شمال مغربی مہاراشٹر کی ستپوڑہ پہاڑیوں کے درمیان واقع پھلئی گاؤں میں، ایک پھوس کی جھونپڑی کے اندر آٹھ سالہ شرمیلا پاورا اپنی ’اسٹڈی ٹیبل‘ پر بڑی قینچی، کپڑے، سوئی اور دھاگے کے ساتھ بیٹھی ہے۔

میز پر ایک پرانی سلائی مشین رکھی ہوئی ہے، جس پر وہ کپڑا رکھا ہے جسے شرمیلا کے والد نے گزشتہ رات ادھورا چھوڑ دیا تھا۔ شرمیلا اسے اٹھاتی ہے اور سلائی شروع کردیتی ہے، اور سلائی کے اپنے ہنر کے سہارے پیڈل مارنے لگتی ہے۔

مارچ ۲۰۲۰ میں لاک ڈاؤن شروع کے بعد اسکول بند ہو گئے تھے، تب سے نندربار ضلع کے تورن مال علاقے میں واقع اس گاؤں میں یہ اسٹڈی ٹیبل ہی اس کے سلائی مشین سیکھنے کی جگہ بن چکا ہے۔ وہ کہتی ہے، ’’ماں اور بابا کو سلائی کرتے دیکھ، میں نے خود ہی مشین چلانا سیکھا ہے۔‘‘

۱۸ مہینے سے اسکول کھلا نہ ہونے کے سبب، وہ وہاں کی ساری پڑھائی تقریباً بھول چکی ہے۔

پھلئی میں کوئی اسکول نہیں ہے۔ اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ بنانے کی امید کے ساتھ، جون ۲۰۱۹ میں شرمیلا کے والدین نے اپنے گاؤں سے تقریباً ۱۴۰ کلومیٹر دور، نندربار شہر کے اٹل بہاری واجپئی بین الاقوامی رہائشی اسکول میں اس کا داخلہ کروایا تھا۔ یہ اسکول، ضلع پریشد کے ذریعے چلایا جاتا ہے اور مہاراشٹر انٹرنیشنل ایجوکیشن بورڈ سے جڑی تقریباً ۶۰ دھرم شالاؤں (درج فہرست قبائل کے بچوں کے لیے پورے مہاراشٹر میں چلائے جا رہے مخصوص اسکول) میں سے ایک ہے۔ سال ۲۰۱۸ میں قائم کردہ بورڈ نے ’بین الاقوامی سطح‘ کی تعلیم فراہم کرنے کا دعویٰ کیا تھا، اور اس اسکول کو مقامی طور پر ڈیزائن کیا گیا تھا اور مراٹھی میں درس و تدریس جاری رہی۔ (بورڈ کو تب سے ختم کر دیا گیا ہے اور اب یہ اسکول ریاستی بورڈ کے تحت آتے ہیں۔)

Sharmila Pawra's school days used to begin with the anthem and a prayer. At home, her timetable consists of household tasks and ‘self-study’ – her sewing ‘lessons’
PHOTO • Jyoti Shinoli
Sharmila Pawra's school days used to begin with the anthem and a prayer. At home, her timetable consists of household tasks and ‘self-study’ – her sewing ‘lessons’
PHOTO • Jyoti Shinoli

اسکول میں شرمیلا کے دن کی شروعات قومی ترانہ اور پرارتھنا سے ہوتی تھی۔ گھر پر اس کے ٹائم ٹیبل میں گھریلو کاموں کے ساتھ ساتھ، خود سے سلائی سیکھنا شامل ہے

شرمیلا نے جب اسکول جانا شروع کیا تھا، تو مراٹھی اس کے لیے ایک نئی زبان تھی۔ اس کا تعلق پاورا برادری سے ہے اور اس کے گھر میں ’پاوری‘ بولی جاتی ہے۔ میری نوٹ بک میں مراٹھی الفاظ کو دیکھ کر، وہ کچھ حروف یاد کرتی ہے جو اس نے سیکھے تھے؛ لیکن مجھ سے ہندی میں کہتی ہے، ’’مجھے سارے حروف یاد نہیں...‘‘

وہ اسکول میں مشکل سے ۱۰ مہینے رہی ہوگی۔ وہ پہلی کلاس میں پڑھ رہی تھی، جب اسکول کا کیمپس بند کیا گیا اور اسکول میں پڑھنے والے اکرانی تعلقہ (جہاں شرمیلا کا گاؤں واقع ہے) کے ۴۷۶ بچوں کو گھر واپس بھیج دیا گیا۔ شرمیلا کہتی ہے، ’’مجھے نہیں معلوم کہ اسکول اب پھر سے کب شروع ہوگا۔‘‘

اسکول میں اس کے دن کی شروعات قومی ترانہ اور صبح کی پرارتھنا (دعا) سے ہوتی تھی۔ گھر پر اس کا دن بہت الگ طریقے سے گزرتا ہے: ’’میں پہلے بورویل [اس کے گھر کے باہر واقع بورویل] سے پانی لاتی ہوں۔ پھر جب تک ماں کھانا بناتی ہیں، تب تک میں اپنی بہن رنکو [اس کی ایک سال کی بہن] کی دیکھ بھال کرتی ہوں۔ میں اس کے ساتھ ادھر ادھر گھومتی ہوں اور اسے چیزیں دکھاتی ہوں۔‘‘ جب اس کے ماں باپ کسی اور کام میں مصروف ہوتے ہیں، تب شرمیلا خود سے سلائی سیکھنے کی اپنی ’کلاس‘ شروع کر دیتی ہے۔

شرمیلا کے چار بھائی بہن ہیں، اور وہ ان سب میں سب سے بڑی ہے۔ اس کا بھائی راجیش پانچ سال، بہن ارمیلا تین سال، اور رنکو ایک سال کی ہے۔ شرمیلا کے ۲۸ سالہ والد راکیش کہتے ہیں، ’’وہ کویتائیں (نظمیں) پڑھ لیتی تھی، مراٹھی حروف کے الفاظ لکھ سکتی تھی۔‘‘ وہ اب اپنے دوسرے بچوں کی پڑھائی کو لے کر فکرمند ہیں۔ راجیش اور ارمیلا کو چھ سال کا ہونے پر ہی اسکول میں ڈالا جا سکتا ہے۔ راکیش کہتے ہیں، ’’اگر شرمیلا لکھ پڑھ سکتی تو اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کو پڑھا سکتی تھی۔‘‘ وہ اپنی بیٹی شرمیلا کو بڑی چالاکی سے سلائی مشین چلاتے ہوئے دیکھ کر کہتے ہیں، ’’دو سال میں بچی کی زندگی کا کھیل بن گیا ہے۔‘‘

Classmates, neighbours and playmates Sunita (in green) and Sharmila (blue) have both been out of school for over 18 months
PHOTO • Jyoti Shinoli
Classmates, neighbours and playmates Sunita (in green) and Sharmila (blue) have both been out of school for over 18 months
PHOTO • Jyoti Shinoli

ہم جماعت، پڑوسی اور کھیلنے میں ساتھی، سنیتا (سبز کپڑے رمیں) اور شرمیلا (نیلے کپڑے میں) ۱۸ مہینے سے زیادہ وقت سے اسکول نہیں گئی ہیں

شرمیلا کی ۲۵ سالہ ماں سرلا کہتی ہیں، ’’ہم شرمیلا کو پڑھا لکھا دیکھنا چاہتے ہیں، چاہتے ہیں کہ وہ ایک افسر بنے، نہ کہ ہماری طرح درزی۔ اگر آپ پڑھ لکھ نہیں سکتے، تو لوگ آپ کی عزت نہیں کرتے۔‘‘

سرلا اور راکیش ساتھ مل کر سلائی کے کام سے مہینہ کے ۵-۶ ہزار روپے کما لیتے ہیں۔ کچھ سال پہلے تک، راکیش اور سرلا کھیتوں میں مزدوری کے لیے گجرات یا مدھیہ پردیش جاتے تھے۔ راکیش کہتے ہیں، ’’شرمیلا کی پیدائش کے بعد ہم نے مہاجرت کرنی چھوڑ دی، کیوں کہ وہ اکثر بیمار رہتی تھی [جب ہم مہاجرت کے مہینوں میں اسے اپنے ساتھ لے گئے]؛ اور اس لیے بھی کہ ہم اسے اسکول بھیجنا چاہتے تھے۔‘‘

نوجوانی کی عمر میں ہی انہوں نے اسی گاؤں میں رہنے والے اپنے چچا گلاب (۲۰۱۹ میں ان کا انتقال ہوگا) سے سلائی کا کام سیکھا تھا۔ ان کی مدد سے راکیش نے سلائی مشینیں خریدیں اور سرلا کو بھی کام سکھانا شروع کیا۔

سرلا کہتی ہیں، ’’ہمارے پاس کوئی کھیت تو تھا نہیں، اس لیے ہم نے سال ۲۰۱۲ میں ۱۵ ہزار روپے میں دو سیکنڈ ہینڈ مشینیں خرید لیں۔‘‘ اس کے لیے انہوں نے زرعی مزدوری کرکے جمع کیا گیا اپنا پورا پیسہ اور راکیش کے والدین سے ملے کچھ پیسے لگا دیے۔ ان کی مدد کے لیے چچا گلاب نے اپنے کچھ صارفین راکیش اور سرلا کو دے دیے تھے۔

راکیش بتاتے ہیں، ’’ہمارے پاس راشن کارڈ نہیں ہے؛ ۳-۴ ہزار روپے صرف راشن خریدنے میں چلے جاتے ہیں۔‘‘ سرلا ضرورت کے سامانوں کی ایک فہرست بناتی ہیں – گیہوں کا آٹا اور چاول، دال، نمک، مرچ پاؤڈر... وہ کہتی ہیں، ’’میرے بچے بڑے ہو رہے ہیں، تو ہم ان کے کھانے پینے [غذا] سے سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔‘‘

'If she could read and write, she could have taught her younger siblings. In these two years, my child’s life has turned into a game', Rakesh says
PHOTO • Jyoti Shinoli
'If she could read and write, she could have taught her younger siblings. In these two years, my child’s life has turned into a game', Rakesh says
PHOTO • Jyoti Shinoli

راکیش کہتے ہیں، ’اگر شرمیلا پڑھ لکھ پاتی، تو اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کو پڑھا سکتی تھی۔ ان دو سالوں میں میری بچی کی زندگی کھیل بن گئی ہے‘

بچوں کی تعلیم کے لیے پیسہ بچانا ان کے لیے ناممکن ہے اور وہ آشرم شالاؤں کے احسان مند ہونے کا اظہار کرتے ہیں۔ سرلا کہتی ہیں، ’’وہاں کم از کم بچے پڑھتے تو ہیں اور انہیں کھانے کو بھی ملتا ہے۔‘‘ لیکن آشرم شالا پہلی کلاس سے ۷ویں کلاس تک کے بچوں کے لیے ابھی بھی بند ہے۔

دور دراز کے علاقے میں واقع اکرانی تعلقہ میں، آن لائن تعلیم فی الحال دوسری دنیا کی چیز ہے۔ آشرم شالہ کے ٹیچر وہاں کے ۴۷۶ طلبہ میں سے، شرمیلا سمیت ۱۹۰ طلبہ سے رابطہ نہیں کر پائے اور یہ طالب علم باضابطہ تعلیم سے پوری طرح دور ہو گئے ہیں۔

نندربار کے رہنے والے اور آشرم شالہ کے ٹیچر سریش کہتے ہیں، ’’۹۰ فیصد سے زیادہ والدین کے پاس تو عام ہینڈ سیٹ والا موبائل تک نہیں ہے۔‘‘ ۴۴ سالہ سریش، اسکول کے اُن نو ٹیچروں میں سے ایک ہیں جو وبائی مرض شروع ہونے کے بعد سے اکرانی کے گاؤوں میں جاتے ہیں اور طلبہ کو پڑھاتے ہیں۔

سریش کہتے ہیں، ’’ہم یہاں [ہفتے میں] تین دن کے لیے آتے ہیں، گاؤں کے کسی ایک گھر میں رک جاتے ہیں۔‘‘ جب بھی ٹیچر گاؤں آتے ہیں، تو پہلی سے ۱۰ویں کلاس کے ۱۰-۱۲ طلبہ کو جمع کر پاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ایک بچہ پہلی کلاس کا ہو سکتا ہے، دوسرا ۷ویں کا ہو سکتا ہے، لیکن ہمیں [ان سبھی کو ایک ساتھ] پڑھانا پڑتا ہے۔‘‘

ٹیچروں کی یہ ٹیم شرمیلا تک نہیں پہنچ پائی ہے۔ سریش کہتے ہیں، ’’کئی بچے کافی دور اور اندرونی گاؤوں میں رہتے ہیں اور وہاں فون کنیکٹویٹی نہیں ہوتی یا وہاں تک سڑکیں نہیں جاتی ہیں۔ ان کا پتہ لگا پانا مشکل ہوتا ہے۔‘‘

Reaching Sharmila’s house in the remote Phalai village is difficult, it involves an uphill walk and crossing a stream.
PHOTO • Jyoti Shinoli
Reaching Sharmila’s house in the remote Phalai village is difficult, it involves an uphill walk and crossing a stream.
PHOTO • Jyoti Shinoli

دور دراز کے علاقے میں واقع پھلئی گاؤں میں شرمیلا کے گھر تک پہنچنا مشکل کام ہے۔ وہاں تک پہنچنے کے لیے پہاڑ پر چڑھائی کرنی پڑتی ہے اور ندی کو پار کرنا ہوتا ہے

پھلئی گاؤں میں شرمیلا کے گھر تک پہنچنا مشکل کام ہے۔ اگر سب سے چھوٹے راستے سے بھی جایا جائے، تو پہلے پہاڑ کی چڑھائی کرنی ہوتی ہے اور اس کے بعد ایک ندی پار کرنی ہوتی ہے۔ وہیں، دوسرا راستہ دراصل ایک کیچڑ سے بھری سڑک ہے اور ادھر سے جانے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔ راکیش کہتے ہیں، ’’ہمارا گھر کافی اندرونی حصے میں ہے۔ ٹیچر اس طرف کبھی آئے نہیں۔‘‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ شرمیلا جیسے تمام طالب علم، اسکول بند ہونے کے بعد سے ہی تعلیم سے پوری طرح محروم ہیں۔ جنوری ۲۰۲۱ کے ایک مطالعہ میں کہا گیا ہے کہ وبائی مرض کے سبب اسکول بند ہونے کے بعد سے، ۹۲ فیصد بچے کوئی نہ کوئی صلاحیت یا ہنر گنوا چکے ہیں – چاہے تصویر یا اپنے تجربات کو بول کر بتانا ہو، جانے پہچانے الفاظ کو پڑھنا ہو، چاہے سمجھ بوجھ کر پڑھنا ہو، یا پچھلے سالوں کی کسی تصویر کی بنیاد پر آسان جملہ لکھنا ہو۔

*****

شرمیلا کی آٹھ سالہ پڑوسن اور ہم جماعت، سنیتا پاورا کہتی ہے، ’’میں نے اسکول میں پنسل سے اپنا نام لکھنا سیکھا تھا۔‘‘ سنیتا اسکول بند ہونے سے پہلے، پہلی کلاس میں پڑھتی تھی۔

سنیتا جوش سے اپنے مٹی کے گھر کے باہر رکھے کپڑوں میں سے، اسکول کی ڈریس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہے، ’’میں اس ڈریس کو اسکول میں پہنتی تھی۔ میں اسے کبھی کبھی گھر پر بھی پہنتی ہوں۔ بائی [ٹیچر] ایک کتاب [تصویر والی کتاب] سے پھل دکھاتی تھیں۔ رنگین پھل۔ اس کا رنگ لال تھا۔ مجھے اس کا نام نہیں معلوم۔‘‘ وہ یاد کرنے کی پوری کوشش کرتی ہے۔ اس کی یادوں میں اب اسکول دھندلا چکا ہے۔

Every year, Sunita's parents Geeta and Bhakiram migrate for work, and say, 'If we take the kids with us, they will remain unpadh like us'
PHOTO • Jyoti Shinoli
Every year, Sunita's parents Geeta and Bhakiram migrate for work, and say, 'If we take the kids with us, they will remain unpadh like us'
PHOTO • Jyoti Shinoli

ہر سال، سنیتا کے والدین، گیتا اور بھاکی رام، کام کی تلاش میں کسی دوسری جگہ جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’اگر ہم بچوں کو اپنے ساتھ لے جائیں گے، تو وہ ہماری طرح ان پڑھ رہ جائیں گے‘

سنیتا اب اپنی نوٹ بک میں نہ کچھ لکھتی ہے اور نہ ہی کوئی تصویر بناتی ہے۔ لیکن وہ شرمیلا کے ساتھ اسٹاپو (چبڈی) کے کھیل کی تیاری کرتے ہوئے، اپنے گھر کے پاس تارکول کی روڈ پر ایک سفید پتھر سے کچھ چوکور خانے بناتی ہے۔ اس کے تین بھائی بہن ہیں – دلیپ (چھ سال)، امیتا (پانچ سال)، اور دیپک (چار سال)۔ آٹھ سال کی سنیتا ان میں سب سے بڑی ہے اور اکیلی ہے جو اسکول جاتی ہے۔ حالانکہ، سنیتا کے والدین کو امید ہے کہ وہ اپنے دوسرے بچوں کو بھی اسکول بھیج پائیں گے۔

اس کے والدین، گیتا اور بھاکی رام مانسون کے دوران ایک ایکڑ کی کھڑی ڈھلان والی زمین پر کھیتی کرتے ہیں اور فیملی کے کھانے کے لیے ۲ سے ۳ کوئنٹل جوار اُگا لیتے ہیں۔ ۳۵ سالہ گیتا کہتی ہیں، ’’صرف اس کے سہارے گزارہ مشکل ہے۔ ہم کام پانے کے لیے باہر جاتے ہیں۔‘‘

ہر سال وہ اکتوبر میں فصل کٹنے کے بعد گجرات چلے جاتے ہیں اور کپاس کے کھیتوں میں ۲۰۰ سے ۳۰۰ روپے یومیہ کے حساب سے دہاڑی مزدوری کرتے ہیں۔ اس طرح، وہ ہر سال اپریل سے مئی تک، تقریباً ۲۰۰ دن کام کرتے ہیں۔ ۴۲ سالہ بھاکی رام کہتے ہیں، ’’اگر ہم بچوں کو اپنے ساتھ لے جائیں گے، تو وہ ہماری طرح ان پڑھ رہ جائیں گے۔ ہم جہاں جاتے ہیں وہاں کوئی اسکول نہیں ہوتا۔‘‘

گیتا کہتی ہیں، ’’آشرم شالاؤں میں بچے رہنے کے ساتھ پڑھتے بھی ہیں۔ سرکار کو ان اسکولوں کو پھر سے کھولنا چاہیے۔‘‘

'I used to wear this dress in school. I wear it sometimes at home', Sunita says. School for her is now a bunch of fading memories
PHOTO • Jyoti Shinoli
'I used to wear this dress in school. I wear it sometimes at home', Sunita says. School for her is now a bunch of fading memories
PHOTO • Jyoti Shinoli

سنیتا کہتی ہیں، ’میں یہ ڈریس اسکول میں پہنتی تھی۔ میں اسے کبھی کبھی گھر پر بھی پہنتی ہوں‘۔ اب اس کی یادوں کا اسکول دھندلانے لگا ہے

۱۵ جولائی ۲۰۲۱ کی ایک سرکاری تجویز کے مطابق: ’’ریاست کے سرکاری امداد یافتہ رہائشی اور ایکلویہ ماڈل رہائشی اسکولوں کو صرف کووڈ سے پاک علاقوں میں ۲ اگست ۲۰۲۱ سے ۸ویں سے ۱۲ویں کلاس تک کے طلبہ کے لیے کھولنے کی اجازت دی گئی ہے۔

نندربار ضلع پریشد کے رکن، گنیش پراڈکے اندازہ لگاتے ہوئے کہتے ہیں، ’’نندربار میں ۲۲ ہزار طلبہ کے لیے تقریباً ۱۳۹ سرکاری رہائشی اسکول ہیں۔‘‘ ان اسکولوں میں پہاڑی اور جنگل سے گھرے اکرانی تعلقہ کے طالب علم بڑی تعداد میں آتے ہیں۔ وہ آگے کہتے ہیں، ’’کئی طلبہ کی پڑھائی میں دلچسپی نہیں رہی اور زیادہ تر لڑکیوں کی شادی ہو چکی ہے۔‘‘

*****

شرمیلا کے گھر سے تقریباً ۴۰ کلومیٹر دور واقع اکرانی تعلقہ کے سندیدیگر گاؤں کے پاس ۱۲ سالہ رہیداس پاورا اپنے دو دوستوں کے ساتھ ۱۲ بکریاں اور پانچ گائیں چرا رہا ہے۔ رہیداس کہتا ہے، ’’ہم یہاں کچھ دیر رکتے ہیں۔ ہمیں یہ جگہ پسند ہے۔ آپ یہاں سے سبھی پہاڑیاں، گاؤں اور آسمان... سب کچھ دیکھ سکتے ہیں۔‘‘ رہیداس یہاں سے تقریباً ۱۵۰ کلومیٹر دور، نواپور تعلقہ میں واقع کائی ڈی جے کوکنی آدیواسی چھاترالیہ شراونی میں پڑھتا تھا۔ وبائی مرض کے سبب اگر اسکول بند نہیں ہوتا، تو وہ ابھی ۶ویں کلاس میں بیٹھ کر تاریخ یا ریاضی یا جغرافیہ یا کوئی دوسرا مضمون پڑھ رہا ہوتا۔

رہیداس کے ۳۶ سالہ والد پیانے اور ۳۲ سالہ ماں شیلا، مانسون کے دوران اپنی دو ایکڑ کی زمین میں مکئی اور جوار کی کھیتی کرتے ہیں۔ رہیداس کہتا ہے، ’’میرا بڑا بھائی رام داس کھیت میں ان کی مدد کرتا ہے۔‘‘

Rahidas Pawra and his friends takes the cattle out to grazing every day since the school closed. 'I don’t feel like going back to school', he says.
PHOTO • Jyoti Shinoli
Rahidas Pawra and his friends takes the cattle out to grazing every day since the school closed. 'I don’t feel like going back to school', he says.
PHOTO • Jyoti Shinoli

اسکول بند ہونے کے بعد سے، رہیداس پاورا اور اس کے دوست ہر دن مویشیوں کو چرانے لے جاتے ہیں۔ وہ کہتا ہے، ’مجھے اب پھر سے اسکول جانے کا من نہیں ہے‘

سالانہ فصل کٹنے کے بعد پائنے، شیلا اور ۱۹ سالہ رام داس (چوتھی کلاس تک پڑھا ہے) کام کے لیے گجرات چلے جاتے ہیں۔ وہ گجرات کے نوساری ضلع میں گنے کے کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ وہ دسمبر سے مئی تک روزانہ ۲۵۰ روپے کماتے ہیں اور سال کے تقریباً ۱۸۰ دن کام کرتے ہیں۔

رہیداس بتاتا ہے، ’’پچھلے سال وہ کورونا کے ڈر سے نہیں گئے تھے۔ لیکن اس سال میں بھی ان کے ساتھ جا رہا ہوں۔‘‘ مویشی، فیملی کی آمدنی کا ذریعہ نہیں ہیں؛ گھر میں بکری کا دودھ پینے کے لیے استعمال کر لیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی وہ مقامی قصائی کو اپنی کسی بکری کو سائز اور صحت کے حساب سے ۵ سے ۱۰ ہزار روپے میں فروخت کر دیتے ہیں۔ لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے اور پیسوں کی تنگی ہونے پر ہی ہوتا ہے۔

جانوروں کو چرانے والے تینوں دوست ایک ہی اسکول اور کلاس میں پڑھتے ہیں۔ رہیداس کہتا ہے، ’’پہلے بھی جب میں گرمی یا دیوالی کی چھٹیوں میں گھر آتا تھا، تو جانوروں کو چرانے لے جاتا تھا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔‘‘

نئی بات تو یہ ہے کہ اس کا حوصلہ ختم ہو چکا ہے۔ رہیداس کہتا ہے، ’’میرا اب دوبارہ اسکول جانے کا من نہیں ہے۔‘‘ اسکولوں کو پھر سے کھلنے کا امکان ہے، یہ خبر تینوں میں سے کسی کو بھی پرجوش نہیں کرتی۔ رہیداس آگے کہتا ہے، ’’مجھے تو کچھ یاد بھی نہیں ہے۔ اور اگر انہوں نے اسکول پھر سے بند کر دیا تو؟‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Jyoti Shinoli is a Senior Reporter at the People’s Archive of Rural India; she has previously worked with news channels like ‘Mi Marathi’ and ‘Maharashtra1’.

Other stories by Jyoti Shinoli
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez