi, 13, is a student in Class 7 at the school, as well as a babysitter for her younger siblings
PHOTO • Joydip Mitra

۱۳ سالہ انجلی مانڈی، اسکول میں ۷ویں کلاس کی طالبہ ہے، ساتھ ہی اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کے لیے دایہ بھی ہے

Balu, 4, follows his sister, Manika , 11,  to school every day, and plays in the crèche, perhaps impatient to himself reach school-going age
PHOTO • Joydip Mitra

۴ سال کا بالو ہیمبرم، ۱۱ سال کی اپنی چچیری بہن، منیکا مرمو کے ساتھ روزانہ اسکول جاتا ہے اور کریچ میں کھیلتا ہے، شاید خود اسکول جانے والی عمر تک پہنچنے کے لیے بے قرار ہے

Students line up to have their homework reviewed by Mala Hansda, one of the teachers in Murmu’s school. Mala is from Chatna town and has done a Master’s degree in Philosophy from Bankura University. She is now preparing to take an exam that recruits government employees. Meanwhile, the Rs. 2000 salary she earns at Rebadi’s school helps her move along
PHOTO • Joydip Mitra

ٹیچروں میں سے ایک، مالا ہنسدا کو اپنا ہوم ورک دکھانے کے لیے طالب علم لائن میں کھڑے ہیں۔ مالا چھتنا ٹاؤں کی رہنے والی ہیں اور ان کے پاس بانکورا یونیورسٹی سے فلاسفی میں ایم اے کی ڈگری ہے۔ وہ سرکاری ملازمین کی تقرری والا امتحان دینے کی تیاری کر رہی ہیں۔ ریباڈی کے اسکول سے وہ جو ۲۰۰۰ روپے کماتی ہیں، اسے سے ان کا خرچ چلتا ہے

A little girl who has not yet been named gets her first pair of shoes from a non-governmental organisation
PHOTO • Joydip Mitra

ایک چھوٹی لڑکی جس کا ابھی تک نام نہیں رکھا گیا ہے – اس کا صرف عرفی نام ہے، کاؤٹیا – اسے ایک غیر سرکاری تنظیم سے جوتے کی پہلی جوڑی ملی ہے

Reba Murmu distributing exercise books to students. This is one reason parents too support this school – everything here is given for free
PHOTO • Joydip Mitra

ریبا مرمو طالب علموں کو کاپیاں بانٹ رہی ہیں۔ یہ ایک سبب ہے جس کی وجہ سے والدین بھی اس اسکول کی حمایت کرتے ہیں – یہاں سب کچھ مفت میں دیا جاتا ہے

Binata Hembram, 8, is always smiling radiantly, and clearly loves her school work
PHOTO • Joydip Mitra

۸ سال کی بِناتا ہیمبرم، ہمیشہ اپنی کاپیوں اور اسکول کے کام سے خوش ہو کر مسکراتی ہے

Piyali Kisku is just 11 but wants to learn algebra. She wants to be a doctor. Her parents own very little land, but this school has allowed Piyali to dream big
PHOTO • Joydip Mitra

۱۱ سال کی پیالی کِسکو الجیبرا سیکھنا اور ڈاکٹر بننا چاہتی ہے۔ اس کے والدین کے پاس بہت کم زمین ہے، لیکن اس اسکول نے پیالی کو بڑا خواب دیکھنے کا موقع دیا ہے

A girl’s self-portrait, along with her surroundings
PHOTO • Joydip Mitra

ایک لڑکی کا خود کا خاکہ، اس کے پس منظر کے ساتھ

The students look forward to picnics on the sandbanks of the river in the village
PHOTO • Joydip Mitra

طلبہ گاؤں کی دوارکیشور ندی کے ریت کے میدان میں پکنک منانے کے لیے پرجوش ہیں

مارچ ۲۰۱۷ سے، مضمون نگار ایک ایسے گروپ کا حصہ رہے ہیں جو ریبا مرمو کے اسکول کو قلم، پینسل، نوٹ بک، ڈرائنگ شیٹ، گرم کپڑے، جوتے اور کتابوں سے مدد کرتا ہے؛ وہ بچوں کا یومیہ ٹفن تیار کرنے کے لیے ایک ماہانہ رقم بھی دیتے ہیں۔ مرمو نے مہمانوں کے ٹھہرنے کے لیے اپنے گھر میں دو کمروں کو درست کیا ہے۔ مضمون نگار کا گروپ اُن دوستوں اور رشتہ داروں سے، جن کے بچے ہیں، درخواست کرتا ہے کہ وہ چاچن پور جائیں اور وہاں قیام کریں، تاکہ ان کے بچے ریباڈی کے طلبہ کے ساتھ دوستی کریں اور ’’اپنے شہروں کے باہر کے دباؤ اور خوشیوں کے بارے میں جان سکیں۔‘‘

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Joydip Mitra

Joydip Mitra is a freelance photographer based in Kolkata, who documents people, fairs and festivals across India. His work has been published in various magazines, including ‘Jetwings’, ‘Outlook Traveller’, and ‘India Today Travel Plus’.

Other stories by Joydip Mitra
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez