اس باریکی کو سمجھنے میں تھوڑا وقت لگتا ہے کہ شیرنگ دورجی بھوٹیا کی روزی روٹی کبھی کمان بنانے سے نہیں چلی۔ ایسا اس لیے ہے، کیوں کہ ان کی زندگی اسی فن و ہنر کے ارد گرد گھومتی ہے۔ پاک یونگ ضلع کے کارتھوک گاؤں میں رہنے والے ۸۳ سالہ شیرنگ صرف اسی ہنر کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں۔ تقریباً ۶۰ سال تک ان کی آمدنی بڑھئی کے پیشہ سے ہوئی، زیادہ تر فرنیچر کی مرمت کرنے سے۔ لیکن جیسا کہ وہ بتاتے ہیں، انہیں یہ حوصلہ تیر اندازی سے ملا۔ تیر اندازی اُن کی ریاست، سکّم کی ثقافت کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔

انہوں نے بڑھئی کا کام پوری مہارت سے کئی دہائیوں تک کیا، لیکن اسے وہ زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ اس کی بجائے، وہ پاک یونگ کے کمان بنانے والے کے طور پر اپنی شناخت قائم کرنا چاہتے ہیں۔

شیرنگ پاری کو بتاتے ہیں، ’’میں ۱۰ یا ۱۲ سال کا تھا، جب میں نے لکڑی سے چیزیں بنانی شروع کیں۔ دھیرے دھیرے کمان بنانے لگا اور لوگ انہیں خریدنے لگے۔ اور اس طرح ایک کمان بنانے والے کا جنم ہوا۔‘‘

وہ اپنے ذریعے بنائی گئی کچھ کمان دکھاتے ہوئے کہتے ہیں، ’’پہلے کمان الگ طرح سے بنائی جاتی تھی۔ اُس وقت کی کمان کو تبجو (نیپالی زبان میں) کہتے تھے۔ اس میں لکڑی کے دو سادہ ٹکڑوں کو جوڑ کر باندھا جاتا تھا، اور اس پر چمڑا لپیٹ دیا جاتا تھا۔ آج کل ہم اسے جس طرح بناتے ہیں، اسے ’بوٹ ڈیزائن‘ کہا جاتا ہے۔‘‘ شیرنگ ایک شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ کہتے ہیں، ’’ایک کمان بنانے میں کم از کم ۳ دن لگتے ہیں – لیکن کسی پھرتیلے اور جوان انسان کو۔ کسی بزرگ آدمی کو اسے بنانے میں کئی اور دن لگ سکتے ہیں۔‘‘

Left: Tshering Dorjee with pieces of the stick that are joined to make the traditional tabjoo bow. Right: His elder son, Sangay Tshering (right), shows a finished tabjoo
PHOTO • Jigyasa Mishra
Left: Tshering Dorjee with pieces of the stick that are joined to make the traditional tabjoo bow. Right: His elder son, Sangay Tshering (right), shows a finished tabjoo
PHOTO • Jigyasa Mishra

بائیں: شیرنگ دورجی، لکڑی کے ٹکڑوں کے ساتھ کھڑے ہیں، جنہیں جوڑ کر روایتی کمان ’تبجو‘ بنائی جاتی ہے۔ دائیں: ان کے بڑے بیٹے، سانگے شیرنگ (دائیں)، ایک تیار تبجو دکھا رہے ہیں

شیرنگ کا گاؤں گنگٹوک سے تقریباً ۳۰ کلومیٹر دور ہے۔ اپنے گاؤں میں وہ تقریباً ۶۰ سالوں سے تیر و کمان بنا رہے ہیں۔ کارتھوک گاؤں اپنے بودھ مٹھ کے لیے مشہور ہے۔ یہ سکّم کا ۶واں سب سے پرانا مٹھ ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ کارتھوک میں پہلے تیر و کمان بنانے والے اور بھی لوگ تھے، لیکن اب شیرنگ اکیلے بچے ہیں۔ بہت خاص طریقے سے، شیرنگ کے گھر پر بھی کارتھوک کا اثر دکھائی دیتا ہے۔ آپ ایک روشن اور رنگ بھرے باغیچہ سے گزرنے کے بعد ہی برآمدے تک پہنچتے ہیں۔ اس باغیچہ میں تقریباً ۵۰۰ قسم کے پھول اور پودے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے گھر کے پیچھے گرین ہاؤس اور ایک نرسری بھی ہے۔ یہاں آپ کو جڑی بوٹیوں کے علاوہ ۸۰۰ آرکڈ، بونسائی پودے اور آرائشی قسم کے پھول بھی ملیں گے۔ یہ زیادہ تر ان کے سب سے بڑے بیٹے سانگے شیرنگ (عمر ۳۹ سال) کی محنت ہے۔ وہ ایک تجربہ کار باغباں ہیں۔ سانگے کئی قسم کے باغ ڈیزائن کرتے ہیں اور پودے فروخت کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کو باغبانی سکھاتے ہیں اور اس کے لیے آمادہ بھی کرتے ہیں۔

شیرنگ ہمیں بتاتے ہیں، ’’ہم ۶ لوگ یہاں رہتے ہیں – میں، میری بیوی داوَٹی بھوٹیا (۶۴ سال)، میرا بیٹا سانگے شیرنگ اور اس کی بیوی تاشی ڈورما شیرپا (۳۶ سال)۔ اور ہمارے پوتے پوتیاں – چیمپا ہیسل بھوٹیا اور رانگسیل بھوٹیا۔‘‘ ان کے گھر میں ایک رکن اور بھی رہتا ہے۔ فیملی کا پیارا کتا، ڈالی – جو اکثر تین سال کے چیمپا کے ساتھ ہی نظر آتا ہے۔ رانگسیل کی عمر ابھی دو سال بھی نہیں ہوئی ہے۔

شیرنگ کے دوسرے بیٹے، سونم پلازور بھوٹیا (۳۳ سال) دہلی میں تعینات سکّم کی انڈیا ریزرو بٹالین میں کام کرتے ہیں، جہاں وہ اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ رہتے ہیں۔ تہواروں اور چھٹیوں کے دوران سونم، کارتھوک میں اپنے والد سے ملنے جاتے ہیں۔ شیرنگ کے بچوں میں سب سے بڑی ان کی بیٹی شیرنگ لہامو بھوٹیا (۴۳ سال) ہیں، جو شادی شدہ ہیں اور گنگٹوک میں رہتی ہیں۔ ساتھ ہی، اُس شہر میں ان کا سب سے چھوٹا بیٹا، سانگے گیامپو (۳۱ سال) بھی رہتا ہے، جو کہ پی ایچ ڈی کر رہا ہے۔ اس فیملی کا تعلق بودھ لاما برادری سے ہے اور سکّم میں یہ ایک بڑے درج فہرست قبیلہ میں شامل ہے۔

PHOTO • Jigyasa Mishra
PHOTO • Jigyasa Mishra

بائیں: شیرنگ کے باغیچہ میں کئی قسم کے پھول اور پودے لگے ہوئے ہیں۔ دائیں: سانگے شیرنگ باغبانی کرتے ہیں، اور اپنا زیادہ تر وقت باغیچہ میں گزارتے ہیں۔ ’پیشہ سے بڑھ کر، یہ میرا جنون ہے‘

ہم شیرنگ سے کمان کے بارے میں جاننے کی کوشش کر رہے ہیں، اسی درمیان سانگے گفتگو میں شامل ہوتے ہوئے کہتے ہیں، ’’پاپا نے یہ کمان میرے لیے بنائی تھی۔‘‘ اور وہ ہمیں ایک زرد اور کتھئی رنگ کی کمان دکھاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’یہ اکلوتا ہے جس سے میں تیر اندازی کی مشق کرتا ہوں۔‘‘ وہ کمان کا استعمال کرنے میں شامل تکنیک کو دکھانے کے لیے اپنے بائیں ہاتھ کو پھیلاتے ہیں۔

تیر اندازی سکّم کی روایات کا اٹوٹ حصہ ہے اور اسے کھیل سے بھی زیادہ اہمیت حاصل ہے – یہ ان کی ثقافت کا حصہ ہے۔ یہ کھیل عام طور پر فصل کٹائی کے بعد شروع ہوتا ہے، جب لوگ تہواروں اور ٹورنامنٹ کے لیے جمع ہوتے ہیں اور عام دنوں کے مقابلے ان کے پاس زیادہ وقت ہوتا ہے۔ سکّم کے ہندوستانی یونین (وفاق) میں شامل ہونے سے پہلے ہی یہ یہاں کا قومی کھیل تھا۔

ترون دیپ رائے بھی سکّم کے رہنے والے ہیں۔ انہیں دو بار عالمی تیر اندازی چمپئن شپ ایوارڈ اور دو بار ایشیائی کھیلوں میں میڈل ملا ہے۔ اور وہ شاید اکلوتے تیر انداز ہیں جنہوں نے ایتھنز (۲۰۰۴)، لندن (۲۰۱۲) اور ٹوکیو (۲۰۲۱) اولمپکس میں تین بار ہندوستان کی نمائندگی کی ہے۔ پچھلے سال، سکّم کے وزیر اعلیٰ پریم سنگھ تمانگ (گولے) نے اس پدم شری انعام یافتہ کی عزت افزائی کرنے کے لیے ریاست میں ترون دیپ رائے تیر اندازی اکیڈمی قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

مغربی بنگال، نیپال اور بھوٹان کی تیر اندازی کی ٹیمیں، گنگٹوک کے شاہی محل کے میدان اور ریاست کے دیگر حصوں میں منعقد ہونے والے بڑے ٹورنامنٹ میں شرکت کرنے کے لیے باقاعدگی سے سکّم آتی ہیں۔ مزیدار بات یہ ہے کہ روایتی کھیل، پرانے قسم کی کمان اور تیروں کے ساتھ، سکّم کے لوگوں کے درمیان آج بھی مقبول ہیں۔ خاص کر اُس جدید کھیل کے مقابلے جہاں کمان ایک انتہائی پیچیدہ تکنیکی آلہ ہو سکتا ہے۔

PHOTO • Jigyasa Mishra
PHOTO • Jigyasa Mishra

سانگے شیرنگ اپنے والد کے ذریعے بنائی گئی ایک جدید کمان (بائیں) کے ساتھ۔ شوٹنگ کے لیے ہاتھ کا زاویہ (دائیں) بناتے ہوئے

بھوٹیا فیملی ہمیں ایک حیران کر دینے والی بات بتاتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہاں آس پاس ایسی کوئی دکان نہیں ہے، جہاں سے آپ روایتی کمان خرید سکیں۔ البتہ تیر مقامی بازار کی کچھ دکانوں پر ضرور مل سکتا ہے، لیکن کمان نہیں۔ شیرنگ کہتے ہیں، ’’خریداروں کو مقامی بازار اور تیر اندازوں سے ہمارے بارے میں پتہ چلتا ہے۔ اور وہ گھر آتے ہیں۔ یہ کوئی بہت بڑی جگہ نہیں ہے اور ہمارا گھر تلاش کرنے کے لیے کسی کو مشقت کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہاں تمام لوگ ایک دوسرے سے واقف ہیں۔‘‘

کمان کے خریدار سکّم کے مختلف حصوں، پڑوسی ریاستوں، اور یہاں تک کہ بھوٹان سے بھی آتے ہیں۔ شیرنگ نیپالی میں کہتے ہیں، ’’وہ گنگٹوک سے، گنگٹوک ہوتے ہوئے یا کارتھوک سے آتے ہیں۔‘‘ ریاست کے کئی دیگر لوگوں کی طرح ان کی فیملی بھی نیپالی زبان ہی بولتی ہے۔

جب ہم پوچھتے ہیں کہ کمان کیسے بنائی جاتی ہے اور شیرنگ نے انہیں کب چلانا سیکھا اور کب انہیں بنانا شروع کیا، تو وہ خاموشی سے گھر کے اندر جاتے ہیں اور کچھ تلاش کرتے ہیں۔ تقریباً ۳ منٹ بعد وہ مسکراتے ہوئے پورے جوش کے ساتھ لوٹتے ہیں اور ان کے ہاتھ میں کئی دہائیوں قبل بنائی گئی کمان اور تیر ہیں۔ ساتھ ہی، وہ اُن اوزاروں کو بھی لے کر آئے ہیں جن سے وہ کمان بناتے تھے۔

وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں، ’’انہیں میں نے بنایا تھا، ۴۰ سال یا اس سے بھی پہلے۔ ان میں سے کچھ کافی پرانے ہیں، بس مجھ سے کچھ سال چھوٹے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے انہیں بنانے کے لیے بجلی سے چلنے والے کسی بھی آلہ کا استعمال نہیں کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’سب کچھ ہاتھ سے بنایا گیا تھا۔‘‘

سانگے شیرنگ کہتے ہیں، ’’اب ہم جن تیروں کا استعمال کرتے ہیں وہ نئے طریقے سے بنتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میں جب بہت چھوٹا تھا، تیر کا پچھلا حصہ الگ ہوتا تھا۔ اس وقت تیر کے پیچھے بطخ کا ایک پر لگا ہوتا تھا۔ اب نئے قسم کے سارے تیر زیادہ تر بھوٹان سے آتے ہیں۔‘‘ سانگے مجھے تیر پکڑا کر گھر کے اندر جاتے ہیں، تاکہ وہ مشین سے بننے والی ایک کمان دکھا سکیں۔

PHOTO • Jigyasa Mishra
PHOTO • Jigyasa Mishra

بائیں: تیر، جنہیں شیرنگ نے ۴۰ سال پہلے ہاتھ سے بنایا تھا۔ دائیں: وہ تمام آلات، جن کا استعمال وہ کمان اور تیروں کو ہاتھ سے بناتے وقت کرتے ہیں

سانگے کہتے ہیں، ’’جو ہم سے سستی اور ہلکی کمان مانگتا ہے، ہم اسے بغیر فائلنگ اور پالشنگ والی ۴۰۰ روپے کی کمان دیتے ہیں۔ ان میں ہم بانس کا اوپری حصہ استعمال کرتے ہیں، جو کہ ہم عام طور پر نہیں کرتے، کیوں کہ یہ تھوڑا کم مضبوط ہوتا ہے۔ لیکن ایک اچھی، تین پرت پالش والی کمان کی قیمت ۶۰۰-۷۰۰ روپے تک ہو سکتی ہے۔ اسے بنانے کے لیے ہم بانس کے نچلے اور مضبوط حصے کا استعمال کرتے ہیں۔‘‘

سانگے ہنستے ہوئے کہتے ہیں، ’’ایک اچھی کمان بنانے کے لیے تقریباً ۱۵۰ روپے کے بانس اور ۶۰ روپے کی رسّی کا استعمال ہوتا ہے۔ لیکن پالش کی قیمت کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔‘‘

ایسا کیوں؟

سانگے کہتے ہیں، ’’ہم پالش گھر پر بناتے ہیں۔ اکثر ہم دشہرہ کے وقت چمڑا (بکرے کا) خریدتے ہیں اور پالش کے لیے اس میں سے موم (ویکس) الگ کر لیتے ہیں۔ کمان بن جانے کے بعد اُس پر پالش کی پرت لگائی جاتی ہے۔ جب پہلی پرت سوکھ جاتی ہے، تب ایک اور پرت پالش چڑھائی جاتی ہے۔ اور اس طرح تین پرت کی پالش کی جاتی ہے۔ بکرے کا ’ایک بائی ایک‘ فٹ کا چمڑا ۱۵۰ روپے کا آتا ہے۔‘‘ وہ جس طریقے سے اسے استعمال کرتے ہیں، اس سے یہ پتہ لگانا کافی مشکل ہے کہ اس پورے عمل میں کتنا پیسہ خرچ ہوتا ہے۔

وہ کہتے ہیں، ’’کمان بنانے کے لیے سب سے ضروری چیز ہے بانس۔ ایک بانس کی قیمت تقریباً ۳۰۰ روپے ہوتی ہے۔ اور ہم ایک بڑے بانس سے بہت آسانی سے ۵ کمان بنا سکتے ہیں۔‘‘

PHOTO • Jigyasa Mishra
PHOTO • Jigyasa Mishra

بائیں: شیرنگ کے ہاتھ میں روایتی کمانوں کا ایک گُچھّا ہے، جب کہ ان کے بیٹے کے ہاتھ میں سب سے نئی اور جدید کمان ہے۔ دائیں: سانگے، لکڑی کی پالش سے رنگی کمان اور بکرے کے چمڑے سے نکالی گئی موم (ویکس) سے پالش کی گئی کمان کے درمیان کا فرق دکھاتے ہیں

سانگے اندر چلے گئے ہیں، اور تیر اندازی کے ایک بڑے کٹ بیگ کے ساتھ باہر آتے ہیں، اس میں سے ایک بڑی اور وزنی کمان نکلتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’یہ سب سے جدید ڈیزائن والی کمان ہے۔ لیکن ہمارے لوکل ٹورنامنٹ میں اس کی اجازت نہیں ہے۔ کوئی اس سے پریکٹس کر سکتا ہے، لیکن میچ کھیلنے کے لیے روایتی کمان اور تیر لازمی ہیں۔ میں اور میرے بھائی، ہم دونوں اُن ٹورنامنٹوں میں پاپا کے ذریعے بنائی گئی کمان سے کھیلتے ہیں۔ اس بار، میرا بھائی دہلی سے کچھ الگ قسم کی لکڑی کی پالش لایا اور اپنی کمان کو اس سے رنگا۔ میری کمان اُس روایتی پینٹ سے پالش کی گئی ہے، جس کا استعمال میرے والد عرصے سے کرتے آ رہے ہیں۔‘‘

بھوٹیا فیملی انتہائی افسوس کے ساتھ بتاتی ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران کمان کی فروخت میں کمی آئی ہے۔ ان کی کمان زیادہ تر لوسانگ کے بودھ تہوار میں فروخت ہوتی ہے، جو کہ سکّم میں بھوٹیا قبیلہ کا نئے سال کا جشن ہے۔ فصل آنے کے بعد تقریباً وسط دسمبر میں اس تہوار کو منایا جاتا ہے، جس میں تیر اندازی کے تمام مقابلے بھی منعقد کیے جاتے ہیں۔ شیرنگ دورجی پاری کو بتاتے ہیں، ’’اُسی وقت زیادہ تر لوگ مٹھ کی وجہ سے یہاں آتے ہیں، اور ہم سے خریداری کرتے ہیں۔ گزشتہ کچھ برسوں میں ہم نے ہر سال مشکل سے چار سے پانچ کمانیں فروخت کی ہوں گی۔ بازار پر اب مشین سے بننے والی کمانوں کا قبضہ ہے، جو کہ مجھے لگتا ہے کہ جاپانی پیداوار ہیں۔ تقریباً ۶ یا ۷ سال پہلے تک، ہم ایک سال میں تقریباً ۱۰ کمانیں فروخت کر لیتے تھے۔‘‘

حالانکہ، ۱۰ کمانوں سے بھی کوئی خاص آمدنی نہیں ہوتی تھی۔ وہ تو ایک بڑھئی کے طور پر اُن کا فرنیچر بنانے اور ٹھیک کرنے کا کام تھا، جس سے فیملی کا گزارہ ہو سکا۔ شیرنگ کہتے ہیں کہ وہ تقریباً دس سال پہلے اس کام میں پوری طرح سرگرم تھے اور پوری فیملی میں کمانے والے واحد شخص تھے۔ انہیں ماہانہ ۱۰ ہزار روپے کی آمدنی ہوتی تھی۔ لیکن ان کی دلچسپی صرف کمان میں تھی اور کمان میں ہی ہے، بڑھئی کے کام میں نہیں۔

PHOTO • Jigyasa Mishra
PHOTO • Tashi Dorma Sherpa

بھوٹیا فیملی کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے کمان کی فروخت میں کمی آئی ہے۔ اور شیرنگ اب زیادہ کمان نہیں بنا پاتے ہیں، کیوں کہ ان کی آنکھوں کی روشنی کمزور ہو گئی ہے

بھوٹیا طرز کی کمان ایک خاص قسم کی لکڑی سے بنائی جاتی ہے، جسے عام طور پر بھوٹانی بانس کہا جاتا ہے۔ سانگے بتاتے ہیں، ’’میرے والد کے ذریعے بنائی گئی تمام کمانیں بھوٹانی بانس سے بنی ہیں، جو پہلے ہندوستان میں دستیاب نہیں تھا۔ اب ہماری سپلائی اُن کسانوں سے ہوتی ہے جنہوں نے یہاں سے ۷۰ کلومیٹر دور مغربی بنگال میں واقع کلمپونگ میں اس قسم کے بیج بوئے تھے۔ میں خود وہاں جاتا ہوں اور ایک بار میں دو سال کے لیے بانس خریدتا ہوں؛ اور ہم اسے یہاں کارتھوک میں گھر پر جمع کرکے رکھتے ہیں۔‘‘

شیرنگ کہتے ہیں، ’’آپ کو سب سے پہلے ایک استاد کی ضرورت پڑتی ہے۔ بغیر استاد کے کوئی بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ شروع میں، میں صرف لکڑی کا کام کرتا تھا۔ لیکن بعد میں، میں نے اپنے والد سے کمان بنانا سیکھا۔ میں اُن ڈیزائنوں کو دیکھتا تھا، جن سے میرے دوست کھیلتے تھے۔ آہستہ آہستہ میں اچھی کمان بنانے لگا۔ جب بھی میرے پاس کوئی آدمی کمان خریدنے آتا تھا، پہلے میں انہیں یہ دکھاتا تھا کہ انہیں استعمال کیسے کرنا ہے۔‘‘

اپنے ابتدائی دنوں کو یاد کرتے ہوئے ۸۳ سالہ کاریگر کہتے ہیں، ’’فی الحال اس سے میری کمائی نہ کے برابر ہے، لیکن پہلے حالت بہتر تھی۔ میرا یہ گھر گزشتہ ۱۰ برسوں سے میرے بچے سنبھال رہے ہیں۔ اب میں جو بھی کمان بناتا ہوں، وہ کمائی کا ذریعہ نہیں رہ گیا ہے، بس شوق کی وجہ سے بناتا ہوں۔‘‘

سانگے شیرنگ بہت ہی بے چینی سے کہتے ہیں، ’’پاپا اب بہت ساری کمان نہیں بناتے، ان کی نظر کمزور ہو گئی ہے۔ لیکن وہ اب بھی کچھ کمان بناتے ہیں۔‘‘

’’ہمیں نہیں معلوم کہ ان کے بعد اس ہنر کو آگے کون لے کر جائے گا۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Jigyasa Mishra

Jigyasa Mishra is an independent journalist based in Chitrakoot, Uttar Pradesh.

Other stories by Jigyasa Mishra
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez