یہاں کے لوگ بتاتے ہیں کہ کسی زمانے میں یہ گاؤں پوری طرح سے سبزہ زار تھا۔ ادّیہ موٹا نام کے ایک غریب کسان اور آدیواسی بزرگ کہتے ہیں، ’’ہم قدرت کے ساتھ رہتے چلے آ رہے ہیں اور ہمیشہ اپنی ضروریات اسی سے پوری کرتے ہیں۔ لیکن بجریا [دور جدید کے انسان] کے آنے کے بعد جنگل بنجر ہو چکے ہیں اور ہمیں بازار پر منحصر رہنا پڑتا ہے۔‘‘

ادّیہ موٹا ۶۲ گھروں والے اس گاؤں میں رہنے والے ۳۱۲ بھیلوں میں سے ایک ہیں۔ گجرات کے شہروں میں صنعتی اور دیگر کاموں کے لیے لکڑیوں کی بڑے پیمانے پر ہونے والی ڈُھلائی کی وجہ سے ان کے جنگل ویران کر دیے گئے۔

جل سندھی گاؤں کے ایک دوسرے آدیواسی بزرگ، باوا مہریا کہتے ہیں: ’’ہم نے ہمیشہ جنگل کی حفاظت کی ہے اور صرف اتنا ہی استعمال کیا ہے، جتنی ہمیں ضرورت پڑی۔ ہم نے جنگلات کا بیجا استعمال کبھی نہیں کیا، کیوں کہ یہی ہمارے گھر اور زندگی ہیں۔‘‘

بھیل لوگ لمبے عرصے سے جنگل کی زمین پر کھیتی کرتے چلے آ رہے تھے، لیکن ۱۹۵۷ میں ان علاقوں کو ’محفوظ جنگلات‘ قرار دیے جانے کے بعد ان میں سے زیادہ تر کو ریاست کے محکمہ جنگلات نے وہاں سے بے دخل کر دیا۔

انڈین فاریسٹ ایکٹ (۱۹۲۷) کہتا ہے کہ جنگل کو محفوظ علاقہ قرار دیتے وقت کسانوں کے زمین سے متعلق دعووں کو قانونی طریقے سے نمٹایا جانا چاہیے۔ لیکن، محکمہ جنگلات نے، آدیواسیوں کی ان قوانین سے لاعلمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، ان کی زمینوں کو ہڑپ لیا، ان کے ساتھ دھوکہ کیا۔ اس کے نتیجہ میں، بہت سے بھیل اب اپنی موروثی زمینوں پر کھیتی نہیں کر سکتے۔

سال ۱۹۸۷ میں، انہوں نے کھیدوت مزدور چیتنا سنگٹھ کی بنیاد ڈالی، تاکہ اپنے حقوق کی لڑائی لڑ سکیں اور اپنی زمینوں پر دوبارہ کھیتی کر سکیں – ادّیہ موٹا بھی اس تنظیم کے ایک رکن ہیں۔ یہ لڑائی لمبی چلی، جس کے نتیجہ میں ۲۰۰۶ میں حق جنگلات قانون بنایا گیا۔ اس لڑائی کی وجہ سے مدھیہ پردیش کے علی راج پور ضلع کے ہزاروں آدیواسی کنبوں کو ۲۰۰۸ سے اپنی آبائی جنگلاتی زمینوں کے مالکانہ حقوق حاصل ہو چکے ہیں۔

Chhota Amba village (called Amba Chhota in revenue records) in Alirajpur district of Madhya Pradesh
PHOTO • Rohit Jain
A panoramic view of the dense forest in Pujara ki Chowki village, among the few that still have such greenery. In the foreground is the farm of Ursia Punia, a Bhil cultivator
PHOTO • Rohit Jain

بائیں: مدھیہ پردیش کے علی راج پور ضلع کا چھوٹا اَمبا گاؤں (محکمہ محصولات کے ریکارڈز میں یہ اَمبا چھوٹا کے نام سے درج ہے)۔ دائیں: پُجارا کی چوکی گاؤں کے گھنے جنگل کا ایک خوبصورت نظارہ، جو اُن چند گاؤوں میں سے ایک ہے جہاں اب بھی سبزہ زار بچا ہے۔ سامنے بیچ میں ایک بھیل کسان، اُرسیا پُنیا کا کھیت ہے

A tribal family in Attha village separating jowar from the chaff. Sorghum, millets and maize are the main cereal crops that the Adivasis cultivate in this region. The produce is just about enough for their own consumption for a year; they don’t sell any of it
PHOTO • Rohit Jain
An Adivasi farmer in Attha standing amidst his resplendent crop of  bajra. The productivity of the kharif crop here, grown only using cattle manure, is quite high. But the landholding is so small that the total produce is not enough to feed everyone in the village
PHOTO • Rohit Jain

بائیں: اَٹھّا گاؤں کی ایک آدیواسی فیملی جوار کی بھوسی الگ کرتے ہوئے۔ سورغم، باجرا اور مکئی وہ اناج ہیں، جنہیں آدیواسی اس علاقے میں اُگاتے ہیں۔ پیداوار اتنی ہو جاتی ہے کہ وہ سال بھر اسی پر گزارہ کرتے ہیں؛ وہ اس میں سے کچھ بھی بیچتے نہیں ہیں۔ دائیں: اَٹھّا میں باجرا کے اپنے کھیت میں کھڑا ایک آدیواسی کسان۔ یہاں پر خریف فصل کی پیداوار کافی ہوتی ہے، جس میں صرف جانوروں کے گوبر سے بنائی ہوئی کھاد استعمال کی جاتی ہے۔ لیکن، لوگوں کے پاس کھیت اتنے چھوٹے چھوٹے ہیں کہ ان میں پیدا ہونے والی کل فصل سے گاؤں کے ہر آدمی کا پیٹ نہیں بھر سکتا

PHOTO • Rohit Jain

آدیواسی لوگ موجودہ فصل سے حاصل کیے گئے بیج کو بورے میں رکھ کر درختوں پر ٹانگ دیتے ہیں۔ اگلے سال وہ اسی بیج کو بوتے ہیں اور عام طور سے بازار سے بیج نہیں خریدتے

Livestock is a major source of capital support for the Bhils. All members of the household contribute to looking after the animals. But due to a lack of fodder in the deforested hills, not much milk is produced
PHOTO • Rohit Jain
All members of the household contribute to looking after the animals. But due to a lack of fodder in the deforested hills, not much milk is produced. Right: Here the women of Attha village are working together to repair a farm bund made of stones. The Bhils pool labour – they work on each other's farms to save on monetary wages. This custom is called ‘dhas’
PHOTO • Rohit Jain

بائیں: بھیلوں کے لیے پیسے کا سب سے بڑا ذریعہ مویشی ہیں۔ گھر کے تمام لوگ مویشیوں کی دیکھ بھال میں مدد کرتے ہیں۔ لیکن جنگلات سے خالی ہو چکی پہاڑیوں میں چارے کی کمی کے سبب، یہ مویشی زیادہ دودھ نہیں دیتے۔ دائیں: یہاں پر اَٹھّا گاؤں کی عورتیں پتھروں سے بنائے گئے کھیت کے ایک بند کی مرمت کر رہی ہیں۔ بھیل غریب مزدور ہیں، جو ایک دوسرے کے کھیتوں پر مالی اجرت بچانے کے لیے کام کرتے ہیں۔ اس روایت کو ’ڈھاس‘ کہتے ہیں

PHOTO • Rohit Jain

پجارا کی چوکی گاؤں کے لوگ مٹی سے چھتوں کی کھپریل بنا رہے ہیں، جسے وہ بھٹی میں پکائیں گے۔ بھیل لوگ اپنی بہت سی گھریلو اور زرعی ضروریات کا انتظام خود ہی کر لیتے ہیں

Women selling sweet potatoes grown on their farms at the haat (weekly market) in Valpur village in Alirajpur. The Adivasis sell a considerable amount of local produce in these haats, including jowar, bajra, maize, sesame, groundnut, onions and potatoes. They also buy some of their household and farm items here, such as salt, sugar, cooking oil, soap, ploughs and axes
PHOTO • Rohit Jain
A kitchen in a Bhil home. The utensils are kept on stands made of logs, away from dogs and cats
PHOTO • Rohit Jain

بائیں: علی راج پور کے ولپور گاؤں کے ہاٹ (ہفتہ واری بازار) میں اپنے کھیتوں پر اُگائی گئی شکر قند بیچتی عورتیں۔ آدیواسی لوگ ان ہاٹوں میں جوار، باجرا، مکئی، تل، مونگ پھلی، پیاز اور آلو جیسی مقامی سطح پر پیدا کی جانے والی بہت سی چیزیں بیچتے ہیں۔ وہ یہاں سے بہت سے گھریلو اور کھیتی کے سامان بھی خریدتے ہیں، جیسے نمک، چینی، کھانا پکانے کا تیل، صابن، ہل اور کلہاڑی۔ دائیں: بھیل کے گھر میں بنا ایک باورچی خانہ۔ برتنوں کو لکڑیوں سے بنے اسٹینڈ پر رکھا جاتا ہے، تاکہ انھیں کتے اور بلیوں سے بچایا جا سکے

A woman making rotis of maize flour in Aakadiya village. Maize and sorghum are a part of the staple diet, not wheat, which is commonly used to make rotis elsewhere in India. People here can rarely afford to buy other grains from the market
PHOTO • Rohit Jain
In Attha village, Amashia Budla, 6, and his little sister, Retli, eat rotis made the previous day. Most of the villagers eat leftover rotis the next morning with crushed red chilli and edible oil
PHOTO • Rohit Jain

بائیں: آکڑیا گاؤں میں مکئی کے آٹے سے روٹی بناتی ایک عورت۔ یہاں پر کھانے میں گیہوں کا نہیں، بلکہ سورغم اور مکئی کا استعمال ہوتا ہے، جب کہ ہندوستان میں دیگر جگہوں پر گیہوں کی ہی روٹیاں پکائی جاتی ہیں۔ یہاں کے لوگوں کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ وہ بازار سے دوسرے اناج خرید سکیں۔ دائیں: اَٹھّا گاؤں کی ۶ سالہ اماشیا بڈلا، اور اس کی چھوٹی بہن، ریٹلی پچھلے دن بنائی گئی روٹی کھا رہی ہیں۔ گاؤں کے زیادہ تر لوگ باسی روٹی کو اگلے دن سرخ مرچ کی چٹنی اور تیل کے ساتھ کھاتے ہیں

Motla Thuna on a palm tree in Chilagda village, which the Bhils call ‘taad’. He is peeling off the branches to release a liquid called 'taadi'. To make taadi, the villages hang pitchers around the inflorescence (the incipient flowers of the tree) to collect the juice. This is done in the evening, and the pitchers fill up during the night. Early in the morning, it tastes like a sweet juice, but if exposed to sunlight, taadi ferments and becomes an alcoholic beverage
PHOTO • Rohit Jain
Women selling fermented taadi in the market village of Umrali. The sale of the beverage has become a major source of income. On good days in the peak season (which extends from November to February), they can each sell up to 20 litres a day at Rs. 30 per litre. That goes down as the juice tapers off and their supplies diminish
PHOTO • Rohit Jain

بائیں: چیلگدا گاؤں میں تاڑ کے پیڑ پر چڑھے ہوئے موٹلا تھونا۔ وہ تاڑی نکالنے کے لیے اس کی چھالوں کو چھیل رہے ہیں۔ تاڑی بنانے کے لیے گاؤں والے درخت کے پھولوں کے ارد گرد گھڑے لٹکا دیتے ہیں، تاکہ اس میں اس کا رس جمع ہو جائے۔ یہ کام شام میں کیا جاتا ہے، اور گھڑا رات بھر میں بھر جاتا ہے۔ صبح سویرے اس کا ذائقہ میٹھے رس جیسا ہو جاتا ہے، لیکن دھوپ میں رکھنے پر تاڑی میں خمیر آ جاتا ہے، اور اس طرح وہ شراب بن جاتی ہے۔ دائیں: اُمرلی گاؤں کے بازار میں خمیر والی تاڑی بیچتی عورتیں۔ تاڑی کی فروخت آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ جب اس کا سیزن اپنے عروج پر ہوتا ہے (نومبر سے فروری تک)، تو یہ عورتیں ایک دن میں ۲۰ لیٹر تاڑی بیچ لیتی ہیں، تب ایک لیٹر تاڑی ۳۰ روپے میں فروخت ہوتی ہے۔ اب یہ سلسلہ ختم ہو رہا ہے، کیوں کہ تاڑی اتارنے والے اب نہیں رہے، جس کی وجہ سے اس کی سپلائی کم ہونے لگی ہے

PHOTO • Rohit Jain

اندرسیا چینا، ’وَیگل گاؤں چھوٹی‘ گاؤں میں ٹُمری سے تاڑی پی رہے ہیں۔ ٹُمری مقامی سطح پر اُگائے جانے والے کدو کو سکھا کر اس کے بیچ کے حصے کو خالی کرکے بنائی جاتی ہے

PHOTO • Rohit Jain

کھمبے سے لٹکے موبائل فون کو استعمال کرتا ایک آدیواسی۔ یہاں کے کھودمبا اور دیگر بہت سے گاؤوں میں موبائل نیٹ ورک مشکل سے آتا ہے۔ فیملی کے جو لوگ کام کی تلاش میں گجرات جا چکے ہیں ان سے رابطہ رکھنے کے لیے فون نہایت ضروری ہیں

PHOTO • Rohit Jain

بھیل برادری کے بہت سے مرد و عورت گجرات میں تعمیراتی مقامات پر بطور مزدور کا کام کرتے ہیں۔ علی راج پور میں معاش کے زیادہ مواقع نہ ہونے کی وجہ سے ۸۵ فیصد آدیواسی کنبے (کھیدوت مزدور چیتنا سنگٹھ کے ذریعے کرائے گئے ایک سروے کے مطابق) سیزن کے حساب سے گجرات کے شہروں کی طرف چلے جاتے ہیں – یعنی کبھی اپنے گھنے جنگلوں میں رہنے والے اب کنکریٹ کے نئے جنگلوں کی طرف کوچ کرنے پر مجبور ہیں

PHOTO • Rohit Jain

جل سندھی گاؤں کا ایک کھیت، جو اب پہاڑی کے اوپر منتقل کیا جا چکا ہے۔ اسے اُس وقت منتقل کرنا پڑا، جب وہ پلاٹ جس پر نرمدا ندی کی زرخیز وادی میں یہ واقع تھا، سردار سروور باندھ کے ۱۹۹۸ میں بننے کے بعد یہ اس میں ڈوب گیا، جس کی وجہ سے بہت سے گاؤوں اور گاؤں والوں کو نقل مکانی کرنی پڑی

PHOTO • Rohit Jain

علی راج پور کی ویران پہاڑیوں کے اس پار نرمدا ندی کا خوبصورت منظر

PHOTO • Rohit Jain

آکڑیا میں مچھلی کا جال کھینچ رہا ایک آدیواسی۔ نرمدا کے کنارے رہنے والے زیادہ تر لوگوں کا ذریعہ معاش ماہی گیری ہے

PHOTO • Rohit Jain

بچے اس درخت کے قریب کھیل رہے ہیں جو سردار سروور باندھ میں ڈوب چکے ان کے کھیتوں میں اب بھی کھڑا ہے

PHOTO • Rohit Jain

شادی کی تقریب کے لیے تیار لڑکیاں سردار سروور باندھ کے کنارے سے گزرتے ہوئے

Marriage is an occasion for celebration and the young bridegroom has been lifted up on the shoulders of one of his dancing kinsmen
PHOTO • Rohit Jain
An Adivasi bride wearing traditional silver jewellery in preparation for marriage
PHOTO • Rohit Jain

بائیں: شادی، خوشی کا ایک موقع ہوتا ہے اور جوان دولہے کو ڈانس کرنے والا اس کا ایک رشتہ دار اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے۔ دائیں: شادی کی تیاری میں روایتی چاندی کا زیور پہنے ہوئے ایک آدیواسی دلہن

A Budliya, resplendent in fancy attire – this is a character in a group dance called Goth that is enacted just after the Holi festival in March
PHOTO • Rohit Jain
Adivasis in Bakhatgarh village dancing during the colorful Bhagoria festival, which celebrates the kharif harvest just prior to Holi in spring
PHOTO • Rohit Jain

بائیں: فینسی ڈریس میں ایک بڈلیا – یہ مارچ میں ہولی کے تہوار کے فوراً بعد ہونے والے گروپ ڈانس، گوتھ، کا ایک کردار ہے۔ دائیں: بکھت گڑھ گاؤں کے آدیواسی مختلف رنگوں سے مزین بھگوریا تہوار کے موقع پر ڈانس کر رہے ہیں، جو موسم بہار میں ہولی سے ٹھیک پہلے خریف کی فصل کے دوران منایا جاتا ہے

اس مضمون کی کچھ تصویریں کھیدوت مزدور چیتنا سنگٹھ کے رکن، مگن سنگھ کلیش کے ذریعے کھینچی گئی ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Rohit Jain

Rohit Jain is a Delhi-based freelance photographer. He was a photo sub-editor at the Hindustan Times from 2012- 2015.

Other stories by Rohit Jain
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez