مدورئی ضلع کے ٹرانس فوک آرٹسٹوں کے لیے سال کے ابتدائی چھ مہینے کافی اہم ہوتے ہیں۔ اس دوران، گاؤوں میں مقامی تہوار منائے جاتے ہیں اور مندروں میں ثقافتی پروگرام ہوتے ہیں۔ لیکن، لاک ڈاؤن کے دوران بڑے عوامی پروگراموں پر لگی پابندی نے تمل ناڈو کی تقریباً ۵۰۰ ٹرانس خواتین فنکاروں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

اُن ہی میں سے ایک میگی ہیں، اور مدورئی سے ۱۰ کلومیٹر سے بھی کم دوری پر وِلانگوڈی قصبہ میں واقع ان کا دو کمرے والا گھر، دیگر ٹرانس خواتین کے لیے ایک پناہ گاہ اور ملنے کی جگہ ہے۔ میگی ضلع کی ان ٹرانس خواتین میں سے ایک ہیں جو بُوائی کے بعد بیج کے نمو کا جشن منانے کے لیے روایتی کُمّی پاٹو گانے گاتی ہیں۔ ہر سال جولائی میں تمل ناڈو میں منائے جانے والے ۱۰ روزہ مُلائی پری جشن کے دورا، یہ گیت بارش، مٹی کی زرخیزی، اور اچھی فصل کے لیے گاؤں کی دیویوں سے پرارتھنا کے طور پر گایا جاتا ہے۔

ان کی سہیلیاں اور ساتھی کارکن بھی ان گیتوں پر رقص کرتے ہیں۔ یہ طویل عرصے سے ان کے لیے آمدنی کا ذریعہ رہا ہے۔ لیکن، وبائی مرض کی وجہ سے لگے لاک ڈاؤن کے سبب، یہ تہوار جولائی ۲۰۲۰ میں منعقد نہیں کیا گیا اور اس مہینہ بھی نہیں ہو پایا ہے۔ (پڑھیں: مدورئی کے ٹرانس فوک آرٹسٹوں کی درد بھری زندگی )۔ ان کی آمدنی کا دوسرا باضابطہ ذریعہ – مدورئی اور اس کے آس پاس یا بنگلورو میں دکانوں سے پیسہ اکٹھا کرنا بھی تقریباً ختم ہو گیا۔ ان وجوہات سے ان کی تقریباً ۸۰۰۰ روپے سے ۱۰ ہزار روپے کی ماہانہ آمدنی، لاک ڈاؤن کے دوران گھٹ کر تقریباً صفر ہو گئی۔

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

کے سویستیکا (بائیں) ۲۴ سالہ کُمّی ڈانسر۔پرفارمر ہیں۔ ایک ٹرانس خاتون ہونے کے سبب انہیں جس استحصال کا سامنا کرنا پڑا اسے وہ برداشت نہیں کر پائیں، اسی لیے نہیں بی اے کی پڑھائی بند کرنی پڑی؛ لیکن پھر بھی وہ اس پڑھائی کو پورا کرنے کا خواب دیکھتی ہیں، تاکہ انہیں نوکری مل سکے۔ وہ اپنا معاش حاصل کرنے کے لیے دکانوں سے پیسے بھی اکٹھا کرتی ہیں، لیکن ان کے اس کام اور کمائی پر بھی لاک ڈاؤن کا گہرا اثر پڑا ہے۔

۲۵ سالہ بَوّیا شری (دائیں) کے پاس بی کام کی ڈگری ہونے کے باوجود انہیں نوکری نہیں مل رہی ہے۔ وہ بھی ایک کُمّی ڈانسر۔پرفارمر ہیں، اور کہتی ہیں کہ وہ تبھی خوش ہوتی ہیں، جب وہ دیگر ٹرانس خواتین کے ساتھ ہوتی ہیں۔ حالانکہ، وہ مدورئی میں اپنی فیملی سے ملنے جانا چاہتی ہیں، لیکن وہاں جانے سے بچتی ہیں۔ اس کی وجہ وہ بتاتی ہیں، ’’جب میں گھر جاتی ہوں، تو میرے گھر والے مجھے گھر کے اندر رہنے کے لیے کہتے تھے۔ وہ مجھ سے کہتے ہیں کہ گھر کے باہر کسی سے بات نہ کرو۔‘‘

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

آر شفانا (بائیں) ایک ۲۳ سالہ کُمّی ڈانسر۔پرفارمر ہیں، جنہوں نے ٹرانس خاتون ہونے کے سبب لگاتار ظلم و ستم کا سامنا اور پڑھانے کے دوسرے سال ہی کالج جانا بند کر دیا تھا۔ انہوں نے صرف اپنی ماں کے منانے پر کالج پھر سے جانا شروع کیا، اور بی کام کی ڈگری حاصل کی۔ مارچ ۲۰۲۰ میں لاک ڈاؤن شروع ہونے تک، وہ مدورئی میں دکانوں سے پیسے اکٹھا کرکے اپنی روزی روٹی کما رہی تھیں۔

وی اراسی (درمیان میں) ۳۴ سال کی ایک کُمّی ڈانسر۔پرفارمر ہیں، جنہوں نے تمل ادب میں پی جی کیا، ساتھ ہی ایم فل اور بی ایڈ بھی کیا ہے۔ اپنے کلاس فیلوز کے ذریعے ستائے جانے کے باوجود، انہوں نے اپنی پوری توجہ تعلیم پر مرکوز کی۔ اس کے بعد، انہوں نے نوکری کے لیے کئی جگہوں پر درخواست دی، لیکن نوکری نہیں مل پائی۔ لاک ڈاؤن سے پہلے ان کو بھی اپنے اخراجات کا ذمہ اٹھانے کے لیے، دکانوں سے پیسے اکٹھا کرنے کا کام کرنا پڑ رہا تھا۔

شالنی (دائیں) ایک ۳۰ سالہ کُمّی ڈانسر۔پرفارمر ہیں، جنہوں نے لگاتار ہو رہے استحصال سے ہار کر، ۱۱ویں کلاس میں ہی ہائی اسکول چھوڑ دیا تھا۔ وہ تقریباً ۱۵ سالوں سے دکانوں سے پیسے اکٹھا کر رہی ہیں اور رقص کر رہی ہیں، لیکن جب سے لاک ڈاؤن شروع ہوا ہے، وہ اخراجات کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ شالنی کہتی ہیں کہ انہیں ماں کی بہت یاد آتی ہے اور وہ چاہتی ہیں کہ وہ ان کے ساتھ رہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں، ’’میرے مرنے سے پہلے، کاش میرے والد کم از کم ایک بار مجھ سے بات کر لیں۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Reporting : S. Senthalir

S. Senthalir is Assistant Editor at the People's Archive of Rural India. She reports on the intersection of gender, caste and labour. She was a PARI Fellow in 2020

Other stories by S. Senthalir
Photographs : M. Palani Kumar

M. Palani Kumar is PARI's Staff Photographer and documents the lives of the marginalised. He was earlier a 2019 PARI Fellow. Palani was the cinematographer for ‘Kakoos’, a documentary on manual scavengers in Tamil Nadu, by filmmaker Divya Bharathi.

Other stories by M. Palani Kumar
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez