’’میں اپنی دو بیٹیوں کے لیے ایک الگ زندگی چاہتی ہوں،‘‘ چاندی سی چمکتی مچھلیوں پر نمک کا برادہ چھڑکتی ہوئی وِسلاتچی کہتی ہیں۔ وہ ۴۳ سال کی ہیں اور ۲۰ سال سے بھی زیادہ عرصے سے تمل ناڈو کے سمندری ساحل پر واقع کڈلور اولڈ ٹاؤن ہاربر میں مچھلیوں کو سُکھانے کا کام کر رہی ہیں۔

وہ کہتی ہیں، ’’میری پرورش ایک بے زمین دلت فیملی میں ہوئی تھی۔ میں دھان کی کھیتی میں زرعی مزدور کے طور پر کام کرنے والے اپنے والدین کی مدد کرتے ہوئے بڑی ہوئی تھی۔ انہوں نے زندگی میں کبھی تعلیم حاصل نہیں کی۔‘‘ وسلاتچی کی شادی جب شکتی ویل سے ہوئی تھی، تب وہ صرف ۱۵ سال کی تھیں، اور دو سال بعد ہی انہوں نے بھیم راؤ نگر میں اپنی بڑی بیٹی شالنی کو جنم دیا۔ یہ کڈلور ضلع میں واقع ایک چھوٹی سی بستی ہے۔

بھیم راؤ نگر میں زرعی مزدوری کا کام نہیں ملنے کی وجہ سے وسلاتچی روزگار کی تلاش میں کڈلور اولڈ ٹاؤن ہاربر چلی آئیں۔ تقریباً ۱۷ سال کی عمر میں ان کی ملاقات کملا وینی سے ہوئی، جنہوں نے ان کا تعارف مچھلیوں کو سُکھانے کے کام سے کرایا۔ بعد میں وسلاتچی نے اسے اپنے کاروبار کے طور پر اپنا لیا۔

کھلی دھوپ میں مچھلیوں کو سُکھانا مچھلیوں کی پروسیسنگ کا سب سے پرانا طریقہ ہے۔ اس کام میں مچھلیوں پر نمک کی پرتوں کا چھڑکاؤ، انہیں دھواں دینا اور اچار بنانے وغیرہ جیسے متعدد دوسرے کام شامل ہیں۔ کوچی میں واقع سینٹرل مرین فشریز ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے ۲۰۱۶ میں کی گئی مرین فشریز مردم شماری کے مطابق کڈلور ضلع میں مچھلی کے کاروبار میں سرگرم تقریباً ۵۰۰۰ خواتین میں سے کم از کم ۱۰ فیصد ماہی گیر خواتین مچھلیوں کو سُکھانے، ان کی کھال وغیرہ کو الگ کرنے اور انہیں محفوظ کرنے جیسے کاموں میں مشغول ہیں۔

فشریز محکمہ کی ریاست کی ویب سائٹ کے مطابق، تمل ناڈو میں سمندری مچھلیوں کے کاروبار میں شریک خواتین کی تعداد ۲۰۲۱-۲۰۲۰ میں ۶ء۲ لاکھ کے آس پاس تھی۔

Visalatchi stands near the fish she has laid out to dry in the sun. Drying fish is the oldest form of fish processing and includes a range of activities such as salting, smoking, pickling and more
PHOTO • M. Palani Kumar

وسلاتچی سوکھنے کے لیے دھوپ میں پھیلائی گئی اپنی مچھلیوں کے پاس کھڑی ہیں۔ مچھلی سُکھانا مچھلیوں کی پروسیسنگ کا سب سے پرانا طریقہ ہے۔ اس کام میں مچھلیوں پر نمک چھڑکنے، انہیں دھواں دینے اور اچار بنانے جیسے متعدد کام شامل ہیں

Visalatchi throwing grains of salt on the fish. According to the Department of Fisheries, the number of women involved in marine fishery activities was estimated to be around 2.6 lakh in (2020-2021)
PHOTO • M. Palani Kumar
Fish drying at the Cuddalore Old Town harbour
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: وسلاتچی مچھلیوں کے اوپر نمک کا برادہ چھڑک رہی ہیں۔ فشریز محکمہ کے مطابق، سال ۲۰۲۱-۲۰۲۰ میں سمندری مچھلیوں کے کاروبار میں مصروف خواتین کی تخمینی تعداد تقریباً ۶ء۲ لاکھ تھی۔ دائیں: کڈلور اولڈ ٹاؤن ہاربر میں سکھائی جا رہی مچھلیاں

جب انہوں نے یہ کام شروع کیا، تب ان کو اس کاروبار کی باریکیاں سکھانے والی کملا وینی کی عمر چالیس سال کے آس پاس تھی۔ مچھلیوں کی نیلامی کے ساتھ ساتھ انہیں بیچنے اور سُکھانے کا ان کا اچھا خاصہ کاروبار تھا، جسے وہ اپنی ۲۰ خواتین ملازمین کے تعاون سے چلاتی تھیں۔ وسلاتچی بھی ان میں سے ایک تھیں۔ انہیں روزانہ کڑی محنت کرنی پڑتی تھی۔ انہیں صبح ۴ بجے تک ہاربر پہنچ جانا ہوتا تھا اور گھر لوٹتے ہوئے شام کے ۶ بج جاتے تھے۔ انہیں ۲۰۰ روپے مزدوری ملتی تھی، اور ملازمین کو صبح کا ناشتہ، چائے اور دوپہر کا کھانا بھی ملتا تھا۔ وسلاتچی کہتی ہیں، ’’ہم سب کملا وینی کو پسند کرتے تھے۔ وہ خود بھی پورے دن کام کرتی تھیں۔ مچھلیوں کی نیلامی اور فروخت کے علاوہ مزدوروں پر نظر بھی رکھنا۔ سب کچھ۔‘‘

*****

سال ۲۰۰۴ میں آئی سونامی کے سبب وسلاتچی کی زندگی میں بڑی تبدیلی رونما ہوئی۔ ’’میری روز کی مزدوری بڑھ کر ۳۵۰ روپے ہو گئی، کیوں کہ سونامی کے بعد مچھلیوں کی آمد بھی بہت بڑھ گئی۔‘‘

رِنگ سین فشنگ کا استعمال شروع کیے جانے کے بعد بڑی تعداد میں مچھلیوں کی آمد ہونے لگی اور کاروبار میں زبردست اچھال آ گیا۔ رِنگ سین عام طور پر استعمال ہونے والا ایک گھیرے والا جال ہے۔ میکریل جیسی چھوٹی سمندری مچھلیوں اور چربی دار سارڈنوں کو پکڑنے کے لیے یہ جال بہت اچھے ہوتے ہیں۔ ۱۹۹۰ کی دہائی کے آخری کچھ سالوں میں کڈلور ضلع میں رنگ سین کا استعمال کافی بڑھ گیا تھا۔ تفصیل سے جاننے کے لیے پڑھیں: مچھلیوں کے کاروبار میں تاریخ رقم کرنے والی، وینی کی کہانی ۔

’’اس وقت ہمارے پاس بہت کام تھا، اس لیے مزدوری بھی اچھی تھی اور منافع بھی خوب ملتا تھا،‘‘ وسلاتچی ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں۔ وسلاتچی ایک بھروسہ مند ملازمہ تھیں اور کملا وینی کو جب باہر جانا ہوتا، تو وہ ان پر اعتماد کر کے انہیں مچھلی سُکھانے والی شیڈ کی چابیاں سونپ جاتی تھیں۔ وسلاتچی کہتی ہیں، ’’ہمیں کوئی چھٹی نصیب نہیں تھی، لیکن ہمارے ساتھ عزت بھرا سلوک کیا جاتا تھا۔‘‘

مچھلیوں کی قیمت بڑھنے کے ساتھ ساتھ دوسری ضروری چیزوں کی قیمتیں بھی بڑھیں۔ ان کے شوہر شکتی ویل ایک واٹر ٹینک آپریٹر کے طور پر کام کرتے تھے اور ان کی یومیہ آمدنی صرف ۳۰۰ روپے تھی، جو کہ ناکافی تھی۔ تب تک میاں بیوی کی دو بیٹیاں ہو چکی تھیں – شالنی اور سومیا۔ دونوں اسکول جانے لگی تھیں، لہٰذا گھر کا خرچ چلانا مشکل ہو رہا تھا۔

Visalatchi with one of her workers carrying freshly purchased fish. She paid  the workers a daily wage of Rs. 300 with lunch and tea
PHOTO • M. Palani Kumar

اپنی ایک ملازمہ کے ساتھ وسلاتچی، جس نے بازار سے خریدی گئی تازہ مچھلیوں کا ڈھیر اٹھا رکھا ہے۔ وہ کھانے اور چائے کے علاوہ اس ملازمہ کو روزانہ ۳۰۰ روپے ادا کرتی تھیں

Visalatchi inspecting her purchase of fresh fish;  3-4 kilos of fresh fish yield a kilo of dried fish
PHOTO • M. Palani Kumar

وسلاتچی تازہ خریدی گئی مچھلیوں کا معائنہ کر رہی ہیں۔ تقریباً ۴-۳ کلو تازہ مچھلیوں سے ایک کلو سوکھی مچھلیاں نکلتی ہیں

اپنے اگلے فیصلہ کے بارے میں تفصیل سے بتاتے ہوئے وسلاتچی کہتی ہیں، ’’میں کملا وینی کو پسند کرتی تھی، لیکن ہو رہے منافع کے باوجود مجھے روز میری یومیہ مزدوری ہی ملتی تھی۔‘‘

یہی وہ وقت تھا، جب وسلاتچی نے اپنے منافع کے لیے سُکھانے اور بیچنے کی نیت سے مچھلیاں خریدیں۔ کملا وینی اس وقت سفر پر گئی ہوئی تھیں، اور انہیں جیسے ہی یہ پتہ چلا کہ وسلاتچی اب اپنا خود کا کاروبار کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہیں، ویسے ہی انہوں نے فوراً وسلاتچی کو ان کی ۱۲ سال کی نوکری سے باہر کا راستہ دکھا دیا۔

اب مالی اعتبار سے وہ اپنی دونوں بیٹیوں کی اسکول فیس دینے کے قابل نہیں رہیں، جو کہ ۶۰۰۰ روپے سالانہ تھی۔ یہ پوری فیملی کے لیے مشکلوں سے بھرے دن تھے۔

تقریباً ایک مہینہ بعد ان کی ملاقات مچھلیوں کے کاروباری کُپّ منِکّم سے ہوئی، جنہوں نے وسلاتچی کو دوبارہ ہاربر لوٹنے کو کہا۔ کُپّ منِکّم نے انہیں سُکھانے کے لیے نہ صرف ایک ٹوکری مچھلی دی، بلکہ اپنے شیڈ کے نیچے مفت میں تھوڑی سی جگہ بھی دی۔ لیکن ان کی آمدنی ناکافی تھی۔

اپنا خود کا کاروبار شروع کرنے کا فیصلہ وسلاتچی نے ۲۰۱۰ میں لیا۔ وہ ایک مقامی کشتی کے مالک سے ایک ہفتہ تک روزانہ ۲۰۰۰ روپے کی مچھلی اُدھار لینے لگیں۔ اب انہیں پہلے سے بھی زیادہ کام کرنا پڑتا تھا۔ مچھلی خریدنے، سُکھانے اور انہیں بیچنے کے لیے وہ روزانہ صبح کو ۳ بجے ہاربر پہنچ جاتی تھیں اور گھر لوٹتے لوٹتے انہیں رات کے ۸ بج جاتے تھے۔ وسلاتچی نے سالانہ ۴۰ فیصد شروع سود پر خواتین کے ایک سیلف ہیلپ گروپ (ایس ایچ جی) سے ۳۰ ہزار روپے کا قرض لیا، جسے انہیں دو سالوں میں لوٹانا تھا۔ حالانکہ، ایس ایچ جی کے سود کی شرح اونچی تھی، لیکن پھر بھی پرائیویٹ ساہوکاروں کے مقابلے کم ہی تھی۔

کُپّ منِکّم کے ساتھ بھی ان کے اختلافات ہوئے۔ ابھی تک مچھلیاں سُکھانے کے لیے وہ ان کا ہی شیڈ استعمال کر رہی تھیں۔ وسلاتچی بتاتی ہیں، ’’ہمارے درمیان پیسوں کو لے کر نا اتفاقی ہوئی۔ وہ ہمیشہ مجھے طعنہ دیتے رہتے تھے کہ انہوں نے میری کتنی مدد کی۔‘‘ آخرکار انہوں نے ۱۰۰۰ روپے مہینہ پر خود کا کرایے کا شیڈ لینے کا فیصلہ کیا، جس میں وہ اپنی سُکھائی ہوئی مچھلیاں رکھ سکیں۔

Visalatchi brings a box  (left) from her shed to collect the dried fish. Resting with two hired labourers (right) after lunch. After the Tamil Nadu government enforced a ban on ring seine fishing in 2020, her earnings declined steeply and she had to let go her workers
PHOTO • M. Palani Kumar
Visalatchi brings a box  (left) from her shed to collect the dried fish. Resting with two hired labourers (right) after lunch. After the Tamil Nadu government enforced a ban on ring seine fishing in 2020, her earnings declined steeply and she had to let go her workers
PHOTO • M. Palani Kumar

وسلاتچی (بائیں) سُکھائی گئی مچھلیوں کو رکھنے کے لیے اپنے شیڈ میں ایک باکس نکالتی ہیں۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد، دہاڑی پر رکھی گئی اپنی دو مزدوروں (دائیں) کے ساتھ آرام کر رہی ہیں۔ سال ۲۰۲۰ میں جب سے تمل ناڈو حکومت نے رنگ سین فشنگ پر پابندی لگائی ہے، ان کی آمدنی میں بہت کمی آ گئی ہے اور انہوں نے اپنے ملازموں کو ہٹا دیا ہے

Visalatchi and her husband Sakthivel (standing) and a worker cleaning and drying fish
PHOTO • M. Palani Kumar
As evening approaches, Sakthivel collects the drying fish
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: وسلاتچی اور ان کے شوہر شکتی ویل (تصویر میں کھڑے ہیں) ایک مزدور کے ساتھ مچھلیوں کی صفائی کرکے انہیں سُکھا رہے ہیں۔ دائیں: شام ڈھلنے کے ساتھ شکتی ویل سوکھی مچھلیوں کو سمیٹ رہے ہیں

اپنی خود انحصاری اور کڑی محنت کی وجہ سے وسلاتچی کو اکثر آس پاس کے لوگوں کی گالی گلوچ کا شکار بننا پڑتا تھا۔ کڈلور میں مچھلی کے کاروبار پر پٹّن وار اور پروَت راجکولم برادریوں کا غلبہ ہے، جو انتہائی پس ماندہ طبقات (ایم بی سی) سے آتی ہیں۔ دوسری طرف، وسلاتچی کا تعلق دلت برادری سے ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’ماہی گیر برادری کو لگتا تھا کہ مجھے ہاربر میں کام کرنے اور اپنا کاروبار کرنے کی اجازت دے کر وہ میرے اوپر کوئی احسا کر رہی تھی۔ ان کے دل میں جو کچھ بھی آتا ہے وہ مجھے کہہ دیتے ہیں۔ اس بے عزتی سے مجھے چوٹ پہنچتی ہے۔‘‘

حالانکہ، انہوں نے اکیلے ہی مچھلیوں کو سُکھانے کا کام شروع کیا تھا، لیکن اس کاروبار میں ان کے شوہر نے بھی ان کی مدد کی۔ کاروبار کے پھلنے پھولنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے دو خواتین مزدوروں کو بھی کام پر رکھ لیا اور انہیں کھانے اور چائے کے علاوہ روزانہ ۳۰۰ روپے مزدوری دینے لگیں۔ مچھلیوں کو پیک کرنے اور سُکھانے کے لیے باہر ڈالنے کی ذمہ داری ان خواتین مزدوروں کی تھی۔ انہوں نے ایک لڑکے کو بھی مچھلیوں پر نمک چھڑکنے اور دیگر چھوٹے موٹے کام کرنے کے لیے رکھا تھا، جس کے عوض اسے ایک دن کا ۳۰۰ روپے دے رہی تھیں۔

رنگ سین جالوں کا استعمال کرنے والے ماہی گیروں کی مدد سے مچھلیوں کی خوب آمد ہونے لگی اور وسلاتچی ہر ہفتے ۸۰۰۰ روپے سے ۱۰ ہزار روپے کمانے لگیں۔

اس آمدنی کی بدولت وہ اپنی چھوٹی بیٹی سومیا کا داخلہ ایک نرسنگ کورس میں کرا پائیں اور بڑی بیٹی شالنی کیمسٹری سے گریجویشن کی تعلیم مکمل کر سکی۔ ان کی محنت سے دونوں کی شادی کرنے میں بھی مدد ملی۔

*****

بیشک وسلاتچی اور اس کاروبار سے تعلق رکھنے والے دوسرے لوگوں کو رنگ سین فشنگ سے خاصہ منافع ہوا، لیکن ماہرین ماحولیات اور سائنس دانوں نے اس کے بڑے پیمانے پر استعمال سے مچھلیوں کے قدرتی ذخیرہ میں تیزی سے کمی ہونے کا الزام لگایا۔ اس کے استعمال پر پابندی لگانے کے لیے بڑی لڑائیاں لڑی گئیں۔ حالانکہ، پرس سین جالوں پر بہت پہلے سال ۲۰۰۰ میں ہی پابندی لگا دی گئی تھی، اور رنگ سین جالیں بھی اس پابندی کے دائرے میں آتی تھیں۔ بہرحال، سال ۲۰۲۰ میں تمل ناڈو حکومت کے حکم کے بعد ہی اس پر لگی پابندی کو سختی سے نافذ کیا گیا۔ اس حکم میں تمام قسم کے بڑے جال کو مچھلی پکڑنے کے استعمال میں لانے سے منع کر دیا گیا۔

Visalatchi placing the salted fish in a box to be taken to the drying area
PHOTO • M. Palani Kumar

وسلاتچی نمک میں لپٹی مچھلیوں کو ایک باکس میں رکھ رہی ہیں۔ یہاں سے مچھلیوں کو انہیں سُکھانے والی ایک جگہ پر لے جایا جائے گا

A boy helping Visalatchi to salt the fish
PHOTO • M. Palani Kumar

مچھلیوں پر نمک چھڑکنے کے کام میں وسلاتچی کی مدد کرتا ایک لڑکا

وسلاتچی کہتی ہیں، ’’پہلے ہم سب اچھا کماتے تھے، لیکن اب ہم کسی طرح سے گزر بسر کر رہے ہیں۔ ہم بس اتنا ہی کما پاتے ہیں کہ روز کھانا کھا سکیں۔‘‘ ان کا اشارہ صرف اپنی طرف ہی نہیں ہے، بلکہ وہ اس پابندی سے ماہی گیروں کو بڑے پیمانے پر ہونے والے اثرات کی بات کہہ رہی ہیں۔ اب وہ رنگ سین جہاز مالکوں سے مچھلیاں نہیں خرید سکتی ہیں، جو انہیں سستی قیمتوں پر خراب اور بچی ہوئی مچھلیاں فروخت کر دیا کرتے تھے۔

اس کی جگہ اب ٹرولر کشتیاں وسلاتچی کے لیے مچھلیوں کا واحد ذریعہ رہ گئی ہیں۔ ان مچھلیوں کی قیمتیں کافی زیادہ ہوتی ہیں۔ جب مچھلیوں کی افزائش کے موسم میں ٹرولر کشتیاں اپریل اور جون کے درمیان چلنا بند ہو جاتی ہیں، تب وسلاتچی کو فائبر کی بنی کشتیوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے جو مزید اونچی قیمتوں پر مچھلیاں بیچتی ہیں۔

موسم سازگار رہنے اور مچھلیوں کی دستیابی کی صورت میں وہ ہر ہفتے عموماً ۴۰۰۰ سے ۵۰۰۰ روپے کماتی ہیں۔ ان کاموں میں سلور بیلی یا کارئی اور ٹریولی یا پارئی جیسی نسبتاً سستی مچھلیوں کو سُکھانا بھی شامل ہے۔ سوکھی ہوئی سلور بیلی ۱۵۰ سے ۲۰۰ روپے کلو فروخت ہوتی ہے، جب کہ ٹریولی اس سے تھوڑی مہنگی ۲۰۰ سے ۳۰۰ روپے فی کلو فروخت ہوتی ہے۔ ایک کلو سوکھی ہوئی مچھلی بیچنے کے لیے وسلاتچی کو ۴-۳ کلو تازہ مچھلیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ تازہ مچھلیوں کی قیمتوں میں سلور بیلی اور ٹریلوی کی قسموں میں ۳۰ روپے سے لے کر ۷۰ روپے تک کا فرق ہوتا ہے۔

’’جو مچھلی ہم ۱۲۰ روپے میں خریدتے ہیں، اسے ۱۵۰ روپے میں فروخت کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ اس بات پر منحصر ہے کہ بازار میں سوکھی ہوئی مچھلیاں کتنی دستیاب ہیں۔ کسی دن ہمیں اچھا خاصہ منافع ہوتا ہے، اور کسی دن ہمیں نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے،‘‘ وہ مکمل صورتحال کو بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں۔

ہفتہ میں ایک دن وہ کرایے کی گاڑی لیتی ہیں اور اس پر مچھلیوں کو لاد کر شہر میں سوکھی مچھلیوں کے دو بازاروں میں لے جاتی ہیں۔ ان میں پہلا بازار کڈلور میں اور دوسرا بازار پڑوس کے ناگ پٹینم ضلع میں ہے۔ مچھلیوں سے بھرے ایک باکس کا وزن تقریباً ۳۰ کلو ہوتا ہے، اور اسے بازار تک لے جانے کا کرایہ ۲۰ روپے ہوتا ہے۔ ایک مہینہ میں وہ تقریباً ۲۰ باکس تیار کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

Visalatchi at home, relaxing at the end of a long day. Her leisure time though is limited with longer working hours
PHOTO • M. Palani Kumar
Visalatchi at home, relaxing at the end of a long day. Her leisure time though is limited with longer working hours
PHOTO • M. Palani Kumar

دن بھر کی کڑی محنت کرنے کے بعد وسلاتچی اپنے گھر میں آرام کر رہی ہیں۔ روزانہ کئی گھنٹوں تک لگاتار کام کرنے کی وجہ سے انہیں آرام کرنے کا وقت بہت مشکل سے مل پاتا ہے

Visalatchi and Sakthivel standing outside their home (right). Sakthivel has been helping her with the business. Visalatchi is happy that  she could educate and pay for the marriages of her two daughters. However, she now faces mounting debts
PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

دائیں: اپنے گھر کے باہر کھڑیں وسلاتچی اور ان کے شوہر شکتی ویل۔ شکتی ویل کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹاتے رہے ہیں۔ وسلاتچی کو اس بات کی خوشی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے بیٹیوں کو پڑھا لکھا سکیں، بلکہ ان کی شادی کا خرچ بھی اٹھایا۔ حالانکہ، وہ قرض کے بڑھتے بوجھ کے نیچے دبی ہوئی ہیں

رنگ سین فشنگ پر لگی پابندی کے سبب مچھلیوں کی بڑھی ہوئی قیمت، نمک کی قیمت میں اضافہ، مال ڈھلائی کا کرایہ اور مچھلیوں کو پیک کرنے کے لیے خریدی گئی مہنگی بوریاں – ان سب سے کاروبار کی لاگت کافی بڑھ گئی ہے۔ ساتھ ہی، مزدوروں کی دہاڑی بھی ۳۰۰ روپے سے بڑھ کر اب ۳۵۰ روپے ہو چکی ہے۔ ان کو بھی یہی رقم ادا کرنی ہوتی ہے۔

اس لحاظ سے سوکھی ہوئی مچھلیوں کی قیمت میں نسبتاً کم اضافہ ہوا ہے، اور وسلاتچی پر اپریل ۲۰۲۲ میں ۸۰ ہزار روپے کے قرض کا بوجھ الگ چڑھ گیا تھا۔ ان میں وہ ۶۰ ہزار روپے بھی شامل ہیں، جو انہیں ایک کشتی مالک کو تازہ مچھلیوں کی قیمت کے طور پر ادا کرنے ہیں۔ بچا ہوا اُدھار ایک سیلف ہیلپ گروپ سے بطور قرض لیا گیا تھا۔

اگست ۲۰۲۲ تک وسلاتچی کو اپنے ملازمین کی چھٹی کر دینی پڑی اور کاروبار کا سائز بھی گھٹانا پڑا۔ وہ کہتی ہیں، ’’اب مچھلیوں کے اوپر نمک کے چھڑکاؤ کا کام میں خود کرتی ہوں۔ میں اور میرے شوہر اس کاروبار کو سنبھالتے ہیں، کبھی کبھی باہری مدد کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ ہمیں روزانہ آرام کرنے کے لیے مشکل سے چار گھنٹے ہی مل پاتے ہیں۔‘‘

وسلاتچی کو بس اس بات کا اطمینان ہے کہ وہ نہ صرف اپنی بیٹیوں، شالنی (۲۶) اور سومیا (۲۳) کو پڑھا لکھا سکیں، بلکہ ان کی شادی بھی کر سکیں۔ لیکن کاروبار کی حالیہ گراوٹ کے سبب وہ فکرمند رہنے لگی ہیں۔

وہ کہتی ہیں، ’’اب پریشانی بہت بڑھ چکی ہے، اور میں گہرے قرض میں ڈوبی ہوئی ہوں۔‘‘

جنوری ۲۰۲۳ میں ہندوستانی سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلہ میں اُن کاروباریوں کو تھوڑی راحت دی، اور کچھ حالات اور شرطوں کے ماتحت رہتے ہوئے پرس سین فشنگ کی اجازت دے دی، لیکن وسلاتچی کو اس بات پر شک ہے کہ اس راحت سے ان کے پیشہ کو نئی زندگی مل پائے گی یا نہیں۔

ویڈیو دیکھیں: کڈلور فشنگ ہاربر کی خواتین ماہی گیر

تعاون بشکریہ: یو دِویوتیرن

مترجم: محمد قمر تبریز

Text : Nitya Rao

Nitya Rao is Professor, Gender and Development, University of East Anglia, Norwich, UK. She has worked extensively as a researcher, teacher and advocate in the field of women’s rights, employment and education for over three decades.

Other stories by Nitya Rao
Photographs : M. Palani Kumar

M. Palani Kumar is PARI's Staff Photographer and documents the lives of the marginalised. He was earlier a 2019 PARI Fellow. Palani was the cinematographer for ‘Kakoos’, a documentary on manual scavengers in Tamil Nadu, by filmmaker Divya Bharathi.

Other stories by M. Palani Kumar
Editor : Urvashi Sarkar
urvashisarkar@gmail.com

Urvashi Sarkar is an independent journalist and a 2016 PARI Fellow.

Other stories by Urvashi Sarkar
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez