جنوبی ممبئی کے آزاد میدان میں جمع ہونے والے تقریباب ۴۰ ہزار کسانوں نے ۱۲ مارچ کو ریاست کی قانون ساز اسمبلی، ودھان سبھا کی عمارت کو گھیرنے کا پلان بنایا تھا۔ ۶ مارچ کو ناسک سے شروع ہوئے ہفتہ تک چلنے والے مارچ کے بعد (دیکھیں کھیت اور جنگل سے: ممبئی تک لمبا مارچ )، اسمبلی کے گھیراؤ پر یہ احتجاج ختم ہونا تھا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو مورچہ کو ملنے والی حمایت کی گہرائی اور وسعت کا اندازہ ہو گیا تھا، اسی لیے اس نے ۱۲ مارچ کی دوپہر کو بات چیت کی پیشکش کی۔
کڑی دھوپ میں اتنی دور پیدل چلنے کے بعد یہ کسان تھک چکے تھے (دیکھیں لمبا مارچ: چھالے سے بھرے ہوئے پیر پختہ عزم )، بہت سے کسان اتنے کیمروں سے ناراض تھے – اور وہ غیر یقینی اور فکرمندی کے بھی شکار تھے۔ ’’چلئے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے،‘‘ اکھل بھارتیہ کسان سبھا، مارچ کے منتظمین، اور ریاستی حکومت کے نمائندوں کے درمیان ہونے والی چار گھنٹے کی میٹنگ کے دوران کئی لوگوں نے مجھ سے کہا۔ کسان پورے سکون سے ساڑھے ۱۲ بجے سے ساڑھے ۴ بجے شام تک انتظار کرتے رہے، جس وقت منترالیہ میں میٹنگ چل رہی تھی۔
کسان لیڈروں کے ۱۱ رکنی وفد، بشمول اجت ناولے، کسان سبھا کے جنرل سکریٹری؛ اشوک دھاولے، کسان سبھا کے صدر؛ اور جے پی گاوِت، ناسک ضلع کے سُرگانا تعلقہ سے رکن اسمبلی، نے اپنے مطالبات کے ساتھ چھ رکنی سرکاری پینل سے ملاقات کی۔
سرکاری پینل میں شامل تھے وزیر اعلیٰ دیوندر پھڑنویس؛ وزیر برائے مالیات، راحت رسانی اور باز آبادکاری، اور عوامی کام، چندر کانت پاٹل؛ وزیر برائے زراعت اور باغبانی، پنڈو رنگ فُنڈکر؛ وزیر برائے آبی وسائل، گریش مہاجن؛ وزیر برائے قبائلی ترقی، وشنو ساورا؛ اور کوآپرین، مارکیٹنگ اور ٹیکسٹائلس کے وزیر، سبھاش دیش مکھ۔ جنگلاتی حقوق سے متعلق مسئلہ کو دیکھنے کے لیے بنائی جانے والی کمیٹی میں شامل ہیں پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ کے وزیر، ایکناتھ شنڈے۔
کسان لیڈروں نے سات بڑے مطالبات سامنے رکھے۔ ریاستی حکومت نے، ان میں سے دو کے فوری اور ٹھوس حل کا وعدہ کیا – مزید جامع قرض معافی کو متعارف کرانا اور اس بات کو یقینی بنانا کہ ندیوں کو آپس میں جوڑنے اور باندھ بنانے کے پروجیکٹوں سے مہاراشٹر میں کسانوں کو بے گھر نہیں کیا جائے گا یا گجرات کی طرف پانی کو نہیں موڑا جائے گا۔
حکومت نے قرض معافی کی اہلیت کے لیے دو شرطوں کو بدلنے پر اتفاق کیا۔ ‘‘ایک اہم فیصلہ ہم نے یہ لیا ہے کہ قرض معافی کی اسکیم کو بڑھا کر ۲۰۰۱ سے ۲۰۰۹ کی مدت تک کر دیا ہے، کیوں کہ (اس دوران متاثر ہونے والے) بہت سے کسانوں کو ۲۰۰۸ میں اعلان کی گئی قرض معافی سے کوئی فائدہ نہیں ملا،‘‘ پھڑنویس نے میڈیا کو بتایا۔ حکومت نے اب تک ۲۰۰۹ سے پہلے کی مدت والی درخواست کو رد کر دیا ہے۔ اس نے قرض معافی کی اسکیم میں ٹرم لون (بڑی سرمایہ کاری کے لیے اونچی شرحِ سود والے قرضوں) کو بھی شامل کرنے کا فیصلہ کیا، اس سے ان متعدد کسانوں کو فائدہ ملے گا جن کے فصلوں کے قرض بینکوں کے دباؤ کی وجہ سے ٹرم لون میں بدل دیے گئے تھے۔
دوسری تبدیلی یہ کی گئی کہ اب فیملی کے مختلف قرضداروں کو قرض معافی کے لیے الگ الگ درخواستیں دینے کی اجازت دے دی گئی – اب تک، ہر فیملی سے صرف مجتمع درخواستوں کو ہی اجازت دی جاتی تھی، جس کی وجہ سے ایک فیملی کو قرض کی ملنے والی رقم محدود ہو گئی تھی۔ سرکار نے کہا ہے کہ وہ اس تبدیلی پر یہ سوچنے کے بعد غور کرے گی کہ ریاست پر اس کا کتنا بوجھ پڑتا ہے۔
اور حکومت نے کسانوں کے اس مطالبہ کو مان لیا کہ مہاراشٹر کی ندیوں کا پانی گجرات کی طرف نہیں موڑا جائے گا، اور نہ ہی ریاست میں ندیوں کو آپس میں جوڑنے اور باندھ بنانے کے پروجیکٹوں سے کسانوں کو بے گھر کیا جائے گا۔ سُرگانا تعلقہ کے ایم ایل اے، جے پی گاوِت، اور کسان سبھا کے اشوک دھاولے، جن سے اس رپورٹر نے بات کی، نے بتایا کہ حکومت مستقبل میں، متعدد ندیوں سے پانی اٹھانے منصوبہ بنا رہی ہے (جس میں شامل ہیں گجرات کی نار- پار ندیاں، گجرات کی دمن گنگا ندی جو ناسک ضلع سے ہو کر بہتی ہے، اور ناسک اور پال گھر کی ویترنا کی معاون پِنجل ندی)۔ پانی کو اٹھانا تبھی ممکن ہے جب ان ندیوں پر باندھ کی تعمیر کی جائے، جس سے ان ضلعوں کے گاؤوں پانی میں ڈوب سکتے ہیں۔
دھاولے نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ نقل مکانی بہت کم یا بالکل نہیں ہوگی، اور ان کی حکومت پانی کو گجرات کی طرف نہیں موڑے گی۔ دریں اثنا، مہاراشٹر کو مرکز سے فائنل پروجیکٹ پلان کا انتظار ہے۔
وزیر اعلیٰ نے، ۱۲ مارچ کو تحریری طور پر یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ کسان سبھا کے ممبران اور سرکاری وزیروں کی چھ رکنی کمیٹی کسانوں کے دیگر اہم مطالبات پر غور کرے گی – فاریسٹ رائٹس ایکٹ کے تحت زمین کا مالکانہ حق آدیواسی کسانوں کو دیا جائے؛ سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشوں کو نافذ کیا جائے؛ ممبئی- ناگپور سمردھی ہائی وے جیسے مجوزہ پروجیکٹوں ک لیے کسانوں کی رضامندی لی جائے؛ پنشن اور دیگر فوائد میں اضافہ (ان اسکیموں کے تحت جیسے کہ اندرا گاندھی پنشن اسکیم، شرون بال یوجنا اور دیگر) اور پرانے راشن کارڈوں کی جگہ نئے راشن کارڈ بنانا اور مشترکہ کارڈوں کو الگ کرنا؛ اور سال ۲۰۱۷ میں کپاس کے کیڑوں کے حملے اور آندھی سے بربادی کے بدلے کسانوں کو معاوضہ دیا جائے۔
’’ہم نے کسانوں اور آدیواسیوں کے زیادہ تر مطالبات مان لیے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی مانگ تھی جنگلی زمین کو ان کے نام پر منتقل کرنا۔ ہم نے اسے دیکھنے اور کارروائی کو چھ ماہ کے اندر مکمل کرنے کے لیے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی ہے،‘‘ پھڑنویس نے میڈیا کو بتایا۔
ریلی میں حصہ لینے والے بہت سے کسا ن ناسک ضلع کے آدیواسی تھے۔ ۶ مارچ کے بعد، تھانے، احمد نگر اور دیگر ضلعوں کے قبائلی علاقے کے کسان بھی مارچ میں شامل ہونے لگے۔ ان کی بنیادی مانگ یہ ہے: وہ چاہتے ہیں کہ سرکار ۲۰۰۶ کے فاریسٹ رائٹس ایکٹ کو نافذ کرے، جو انھیں اس زمین کا مالکانہ حق دے گا جسے وہ کئی نسلوں سے جوتتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ زمین اب بھی ریاست کے محکمہ جنگلات کے ماتحت ہے۔ (دیکھیں کھیتی کرنے والوں نے مارچ نکالا )
کسانوں کا دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشات کو ضرور نافذ کیا جائے، خاص کر ایک بہتر کم از کم امدادی قیمت معہ پیداواری قیمت کا ۵۰ فیصد والی سفارش کو نافذ کرنا۔ گاوِت نے بتایا کہ کسان لیڈروں نے اپنے مطالبات کی فہرست میں اسے شامل تو کیا ہے، لیکن وہ جانتے ہیں کہ ریاست اسے نافذ نہیں کر سکتی – اسے کرنے کا اختیار مرکزی حکومت کے پاس ہے۔
سرکار نے یہ بھی وعدہ کیا کہ سمردھی ہائی وے جیسے پروجیکٹوں کے لیے زمین کسانوں کی رضامندی کے بغیر حاصل نہیں کی جا سکتی۔ مجوزہ شاہراہ مہاراشٹر کے ۱۰ ضلعوں میں ۳۰ تعلقوں کے ۳۵۴ گاؤوں سے ہوکر گزرے گی۔ سرکار نے کسان لیڈروں کو ۱۲ مارچ کو بھروسہ دلایا کہ کسانوں کو اپنی زمین چھوڑنے کے لیے مجبور نہیں کیا جائے گا۔
چار گھنٹے کی میٹنگ کے بعد، سرکاری پینل کے تین ممبران – وزیر مالیات چندرکانت پاٹل، پبلک ورکس منسٹر اور تھانے کے گارجین منسٹر ایکناتھ شنڈے، اور وزیر آبپاشی اور ناسک کے گارجین منسٹر گریش مہاجن – نے آزاد میدان میں کسانوں سے خطاب کیا۔
اور پھر، اسٹیج پر جب کسان لیڈروں نے کہا کہ احتجاج اب روک دیا گیا ہے، تو کسانوں نے اسے غور سے سنا، اپنے سامان اٹھائے، اور خاموشی سے چلتے بنے۔
یہ بھی دیکھیں ’میں ایک کسان ہوں، میں اس لمبے سفر پر چل رہا ہوں‘ اور ناامیدی کے کھیتوں – سے امید بھرا مارچ
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)