سیرا بڈولی میں اگست کے شروعاتی دنوں میں یہ ایک گرم دوپہر ہے۔ سڑک پوری طرح سنسان ہے۔ سریو ندی کے اوپر بنا پل، جو اتراکھنڈ کے پتھورا گڑھ اور الموڑہ ضلعوں کے درمیان سرحد کا کام کرتی ہے، سے تقریباً ایک کلومیٹر دوسری جانب ہماری نظر ایک سرخ پوسٹ باکس پر پڑی، جو سورج کی روشنی میں چمک رہا تھا۔

سرخ پوسٹ باکس، جو اس علاقہ کا واحد پوسٹ باکس ہے، کہیں بھی ہو سکتا ہے، لیکن یہاں کے لیے یہ ایک بہت بڑا قدم ہے۔ ڈاکخانہ کی نئی شاخ، جو کماؤں کے اس حصہ میں اپنی نوعیت کی پہلی شاخ ہے، کا افتتاح سیرا بڈولی میں ۲۳ جون، ۲۰۱۶ کو ہوا۔ اب یہاں سے چھ گاؤوں میں خطوط پہنچتے ہیں ۔ بھنولی سیرا گُنٹھ، سیرا (عرف) بڈولی، چوناپٹل، نائلی، بڈولی سیرا گُنٹھ، اور سرٹولا۔ ان گاؤوں میں رہنے والے زیادہ تر لوگ کسان ہیں۔

یہ اس اسٹوری کے شائع ہونے کے دو دن بعد ہوا، جسے پاری نے یہاں پر مقامی پوسٹ آفس نہ ہونے کی وجہ سے مقامی باشندوں کو ہونے والی پریشانیوں پر مبنی ایک رپورٹ ’آخری پوسٹ ۔ اور دور دراز ایک پل‘ کے عنوان سے شائع کی۔ سیرا بڈولی کو اب اس بات پر فخر ہے کہ اسے ایک نیا پن ۲۶۲۵۳۲ مل گیا ہے۔

یہ چھ گاؤوں  پتھورا گڑھ کے گنگولی ہاٹ بلاک میں پڑتے ہیں، لیکن ان کا پوسٹ آفس پل کے اُس پار تھا، پانچ کلومیٹر دور الموڑہ ضلع کے بھسیاچھن بلاک میں۔ ’’کیا المیہ ہے،‘‘ بھنولی گُنٹھ گاؤں کے مدن سنگھ نے مجھ سے تب کہا تھا، جب میں نے پہلی بار وہاں کا دورہ کیا، ’’وہ اب بھی ہمیں پتھوراگڑھ ضلع کا حصہ نہیں مانتے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم پتھوراگڑھ میں رہ رہے ہیں، لیکن ہمارا پتہ الموڑہ کا ہے۔‘‘

پاری رپورٹ شائع ہونے کے چند ہفتوں بعد، میں دوبارہ وہاں نئے پوسٹ آفس کو چیک کرنے پہنچی۔ ان گاؤوں والوں کے لیے اب کتنا کچھ بدل گیا ہے، جو اب تک بھسیاچھن کے سب سے قریبی پوسٹ آفس سے خط پہنچنے کا ۱۰ دنوں تک انتظار کرتے تھے، جب کہ پتھوراگڑھ ٹاؤن کے ہیڈکوارٹرس سے اپنے پاس خط پہنچنے کا انھیں ایک مہینہ تک انتظار کرنا پڑتا تھا، جو کہ خود ان کا اپنا ضلع ہے؟ اس دیری کی وجہ سے انھیں اپنے ضروری انٹرویو اور نہایت اہم پروگراموں کو چھوڑنا پڑ جاتا تھا۔ بعض دفعہ انھیں ذاتی طور پر پوسٹ آفس جاکر اپنا خط حاصل کرنے کے لیے ۷۰ کلومیٹر تک کا سفر کرنا پڑتا تھا۔

ان چھ گاؤوں کے باشندے، جو اس نئے پوسٹ آفس سے سہولیات حاصل کریں گے، مجھے بتاتے ہیں کہ انھوں نے اس کا جشن آپس میں مٹھائیاں تقسیم کرکے منایا۔ ’’دوسری جگہوں پر لوگ نئی پوسٹ اور تقرریوں کی جانکاری پاکر خوشیاں مناتے ہیں۔ جب کہ ہم نے پوسٹ باکس آنے پر خوشیاں منائیں!‘‘، سیرا بڈولی گاؤں کے موہن چندر جوشی مسکراتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’ہماری زندگیاں اب پہلے جیسی نہیں ہوں گی۔‘‘

نئے پوسٹ آفس میں ایک چھوٹے کمرہ میں ایک میز، چار کرسیاں اور ایک اسٹیل کی الماری رکھی ہوئی ہے۔ کیلاش چندر اُپادھیائے یہاں کے واحد اسٹافر ہیں، جو پوسٹ مین اور پوسٹ ماسٹر دونوں کا کام اکیلے سنبھال رہے ہیں۔ ان کی پوسٹنگ پہلے گنائی پوسٹ آفس میں تھی، جو سیرا بڈولی سے تقریباً ۱۲ کلومیٹر دور ہے، ان سے کہا گیا ہے کہ اس برانچ میں جب تک کسی دوسرے آدمی کی تقرری نہیں ہو جاتی تب تک وہ خود ہی اس کی دیکھ بھال کریں۔ ’’محکمہ نے کہا تھا کہ ایک پوسٹ ماسٹر اور ایک پوسٹ مین کی تقرری ایک یا دو ماہ میں ہو جائے گی،‘‘ اپادھیائے بتاتے ہیں۔ وہ ہر صبح کو گنائی سے ڈاک اٹھاتے ہیں اور آتے ہوئے راستے میں سیرا بڈولی پوسٹ آفس میں ڈال دیتے ہیں۔


02-Kailash-Chandra-in-his-post-office(Crop)-AC-A Post Office for Sera Badoli.jpg

کیلاش چندر اُپادھیائے تنہا اسٹافر ہیں، جو پوسٹ مین اور پوسٹ ماسٹر دونوں کا کام اکیلے سنبھال رہے ہیں


گاؤوں والوں کے مطابق، ڈاکخانہ کھلنے کے بعد سب سے بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ آدھار کارڈ اب صحیح پتے پر پہنچ رہے ہیں۔ پہلے جب کارڈ آتے تھے، تو ان پر پتہ لکھا ہوتا تھا پوسٹ آفس بھسیاچھن، ضلع الموڑہ۔ ’’لیکن ہم الموڑہ ضلع میں نہیں رہتے، ہم پتھوراگڑھ میں رہتے ہیں،‘‘ بڈولی سیرا گنٹھ کے سریش چندر بتاتے ہیں۔ ’’ہم نے جب آدھار کارڈ پر پتے کو درست کرنے کے لیے کہا، تو کارڈ گنائی پوسٹ آفس پہنچنے لگے۔ چونکہ گنائی پوسٹ آفس سے کوئی ڈاکیہ نہیں آتا تھا، اس لیے ہمیں خود وہاں جاکر لانا پڑتا تھا۔ لیکن اب، سبھی آدھار کارڈ صحیح پتے پر آ رہے ہیں اور ہمارے گھروں پر پہنچ رہے ہیں۔‘‘

نئے آفس نے سیونگ بینک اور ریکرنگ ڈپوزٹ سروِس بھی دینی شروع کر دی ہے۔ سیرا بڈولی میں ۲۵ بچت کھاتے اور پانچ ریکرنگ ڈپوزٹ اکاؤنٹس کھولے جا چکے ہیں۔ ’’لیکن یہاں میرے پاس کوئی الماری ایسی نہیں ہے، جس میں کھاتہ داروں کے پیسے کو محفوظ رکھ سکوں،‘‘ کیلاش چندر کہتے ہیں، ’’اس لیے میں ان پیسوں کو اپنے پاس رکھتا ہوں۔‘‘

پوسٹ کے ذریعے پنشن بھیجنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے، کیلاش چندر ہمیں بتاتے ہیں۔ تب تک، پاروتی دیوی جیسے بزرگ شہریوں کو اپنا پنشن لینے کے لیے گنائی تک کا سفر کرتے رہنا پڑے گا۔

ظاہر ہے، یہاں پر اس نئے ڈاکخانہ کے پوری طرح کام کرنے میں ابھی وقت لگے گا۔

لوگوں کے ضروری انٹرویو اب بھی چھوٹ جاتے ہیں، کیوں کہ ان کی نوکری کا لیٹر کافی دیر سے انھیں ملتا ہے۔ ’’میرے پڑوسی کا لڑکا سرکاری امداد یافتہ اسکول میں نوکری پانے سے رہ گیا؛ اس نوکری کے لیے انٹرویو ۲۹ جون کو تھا، جب کہ لیٹر اسے ۳ جولائی کو ملا،‘‘ بڈولی سیرا گنٹھ کی پدما دتہ نیولیا بتاتی ہیں۔ ’’بہت سے لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ ہمارا پتہ بدل گیا ہے۔ وہ اب بھی پرانا پتہ لکھتے ہیں، بھسیاچھن پوسٹ آفس کے پن کوڈ کے ساتھ، اس لیے ان خطوط کو ہم تک پہنچنے میں تقریباً ایک مہینہ لگ جاتا ہے۔ گاؤوں والوں کو امید ہے کہ ڈاک محکمہ اب ان خطوط کو نئے پوسٹ آفس بھیج دیا کرے گا۔ لیکن ایسا اب تک نہیں ہوا ہے۔ محکمہ نے ہمیں پن کوڈ کے بدلنے کے بارے میں کبھی نہیں بتایا۔ ہمیں گاؤوں والوں کو خود سے ہی بتانا پڑا۔‘‘

دریں اثنا، بھسیاچھن کے پوسٹ مین، مہربان سنگھ، غصے سے کہتے ہیں: ’’روزانہ ہمیں پانچ یا چھ خطوط ان چھ گاؤوں کے لیے ملتے ہیں۔ نیا پوسٹ آفس حالانکہ سیرا بڈولی میں کھل چکا ہے، لیکن لوگ اب بھی پوسٹ آفس بھسیاچھن کے پتہ پر لیٹر بھیج رہے ہیں۔ خطوط کی تعداد پانچ ہو یا ۱۵، مجھے گاؤں گاؤں جاکر ڈاک پہنچانی پڑتی ہے۔ ہم ان پہاڑیوں کے گدھے بن کر رہ گئے ہیں۔‘‘

پھر بھی، بہت کچھ بدلا ہے۔ پتھوراگڑھ سے سیرا بڈولی تک اب ایک خط صرف چار دنوں میں پہنچ جاتا ہے، جب کہ پہلے اسے پہنچنے میں ۲۰ دن لگ جاتے تھے۔ پاری میں ۲۱ جون کو شائع ہونے والی اسٹوری نے کافی جوش پیدا کیا، اسے پڑھنے والے بہت سے لوگ بار بار ٹویٹ کر رہے ہیں۔ وزیر برائے اطلاعات و نشریات روی شنکر پرساد نے بھی ان گاؤوں میں ترسیلی خدمات مہیا کرانے کا وعدہ کیا۔ اور نوجوان نسل، جس میں موہن بھی شامل ہے، کو امید ہے کہ اس برانچ آفس کو جلد ہی انٹرنیٹ کے ذریعے گنائی اور دیگر ڈاکخانوں سے جوڑ دیا جائے گا۔

Arpita Chakrabarty

Arpita Chakrabarty is a Kumaon-based freelance journalist and a 2017 PARI fellow.

Other stories by Arpita Chakrabarty
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez