باہری دہلی کے لال کنواں واقع پل پہلاد محلہ میں، ’ٹھیلے والا لڑکا‘ یا ’مرچ-آلو والا لڑکا‘ کو ہر کوئی جانتا ہے۔ ٹھیلے پر سامان بیچنے والا وہ اس علاقہ میں سب سے کم عمر کا لڑکا ہے۔

میری نظر اس پر تب پڑی، جب وہ کھلے ہوئے سیور (بڑے نالے) کے قریب ایک جھگی بستی کی تنگ گلی سے دوڑتا ہوا اس خالی جگہ کی طرف جا رہا تھا، جہاں وہ اپنا ٹھیلہ کھڑا کرتا ہے۔ وہ اپنے ٹھیلے کو دھکہ دیتے ہوئے گلی کے کنارے لے جاتا ہے، اس کے پہیوں کو آگے پیچھے جانے سے روکنے کے لیے ان میں پتھر کی اوٹ لگاتا ہے، اور ایک کمرے میں غائب ہو جاتا ہے۔ وہ جلد ہی اپنے ٹھیلے پر آلو کے چپس اور موموز بیچنے کے لیے نکل پڑے گا، ۱۴ سال کے ارجن سنگھ کا یہی روز کا معمول ہے۔

یہ شرمیلا لیکن خوش مزاج لڑکا اپنی بیوہ ماں، لکشمی سنگھ کے ساتھ رہتا ہے۔ ان کے چھوٹے سے کمرے کے اندر، کوئی فرنیچر نہیں ہے۔ ایک آئینہ دیوار کی رونق بڑھا رہا ہے، اس کے کونے پر بھورے رنگ کے ٹیپ سے دل کی شکل بنائی گئی ہے۔ اس کے اندر لکھا ہوا ہے ’لکشمی + ارجن‘۔ ارجن کہتا ہے، ’’یہ میں نے لکھا ہے، تاکہ ہمارے یہاں جو بھی آئے وہ اس میں ہماری دنیا کو دیکھ سکے۔‘‘

یہ ایک الگ اور مشکل دنیا ہے۔

اندرا گاندھی نیشنل سنٹر آف آرٹس میں ۱۴ جولائی، ۲۰۱۳ کو سیور کی صفائی کرتے وقت ارجن کے والد راجیشور سنگھ کی موت ہو گئی تھی۔ وہ ۲۰۱۱ سے وہاں پر کام کر رہے تھے۔ وہ ان تین صفائی ملازمین میں سے ایک تھے، جن کی موت عمارت کے تہہ خانہ میں زہریلی گیسوں میں سانس لینے کی وجہ سے ہوئی تھی۔ بقیہ دو مرد اشوک کمار اور ستیش سنگھ تھے؛ وہ سبھی سرکار کے ذریعہ چلائے جا رہے فنی نمائش کے اس مرکز میں ٹھیکہ دار مزدور تھے۔ ان تینوں کا تعلق والمیکی دلت برادری سے تھا، اور وہ سبھی ترلوک پوری کی والمیکی بستی میں اپنے کنبوں کے ساتھ رہتے تھے (لکشمی بعد میں ارجن کے ساتھ لال کنواں چلی گئیں، جہاں ان کی شادی شدہ بیٹی، مینو رہتی ہے)۔

ویڈیو دیکھیں: ’مجھے پیسہ نہیں چاہیے۔ برائے کرم نوکری دلانے میں میری مدد کریں،‘ لکشمی کہتی ہیں

اشوک کمار اور ستیش سنگھ کے اہل خانہ تبھی سے میرٹھ، اپنےگھر لوٹ آئے ہیں۔ ان میں سے کسی کو بھی سپریم کورٹ کے ۲۰۱۴ کے حکم کے مطابق، ۱۰ لاکھ روپے کا معاوضہ نہیں ملا ہے، جب کہ عدالت عظمیٰ نے اپنے مذکورہ فیصلہ میں اس قسم کے خطرناک اور ذلت آمیز کام کرنے کے دوران مرنے والے مزدوروں کے اہل خانہ کو اتنا پیسہ دینا ضروری بتایا تھا۔ راجیشور سنگھ کی موت کے چار سال بعد لکشمی کو صرف ۴ لاکھ روپے ملے ۔ ظاہر ہے اس لیے، کیوں کہ ان کے شوہر ٹھیکہ پر تھے، مستقل ملازم نہیں۔

لکشمی بھی، جو اپنی عمر کے آخری ۳۰ویں سال میں ہیں، پہلے صفائی ملازمہ کے طور پر کام کیا کرتی تھیں ۔ اسی نیشنل آرٹ سنٹر میں جھاڑو لگانے، کوڑا ہٹانے اور صفائی کے دیگر کام کیا کرتی تھی۔ انھیں اور ان کے شوہر، ہر ایک کو ماہانہ ۳۵۰۰ روپے ملتے تھے۔ سال ۲۰۱۱ میں جب ان کی بیٹی مینو کی شادی ہو گئی، تو اس کے بعد اس کام میں ان کی دلچسپی ختم ہو گئی اور وہ غیر حاضر رہنے لگیں، وہ بتاتی ہیں۔ اور اپنے شوہر کی موت کے بعد، وہ صاف صفائی کا کوئی بھی کام کرنے سے منع کر دیتی ہیں۔

’’ہمارا تعلق درج فہرست ذات سے ہے، ہم والمیکی ہیں،‘‘ لکشمی بتاتی ہیں۔ ’’میں نے اپنا بچپن اترپردیش کے متھرا ضلع کے سنچولی گاؤں میں گزارا۔ میرے والد، روشن لال، ایک زرعی مزدور تھے۔ میری ماں، رام کلی، گاؤں میں صفائی کا کام کرتی تھیں۔ وہ جھاڑو لگاتیں، صفائی کرتیں اور کچرہ، فضلہ اور گوبر اٹھاتی تھیں۔ تب گاؤوں میں بیت الخلا نہیں ہوتے تھے۔ چمار ذات کے لوگ مردہ جانوروں کو اٹھاتے تھے۔‘‘

لکشمی کی شادی ۱۳ یا ۱۴ سال کی عمر میں ہوئی تھی، تب راجیشور ۱۷ یا ۱۸ سال کے تھے۔ وہ بنیادی طور پر ہریانہ کے روہتک سے تھے، لیکن دہلی میں ٹوائلیٹ اور سیور کی صفائی کا کام کرتے تھے۔ ان کے گھر کا ہر فرد صفائی ملازم تھا۔ ’’میری ساس دہلی کے پولس ہیڈکوارٹر میں کام کرتی تھیں،‘‘ لکشمی بتاتی ہیں۔ ’’موت کے بعد، میں نے ان کی نوکری پانے کی بہت کوشش کی، لیکن افسروں نے یہ کہتے ہوئے منع کر دیا کہ ضابطے بدل گئے ہیں۔ میرے شوہر اس سے پہلے نہرو اسٹیڈیم، اور پھر نرمل بھون میں صفائی ملازم کے طور پر تعینات تھے۔ شروعاتی دنوں میں، ٹھیکہ پر رکھے گئے مزدور کے طور پر انھیں صرف ۴۰۰ روپے ملتے تھے۔ لیکن وہ ایک بے فکر آدمی تھے۔ انھوں نے کبھی بھی کسی چیز کی فکر نہیں کی، اور نہ ہی ہمیں فکرمند ہونے دیا۔‘‘

a boy with his family getting his pushcart ready
PHOTO • Bhasha Singh

لکشمی کا بیٹا ارجن ایک سال سے زیادہ وقت سے ٹھیلہ پر اسنیکس بیچ رہا ہے

لال کنواں کے ان کے گھر میں ایک آئینہ دیوار کی رونق بڑھا رہا ہے، اس کے کونے پر بھورے رنگ کے ٹیپ سے دل کی ایک شکل بنائی گئی ہے۔ اس کے اندر لکھا ہوا ہے ’لکشمی+ ارجن‘۔ ارجن کہتا ہے، ’’یہ میں نے لکھا ہے، تاکہ ہمارے یہاں جو بھی آئے وہ اس میں ہماری دنیا کو دیکھ سکے۔‘‘ یہ ایک الگ اور مشکل دنیا ہے

راجیشور کی موت کے وقت ان کے بیٹے، ارجن کی عمر مشکل سے ۱۰ سال تھی۔ ’’میرے والد بہت خوبصورت تھے،‘‘ ارجن یاد کرتا ہے۔ ’’میں ان سے بہت حد تک میل کھاتا ہوں۔ میری بھنویں ان کے جیسی ہی ہیں۔ میرا قد بھی انہی کی طرح چھوٹا ہے۔ انھیں بھنڈی پسند تھی اور مجھے بھی ہے۔ انھیں کھانا بنانا پسند تھا، اور اب مجھے بھی یہی کرنا پڑ رہا ہے، لیکن ضرورت کی وجہ سے۔ وہ بہت پیار کرتے تھے، اور مجھے چنٹو کہہ کر بلاتے تھے۔‘‘

ارجن کو اپنے والد کے بارے میں جو چیز سب سے زیادہ یاد ہے، وہ ہے ان کے ذریعے اکثر گایا جانے والا گانا ؤ ’تم مجھے یوں، بھلا نہ پاؤگے‘۔ ارجن کہتا ہے، ’’میرے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ میں اب کسی اور کو پاپا نہیں کہہ سکتا۔ پاپا کی موت کے وقت میں ۱۰ سال کا بھی نہیں تھا۔ میری ماں اتنی پریشان تھیں کہ وہ ہر وقت روتی ہی رہتی تھیں۔ کسی نے بھی ہماری مدد نہیں کی؛ سبھی رشتہ داروں نے ہمیں چھوڑ دیا۔ میں چاہتا ہوں کہ جلد از جلد بڑا ہو جاؤں، تاکہ اپنی ماں کو کچھ آرام پہنچا سکوں۔‘‘

دوپہر کے ۳ بج چکے ہیں جس وقت ہم بات کر رہے ہیں، ارجن کے لیے یہ اپنا سامان تیار کرنے کا وقت ہے۔ وہ ایک بوری سے کچھ آلو نکالتا ہے اور انھیں کاٹنا شروع کر دیتا ہے۔ چپس کو دھونے کے بعد، کبھی کبھار ان میں مسالہ لگا دیتا ہے، وہ پورے عمل کے بارے میں ایسے بتا رہا ہے گویا کسی ٹیلی ویژن شو کا ماسٹر شیف ہو۔ پھر وہ موموز تیار کرنا شروع کر دیتا ہے۔ آخر میں گیس سیلنڈر، چولہا، کڑھائی، کفگیر، پلیٹ، چٹنی ۔ سب کچھ ٹھیلے پر رکھ دیا جاتا ہے۔ اس کی ماں مکئی کو رکھنے میں مدد کرتی ہیں۔

ارجن اسکول کے بعد روزانہ دوپہر کو محلہ میں اپنے اسنیکس بیچتا ہے، جس سے اچھے دنوں میں ۱۰۰ سے ۱۵۰ روپے کا منافع ہو جاتا ہے، حالانکہ کبھی کبھی صرف ۵۰ روپے ملتے ہیں۔ وہ ایک پلیٹ صرف ۱۰ سے ۱۵ روپے میں بیچتا ہے، لیکن اکثر لوگ اتنا بھی نہیں چکا پاتے اور اس سے ادھار خریدتے ہیں۔ ہفتہ کے آخر اور تہواروں پر فروخت عام طور پر زیادہ ہوتی ہے۔

یہ ایک غیر یقینی ذریعہ معاش ہے، لیکن گھر کا خرچ چلانے کے لیے ان کے پاس آمدنی کا ایک دوسرا واحد ذریعہ ہے ۲۰۰۰ روپے کا بیوہ پنشن، جو لکشمی کو سرکار سے ملتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ آس پاس کے لوگ، خاص طور سے مرد، ان کی اس چھوٹی سی کامیابی سے جلتے ہیں، وہ شکایت کرتے ہیں کہ سڑک کنارے کھانے کا سامان بیچنے سے وہ جگہ گندگی ہو رہی ہے۔ مہرالنسا خاتون نام کی ایک پڑوسن کہتی ہیں، ’’اکیلی عورت جب ترقی کرتی ہے، تو یہ مرد اسے پسند نہیں کرتے، خاص کر جب وہ عورت والمیکی ذات سے ہو۔ وہ اس ٹھیلے سے چھٹکارہ پانے کے لیے موقع کی تلاش میں ہیں۔‘‘

a boy besides his mother
PHOTO • Bhasha Singh

لکشمی (پیلی ساڑی میں)، ان کی بیٹی مینو اور ارجن۔ ’میرے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ میں اب کسی کو پاپا نہیں کہہ سکتا،‘ وہ کہتا ہے

لکشمی اور ارجن کا مستقبل قریب کے لیے ایک چھوٹا سا خواب ہے۔ وہ ابلے ہوئے انڈے بیچنا چاہتے ہیں اور ایک چھوٹی سی دکان کھولنا چاہتے ہیں، جہاں وہ روزمرہ کی ضرورتوں کے سامان بیچ سکیں اور اپنی آمدنی بڑھا سکیں۔ لیکن اس چھوٹے خواب کو بھی پورا کرنے کے لیے پونجی چاہیے۔ اگر انھیں ۱۰ لاکھ روپے کا معاوضہ ملا ہوتا، تو اس سے اس پونجی کا انتظام ہو گیا ہوتا۔ ہاتھ سے فضلہ صاف کرنے کو ختم کرنے کے لیے کام کر رہی برادری پر مبنی تنظیم، صفائی کرمچاری آندولن، لکشمی کو معاوضہ کے لیے لڑنے میں مدد کر رہا ہے، لیکن راجیشور سنگھ ٹھیکہ پر کام کرتے تھے، مستقل ملازم نہیں تھے، جس نے ان کے مالکوں کو اس پوری رقم کی ادائیگی نہ کرنے کا بہانہ دے دیا۔

آندولن نے ارجن کو سرکاری اسکول، سروودے بال ودیالیہ، تغلق آباد میں کلاس ۶ میں داخلہ دلانے میں بھی مدد کی۔ فیملی کے پاس داخلہ کے لیے ضروری پتہ کا ثبوت نہیں تھا، اور ترلوک پوری میں ارجن کے پچھلے اسکول نے ٹرانسفر سرٹیفکیٹ جاری کرنے میں دیر کر دی تھی۔ اب، چونکہ ارجن اسکول میں واپس آ گیا ہے، اس لیے وہ بڑا خواب دیکھ سکتا ہے۔ وہ ایک بینک منیجر اور ایک شیف (باورچی) بننے کا خواب دیکھ رہا ہے۔

لکشمی کہتی ہیں کہ پورا معاوضہ ملنے کے بعد بھی وہ آرام سے نہیں بیٹھیں گی۔ ہاتھ سے فضلہ صفائی کو ختم کرنے کی لڑائی لڑنے کے لیے وہ پرعزم ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’جس طرح سے میں نے اپنے شوہر کو کھویا ہے، ویسا کسی بھی عورت کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے۔ میں یہ کہنے کے لیے ہر جگہ جانے کو تیار ہوں۔ میں بھیم یاترا میں شامل ہوئی تھی [جو سیور کی صفائی کے دوران ہونے والی موت کے خلاف، سال ۲۰۱۴-۱۵ میں ملک گیر بسر یاتر کی شکل میں نکالی گئی تھی]۔ لیکن سرکار سننے کو تیار نہیں ہے۔ اگر ہمارے لوگ مرتے ہیں، تو اس دنیا میں کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایسا اس لیے، کیوں کہ ہماری ذات ہماری پیشانی پر لکھی ہوئی ہے۔ جب تک ہاتھ سے فضلہ صفائی اور ہماری ذات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، ہم اس جہنم سے نجات نہیں پائیں گے۔‘‘

لکشمی اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتی ہیں، ’’مجھے تب بہت غصہ آتا ہے جب میں یہ دیکھتی ہوں کہ اتنے سارے لوگ اس طرح سے مر رہے ہیں اور سرکار اس کے بارے میں کچھ نہیں کر رہی ہے۔ کیا ہمارے ملک میں سیور کو صاف کرنے کے لیے کوئی تکنیک نہیں ہے؟ سرکار کے سووچھ بھارت پر اتنا ہنگامہ ہے، لیکن یہ ملک صاف کیسے ہو سکتا ہے اگر آج بھی لوگوں کو گٹر صاف کرنے کے لیے جانا پڑے؟‘‘

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Bhasha Singh

Bhasha Singh is an independent journalist and writer, and 2017 PARI Fellow. Her book on manual scavenging, ‘Adrishya Bharat’, (Hindi) was published in 2012 (‘Unseen’ in English, 2014) by Penguin. Her journalism has focused on agrarian distress in north India, the politics and ground realities of nuclear plants, and the Dalit, gender and minority rights.

Other stories by Bhasha Singh
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez