دیوی اب کسی بھی وقت زمین پر اترنے والی ہیں، بشرطیکہ نتیانند سرکار کو پوشاک پہننے کا موقع ملے۔ منظوم اداکاری شروع ہونے سے پہلے ہوا میں آواز گونجتی ہے، ’’سات بج چکے ہیں۔ رجت جوبلی گاؤں کے پیارے بھائی بہنوں، اپنی چادریں، ساڑیاں، کپڑے لے کر آ جاؤ۔ ہمیں ایک سبز کمرہ تیار کرنا ہے۔ ’پالا گان‘ منسا ایلو مورتے [دیوی کی زمین پر آمد] بس شروع ہی ہونے والا ہے۔‘‘ جنوبی ۲۴ پرگنہ ضلع کے گوسابا بلاک کے اس گاؤں میں ستمبر کی شام کو ہونے والا یہ اعلان اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ آنے والی رات خوشی اور جشن سے بھری ہوگی۔

ایک گھنٹہ کے اندر عارضی سبز رنگ کا کمرہ بن کر تیار ہو گیا، جس کے اندر چمکدار پوشاک پہنے فنکار میک اپ کر رہے ہیں، زیورات پہن رہے ہیں اور غیر تحریر کردہ اسکرپٹ سے اپنے اپنے حصے کی لائنوں کی مشق کر رہے ہیں۔ اس پوری ٹیم کی قیادت کرنے والے نتیانند سرکار کی پوشاک ہلکے رنگ کی ہے، اُن خوش مزاج ڈانسر (رقاص) سے مختلف جن سے میری ملاقات ہرنمے اور پرینکا کی شادی کے دوران ہوئی تھی۔ آج وہ منسا ، یعنی سانپوں کی دیوی کا کردار ادا کریں گے۔ وہ میری ملاقات دوسرے فنکاروں سے کراتے ہیں، جو آج شام کو منعقد ہونے والے پالا گان میں شرکت کریں گے۔

’پالا گان‘ مقبول دیوی کی اساطیری داستان، ’منگل کاویہ‘ پر مبنی ایک منظوم ڈرامہ ہے۔ یہ منظوم داستانیں اکثر ہندوستان بھر میں پوجے جانے والے متعدد دیوتاؤں جیسے کہ شیو کی تعریف میں سنائی یا گائی جاتی ہیں، لیکن اکثر و بیشتر بنگال کے مقامی دیوی دیوتاؤں پر مبنی ہوتی ہیں جیسے کہ دھرما ٹھاکر، سانپوں کی دیوی ’ماں منسا‘ ، چیچک کی دیوی ’شیتلا‘ ، اور جنگل کی دیوی ’بون بی بی‘ ۔ سامعین کو مسحور کر دینے والے ان منظوم ڈراموں کو پیش کرنے کے لیے فنکاروں کے قافلے سال بھر سندر بن کے جزیروں میں گھومتے رہتے ہیں۔

مغربی بنگال، آسام اور بہار کے کئی حصوں میں اسٹیج پر پیش کیا جانے والا منظوم ڈرامہ، منسا پالا گان ، ایک اہم اساطیری نظم ’منسا منگل کاویہ‘ پر مبنی ہے۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ یہ نظم ۱۳ویں صدی میں لکھی گئی تھی، جو کہ خیالی پرانی لوک داستانوں پر مبنی تھی۔ بنگال میں ’منسا‘ جنوبی ۲۴ پرگنہ کے ساتھ ساتھ بانکورہ، بیر بھوم اور پرولیا ضلعوں کے دلتوں کی ایک مقبول دیوی ہیں۔ سندر بن کے ہندوستانی علاقے میں، دور دراز گاؤوں میں رہنے والے کئی لوگ ہر سال وشو کرما پوجا کے دن (اِس سال ۱۷ ستمبر کو) سانپوں کی اس دیوی کی پوجا کرتے ہیں اور ’پالا گان‘ ڈرامہ پیش کرتے ہیں۔

Left: Snake goddess Manasa is a popular among the Dalits of South 24 Paraganas as well as Bankura, Birbhum, and Purulia districts. On the day of Viswakarma Puja (September 17 this year) many households in remote villages in the Indian expanse of the Sundarbans worship the snake goddess and perform pala gaan.  Right: Older women in Rajat Jubilee village welcome others in the community to the Puja.
PHOTO • Ritayan Mukherjee
Left: Snake goddess Manasa is a popular among the Dalits of South 24 Paraganas as well as Bankura, Birbhum, and Purulia districts. On the day of Viswakarma Puja (September 17 this year) many households in remote villages in the Indian expanse of the Sundarbans worship the snake goddess and perform pala gaan.  Right: Older women in Rajat Jubilee village welcome others in the community to the Puja.
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بائیں: سانپوں کی دیوی ’منسا‘ جنوبی ۲۴ پرگنہ کے ساتھ ساتھ بانکورہ، بیر بھوم، اور پرولیا ضلع کے دلتوں کے درمیان کافی مقبول ہیں۔ سندر بن کے ہندوستانی علاقے میں، دور دراز گاؤوں میں رہنے والے کئی لوگ ہر سال وشو کرما پوجا کے دن (اِس سال ۱۷ ستمبر کو) سانپوں کی اس دیوی کی پوجا کرتے ہیں اور ’پالا گان‘ ڈرامہ پیش کرتے ہیں۔ دائیں: رجت جوبلی گاؤں کی بزرگ عورتیں پوجا میں شریک ہونے والی برادری کی دیگر عورتوں کا استقبال کر رہی ہیں

منسا کی مہارت سے متعلق کہانیوں کو سمیٹے رقص و موسیقی پر مبنی یہ تہوار، دراصل اس جزیرہ کے زہریلے سانپوں سے سندر بن کے لوگوں کی حفاظت کے لیے منعقد کی جانے والی ایک دعائیہ تقریب ہے۔ یہاں پر ۳۰ سے زیادہ قسم کے سانپ پائے جاتے ہیں، جس میں سے ایک سب سے زہریلا سانپ کنگ کوبرا بھی ہے، جس کے کاٹنے سے ہونے والی موت یہاں پر عام بات ہے، لیکن اس خطے میں اس کی رپورٹ اکثر نہیں کی جاتی ہے۔

آج کی پرفارمنس (پیشکش) ایک دولت مند شیو بھکت، چاند سداگار کی کہانی پر مبنی ہے، جو منسا کو عظیم دیوی ماننے سے انکار کر دیتا ہے، حالانکہ وہ اس کا دل جیتنے کی کوشش بار بار کرتی ہیں۔ اس کے نتیجہ میں منسا بدلے کی کارروائی کے طور پر پہلے تو سمندر میں چاند سداگار کی مال بردار کشتی کو تباہ کر دیتی ہیں اور پھر اس کے سات بیٹوں کو سانپ کی شکل میں کاٹ کر ہلاک کر دیتی ہیں۔ یہ سلسلہ یہیں نہیں رکتا۔ وہ چاند سداگار کے ایک اور بیٹے، لکھندر کو اُس کی شادی والی رات کو ہلاک کر دیتی ہیں۔ غم کے اس پہاڑ سے پاگل ہو چکی لکھندر کی بیوی بیہولا اپنے شوہر کی لاش کے ساتھ ’سورگ‘ (جنت) پہنچ جاتی ہے اور اس کی زندگی واپس کرنے کی مانگ کرتی ہے۔ وہاں پر اِندر بھگوان اسے مشورہ دیتے ہیں کہ وہ چاند سداگار کو سمجھائے اور دیوی منسا کی پوجا کے لیے اسے آمادہ کرے۔ تبھی چاند سداگار بھی اپنی ایک شرط رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ منسا دیوی کو صرف اپنے بائیں ہاتھ سے ہی پھول چڑھائے گا اور اپنے دائیں ہاتھ کو شیو کی پوجا کے لیے آزاد رکھے گا۔ منسا اس پوجا کو قبول کر لیتی ہیں اور چاند سداگار کی تمام دولت کے ساتھ ساتھ لکھندر کی زندگی واپس کر دیتی ہیں۔

منسا کا کردار ادا کرنے والے نتیانند ۵۳ سال کے ایک کسان ہیں اور گزشتہ ۲۵ سال سے زیادہ عرصے سے بطور پالا گان فنکار اس فن کو پیش کر رہے ہیں۔ وہ مختلف پالا گان کے لیے ایک سے زیادہ ٹیم کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’سال ۲۰۱۹ سے حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ اس سال بھی، وبائی مرض کے سبب ہمیں دو چار بکنگ ہی ملی ہے، شاید اپنی زندگی میں سب سے کم۔ ہمیں ایک مہینے میں ۴ یا ۵ بکنگ مل جایا کرتی تھی، لیکن اس سال ہمیں صرف دو بکنگ ہی ملی۔ کم شو کا مطلب ہے کم آمدنی۔ پہلے، ہم میں سے ہر ایک فنکار ہر شو سے ۸۰۰-۹۰۰ روپے کماتا تھا؛ اب یہ آمدنی بھی گھٹ کر صرف ۴۰۰-۵۰۰ روپے رہ گئی ہے۔‘‘

اسی درمیان نتیانند کے بغل میں بیٹھے بن مالی بیاپاری ہماری گفتگو میں شامل ہوتے ہوئے تفصیل بتانا شروع کرتے ہیں کہ دیہی تھیٹر کی کتنی مانگ ہو سکتی ہے، حالانکہ اس کے لیے نہ تو کوئی سبز کمرہ ہوتا ہے، نہ مناسب اسٹیج، نہ ہی اثردار آواز اور روشنی کا انتظام، بلکہ بیت الخلاء جیسی مناسب سہولت بھی نہیں ہوتی۔ بقول بن مالی بیاپاری، ’’یہ شو ۴-۵ گھنٹے تک چلتا ہے۔ یہ بہت ہی تھکا دینے والا کام ہے۔ ہم اسے شوقیہ طور پر پیش کرتے ہیں، نہ کہ مالی منافع کے لیے۔‘‘ انہیں اس ڈرامہ میں دو کردار ادا کرنے ہیں: ایک کردار کال ناگنی سانپ کا ہے جو لکھندر کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے، اور دوسرا کردار ایک مزاحیہ کا ہے جسے بھر کہتے ہیں، جو اس تناؤ بھرے ڈرامہ میں ضروری راحت فراہم کرتا ہے۔

PHOTO • Ritayan Mukherjee

۵۳ سالہ ایک کسان اور ماہر پالا گان فنکار، نتیانند سرکار دیوی منسا کا کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ ۲۵ سال سے بھی زیادہ عرصے سے فن کی اس شکل کو پیش کر رہے ہیں۔ لیکن ۲۰۱۹ میں کووڈ۔۱۹ وبائی مرض شروع ہونے کے بعد اُن کے شو کی بکنگ اتنی کم ہو گئی ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ وہ بتاتے ہیں، ’’پہلے، ہم میں سے ہر ایک فنکار ہر شو سے ۸۰۰-۹۰۰ روپے کماتا تھا؛ اب یہ آمدنی بھی گھٹ کر صرف ۴۰۰-۵۰۰ روپے رہ گئی ہے‘‘

موسیقار اپنے سُر لگانا شروع کرتے ہیں، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ اداکاری شروع ہونے والی ہے۔ نتیانند اور تمام مرد فنکار پر مبنی ان کی ٹیم کے سبھی افراد رنگین پوشاک اور زیورات پہنے اپنے سر کو سیدھا کرکے اسٹیج کی طرف کھڑے ہو جاتے ہیں۔ شو کی شروعات ایک پرارتھنا (دعائیہ کلمات) سے ہوتی ہے، جس میں دیوی منسا اور گاؤں کے بزرگوں سے دعا طلب کی جاتی ہے۔ وہاں موجود ناظرین کا مجمع خاموشی سے اس پورے شو کو دیکھتا ہے۔ وہ اپنی جان پہچان کے لوگوں کو اس مذہبی ڈرامہ میں شاندار کردار ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ یہاں پر کوئی بھی اداکار پیشہ ور نہیں ہے – یہ سبھی کسان، زرعی مزدور یا موسم کے لحاظ سے ہجرت کرنے والے کارکن ہیں۔

نتیانند کی فیملی میں چھ لوگ ہیں، جن کی انہیں دیکھ بھال کرنی ہوتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’اس سال سمندری طوفان، ’یاس‘ کی وجہ سے زراعت سے میری ایک پیسے کی بھی آمدنی نہیں ہوئی۔ میرے کھیت میں کھارا پانی گھس گیا اور اب حد سے زیادہ بارش ہو رہی ہے۔ میری ٹیم کے لوگوں کو بھی ایسی ہی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جن میں سے کچھ تو کسان ہیں اور کچھ لوگ دوسری نوکریاں کرتے ہیں۔ راحت کی بات یہ ہے کہ مجھے ہر مہینے حکومت سے ۱۰۰۰ روپے ملتے ہیں [ لوک پرسار پرکلپ کے تحت، جو کہ ریاستی حکومت کی ایک اسکیم ہے جس کے تحت لوک فنکاروں کو، چاہے وہ نوجوان ہوں یا بزرگ، بھتہ یا ماہانہ پنشن ملتا ہے]۔‘‘

بدقسمتی سے، نوجوان نسل کے لڑکوں کی پالا گان پرفارم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں، جس میں خود نتیانند کا بیٹا بھی شامل ہے۔ لاہری پور پنچایت کے گاؤوں سے کئی لوگ تعمیراتی مقامات پر کام کرنے یا زرعی مزدوری کرنے کے لیے دوسری ریاستوں میں چلے جاتے ہیں۔ نتیانند بتاتے ہیں، ’’ماحول بدل رہا ہے۔ ۳-۵ سال کے بعد، فن کی یہ شکل نایاب ہو سکتی ہے۔‘‘

اسی ٹیم کے ایک اور اداکار، ۴۰ سالہ بسواجیت منڈل کہتے ہیں، ’’سامعین کی ترجیحات بھی بدل گئی ہیں۔ موبائل انٹرنیٹ روایتی اداکاری کی جگہ لینے لگا ہے۔‘‘

کئی گھنٹے تک اداکاری دیکھنے اور فنکاروں سے گفتگو کرنے کے بعد، اب میرے جانے کا وقت آ گیا ہے۔ میں وہاں سے جیسے ہی روانہ ہونے لگتا ہوں، نتیانند تیز آواز میں کہتے ہیں: ’’سردیوں میں ضرور آئیے گا۔ ہم لوگ اُس وقت ماں بون بی بی پالا گان کی اداکاری کر رہے ہوں گے۔ آپ شاید اسے بھی دستاویزی شکل دینا چاہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ مستقبل میں لوگ اس فن کے بارے میں صرف تاریخ کی کتابوں میں ہی پڑھ پائیں گے۔‘‘

PHOTO • Ritayan Mukherjee

منسا پالا گان کے تمام مرد اداکاروں پر مشتمل ٹیم کے ایک فنکار، بسوا جیت منڈل شو کے شروع ہونے سے پہلے عارضی سبز کمرے میں اپنی پوشاک و زیورات اور میک اپ چیک کر رہے ہیں

PHOTO • Ritayan Mukherjee

ایک فنکار اسٹیج پر جانے سے تھوڑی دیر پہلے رقص کے لیے اپنے پیروں میں گھنگھرو باندھ رہا ہے

PHOTO • Ritayan Mukherjee

بن مالی بیاپاری کو اس ڈرامہ میں دو کردار ادا کرنے ہیں: ایک کردار کال ناگنی کا ہے اور دوسرا کردار بھر نام کے ایک مزاحیہ کردار کا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ شو ۴-۵ گھنٹے تک چلے گا۔ دیہی تھیٹر کی مانگ تو ہے، لیکن ’’ہم اسے شوقیہ کرتے ہیں، مالی منافع کے لیے نہیں‘‘

PHOTO • Ritayan Mukherjee

سوپن منڈل اپنے حصہ کی مشق کر رہے ہیں۔ پالا گان کا کوئی تحریری اسکرپٹ نہیں ہوتا، اس لیے تمام فنکاروں کو پوری طرح اپنی یادداشت پر منحصر رہنا پڑتا ہے

PHOTO • Ritayan Mukherjee

شریپد مردھا بھگوان شیو کے پکے عقیدت مند (بھکت) اور ایک دولت مند تاجر، چاند سداگار کا مرکزی کردار ادا کرتے ہیں، جس کا دل منسا دیوی جیتنے کی کوشش کرتی ہیں

PHOTO • Ritayan Mukherjee

ایک موسیقار شو شروع ہونے سے پہلے اپنی زبان سے سنتھیسائزر بجا رہا ہے

PHOTO • Ritayan Mukherjee

ایک موسیقار لکڑی کا کرتال بجا رہا ہے، جس سے وہ پس منظر کی موسیقی فراہم کرتا ہے

PHOTO • Ritayan Mukherjee

نتیانند اور دیگر فنکار اپنی اداکاری شروع ہونے سے پہلے ایک مقامی پنڈال میں دیوی کی پوجا کر رہے ہیں

PHOTO • Ritayan Mukherjee

نتیانند کہتے ہیں، ’’بطور فنکار، ہم سبھی لوگ اسٹیج کا احترام کرتے ہیں۔ یہ ہمارا مندر ہے۔ ہمارے لیے اس کی دعا لینا ضروری ہے‘‘

PHOTO • Ritayan Mukherjee

بائیں طرف سے: سوپن منڈل (چاند سداگار کی بیوی، سناکا کے کردار میں)، نتیانند سرکار (دیوی منسا کے کردار میں)، اور بسواجیت منڈل (چاند سداگار کی بیٹی کے کردار میں) گاؤں کے دیوی دیوتاؤں اور سامعین کے درمیان موجود بزرگوں کی دعائیں لیتے ہوئے اپنی اداکاری شروع کر رہے ہیں

PHOTO • Ritayan Mukherjee

دیوی منسا کا کردار ادا کرنے والے نتیانند اپنی اداکاری سے سامعین کو مسحور کر دیتے ہیں

PHOTO • Ritayan Mukherjee

یہ منظوم اداکاری ایک اہم اساطیری نظم ’منسا منگل کاویہ‘ پر مبنی ہے۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ یہ نظم ۱۳ویں صدی میں لکھی گئی تھی، جو کہ خیالی پرانی لوک داستانوں پر مبنی تھی

PHOTO • Ritayan Mukherjee

رجت جوبلی گاؤں کی اس بزرگ خاتون کی طرح، یہاں پر موجود لوگ حیرت زدہ ہوکر اپنی جان پہچان کے لوگوں کو مذہبی ڈرامہ کے شاندار رول ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں

PHOTO • Ritayan Mukherjee

دیوی منسا کے حکم سے چاند سداگار کے بیٹے لکھندر کو ہلاک کرنے کے لیے بن مالی بیاپاری زہریلے سانپ کال ناگنی کے طور پر اسٹیج پر آتے ہیں

PHOTO • Ritayan Mukherjee

ایک تناؤ بھرے منظر کے دوران منسا کی شکل میں نتیانند اور کال ناگنی سانپ کی شکل میں بن مالی بیاپاری

PHOTO • Ritayan Mukherjee

چیلنج بھرا منظر پیش کرنے کے بعد تھک چکے بن مالی آرام کرنے کے لیے اسٹیج کے پیچھے چلے جاتے ہیں، جہاں پر وہ جسم میں پانی کی کمی کے سبب بیہوش ہو جاتے ہیں۔ یہاں کا کوئی بھی فنکار کل وقتی پیشہ ور نہیں ہے – بلکہ وہ سبھی کسان، زرعی مزدور یا موسم کے لحاظ سے ہجرت کرنے والے کارکن ہیں

PHOTO • Ritayan Mukherjee

چاند سداگار، جس کا کردار شریپد مردھا ادا کر رہے ہیں، کی بیوی سناکا کے رول میں سوپن منڈل (بائیں)

PHOTO • Ritayan Mukherjee

شریپد مردھا، چاند سداگار کے رول میں سمندر کی سطح پر تیرنے کی کوشش کرر ہے ہیں، کیوں کہ انہوں نے جب منسا کو عظیم دیوی ماننے سے صاف انکار کر دیا، تو انہوں نے غیض و غضب میں سمندری طوفان بھیج اس کی مال بردار کشتی کو تباہ کر دیا

PHOTO • Ritayan Mukherjee

نتیانند اپنی ٹیم کے ہر ایک رکن کی اداکاری کا گہرائی سے مشاہدہ کر رہے ہیں

PHOTO • Ritayan Mukherjee

آدھی رات کو شو ختم ہونے کے بعد اگربتی کا دھواں ہوا میں چاروں طرف گھوم رہا ہے۔ سامعین کی محفل میں موجود بچے پہلے ہی سو چکے ہیں

مترجم: محمد قمر تبریز

Ritayan Mukherjee

Ritayan Mukherjee is a Kolkata-based photographer and a PARI Senior Fellow. He is working on a long-term project that documents the lives of pastoral and nomadic communities in India.

Other stories by Ritayan Mukherjee
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez