گزشتہ دہائی میں، چین میں مال کے ایکسپورٹ کی بہتات کے سبب، شمالی اڑیسہ کے مشرقی گھاٹوں کے فولاد اور میگنیز جیسی معدنیات سے بھرے جنگلوں میں بڑے پیمانے پر کانکنی ہونے لگی ہے۔ اس میں سے زیادہ تر کانکنی، سپریم کورٹ کے سابق جج کی قیادت والے کمیشن نے جس کے بارے میں تفصیلی رپورٹ پیش کی ہے، نے قانون و ضوابط کی دھجیاں اڑائی ہیں، اس علاقے کے پیچیدہ ماحولیاتی نظام کو بری طرح برباد کیا ہے، اور جس کے نتیجہ میں سرکاری خزانہ کی قیمت پر کانکنی کرنے والوں کو بے انتہا منافع ہوا ہے۔

خود ریاستی حکومت نے دیر سے ہی سہی، لیکن جسٹس ایم بی شاہ کمیشن کے سامنے یہ تسلیم کیا کہ ایک دہائی تک ۵۹،۲۰۳ کروڑ روپے کے خام دھات کی غیر قانونی کانکنی ہوئی ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق، یہ ریاست کی مجموعی گھریلو پیداوار کا تقریباً ایک چوتھائی ہے۔

زمینی سطح پر، اس لوٹ کی حوصلہ افزائی جہاں ایک طرف فرسودہ قوانین اور مبہم سرکاری نظام کی وجہ سے ہو رہی ہے، وہیں دوسری طرف ریاست کے ذریعہ روایتی طور پر پس ماندہ آدیواسی برادریوں کی اندیکھی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ آدیواسی برادری یہاں کی مقامی آبادی کا غالب حصہ ہیں، جنہیں کانکنی کے پروجیکٹوں اور ان کے برے اثرات کا اندازہ لگانے سے متعلق فیصلہ لینے کے عمل میں بہت کم حصہ داری عطا کی جاتی ہے۔

شاہ کمیشن کی رپورٹ پارلیمنٹ میں ۱۰ فروری کو پیش کی گئی، لیکن اس پر کوئی بحث نہیں ہوئی۔ اپنی ایکشن ٹیکن رپورٹ میں، مرکزی حکومت اور ساتھ ہی وزارتِ ماحولیات و جنگلات نے کہا کہ وہ ضروری کلیئرنس لیے بغیر جنگلاتی علاقوں میں کانکنی جیسی غیر قانونی کارروائیوں کی جانچ کرنے کے لیے قدم اٹھا رہی ہیں۔

ریاستی حکومت نے مذکورہ کمیشن کو بتایا کہ اس نے ان مائن لیز ہولڈرس کو ۱۴۶ ریکوری نوٹسز جاری کیے ہیں، جنہوں نے غیر قانونی طریقے سے خام لوہے اور میگنیز کی کانکنی کی ہے۔ ریاست کے ڈائریکٹوریٹ آف مائنس کے ایک اہل کار نے اس ہفتہ بتایا کہ یہ رقم ان سے لینی ابھی باقی ہے، بعض لیز ہولڈرس نے اسٹے آرڈرس حاصل کرنے کے لیے مقامی عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے، جس کی وجہ سے رقم کی ریکوری اب عدالت میں زیر التوا معاملہ بن گیا ہے، جب کہ دوسرے معاملوں میں کارروائی اب بھی جاری ہے۔

مزید برآں، ریاستی حکومت نے بڑی تیزی سے شاہ کمیشن کی بڑے پیمانے پر کی گئی غیر قانونی کانکنی کی جانچ سی بی آئی سے کرانے کی تجویز کی مخالفت کی ہے، یہ وہ مطالبہ ہے، جس کی وکالت نان پرافٹ ’کامن کاز‘ کے وکیل پرشانت بھوشن فی الحال سپریم کورٹ میں جاری سماعت کے دوران کر رہے ہیں۔

وائلڈ لائف اور ٹرانس پیرنسی کارکن بسواجیت موہنتی، جو ۲۰۰۸ سے اڑیسہ میں غیر قانونی کانکنی کے مدعے کو اٹھاتے رہے ہیں، کے مطابق، مقامی حکام کے ذریعے با معنی کارروائی نہ ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ’’ہزاروں کروڑ کی پبلک پراپرٹی کی لوٹ ہونے کے باوجود، آج تک کسی بھی سرکاری نوکر یا پرائیویٹ اہل کار کو نہ تو جیل بھیجا گیا ہے، نہ ہی مائننگ کا کوئی لائسنس اب تک ردّ کیا گیا ہے، اور نہ ہی اب تک ایک روپیہ بھی واپس لیا گیا ہے۔‘‘

سُندر گڑھ کے بونائی علاقے کی یہ تصویریں کانکنی کی جا چکی زمینوں اور جن علاقوں میں ابھی کانکنی ہونی باقی ہے، ان کے درمیان کے فرق کو دکھاتی ہیں۔


/static/media/uploads/Articles/Chitrangada/Illegal Minings Ground Zero/1.jpg


شمالی اڑیسہ کے بیش قیمتی برگ ریز جنگلات اور پہاڑی علاقوں میں پورے ہندوستان کے ایک تہائی ہیمیٹائٹ خام لوہے کے ذخائر موجود ہیں، جو اس علاقے کو پچھلی دہائی میں ملک کا سر فہرست آئرن اور مائننگ ایریا بناتے ہیں، ساتھ ہی یہ ریاست میں بدعنوانی پر مبنی گھوٹالے کا سب سے بڑا علاقہ بھی بن چکا ہے۔


/static/media/uploads/Articles/Chitrangada/Illegal Minings Ground Zero/2.jpg


ایک مائننگ کمپنی، بونائی کے مائننگ ٹاؤن کے آس پاس سڑک کی تعمیر کروا رہی ہے۔ سرکاری ریکارڈوں کے مطابق، شمالی اڈیشہ میں ۴۵ ہزار ہیکٹیئرس پر خام لوہے اور میگنیز کی کانکنی ہو رہی ہے، جن میں سے ۳۴ ہزار ہیکٹیئرس زمین جنگلاتی علاقے میں واقع ہے۔


/static/media/uploads/Articles/Chitrangada/Illegal Minings Ground Zero/3.jpg


خام لوہے لے جاتے ہوئے ٹرک اس علاقہ کی سڑکوں پر سب سے زیادہ نظر آتے ہیں، جو مقامی پیدل چلنے والوں کو کنارے دھکیل دیتے ہیں۔ یہ ٹرک صرف اتوار کو رُکتے ہیں، وہ بھی اس لیے کہ گاؤں والوں نے ہفتہ میں ایک دن کا بریک مانگنے کے لیے احتجاج کیا تھا، تاکہ وہ گرجا گھر اور بازار تک جانے کے لیے اُس دن سڑکوں کا استعمال کر سکیں۔


/static/media/uploads/Articles/Chitrangada/Illegal Minings Ground Zero/4.jpg


کورمیتار پہاڑی علاقوں میں واقع کانوں تک جانے والی سڑک پر ٹرکوں کا جام لگا ہوا ہے۔ شاہ کمیشن نے اندازہ لگایا ہے کہ اگر موجودہ رفتار سے ہی کانکنی ہوتی رہی، تو اس علاقے میں معیاری خام لوہے کے ذخائر ۳۵ برسوں میں ختم ہو جائیں گے، لیکن سرکار کمیشن کے اس دعوے کی تردید کر رہی ہے۔


/static/media/uploads/Articles/Chitrangada/Illegal Minings Ground Zero/6.jpg


دیسی پوڑی بھوئیاں کمیونٹی کے پربھو سہائے ٹوپونو، پہاڑی علاقے کے خشک چشمے کے پاس سے گزر رہے ہیں، جو کہ ایک کان کے کنارے پر اس پہاڑی آبادی میں پانی کا واحد ذریعہ ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہاں کے باشندوں نے گزشتہ سات برسوں کے دوران پانی کے اس چشمے سے مچھلیوں کو گم ہوتے دیکھا ہے۔ برسات کے موسم میں، کان کے فضلے بہہ کر اس چشمے میں آتے ہیں، جس کی وجہ سے اس پانی سے خریف فصل کی سینچائی ناممکن ہو گئی ہے۔ ’’ہم لال آلودہ پانی کو پلاسٹک کے پیکٹ میں لے کر افسروں کے پاس گئے اور ان سے شکایت کی،‘‘ ٹوپونو بتاتے ہیں۔ ’’انھوں نے کہا کہ وہ کارروائی کریں گے، لیکن کچھ نہیں ہوا۔‘‘


/static/media/uploads/Articles/Chitrangada/Illegal Minings Ground Zero/7.jpg


لمبی مسافتوں پر واقع دور دراز کے گاؤوں نے مائننگ کمپنیوں اور سرکاری اہل کاروں کے لیے یہ آسانی پیدا کردی کہ وہ آدیواسی برادریوں کو ماحولیاتی پبلک سماعتوں یا پھر پروجیکٹوں کے لیے جنگلات کی کٹائی کی تجویز کی ان سے منظوری لینے جیسی محدود کارروائیوں سے انھیں دور رکھ سکیں۔


/static/media/uploads/Articles/Chitrangada/Illegal Minings Ground Zero/8.jpg


علاقے کی دیسی آدیواسی برادریاں پوری طرح سے جنگلاتی پیداواروں پر منحصر ہیں، خاص کر لاکھ، مہوا، اور کھانے کا نمک، ایندھن اور ذریعہ معاش کے لیے۔


uploads/Articles/Chitrangada/Illegal Minings Ground Zero/9.jpg


اڑیسہ مائننگ کارپوریشن کی آئرن اور مائن میں ۹ گھنٹے روزانہ کام کرنے کے بعد، جیترو گیری اور ان کے اہلِ خانہ کان کے پاس ہی موجود اپنی جھونپڑی میں واپس لوٹتے ہیں۔ اِن کانوں میں زیادہ تر آدیواسی مرد اور عورتیں مزدوری کرتی ہیں، لہٰذا شاہ کمیشن نے مائننگ کمپنیوں کی یہ کہتے ہوئے تنقید کی تھی کہ وہ انہیں مناسب مزدوری یا دیگر فوائد نہیں دیتی ہیں، جب کہ غیر قانونی کانکنی سے وہ خود ’’بہت زیادہ‘‘ منافع کما رہی ہیں۔


/static/media/uploads/Articles/Chitrangada/Illegal Minings Ground Zero/10.jpg


خام لوہے سے مالا مال ۳ ہزار میٹر اونچے چھیلیا ٹوکا علاقے پر بادل چھا رہے ہیں۔ اس علاقے کے ارد گرد کے گاؤوں والے، جیسے کہ یہاں پھول جھر کی تصویر لی گئی ہے، جنوبی کوریا کی اسٹیل کی سب سے بڑی کمپنی کے ذریعہ اس علاقہ میں ڈھائی ہزار ہیکٹیئر کان پر پلانٹ لگانے کی مخالفت کر رہے ہیں، جب کہ ریاستی حکومت نے حال ہی میں کانکنی کی اجازت دے دی ہے۔ یہاں کے باشندوں نے بتایا کہ ان کی بنیادی تشویش یہ ہے کہ کان کا اس علاقے میں پہاڑ سے نکلنے والے پانی کے چشموں کے سلسلہ پر ماحولیاتی اثر پڑے گا، جن سے فی الحال وہ اپنے کھیتوں کی سینچائی کرتے ہیں اور سال بھر اپنے کھیتوں پر فصل اُگاتے ہیں۔


/static/media/uploads/Articles/Chitrangada/Illegal Minings Ground Zero/11.jpg


چھیلیاٹوکا رینج ۸۰۰ فیٹ کی بلندی پر کھانڈادھار جھرنے کا محل وقوع ہے، جو کہ ریاست کا دوسرا سب سے بڑا جھرنا ہے۔

اس اسٹوری کا ایک ورژن سب سے پہلے مئی ۲۰۱۴ میں ڈاؤن ٹو اَرتھ میں شائع ہوا تھا، جسے یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔

Chitrangada Choudhury
suarukh@gmail.com

Chitrangada Choudhury is an independent journalist, and a member of the core group of the People’s Archive of Rural India.

Other stories by Chitrangada Choudhury
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez