لیلا بائی میمانے مٹی اور اینٹ سے بنے اپنے دو کمرے کے گھر میں فرش پر بیٹھی ہیں۔ ان کی دو بیٹیاں بغل میں بیٹھی اپنے اسکول کا ہوم ورک کر رہی ہیں۔ یہ ۱۹ گھنٹے کے یومیہ کام میں سے آرام کرنے کے کچھ پل ہیں۔

لیلا بائی ہفتے میں چھ دن، صبح ۱۰ بجے سے دوپہر ۲ بجے تک، ریاست کے ذریعے چلائی جا رہی آنگن واڑی میں ہوتی ہیں جہاں وہ ۳۰ بچوں اور گاؤں کی حاملہ خواتین کے لیے کھانا پکانے کا کام کرتی ہیں۔ آنگن واڑی پہنچنے سے پہلے بھی، وہ سات گھنٹے کام کر چکی ہوتی ہیں۔ اور رات میں تقریباً ۱۰ بجے ہی انھیں اپنے کام سے چھٹی ملتی ہے۔

لیلا بائی صبح میں جب ۳ بجے اٹھتی ہیں، تو ان کا پہلا کام دو کلومیٹر دور کے ایک کوئیں سے پانی لانا ہوتا ہے۔ ’’کم از کم ۲۰ گھڑے پانی کی ضرورت ہوتی ہے، اس میں میری بیٹیاں مدد کرتی ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ لیلا بائی کے شوہر بھی مدد کرتے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان، یہ فیملی چار گھنٹے میں کم از کم چار چکر لگاتی ہے۔

پونہ ضلع کے امبے گاؤں تعلقہ میں واقع ان کے گاؤں، پھلودے میں عام طور پر ہر سال مارچ سے جون تک سوکھا پڑتا ہے۔ تب گاؤں کے ۴۶۴ لوگ (مردم شماری ۲۰۱۱)، جن میں سے کئی کولی مہادیو برادری کے ہیں، ایک کوئیں کے پانی پر منحصر رہتے ہیں۔ جب کنواں خشک ہو جاتا ہے، تو وہ پرائیویٹ ٹینکروں سے پانی لینا شروع کر دیتے ہیں۔

Lilabai Memane in her kitchen
PHOTO • Minaj Latkar
Lilabai Memane in the shed with two buffaloes
PHOTO • Minaj Latkar

’مجھے فیملی کے ۱۱ ممبران کے لیے کھانا بنانا پڑتا ہے۔ بیلوں کو کھانا کھلانا ہوتا ہے، گوبر ہٹانا پڑتا ہے‘، اپنے ۱۹ گھنٹے کے روزانہ کے کام کے بارے میں بتاتے ہوئے لیلا بائی کہتی ہیں

لیلا بائی اور ان کے شوہر بھاگو کے نو بچے ہیں – سب سے بڑے کی عمر ۲۳ سال اور سب سے چھوٹے کی ۴ سال ہے۔ ’’گھر میں سبھی کو لگتا تھا کہ بڑھاپے میں سہارا کے لیے ایک بیٹے کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے میری آٹھ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے،‘‘ لیلا بائی کہتی ہیں۔ ’’سبھی بچوں کی پرورش کرنا اور ان کی تعلیم کا خرچ اٹھانا ہمارے لیے مشکل تھا۔ لیکن کیا کیا جا سکتا ہے؟ میں بے سہارا تھی کیوں کہ ہماری برادری میں بیٹا پیدا کرنا سب سے اہم مانا جاتا ہے۔‘‘

پانی لانے کے بعد، لیلا بائی باورچی خانہ میں گھس جاتی ہیں۔ اس گاؤں کے کئی دیگر گھروں کی طرح ہی ان کے گھر کا دروازہ بھی نیچا ہے – اندر جانے کے لیے آپ کو جھکنا پڑے گا۔ گھر کے اندر، فرش اور دیواروں کو گوبر سی لیپا گیا ہے۔ ایک کونے میں تین پتھروں کا چولہا اور اس کے ساتھ کچھ مٹی کے برتن پڑے ہیں۔ بغل کے باڑے میں دو بھینسیں بانس کے کھونٹے سے بندھی ہیں۔

’’مجھے فیملی کے ۱۱ ممبران کے لیے کھانا بنانا پڑتا ہے۔ بیلوں کو کھلانا ہوتا ہے، گوبر ہٹانا پڑتا ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ دن میں دو بار کھانا بنانے میں لیلا بائی اور ان کی بیٹیوں کو تین گھنٹے تک لگ سکتے ہیں – ایک کھانے میں عام طور پر باجرے یا نچنی کی بھاکھری، ایک سبزی اور چاول ہوتا ہے۔

آنگن واڑی سے لوٹنے کے بعد، وہ اپنے دو ایکڑ کھیت پر شام ۷ بجے تک کام کرتی ہی۔ ’’تھریسنگ، کھدائی، نرائی، دھان کی روپائی – میں یہ سارے کام کرتی ہوں۔ میرے شوہر کھیتوں کی جوتائی کرتے ہیں اور کیاریاں بناکر ان میں پانی لاتے ہیں۔ یہ سبھی کام نومبر تک کرنا ہوتا ہے۔ ہمیں تقریباً ۴ سے ۶ بورے چاول ملتے ہیں۔ [فیملی کے کھانے کے لیے، فروخت کے لیے نہیں]، لیکن یہ ہمارے لیے کافی نہیں ہے۔‘‘

لیلا بائی کے شوہر بھاگو میمانے کہتے ہیں، ’’ہم صرف اپنے کھیت کی پیداوار پر منحصر نہیں رہ سکتے۔ اس لیے ہم دھان کی روپائی کرنے کے لیے دوسرے کے کھیتوں پر مزدوری کرتے ہیں۔ ہم روزانہ ۱۵۰ روپے کماتے ہیں۔ لیکن یہ کام صرف ایک مہینے کے لیے ہوتا ہے۔‘‘ دسمبر تک دھان کی کٹائی اور جون-جولائی میں مانسون کے شروع ہونے تک، پانی اور کھیت کے کام دونوں ہی نایاب ہو جاتے ہیں۔ گاؤں کے کچھ کنبے تب دیگر فصلوں کی کٹائی کرتے ہیں جیسے کہ باجرا، اور جب کام دستیاب ہوتا ہے تو لیلا بائی اور ان کے شوہر اپنے کھیتوں پر یومیہ مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں۔

Two women sorting out vegetable leaves
PHOTO • Minaj Latkar

مارچ سے مئی تک لیلا بائی، پھلودے کی زیادہ تر خواتین کی طرح، ہرڈا کے درختوں سے پھل جمع کرتی ہیں۔ اس کا استعمال آیورویدک دواؤں میں ہوتا ہے۔ ایک دن میں، وہ ۱۰ سے ۱۵ کلو جمع کرتی ہیں۔ اس کے بعد پھل کی چھنٹائی ہوتی ہے اور اسے سُکھایا جاتا ہے، جس سے اس کا وزن گھٹ کر ۳ یا ۴ کلو تک رہ جاتا ہے

لیلا بائی ہفتہ میں دو بار، تقریباً ۱۰ کلومیٹر پیدل چل کر ۷ سے ۱۰ کلو ایندھن کی لکڑی لاتی ہیں۔ اس میں تقریباً چار گھنٹے لگ سکتے ہیں۔ کچھ لکڑی مانسون کے مہینوں کے لیے جمع کرکے رکھی جاتی ہے، باقی کا استعمال روزانہ کیا جاتا ہے۔

مارچ سے مئی تک، گاؤں کی زیادہ تر خواتین اس علاقے میں ہرڈا کے درختوں سے پھل (کالے یا کیبولک ہرڑ) جمع کرتی ہیں۔ بیر جیسا یہ انڈے نما پھل آیورویدک دواؤں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ مارچ میں، لیلا بائی اپنے آنگن باڑی کے کاموں کو پورا کرنے کے بعد پھل جمع کرتی ہیں، اور جب اپریل اور مئی میں آنگن باڑی بند ہو جاتی ہے، تو وہ گھر کا کام پورا کرنے کے بعد اپنی بیٹیوں کے ساتھ صبح ۱۰ بجے سے شام ۶ بجے تک ہرڑ جمع کرتی ہیں۔

ایک دن میں، وہ ۱۰ سے ۱۵ کلو جمع کرتی ہیں۔ پھر پھل کو چھانٹا اور سُکھایا جاتا ہے، جس سے ان کا وزن گھٹ کر مشکل سے ۳ یا ۴ کلو رہ جاتا ہے۔ مقامی کاروباری چھوٹے ادویاتی پھل کو ۱۲۰ روپے فی کلو میں خریدتے ہیں، اور مئی میں بڑے پھل کے فی کلو ۱۰ روپے دیتے ہیں۔ فیملی تین مہینے کے موسم میں اس کام سے ۲۰ سے ۳۰ ہزار روپے کماتی ہے۔

آنگن باڑی کے کام سے لیلا بائی کو ۱۰۰۰ روپے ماہانہ ملتے ہیں، لیکن انھیں ۳-۴ مہینے میں صرف ایک بار پیسے ملتے ہیں۔ ’’اس پیسے سے ہمیں اپنی سبھی ضروریات پوری کرنی ہوتی ہیں – جیسے کہ کرانے کا سامان، بچوں کی تعلیم، دواؤں کا خرچ۔ لیکن یہ رقم کافی نہیں ہے۔ ہم اور بھی کام کرنا چاہتے ہیں، لیکن یہاں کوئی کام دستیاب نہیں ہے۔‘‘

Fruit from the hirda tree being dried outdoors
PHOTO • Minaj Latkar
Lilabai Memane outside her house
PHOTO • Minaj Latkar

لیلا بائی ہرڈا پیڑ کے پھل کو باہر سُکھاتی ہیں، اور پھر اسے کلو کے حساب سے تاجروں کو بیچتی ہیں؛ یہ پیسہ کمانے کی ان کی کئی کوششوں میں سے ایک ہے

اب ۴۰ سال کی ہو چکیں لیلا بائی کے لیے، تین دہائیوں سے یہی ان کا روز کا معمول رہا ہے۔ ’’میرے والدین نے ۱۳ سال کی عمر میں ہی میری شادی کر دی تھی۔ میں پڑھنا چاہتی تھی، اس لیے میں نے اپنے شوہر اور سسرال والوں کے ساتھ رہتے ہوئے بھی اسکول کی پڑھائی جاری رکھی اور ۱۹۹۴ میں ۱۰ویں کلاس پاس کیا۔ لیکن مجھے آگے پڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی، کیوں کہ میرے سسرال والوں کو لگا کہ شوہر سے زیادہ پڑھا لکھا ہونا میرے لیے اچھا نہیں رہے گا [وہ ۱۰ویں کلاس میں فیل ہو گئے تھے]۔ یہ میری تعلیم کا خاتمہ تھا۔‘‘

دو غیر سرکاری تنظیمیں، ۲۰۱۶ سے پھلودے گاؤں میں تعلیم بالغاں کلاسز چلا رہی ہیں۔ گھنٹوں کام کرنے کے باوجود، لیلا بائی ان غیر رسمی کلاسوں میں گاؤں کی خواتین کو پڑھاتی ہیں، جو اکثر کسی کے گھر میں منعقد کی جاتی ہیں۔ جب کچھ خواتین کلاس کے لیے گھریلو کام سے وقت نکالنے میں آناکانی کرتی ہیں، تو لیلا بائی ان سے بات کرنے کے لیے گھر گھر جاتی ہیں۔ لیلا بائی نے ۳۰ خواتین کو تھوڑا پڑھنا اور اپنے نام کا دستخط کرنا سکھایا ہے۔

اپنی دہائیوں کی کڑی محنت سے لیلا بائی اور ان کے شوہر نے اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کی کوشش کی ہے۔ ان کی سب سے بڑی بیٹی، ۲۳ سالہ پرینکا کے پاس بی کام کی ڈگری ہے اور وہ سرکاری نوکری پانے کے لیے ریاستی سطح کے مقابلہ جاتی امتحانوں کی تیاری کر رہی ہے۔ حال ہی میں اس کی شادی ہوئی ہے اور اب وہ علی باغ میں رہتی ہے۔ پرمیلا (۲۰) کا انتخاب مہاراشٹر پولس فورس میں ایک کانسٹیبل کے طور پر ہو چکا ہے، لیکن ابھی تک اسے جوائن نہیں کرایا گیا ہے۔ اُرمیلا (۱۸)، پھلودے سے تقریباً ۵۰ کلومیٹر دور منچر گاؤں میں بی اے کی پڑھائی کر رہی ہے۔ شرمیلا (۱۶) نے ۲۰۱۸ میں، ۱۰ویں کلاس کے بورڈ کے امتحان ۷۸ فیصد نمبرات سے پاس کیے تھے۔ نرملا ۹ویں کلاس میں، گوری ۶ویں کلاس میں اور سمیکشا پہلی کلاس میں ہے۔ ان کا بیٹا ہرشل چار سال کا ہے اور اس آنگن واڑی میں جاتا ہے، جہاں لیلا بائی کام کرتی ہیں۔

’’مجھے اس بات کی فکر لگی رہتی ہے کہ والدین کے طور پر انھیں اچھی تعلیم دلانے، ان کی اچھی صحت کو یقینی بنانے میں مجھ سے کوئی کمی نہ رہ جائے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’میں ہمیشہ سوچتی ہوں کہ ان کے ساتھ ویسا نہیں ہونا چاہیے جیسا میرے ساتھ ہوا۔ ہمارے حالات تبھی بدلیں گے جب وہ تعلیم حاصل کرکے نوکری حاصل کریں گے۔ اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں سوچ کر مجھے نیند نہیں آتی۔ لیکن اگلے دن، ان کے لیے میں خود کو پھر سے مضبوط بناتی ہوں اور کام کرنا شروع کر دیتی ہوں۔‘‘

کرن موگھے اور سبھاش تھوراٹ کا خصوصی شکریہ کہ انھوں نے مجھے اس مضمون کے لیے پھلودے گاؤں جانے کا مشورہ دیا، اور امول واگھمارے کا شکریہ کہ انھوں نے گاؤں کی سیر کرانے میں میری مدد کی۔

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Minaj Latkar

Minaj Latkar is an independent journalist. She is doing an MA in Gender Studies at the Savitribai Phule University, Pune. This article is part of her work as an intern at PARI.

Other stories by Minaj Latkar
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez