اوڈیشہ کے گورنر اور ان کی بیوی نے لکشمی ’اندرا‘ پانڈا کو بھونیشور کی یومِ جمہوریہ تقریب میں شامل ہونے اور اس کے بعد راج بھون (گورنر ہاؤس) میں چائے پینے کا دعوت نامہ بھیجا تھا، جسے لکشمی نے ٹھکرا دیا۔ اس دعوت نامہ کے ساتھ کار کے لیے خاص ’پارکنگ پاس‘ بھی بھیجا گیا تھا۔ لیکن، لکشمی نے دعوت نامہ کا جواب نہیں دیا۔ وہ ان کی یومِ جمہوریہ تقریب میں شریک بھی نہیں ہوئیں۔

لکشمی پانڈا کے پاس کار نہیں ہے۔ وہ کوراپٹ ضلع کے جے پور قصبہ کی ایک چال (جھگی) میں بنے ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتی ہیں۔ یہ جھگیوں والی جگہ ہوا کرتی تھی، جس میں وقت کے ساتھ تھوڑی بہت بہتری آئی ہے، اور لکشمی تقریباً دو دہائیوں سے یہیں اپنی زندگی بسر کر رہی ہیں۔ پچھلے سال وہ یومِ آزادی کی تقریب میں شریک ہوئی تھیں، کیوں کہ تب ان کے بہی خواہوں نے ان کے لیے ٹرین ٹکٹ کا انتظام کر دیا تھا۔ اِس سال ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہاں جا سکیں۔ وہ ہمیں اپنا دعوت نامہ اور پارکنگ پاس دکھاتے ہوئے ہنستی ہیں۔ کار سے ان کا واسطہ صرف ایک بار پڑا تھا: ’’میرے آنجہانی شوہر چار دہائیوں پہلے ایک ڈرائیور تھے۔‘‘ انڈین نیشنل آرمی (آئی این اے) کی اس سپاہی کے پاس ابھی بھی ان کی تصویر موجود ہے جس میں وہ اپنے ہاتھوں میں رائفل پکڑے ہوئی ہیں۔

Laxmi Panda outside her home
PHOTO • P. Sainath

بھُلائی جا چکی مجاہدِ آزادی، اوڈیشہ کے  کوراپٹ کی ایک خستہ حال جھگی میں واقع اپنے گھر میں

لکشمی ان بے شمار دیہی ہندوستانیوں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے ملک کو آزاد کرانے کی لڑائی لڑی۔ یہ عام لوگ مشہور ہونے کے لیے لیڈر، وزیر یا گورنر بننے نہیں گئے۔ وہ ایماندار لوگ تھے، جنہوں نے بڑی قربانیاں دیں اور جب ملک آزاد ہو گیا، تو اپنی روزمرہ کی زندگی کی طرف لوٹ گئے۔ ملک جب آزادی کی ۶۰ویں سالگرہ منا رہا ہے، اس نسل کے زیادہ تر لوگ اِس دنیا سے جا چکے ہیں۔ بقیہ جو بچے ہیں، وہ ۸۰ یا ۹۰ سال کی عمر کو پار کر چکے ہیں اور زیادہ تر یا تو بیمار ہیں یا پھر خستہ حالی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ (عمر کے معاملے میں لکشمی خود ایک استثنا ہیں۔ وہ ۱۳ سال کی عمر میں ہی آئی این اے میں شامل ہو گئی تھیں، اور اب جاکر وہ ۸۰ سال کی ہونے والی ہیں۔) مجاہدینِ آزادی کی تعداد تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے۔

ریاست اوڈیشہ، لکشمی پانڈا کو ایک مجاہدِ آزادی کے طور پر تسلیم کرتی ہے، اور انہیں ہر مہینے ۷۰۰ روپے کی معمولی پنشن ملتی ہے۔ پچھلے سال، اس میں ۳۰۰ روپے کا اضافہ کر دیا گیا۔ حالانکہ، کئی برسوں تک کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کا پیسہ کہاں بھیجا جائے۔ لیکن، مرکز کی سطح پر انھیں اب بھی مجاہدِ آزادی تسلیم نہیں کیا جاتا، حالانکہ اس زمانے کے آئی این اے کے کئی رکن ان کے دعوے کی تصدیق کر چکے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’دہلی میں انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں جیل نہیں گئی تھی۔ اور یہ صحیح ہے کہ میں جیل نہیں گئی۔ لیکن، آئی این اے کے اور بھی کئی فوجی جیل نہیں گئے تھے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے آزادی کی لڑائی نہیں لڑی؟ اپنی پنشن کے لیے میں جھوٹ کیوں بولوں؟‘‘

لکشمی، نیتاجی سبھاش چندر بوس کی انڈین نیشنل آرمی کے سب سے کم عمر کے ممبران میں سے ایک تھیں۔ اوڈیشہ کی شاید واحد خاتون، جنہوں نے آئی این اے میں اپنا نام لکھوایا اور اُس وقت کے برما میں واقع کیمپ میں شامل ہوئیں۔ ظاہر ہے، وہ واحد باحیات ایسی خاتون ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بوس نے خود انہیں ’اندرا‘ نام دیا تھا، تاکہ اُس وقت ان کی سب سے مشہور لڑاکا (کیپٹن) لکشمی سہگل کو لیکر کوئی بھرم نہ پیدا ہو۔ ’’انہوں نے مجھ سے کہا تھا، ’اس کیمپ میں، تم اندرا ہو‘۔ میری سمجھ تب اتنی نہیں تھی۔ لیکن اس کے بعد، مجھے لوگ اندرا کے نام سے ہی پکارنے لگے۔‘‘

Laxmi Panda

’آئی این اے کے کئی لوگ جیل نہیں گئے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے آزادی کی لڑائی نہیں لڑی؟‘

لکشمی کے والدین برما میں ریلوے میں کام کرنے کے دوران، انگریزوں کے ذریعے کی گئی بمباری میں مارے گئے۔ اس کے بعد ’’میں انگریزوں سے لڑنا چاہتی تھی۔ آئی این اے میں میرے سینئر اڑیہ دوست مجھے کسی بھی چیز میں شامل کرنے سے ہچکچاتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ میں بہت چھوٹی ہوں۔ میں ان سے ہاتھ جوڑ کر کہتی تھی کہ مجھے کوئی کام دے دو، چاہے وہ بہت چھوٹا کام ہی کیوں نہ ہو۔ میرے بھائی نکل رتھ بھی ایک رکن تھے، وہ جنگ کے دوران کہیں غائب ہو گئے۔ کئی سالوں کے بعد، کسی نے مجھے بتایا کہ وہ واپس آ چکے ہیں اور انہوں نے انڈین آرمی جوائن کرلی ہے اور اب وہ کشمیر میں ہیں، لیکن میں اس کی تصدیق کیسے کرتی؟ بہرحال، یہ نصف صدی پہلے کی بات تھی۔‘‘

وہ بتاتی ہیں، ’’کیمپ میں میری ملاقات لیفٹیننٹ جانکی سے ہوئی، اس کے علاوہ میں نے وہاں لکشمی سہگل، گوری اور آئی این اے کے دیگر مشہور لڑاکوں کو دیکھا۔‘‘ وہ یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’جنگ کے آخری دنوں میں ہم سنگاپور گئے۔ میرے خیال سے، بہادر گروپ کے ساتھ۔‘‘ وہاں پر وہ آئی این اے کے تمل دوستوں کے ساتھ ٹھہریں اور ان کی زبان کے کچھ الفاظ بھی سیکھے۔

اس بات کو ثابت کرنے کے لیے وہ ہمیں تمل میں اپنا نام ’’اندرا‘‘ لکھ کر دکھاتی ہیں۔ اور فخر سے آئی این اے کے ترانہ کی پہلی لائن: ’’قدم قدم بڑھائے جا، خوشی کے گیت گائے جا۔ یہ زندگی ہے قوم کی، تو قوم پہ لُٹائے جا‘‘ گنگناتی ہیں۔

آئی این اے کی وردی میں رائفل کے ساتھ اپنی تصویر کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ یہ ’’جنگ کے بعد کھینچی گئی تھی، جب ہم دوبارہ ایک دوسرے سے ملے اور جب ہم اس فوج کو ختم کر رہے تھے۔‘‘ جلد ہی، ’’برہم پور میں ۱۹۵۱ میں کاگیشور پانڈا سے میری شادی ہو گئی اور بڑی تعداد میں اوڈیشہ کے آئی این اے ممبران میری شادی میں شریک ہوئے۔‘‘

آئی این اے کے پرانے ساتھیوں کی یاد انہیں بہت ستاتی ہے۔ ’’مجھے ان کی بہت یاد آتی ہے۔ ان کی بھی جنہیں میں بہت زیادہ نہیں جانتی، میری خواہش ہے کہ میں ان سے دوبارہ ملوں۔ ایک بار میں نے سنا کہ لکشمی سہگل کٹک میں تقریر کر رہی ہیں، لیکن میرے پاس وہاں جانے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ میری خواہش تھی کہ کم از کم ایک بار اور ان سے ضرور ملوں۔ کانپور میں تب مجھے صرف ایک بار جانے کا موقع نصیب ہوا تھا، لیکن میں بیمار پڑ گئی تھی۔ اب ویسا موقع پھر کہاں ملے گا؟‘‘

۱۹۵۰ کی دہائی میں، ان کے شوہر کو ڈرائیور لائیسنس ملا ’’اور ہم نے ہیراکنڈ کے پاس کچھ سالوں تک کام کیا۔ اس وقت، میں خوش تھی اور مجھے گزر بسر کے لیے مزدوری نہیں کرنی پڑتی تھی۔ لیکن، ۱۹۷۶ میں ان کا انتقال ہو گیا اور میری پریشانیاں شروع ہو گئیں۔‘‘

لکشمی نے کئی طرح کے کام کیے، جیسے اسٹور ہیلپر کا کام، مزدوری، اور گھریلو ملازمہ کے کام۔ ان کاموں کے بدلے انہیں ہمیشہ بہت کم مزدوری ملی۔ ان کے بیٹے کو شراب کی لت لگ گئی۔ اس بیٹے کے کئی بچے ہیں، اور سب کی صحت خراب رہتی ہے۔

Laxmi Panda showing her old photos
PHOTO • P. Sainath

لکشمی پانڈا آئی این اے کی وردی میں رائفل کے ساتھ اپنی تصویر ہمیں دکھاتی ہیں

’’میں نے کچھ نہیں مانگا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’میں نے اپنے ملک کے لیے لڑائی لڑی، انعام کے لیے نہیں۔ میں نے اپنی فیملی کے لیے بھی کچھ نہیں مانگا۔ لیکن اب، اس باب کے خاتمہ پر، مجھے امید ہے کہ کم از کم میری قربانی کو تسلیم کیا جائے گا۔‘‘

خراب صحت اور غریبی نے چند سال پہلے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ لوگوں کو اس کے بارے میں تب پتہ چلا، جب جے پور کے ایک نوجوان صحافی، پریش رتھ نے پہلی بار یہ اسٹوری لکھی۔ رتھ انہیں ان کی جھونپڑی سے اٹھا کر اپنے ایک کمرے والے گھر لے آئے، اور وہ بھی اپنے پیسے سے؛ ساتھ ہی انہوں نے ان کا علاج بھی کرایا۔ مرض کے سبب حال ہی میں پانڈا کو اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ فی الحال وہ اپنے بیٹے کے گھر پر ہیں، حالانکہ اس کی شراب کی لت ابھی چھوٹی نہیں ہے۔ رتھ کے بعد کئی اور لوگوں نے اسٹوری لکھی۔ ایک بار تو ایک قومی میگزین نے لکشمی کو اپنے سرورق پر بھی چھاپا تھا۔

رتھ بتاتے ہیں، ’’ہم نے جب پہلی اسٹوری کی، تو ان کے لیے کچھ مدد آنے لگی۔ کوراپٹ کی اس وقت کی کلکٹر، اوشا پادھی نے ہمدردی دکھائی۔ ریڈ کراس فنڈ سے انہوں نے علاج کے لیے لکشمی کو ۱۰ ہزار روپے دلوائے۔ ساتھ ہی، انھوں نے لکشمی کو سرکاری زمین کا ایک ٹکڑا الاٹ کرانے کا وعدہ بھی کیا۔ لیکن، تبادلہ ہونے پر پادھی نے ضلع چھوڑ دیا۔ بنگال کے بھی کچھ لوگوں نے انہیں پیسے بھیجے۔‘‘ حالانکہ، کچھ دنوں بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا اور وہ پھر سے خستہ حالی کی زندگی جینے پر مجبور ہو گئیں۔ رتھ کہتے ہیں، ’’پھر بھی یہ صرف پیسے کا معاملہ نہیں ہے۔ اگر انھیں مرکزی پنشن بھی ملنے لگے، تو وہ کتنے سال تک اس سے مستفید ہو پائیں گی؟ یہ تو ان کے لیے فخر و اعزاز کی بات ہے۔ لیکن، مرکزی حکومت نے اب تک کوئی جواب نہیں دیا ہے۔‘‘

کافی جدوجہد کے بعد پچھلے سال کے آخر میں لکشمی کو پانجیاگڈا گاؤں میں سرکاری زمین کا ایک ٹکڑا الاٹ کیا گیا۔ لیکن، وہ ابھی بھی اس بات کا انتظار کر رہی ہیں کہ سرکاری اسکیم کے تحت اس زمین پر انہیں ایک گھر بناکر دیا جائے گا اور وہ امید لگائے بیٹھی ہیں۔ فی الحال کے لیے، رتھ نے ان کی پرانی جھونپڑی کے بغل میں ایک اچھا کمرہ بنانے میں مالی مدد کی ہے، جہاں انہیں جلد ہی منتقل ہونے کی امید ہے۔

مقامی سطح پر بھی اب بہت کم لوگ انہیں جانتے ہیں۔ کچھ تنظیمیں ان کے معاملے کو آگے بڑھانے کے لیے آگے آئی ہیں۔ انہوں نے مجھے ۱۴ اگست کو بتایا، ’’کل، میں یہاں دیپتی اسکول میں جھنڈا پھہراؤں گی۔ انہوں نے مجھ سے درخواست کی ہے۔‘‘ انہیں اس پر فخر ہے، لیکن وہ اس بات کو لیکر پریشان ہیں کہ ان کے پاس ’’تقریب میں پہن کر جانے کے لیے اچھی ساڑی نہیں ہے‘‘۔

دریں اثنا، آئی این اے کی بزرگ سپاہی اپنی اگلی لڑائی کی تیاری کر رہی ہیں۔ یہ بزرگ خاتون کہتی ہیں، ’’نیتا جی نے کہا تھا ’دلّی چلو‘۔۱۵ اگست کے بعد ایسا ہی کروں گی، اگر مرکزی حکومت نے تب بھی مجھے مجاہدِ آزادی کے طور پر تسلیم نہیں کیا۔ پارلیمنٹ کے سامنے دھرنے پر بیٹھ جاؤں گی۔ ’دِلّی چلو‘، میں بھی اب یہی کروں گی۔‘‘

اور وہ ایسا کریں گی، شاید چھ دہائیوں کی تاخیر سے۔ لیکن، دل میں امید لیے۔ جیسا کہ وہ گاتی ہیں: ’’قدم، قدم بڑھائے جا...‘‘

تصاویر: پی سائی ناتھ

P. Sainath
psainath@gmail.com

P. Sainath is Founder Editor, People's Archive of Rural India. He has been a rural reporter for decades and is the author of 'Everybody Loves a Good Drought'.

Other stories by P. Sainath
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez