’’کاش بابا یہاں میرے پاس ہوتے،‘‘ پرینکا مونڈل نے سرگوشی میں کہا۔ پرینکا اپنی غمگین یادوں کے ساتھ چمکدار سرخ اور سنہرے لباس میں  ملبوس، اپنی گود میں پھولوں کی لڑی لیے گلابی اور نیلے رنگ کی پالکی میں بیٹھی تھیں۔ یہ پالکی انہیں رجت جوبلی گاؤں میں ان کے شوہر کے گھر لے جانے والی تھی۔

تیئس سالہ پرینکا بھی مغربی بنگال کے جنوبی ۲۴ پرگنہ ضلع کے اِسی گاؤں کی رہنے والی ہیں۔ ان کی شادی ۷  دسمبر ۲۰۲۰ کو ۲۷ سالہ ہیرن مئے مونڈل سے ہو رہی تھی۔ ہیرن مئے پڑوس کے مکان میں رہتے تھے اور کولکاتا کے ایک کپڑے کی دکان میں بطور فلور ایکزکیوٹیو کام کرتے تھے۔ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے اور ۲۰۱۹ میں ہی شادی کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔

لیکن سندربن کی لاہری پور گرام پنچایت میں واقع اس گاؤں میں پرینکا کی شادی اس وقت ملتوی کرنی پڑی جب ان کے ۴۵ سالہ والد ارجن مونڈل ۲۹ جولائی ۲۰۱۹ کو ایک باگھ کے حملے میں مارے گئے تھے۔ ارجن ایک ماہی گیر تھے اور کیکڑوں کے شکار کے لیے سندربن کے ٹائیگر ریزرو کے قلب میں واقع پیرکھلی غازی کے جنگلاتی علاقہ میں ہمیشہ آتے جاتے رہتے تھے۔ ان کی لاش کا کوئی سراغ نہیں ملا تھا۔

جب بھی ارجن جنگلوں میں کیکڑوں کا شکار کرنے جاتے تھے، ان کی فیملی کو ان کی صحیح سلامت واپسی کا کھٹکا لگا رہتا تھا۔ جب جولائی ۲۰۱۹ میں آخری دفعہ وہ شکار پر نکلے تھے، تو ان کے ذہن میں ان کی بیٹی کی شادی کا خیال تھا۔

ان کی بیوی پشپا کہتی ہیں، ’’پرینکا کی شادی کے لیے ہمیں پیسوں کی ضرورت تھی۔ ارجن جنگل جانے سے پہلو تہی نہیں کر سکتے تھے، لیکن انہیں احساس تھا کہ ان کے ساتھ کچھ برا ہونے والا ہے۔‘‘

PHOTO • Ritayan Mukherjee

شادی کی تقریب سے قبل اپنے آنجہانی والد کی تصویر پر پھول چڑھاتے ہوئے پرینکا مونڈل

ارجن کی ناگہانی موت کے بعد پشپا کو تنہا ہی گھر کی دیکھ بھال، بیٹی پرینکا اور بیٹے راہل کی پرورش کی ذمہ داری اٹھانی پڑی تھی۔ وہ کہتی ہیں، ’’پرینکا کی شادی اس کے والد کا خواب تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ ہر قیمت پر مجھے اس خواب کو پورا کرنا ہے۔ میں کب تک اس سے انتظار کرواتی؟‘‘ شادی پر تقریباً ایک لاکھ ۷۰ ہزار روپے خرچ ہوئے۔  یہ رقم عمر کی تیسری دہائی میں قدم رکھ چکی پشپا کے لیے بہت زیادہ تھی۔

ارجن کی موت کے صدمے، فیملی کی ناگفتہ بہ مالی حالت اور اپنے بچوں کا واحد سہارا ہونے نے پشپا کی صحت کو بہت متاثر کیا۔ وہ دائمی تناؤ محسوس کرنے لگیں اور ڈپریشن کا شکار ہوگئیں۔ جہاں ۲۰ مئی ۲۰۲۰ کو آنے والے امفن طوفان نے حالات کو بد سے بدتر کر دیا، تو وہیں کووڈ۔۱۹ وبائی مرض نے ان کے تناؤ اور پریشانیوں میں مزید اضافہ کیا۔ ان کے بلڈ پریشر میں اتار چڑھاؤ آنے لگا اور کھانے میں غذائیت کی کمی خون کی کمی کا باعث بننے لگی۔ پشپا کہتی ہیں، ’’لاک ڈاؤن کے دوران کئی دن ایسے گزرے جب ہم نے ٹھیک ڈھنگ سے کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔‘‘

والد کی موت کے بعد صرف ۲۰ سال کی عمر میں راہل پر خاندان کے لیے زیادہ پیسے کمانے کا دباؤ تھا۔ انہوں نے کھیتوں اور تعمیراتی مقامات پر بطور دہاڑی مزدور کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ ماں کی بگڑتی صحت نے انہیں مزید محنت کرنے پر مجبور کیا۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کام متاثر ہونے سے چند مہینے قبل تک انہوں نے ۸۰۰۰ روپے جمع کر لیے تھے۔ یہ سارے روپے انہوں نے شادی پر خرچ کیے۔

پشپا نے ایک مقامی ساہوکار سے ۳۴ فی صد سالانہ سود کی شرح پر ۵۰ ہزار روپے قرض لیے۔ اس کے عوض انہیں اپنے دو چھوٹے چھوٹے کمروں اور ایک باورچی خانے پر مشتمل مکان کو گروی رکھنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ اگر فیملی چھ ماہ کی مدت تک قرض کا نصف حصہ واپس کر سکی، تو اسے مکمل ادائیگی کے لیے مزید چھ ماہ کا وقت دیا جا سکتا ہے۔ پشپا کہتی ہیں، ’’اگر ہم پیسے واپس نہیں کر سکے، تو مجھے اندیشہ ہے کہ ہم گھر واپس نہیں لے پائیں گے۔ ہم سڑک پر ہوں گے۔‘‘

لیکن کچھ امید افزا چیزیں بھی ہیں، جن کے لیے وہ شکر گزار ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہیرن مئے [ان کے داماد] ایک اچھے انسان ہیں۔ جب لاک ڈاؤن لگا ہوا تھا، تو انہوں نے واقعی ہماری بہت مدد کی تھی۔ وہ گھر آتے، شاپنگ کراتے اور ضرورت کی چیزیں خریدتے۔ اس وقت دونوں کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔ ان کے گھر والوں نے جہیز کا مطالبہ بھی نہیں کیا۔‘‘

PHOTO • Ritayan Mukherjee

پشپا مونڈل ایک مقامی جوہری کی دکان سے پولا، بنگالی دلہنوں کے پہننے والی مرجان کی چوڑیاں، خریدتی ہوئیں۔ وہ کہتی ہیں، ’میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ مجھے یہ کام خود ہی کرنا پڑے گا‘

تقریب کے دن پرینکا نے اپنی خوبصورت سبز، سرخ اور سنہری ساڑی پہن رکھی تھی، ساڑی سے میل کھاتے سنہرے زیورات پہنے تھے اور شادی کا میک اپ لگا رکھا تھا۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ شادی کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ان کا گھر گروی رکھا جا چکا ہے۔

شام کی تقریب میں مونڈل خاندان کی رہائش گاہ پر ۳۵۰ مہمان جمع ہوئے۔ گھر کو چمکدار زرد روشنی سے سجایا گیا تھا، جس پر وہاں موجود لوگوں نے چار چاند لگا دیا تھا۔ ان کے گھر جمع ہونے والے افراد میں ماہی گیر، شہد جمع کرنے والے، اساتذہ، کشتی بنانے والے، مقامی موسیقار اور رقص کرنے والے فنکار شامل تھے۔ یہ سبھی لوگ ارجن کو سندربن کے ایک ایسے شخص کے طور پر جانتے تھے جو مقامی لوگوں کی زندگیوں اور ان کے دکھ درد کے ساتھ گہرے طور پر جڑے ہوئے تھے اور ان کی تحفظ اور فلاح و بہبود کا خیال رکھتے تھے۔

شادی کے جشن میں شامل ہونے آئیں بہت سی خواتین کھانا بنانے اور دوسرے انتظامات میں مدد کر رہی تھیں۔ پشپا بیک وقت خوشی اور دباؤ دونوں محسوس کر رہی تھیں۔ شادی کے دوران وہ ایک سے زیادہ دفعہ بے ہوش ہوئیں، لیکن انہیں اس بات کا سکون تھا کہ بالآخر ہیرن مئے اور پرینکا کی شادی ہو رہی ہے۔

شادی کی تقریبات ختم ہونے کے بعد پشپا کو قرض دہندگان سے نمٹنا تھا۔ انہیں فوری طور پر سجاوٹ والوں اور الیکٹریشن کو ۴۰ ہزار روپے ادا کرنے تھے۔ راہل کہتے ہیں، ’’جب لوگ پیسے مانگنے آئیں گے تو میری ماں کی صحت اور خراب ہو جائے گی۔ میں پیسے کمانے کے لیے اور زیادہ محنت کروں گا۔‘‘

ارجن کی موت کے بعد معاوضے کے لیے جمع کی گئی درخواست پر پشپا کو ابھی ریاستی نوکرشاہی کے ساتھ ایک زبردست جنگ لڑنی ہے۔ باگھ کے حملے میں مارے جانے والے شخص کے اہل خانہ مغربی بنگال حکومت کے محکمہ جنگلات، محکمہ ماہی گیری اور ریاست کے گروپ پرسنل ایکسیڈنٹ انشورنس اسکیم کے تحت دیے جانے والے ۴ سے ۵ لاکھ روپے کے معاوضہ کی اہلیت رکھتے ہیں۔

PHOTO • Ritayan Mukherjee

پشپا کو لوکل ڈسٹرکٹ لیگل سروس اتھارٹی کا ایک خط ملا ہے۔ اس خط میں ارجن کی موت کے معاوضے کے دعوے کی اگلی سماعت کے سلسلے میں انہیں کولکاتا میں پیش ہونے کے لیے کہا گیا ہے

لیکن نوکر شاہی کی بھول بھلیاں اور اس میں شامل قانونی اخراجات کے پیش نظر اکثر خاندان درخواست دینے سے گریز کرتے ہیں۔ سال ۲۰۱۶ میں حق اطلاع ( آر ٹی آئی ) کی ایک درخواست کی بیناد پر ۲۰۱۷ میں کی گئی پاری کی ایک تفتیش سے معلوم ہوتا ہے کہ پچھلے چھ برسوں میں صرف پانچ خواتین نے معاوضے کے لیے عرضیاں داخل کیں تھیں۔ ان عرضی گزاروں میں سے صرف تین کو رقم ملی تھی، وہ بھی پوری نہیں ملی تھی۔

ارجن کیکڑے کا شکار کرنے سندربن ریزرو میں اکثر جایا کرتے تھے۔ وہ ہر دفعہ دو سے تین دن کے لیے جنگل کے قلب تک جاتے تھے۔ اپنے شکار کو گاؤں کے ایک بچولیے سے فروخت کرکے وہ ہر مہینے ۱۵ ہزار سے ۳۰ ہزار روپے کے درمیان  کما لیتے تھے۔  یہ کمائی شکارکے سائز پر منحصر ہوتی تھی۔

سندربن کے جنگلات باگھوں کی نوٹیفائیڈ اور پرخطر رہائش گاہ ہیں۔ یہ ۱۷۰۰ مربع کلومیٹر ناقابل تسخیر بنیادی علاقوں اور تقریباً ۸۸۵ مربع کلومیٹر کے بفر علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ محکمہ جنگلات بفر علاقوں میں پرمٹ اور کشتی کے لائسنس جاری کرتا ہے۔ اس کے تحت مچھلی اور کیکڑا پکڑنے، اور شہد اور لکڑی جمع کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ لیکن ممنوعہ علاقوں میں داخل ہونے پر بھاری جرمانہ عائد ہو سکتا ہے۔ ان ممنوعہ علاقوں میں دراندازی کرنے والے کسی شخص کی باگھ کے حملے میں ہوئی موت کی صورت میں اس کا خاندان معاوضے کے دعوے کی اپنی جائز بنیاد کھو سکتا ہے۔

سندربن رورل ڈویلپمنٹ سوسائٹی کے سکریٹری کی حیثیت سے ارجن مونڈل ان خطرات سے بہت گہرے طور پر واقف تھے۔ وہ باگھوں کے حملوں میں بیوہ ہوئی عورتوں کے لیے معاوضے کی لڑائیوں میں سرگرم عمل رہے تھے۔ پچھلی تین دہائیوں میں کم از کم ۳۰۰۰ یا ہر سال تقریباً ۱۰۰ ایسے حملے (مقامی لوگوں، غیر سرکاری تنظیموں اور دیگر افراد کے اندازے کے مطابق) ہوئے۔

پشپا کو معاوضہ ملنے کی امید نہیں ہے، کیونکہ ارجن کی موت تحفظ شدہ جنگل کے ممنوعہ بنیادی علاقے میں ماہی گیری کے دوران ہوئی تھی۔ اپنا دعویٰ پیش کرنے کے لیے انہیں وکیل کی خدمات حاصل کرنے، کولکاتا کا سفر کرنے اور دستاویزات جمع کرنے کی ضرورت ہوگی۔ جبکہ ان میں سے کسی کام کے لیے ان میں نہ تو توانائی ہے، نہ صحت یا رقم ہے، خاص طور پر شادی میں لیے گئے قرضوں کے بعد۔

راہل کو معلوم نہیں ہے کہ ان قرضوں کی ادائیگی کیسے کی جائے گی۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہمیں گھریلو سامان فروخت کرنا پڑ سکتا ہے۔‘‘ یا بدتر حالات میں، جیسا کہ ان کی ماں کو اندیشہ ہے، انہیں بھی اپنے والد کی طرح زندگی گزارنے کے لیے جنگلوں کا رخ کرنا پڑ سکتا ہے۔

PHOTO • Ritayan Mukherjee

اپنے والد کی موت کے بعد ۲۰ برس کی عمر میں  راہل مونڈل پر فیملی کے لیے کمانے کا دباؤ ہے: ’ہم اس وقت جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن مجھے امید ہے کہ میں ایک نہ ایک دن سب ٹھیک کردوں گا‘

PHOTO • Ritayan Mukherjee

راہل (دائیں) اور ان کے رشتہ دار متھن، دو مقامی لوگوں کی مدد سے پرینکا کی شادی کے لیے خریدے گئے المیرے کو کشتی سے اتراتے ہوئے۔ مال بردار کشتی کو قریب ترین قصبے گوسابا سے رجت جوبلی گاؤں پہنچنے میں پانچ گھنٹے لگتے ہیں

PHOTO • Ritayan Mukherjee

تقریبات شروع ہونے سے قبل سجاوٹ کا معائنہ کرتی پرینکا

PHOTO • Ritayan Mukherjee

پشپا اپنی بیٹی کی شادی کے دن دعا دینے کے لیے آشیرباد کی تقریب انجام دیتے ہوئے

PHOTO • Ritayan Mukherjee

رشتہ داروں نے گائے ہولود کی تقریب میں پرینکا پر پانی ڈالا۔ یہ ایک رسم ہے جس میں شادی کی صبح ہلدی کے پیسٹ کے ساتھ دلہن کو غسل کرایا جاتا ہے

PHOTO • Ritayan Mukherjee

پرینکا اور ان کے رشتہ دار دوپہر کے وقت شادی سے قبل کی ایک تقریب میں

PHOTO • Ritayan Mukherjee

ہیرن مئے (بیچ میں)، ان کی نابینا بھانجی جُھمپا (ان کی دائیں جانب) اور کنبہ کے دیگر افراد شادی کے مقام کی طرف روانہ ہوتے ہوئے

PHOTO • Ritayan Mukherjee

لوک فنکار ِنتیانند سرکار (بائیں سے دوسرے) اور ان کا بینڈ ہیرن مئے کی شادی کے جلوس میں پرفارم کرتے ہوئے

PHOTO • Ritayan Mukherjee

ارجن مونڈل کے رشتہ دار ان کی آتما کو کھانا پیش کرتے ہوئے جذباتی ہوگئے

PHOTO • Ritayan Mukherjee

پشپا دائمی افسردگی اور تناؤ میں مبتلا ہیں۔ تقریبات کے دوران وہ ایک سے زیادہ بار بیہوش ہوئیں

PHOTO • Ritayan Mukherjee

پرینکا کو لکڑی کے تختے پر اٹھا کر منڈپ تک لے جاتے ہوئے رشتہ دار۔ انہوں نے دولہا کو دیکھنے سے قبل اپنے چہرے کو پان کے پتے سے ڈھانپ لیا ہے

PHOTO • Ritayan Mukherjee

سبھو درشٹی کے دوران پرینکا۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب منڈپ میں دلہن اور دولہا آمنے سامنے آتے ہیں

PHOTO • Ritayan Mukherjee

بالآخر ہیرن مئے اور پرینکا کی شادی ہوگئی اور وہ جشن کی چمک دمک میں ڈوب گئے

PHOTO • Ritayan Mukherjee

پرینکا کی ایک بزرگ رشتہ دار ہیرن مئے کے ساتھ مذاق کرتے ہوئے۔ بوڑھی عورتوں کا دولہے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کا رواج ہے

PHOTO • Ritayan Mukherjee

پشپا اپنی نئی شادی شدہ بیٹی کو آشیرواد دے رہی ہیں

PHOTO • Ritayan Mukherjee

نتیانند سرکار اپنے پرفارمنس سے شادی کی تقریب کو محظوظ کرتے ہوئے۔ وہ کسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک فنکار بھی ہیں، جو لوک آرٹ کی مختلف قسمیں، جیسے جھمور گانے، ما بون بی بی ڈرامے اور پالا گان،  پیش کرتے ہیں

PHOTO • Ritayan Mukherjee

پرینکا اپنے گھر میں رات گزارنے کے بعد، ہیرن مئے کے گھر جانے کے لیے تیار ہو رہی ہیں

PHOTO • Ritayan Mukherjee

پشپا اپنی بیٹی کی رخصتی کے خیال سے کچن کے اندر روتی ہوئی۔ وہ روتے ہوئے کہتی ہیں، ’وہ میرے لیے ایک ستون کی طرح تھی۔ اب وہ ہمیشہ کے لیے جا رہی ہے، میں اس کے بغیر کیسے زندہ رہوں گی؟‘

PHOTO • Ritayan Mukherjee

رخصتی سے قبل راہل مونڈل اپنی بہن اور بہنوئی کو گلے لگا کر روتے ہوئے

PHOTO • Ritayan Mukherjee

پالکی میں بیٹھی اشک آلود آنکھوں کے ساتھ پرینکا، یہ پالکی انہیں اپنے نئے گھر لے جائے گی

اس اسٹوری کا متن اروشی سرکار کا تحریر کردہ ہے۔ اس میں پاری کے لیے کی گئی ان کی اور رِتائن مکھرجی کی رپورٹنگ شامل ہے۔

مترجم: شفیق عالم

Ritayan Mukherjee

Ritayan Mukherjee is a Kolkata-based photographer and a PARI Senior Fellow. He is working on a long-term project that documents the lives of pastoral and nomadic communities in India.

Other stories by Ritayan Mukherjee
Translator : Shafique Alam
shafique.aalam@gmail.com

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam